دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Friday 22 November 2013

نواز شریف اسکیم میں روز گار کے لئے LOANیا مالی معاونت لینا جائز ہے ؟


کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ نواز شریف اسکیم میں روز گار کے لئے LOANیا مالی معاونت بذریعہ بینک لینا جائز ہے ؟
                                                                                                    سائل: شکیل احمد ،کراچی
بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

    حکومت نے روزگار کے لئے مختلف اسکیموں کا اعلان کیا ہے ان میں سودی اور بلاسودی اسکیمیں شامل ہیں ۔شریعت مطہرہ کے مطابق صرف بلاسودی اسکیم سے استفادہ کرنا جائز ہے اس کے علاوہ کسی بھی سودی اسکیم سے LOANیا مالی معاونت لینا شرعاً ناجائز وحرام ہے ۔کیونکہ حکومت خود اعلان کر چکی ہے کہ قرض پر مارک اپ لیا جائے گا اس اعلان کے بعد کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہیں رہا شریعت مطہرہ نے سود کی سخت مذمت فرمائی اور سود لینے دینے والوں کو سخت مجرم اور آخرت میں سخت سزاؤں کی وعیدیں وارد فرمائی ہیں۔اورسود کی تعریف احادیث شریف میں اور فقہاء کرام نے بھی یہی فرمائی کہ ''الزیادۃالمشروطۃ فی العقد بغیر عوض''یعنی،''عقد میں مشروط کی گئی زیادتی جو کہ بغیر عوض ہو سود ہے''۔
     اور سودمطلقاً حرام ہے ۔امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کنز العمال کے حوالے سے حدیث پاک نقل فرماتے ہیں: '' کل قرض جر منفعۃ فھو ربوٰ'' یعنی،'' ہر وہ قرض جس سے نفع حاصل ہو وہ سود ہے ''۔[فتاوی رضویہ ،ج:١٧،ص:٣٧٣،رضافاؤنڈیشن ،لاہور ]۔
    سود کی حرمت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشا فرمایا'' أَحَلَّ اللّہُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا،،ترجمہ ،'' اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود ۔[البقرۃ آیت ٢٧٥]۔
    دوسرے مقام پر فرمایا ''یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَۃً ''ترجمہ کنز الایمان ''ائے ایمان والو سود دونا دون نہ کھاؤ''۔[آل عمران آیت:١٣٠]۔اور حدیث مبارک میں آتا ہے ''عن عبداللہ بن مسعود قال :آکل الر با،وموکلہ،وشاہداہ،وکاتباہ،اذاعلموابہٰ .....ملعونون علیٰ لسان محمدؐ،، یعنی،''حضرت عبداللہ بن مسود فرماتے ہیںسودکھانے والا، اس کا کھلانے ولا ،اسکے گواہ ،اور اسکو لکھنے والے جبکہ وہ جانتے ہوں کہ یہ سود ہے ، تووہ رسول اللہ ؐ کی زبان کے مطابق لعنتی ہیں ''۔[الترغیب والترہیب جلد٣ صفحہ٤٧١باب الربا وحیدی کتب خانہ پشاور ]۔
    اسی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے ''ا لربا سبعون باباادناھاکالذی یقع علیٰ امہ،، یعنی،''سود کے ـ(گناہ)کے ستر دروازے ہیںچھوٹے سے چھوٹا(گناہ کا) دروازہ ایسے ہے جیسے کوئی بندہ اپنی ماں سے زناکرے''۔[ایضاً]۔اسی میں ہے'' الرباثلاث و سبعون باباایسر ھا مثل ان ینکح الرجل امہ،، یعنی،''سود کے تہتردروازے ہیں کم سے کم یہ ہے کہ مرد اپنی ماں سے منہ کالا (زنا)کرے''۔[ایضاً] ۔
    امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں''سود حرام قطعی ہے اور اس پر سخت شدید وعیدیں قرآن و احادث صحیحہ متواترہ میں وارد ......سود لینا مطلقاً عموماً قطعا ًسخت کبیرہ ہے ''۔[فتاوی رضویہ ج:١٧،ص: ٣٥٨،رضافاؤنڈیشن ،لاہور]۔
    سود پر قرض لے کر اس سے کاروبار کیا جائے تو عین ممکن ہے سود کی نحوست کارو بار تباہ کر دے اور قرض سر کے اوپر چڑھ جائے اور پھر اس کو اتارنے کے لئے سود پر مزید قرض کی ضرورت پڑے اس لئے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:''یَمْحَقُ اللّہُ الْرِّبَا''ترجمہ کنزالایمان:''اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو ''۔[البقرۃ،آیت:٢٧٦]۔اس کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں مفسر قرآن نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں''اس کو برکت سے محروم کرتا ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : کہ اللہ تعالی اس سے نہ صدقہ قبول کرے نہ حج نہ جہاد نہ صِلہ''۔
    خلاصہ کلام یہ ہے کہ سود بہرحال حرام ہے اس کا لینا بھی حرام ہے دینا بھی حرام ہے ۔لہذا حکومت ِ پاکستان کی بلاسودی اسکیم سے اگر آپ کو قرض مل سکتا ہے تو و ہ لینا جائز ہے اس کے علاوہ سودی اسکیموں سے قرض لینا اور اصل رقم کے ساتھ سود دینا ناجائز وحرام ہے اس سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم

Thursday 15 August 2013

سنُی ،بریلوی ،دیوبندی،وہابی ،اہل حدیث ،شیعہ ،حنفی ،شافعی ،مالکی اور حنبلی تمام فرقے کہاں سے آگئے ہیں کیا ہم صرف مسلمان(مسلم)نہیں کہلا سکتے



کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ قرآن مجید اوراسوئہ محمد ؐ کو پڑھ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم سب کی پہچان ماسوائے ایک مسلمان (مسلم)کے اور کوئی دوسری پہچان ہی نہیں ہے ۔کہیں سنُی ،بریلوی ،دیوبندی،وہابی ،اہل حدیث ،شیعہ ،حنفی ،شافعی ،مالکی اور حنبلی فرقوں کا ذکرہی نہیں ہے ۔اگر فرقہ کا کہیں ذکر ہے تو رد کرنے کے انداز میں ۔ایک گناہ کی صورت میں،ایک تنبیہ کی حیثیت سے ،ایک گمراہی کے طور پر ،جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک مسلم تھے ،جیسے اللہ نے اپنے دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کی پہچان یہی رکھی جیسے رسول پاک ؐ کو بھی مسلمان پیدا کیا ویسے ہی اللہ نے ہمیں بھی صرف اور صرف ایک مسلم پیدا کیا اور ہم کو بھی یہی ایک واحد شناخت دی ۔اللہ تعالی نے باربار قرآن مجید میں فرمایا کہ میری اور نبی ؐ کے پیروی کرو ،حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے آخری خطبہ میں حضرت محمد ؐ نے فرمایا کہ آج دین مکمل ہو چکا اور یہ آپ ؐ پوری انسانیت کی رہنمائی کے لئے اللہ کی کتاب اور اپنی سنت چھوڑے جارہے ہیںاور جو کوئی ان دونوں کو پکڑے رکھے گا کبھی گمراہ نہ ہوگا۔مگر ان واضح احکامات کے باوجود ہم آج مسلمان کے علاوہ سب کچھ ہیں،ہم فرقوں میں اس بُرے طریقہ سے بٹ گئے ہیں کہ ہماری اصل شناخت ہی گم ہو گئی ہے ۔اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو ہم میں سے ہر شخص اپنے علاوہ ہر دوسرے کو کافر ہی کہنے اور سمجھنے لگے گا۔قرآن مجید تو ہمیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے اور آپس میں تفرقہ بازی سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔قرآن تو ہمیں تنبیہہ کرتا ہے ''اور تم ان لوگوں جیسے ہرگز نہ ہوجان جو مختلف ٹکڑوں میں بٹ گئے اور انہو ں نے روشن نشانیاں آجانے کے بعد اختلاف کیا ۔پس وہ لوگ ہیں ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہوگا''مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں بندہ کا آپ سے سوال ہے کہ مذکورہ تمام فرقے کہاں سے آگئے ہیں اور کیا مذکورہ فرقوں میں ہم سب کا ہونا ضروری ہے ؟کیا ہم صرف مسلمان(مسلم)نہیں کہلا سکتے ؟سچا مسلمان(مسلم)بننے کے لئے ہم سب کو کونسے اعمال کرنے چاہیں تاکہ فرقہ پرستی کا خاتمہ ہو۔
        سائل: سید محبوب علی شاہ گیلانی ،مکان نمبر467/468-
Bتاج پورہ ہاؤسنگ سیکم (ایل ڈ ی اے)لاہور کینٹ۔54850
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃالحق والصواب

    حنفی ،شافعی ،مالکی اور حنبلی اوربریلوی، چشتی ،قادری ،سہروردی ،مجددی ،نقشبندی فرقوں کے نام نہیں بلکہ یہ سب مسلمان اور اہل سنت وجماعت سے ہیںکہ ان تمام کے عقائدایسے ہی ہیں جیسے صحابہ کرام کے تھے یہ لوگ اللہ تعالی کی رسی کو حضور اکرم
ؐ کے فرمان کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر فارق رضی اللہ تعالی عنہ کے دامن کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیںبلکہ اہل سنت وجماعت شیخین کے علاوہ بھی حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حضور اکرم ؐ اورصحابہ کرام کے طریقے پر عمل کرتے ہیںحضور اکرم ؐ کا فرمان ہے کہ نجات اس کو ملے گی جو ما انا علیہ واصحابی جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہو گا۔
    اور حضور اکرم
ؐنے صحابہ کرام علیھم الرضوان کی پیروی کو اللہ تعالی کی رسی کو پکڑنا قرار دیا چنانچہ ارشاد نبوی ؐ ہے''عن ابی الدرداء ان رسول اللہ ؐ قال:اقتدو بالذین من بعد ابی بکر وعمر،فانھما جبل اللہ الممدود من تمسک بھما فقد تمسک بالعروۃ الوثقی التی لا انفصام لھا''یعنی،''حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :بے شک رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا:میرے بعد ان لوگوں یعنی ابوبکر وعمررضی اللہ تعالی عنھما کی پیروی کرنا،یہ دونوں اللہ کی لٹکتی ہوئی رسی ہیں ۔جس نے ان دونوں (کادامن)تھام لیا تویقینااس نے (اللہ کی طرف)نہ ٹوٹنے والی مضبوط رسی کو تھام لیا''۔[مجمع الذاوائد 53/9۔ابن عساکر229/30کنزالعمال:رقم الحدیث:32649]۔
     اب حضور اکرم
ؐ کے صحابہ جیسے عقائد رکھنے والا چاہیے حنفی ہو، شافعی ہو،مالکی ہو،یا حنبلی ہواپنے آپ کوبریلوی کہلوائیں، چشتی ،قادری ،سہروردی ،مجددی ،نقشبندی میں سے جو بھی کہلوائےں وہ اہلسنت ہی رہےں گے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں اورمؤمن مسلمان ہیں ۔ انہی لوگوں کواللہ تعالی نے ارشاد فرمایا تم اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھو اور تم میں کوئی شخص جماعت سے الگ ہو کر تفرقہ مت ڈالے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے۔ ''وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ''ترجمہ کنزالایمان: اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لواور تفرقہ مت ڈالو ''
    اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن سید نعیم الدین مراد آبادی فرماتے ہیں کہ حبل کی تفسیر میں مفسرین کے چند اقوال ہیں بعض کہتے ہیں کہ اس سے قرآن مراد ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حبل سے جماعت مرادہے اور فرمایا کہ تم جماعت کو لازم پکڑ لوکہ وہ حبل اللہ ہے جس کو مضبوط تھامنے کا حکم دیا گیا ہے جیسے کہ یھود و نصاری متفرق ہوگئے اس آیت میں ان افعال وحرکات کی ممانعت کی گئی ہے جو مسلمانوں میں تفرق کا سبب ہو طریق مسلمین مذھب اھلسنت ہے اس کے علاوہ کوئی راہ اختیار کرنا تفریق اور ممنوع ہے '' ۔[اٰل عمران:١٠٣]۔
    مزید اسی سورئہ ال عمران میں ارشاد باری تعالی ہے''وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَـئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ''ترجمہ کنزالایمان:''ان جیسے نہ ہونا جو آپس میں پھٹ گئے اور ان میں پھوٹ پڑ گئی بعد اس کے کہ روشن نشانیاں انہیں آچکی تھیں اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے''۔[ال عمران،آیت:١٠٥]۔
     ان آیات سے معلوم ہوا کہ اسلام میں فرقہ پرستی منع ہے اورجس نے اہلسنت وجماعت کے عقائدسے اختلاف کیا گویا اس نے صحابہ کرام کے عقائد سے اختلاف کرتے ہوئے الگ ہو گیا وہ جہنم میں گیااس لئے کہ حضور اکرم
ؐ نے جماعت مسلمین کو لازم پکڑے کا حکم ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جوجماعت الگ ہوا جہنم میں الگ ہوا ۔ حدیث یہ ہے:اتبعواالسوادالاعظم فانہ من شذ شذ فی النار رواہ ابن ماجہ''۔یعنی،''سوداعظم کی اتباع کرو پس جو اس سے الگ ہوا وہ جہنم میں الگ ہوا۔اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ''[ مشکوٰۃ المصابیح،ص:٣٠، قدیمی کتب خانہ]۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار احادیث اس بات پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے ،حضور اکرم ؐ اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طریق پر چلتے ہوئے جماعت کو لازم پکڑنے کے ارشادات موجود ہیں۔اور اسی احادیث پاک کے ذخیرے میں یہ بات بھی موجود ہے کہ اس امت کے 73فرقے ہوں گے ۔
    چنانچہ ارشادی نبوی ہے ''وان بنی اسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملۃ وتفترق امتی علی ثلث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا من ھی یارسول اﷲقال ما انا علیہ واصحابی رواہ الترمذی وفی روایۃ احمد و ابی داو،د عن معاویۃ ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ ''یعنی،'' بے شک بنی اسرائیل کے بہتر٧٢ فرقے ہوئے اور میری امت میں تہتر فرقے ہوجا ئیںگے ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی ہیںصحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی وہ ناجی فرقہ کون ہے یارسول اللہ
ؐ ، ارشاد فرمایا وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں یعنی سنت کے پیرو۔ دوسری روایت میں فرمایا وہ جماعت ہے یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ جسے سواد اعظم فرمایا''۔[مشکوٰۃ المصابیح،ص:٣٠، قدیمی کتب خانہ]۔
    اس حدیث پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد ی
ار خان نعیمی علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں'' نبی اسرائیل کے سارے 72فرقے گمراہ ہو گئے تھے مگر مسلمانوں میں 72فرقے گمراہ ہوں گے اور ایک ہدایت پر ۔خیال رہے کہ جیسے بعض بنی اسرائیل نبیوں کے دشمن ہیںایسے ہی مسلمانوں میں بعض فرقے دشمن سید الانبیاء ہیں اور جیسے بعض بنی اسرائیل انبیاء کو خدا کا بیٹا مان بیٹھے۔مسلمانوں میں بھی بعض جاہل فقیر نبی ؐ کو عین خدا جزوخدا مانتے ہیں غرض اس حدیث کا ظہوریوں پوری طرح ہو رہا ہے ۔'( ما انا علیہ واصحابی)کے تحت لکھتے ہیں ۔یعنی میں اور میرے صحابہ ایمان کی کسوٹی ہیں جس کا ایمان ان کا ساہو وہ مومن ماسوائے بے دین ۔رب فرماتا ہے:فان آمنو بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اھتدوا(173/2) پھر اگر وہ بھی یوں ہی ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پا گئے ۔
    خیال رہے کہ ماسے مراد عقیدے اور اصول اعمال ہیں نہ کہ فروعی افعال یعنی جن کے عقائد صحابہ کے سے ہوں اور ان کے اعمال کی اصل عہد صحابہ میں موجود ہو وہ جنتی ورنہ فروع اعمال آج لاکھوں ایسے ہیں جو زمانہ صحابہ میں نہ تھے ان کے کرنے والے دوزخی نہیں صحابہ کرام حنفی ،شافعی یا قادری نہ تھے ہم ہیں ۔انہوں نے بخاری مسلم نہیں لکھی تھی ،مدرسہ اسلامی نہ بنائے تھے ،ہوائی جہازوں اور راکٹوںسے جہاد نہ کئے تھے ۔ہم یہ سب کچھ کرتے ہیں لہذا یہ حدیث وہابیوں کی دلیل نہیں بن سکتی کہ عقائد وہی صحابہ والے ہیں اور ان سارے اعمال کی اصل وہاں موجود ہے غرضیکہ درخت اسلام عہد نبوی میں لگاعہد صحابہ میں پھلا پھولا قیامت تک پھل آتے رہیں گے کھاتے رہو۔بشرطیکہ اسی درخت کے پھل ہوں ۔
    حکیم الامت(ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ)کے تحت مزید لکھتے ہیں:اس میں بتایا گیا ہے کہ جنتی ہونے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے ۔سنت کی پیروی اور جماعت مسلمین کے ساتھ رہنا اسی لئے ہمارے مذہب کا نام اہل سنت وجماعت ہے ۔جماعت سے مراد مسلمانوں کا بڑا گروہ ہے جس میں فقہاء ،علماء ،صوفیاء اور اولیاء اللہ ہیں الحمد للہ یہ شرف بھی اہلسنت ہی کو حاصل ہے ۔سوا اس فرقہ کے اولیاء اللہ کسی فرقہ میں نہیں،خیال رہے کہ یہ73کا عدد اصولی فرقوں کا ہے کہ اصولی فرقہ ایک جنتی اور 72جہنمی چنانچہ اہل سنت میں حنفی، شافعی،مالکی،حنبلی،چشتی،قادری ،نقشبندی ،سہروردی ،ایسے ہی اشاعرہ ماتریدیہ سب داخل ہیں کہ عقائد سب کے ایک ہی ہیں اور ان سب کا شمار ایک ہی فرقہ میں ہے ایسے ہی بہترناری فرقوں کا حال ہے کہ ان میں ایک ایک فرقے کے بہت ٹولے ہیں مثلاً ایک فرقہ روافض کے بہت ٹولے ہیں بارہ امامئے ،چھ امامئے ،تین امامئے ایسے ہیں دیگر فرقوں کا حال ہے لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ اسلامی فرقے کئی سو ہیں ''۔[مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح،ج:١،ص:١٦٧،مطبوعہ قادری پبلشرزاردو بازار لاہور]۔
    یہ موضوع تو بہت تفصیلی ہے چونکہ یہ رسالہ نہیں بلکہ فتوی کی صورت میں جواب دیا جارہا ہے لہذا اسی پر اختصار کرتے ہیں اور مذکورہ تحریر کاخلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ کے سوال میں بیان کیے گئے خدشات درست نہیں ہیں الحمد للہ ہم مسلم بھی ہیں مؤمن بھی ہیںناجی بھی کیونکہ ہمارے عقائد صحابہ کرام علیھم الرضوان جیسے عقائد ہیں اور ہم ہی اہلسنت وجماعت ا ورنجات پانے والے ہیں ۔لیکن جب بدمذہب اور گمراہ لوگ پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر ان سے امتیاز اور شناخت اور اپنی الگ حیثیت ثابت کرنے کے لئے یا اپنے پیرومرشد سے نسبت جوڑکر چشتی ،قادری ،نقشبندی،سہرودی ،مجددی کہلاتا ہے کوئی اپنے علاقے کی طرف نسبت کر کے بریلوی،ملتانی کہلاتا ہے تواس میں کوئی حرج نہیں جبکہ ان کے عقائدصحابہ کرام علیھم الرضوان جیسے ہیں تو نام جو بھی ہو وہ اہلسنت وجماعت ہے ۔ان کے علاوہ بدمذہب گمراہ حدیث پاک کے مطابق دیگر فرقے میں شامل ہیں۔اللہ تعالی سمجھ اور عقل سلیم عطاء فرمائے۔آمین ثم آمین۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم


Monday 12 August 2013

شوال المکرم میں چھ روزے رکھنے کا ثواب ایک سال کے روزوں کے برابر ہے

رمضان المبارک کے فرض روزوں کی مکمل ادائیگی کے بعدشوال المکرم میں چھ روزے رکھنے کا ثواب ایک سال کے روزوں کے برابر ہے۔

احادیث پاک میں ان روزوں کے فضائل کے بارے میں حضور اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا:'' جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر ان کے بعد چھ دن شوال میں رکھنے تو ایسا ہے جیسے دہر کا روزہ رکھا''۔[صحیح مسلم وابوداود وترمذی شریف]۔دوسری حدیث میں ہے:'' جس نے عید الفطر کے بعد چھ روزے رکھ لیے تو اس نے پورے سال کا روزہ رکھا''[نسائی وابن ماجہ ]۔
    رمضان المبارک کے قضاء شدہ روزے اور شوال کے روزے ان کا سبب الگ الگ ہے ایک روزے میں قضاء رمضان اور شوال کے روزے کی نیت نہیں کر سکتے ۔اگر رمضان کے قضاء روزے اور شوال کے روزے کی اکٹھے نیت کی تو رمضان کے قضاء روزہ کی طرف سے نیت ہو گی ۔
    امدادالفتاح شرح نورالایضاح میں ہے'' لو جمع لیلاً بین نیۃ القضاء والتطوع یقع قضائ''یعنی،'' اگر رات کو روزے کی نیت کرتے ہوئے قضاء اور نفل کی اکٹھے نیت کی تو قضاء کی طرف سے نیت ہو گی''۔[امدادالفتاح شر ح نور الایضاح،ص:٦٦١،مطبوعہ،صدیقی پبلشر،کراچی
    اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قضاء رمضان اور شوال المکرم کے نفلی روزے کی اکٹھے نیت نہیں کر سکتے ۔ہاں صدق دل سے یہ نیت کی کہ اگر مجھ پر قضاء روزے نہ ہوتے تو میں شوال کے روزے ضرور رکھتا تو وہ قضاء کے روزے رکھے اور اللہ تعالی سے امید ہے کہ اس کو شوال کے روزوں کی نیت کا ثواب عطاء فرمائے گا۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم

شوال کے روزے عید کے دوسرے دن رکھنا ضروری ہوتے ہیں یا کچھ دنوں کے بعد بھی رکھ سکتے ہیں؟

کیافرماتے ہیں علماء دین ا س مسئلہ کے بارے میں کہ شوال کے جو روزے رکھتے ہیں وہ عید کے دوسرے دن رکھنا ضروری ہوتا ہے یا کچھ دنوں کے بعد بھی رکھ سکتے ہیں؟                                            سائل:مرتضیٰ ارشد ،سیالکوٹ
                                                                 بسم اللہ الرحمن الرحیم
                                          الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃالحق والصواب
    جس شخص نے رمضان المبارک کے پورے روزے رکھے ہوں اس کے لئے شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہیں چاہے وہ عید کے دوسرے دن سے رکھنا شروع کرے اور مسلسل رکھے یا وقفے وقفے سے رکھے اورافضل یہ ہے کہ عید کا دن چھوڑ کر عید کے دوسرے دن سے شوال کے روزے رکھنا شروع کر دے اور اگر کوئی مجبوری ہو جائے تو شوال کے مہینے میں کسی بھی دنوںمیںچھ روزے پورے کرسکتا ہے۔    نورالایضاح میں مستحب روزوں کے بیان میں ہے '' وصوم ستٍ من شوال۔ثم قیل :الافضل وصلھا ،وقیل تفریقھا ''یعنی،'' (مستحب روزوں میں)شوال کے چھ روزے ہیں۔پھر کیا گیا ہے کہ(عید کے بعدچھ) متصل رکھنا افضل ہے ۔اور کہا گیا ہے کہ متفرق رکھنا افضل ہے ''۔[نورالایضاح ،مع امدادالفتاح،ص:٦٥٦،مطبوعہ صدیقی پبلیشرکراچی]۔
    تنویر مع الابصار مع الدرالمختار میں ہے '' (وندب تفریق صوم الست من شوال)ولا یکرہ التتابع علی المختار خلافا للثانی''یعنی،'' شوال کے چھ روزے متفرق رکھے اور مختار مذہب پر مسلسل رکھنا بھی مکروہ نہیں ہے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ اس کے خلاف فرماتے ہیں''۔[تنویر الابصار مع درمختار،ج:٣،ص:٤٢٢،مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان
    اس کے تحت ردالمحتار میں ہے '' قال صاحب الھدایۃ فی کتابہ التجنیس :ان صوم الستۃ بعد الفطر متتابعۃ ،منھم من کرھہ ،والمختار انہ لا بأس لان الکراھۃ انما کانت لانہ لایؤمن ان یعد ذلک من رمضان فیکون تشبھاً بالنصاری ،والآ ن زال ذلک المعنی ''یعنی،'' صاحب ھدایہ نے اپنی کتاب تجنیس میں کہا ہے کہ شوال کے چھ روزے عید الفطر کے بعد مسلسل رکھے جائیں ،اور کچھ نے ایسا کرنے کو مکروہ کہا ہے۔اور مختار مذہب یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں اس لئے کہ کراہت اس وقت تھی کہ جب خوف ہو کہ یہ روزے رمضان میں شمار نہ کرے تو پس یہ نصاری کے ساتھ مشابہت ہوتی (کہ انھوںنے اپنی طرف سے فرض روزوںکی تعدادمیں اضافہ کرلیاتھا)۔اور اب یہ مشابہت والا معنی زائل ہو گیا ہے(کیونکہ درمیان میں عیدکاایک دن چھوڑدیاگیاہے لہذا عید کے بعد مسلسل چھ روزے رکھنا مکروہ بھی نہیں ہوں گے) ''۔[ردالمحتار ،ج٣،ص:٤٢١،مکتبہ امدایہ ملتان]
    خلاصہ کلام یہ ہے کہ شوال کے چھ روزے عید کے دوسرے دن مسلسل رکھنا مختار مذہب کے مطابق درست ہے اور اگر متفرق طور پر شوال کے مہینے میں چھ روزے پورے کر لیے جائیں تو بھی جائز ہے۔واللہ تعالی اعلم

Wednesday 7 August 2013

تمام عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کو عید سعید کی خوشیاں مبارک ہوں

                            تمام عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کو عید سعید کی خوشیاں مبارک ہوں

اور ایسے مسلمان بہن بھائی جو گھر سے دور وطن سے دور اور مجبور ہیں اللہ تعالی ان کی اس عید کے صدقہ سے تمام پریشانیوں کو دور فرمائے اور آئندہ عید اپنے وطن اور اپنوں میں گزارنے کا موقعہ عطاء فرمائے۔

    اور ایسے مسلمان بھائی جو اپنے پیاروں کے بچھڑ جانے کی وجہ سے غم زادہ ہیں اللہ تعالی ان کے پیارو ں کی مغفرت فرمائے اور ان کو صبر جمیل اور نعم البدل عطاء فرمائے اور ان کی غیب سے مدد فرمائے آمین







Friday 2 August 2013

کیامعتکف فنائے مسجدیعنی غسل خانہ،وضوخانہ میںبغیرضرورت شرعیہ محض ٹھنڈک حاصل کرنے لے لئے جاسکتاہے

(1)کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیامعتکف فنائے مسجدیعنی غسل خانہ،وضوخانہ میںبغیرضرورت شرعیہ محض ٹھنڈک حاصل کرنے لے لئے جاسکتاہے؟(2)کیامعتکف مسجدکے محراب میںجاسکتاہے؟
(3)کیامعتکف مسجدکے اندربارش میںنہاسکتاہے؟(4)ہمارے علاقے میںکچھ لوگ مسجدکے اندرشاپربچھاکرمعتکف حضرات کورمضان میںنہلاتے ہیں،ٹھنڈک کے لئے کیایہ جائزہے؟
       سائل:الطاف فریدی،متعلم تخصص فی الفقہ سال دوم، دارالعلوم نعیمیہ کراچی
                                بسم اللہ الرحمن الرحیم
                  الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
(1)    اگرفنائے مسجدمیںغسل خانہ اوروضوخانہ ہوںتومعتکف کاٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے نہانے جاناجائزہے۔
    صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:''فنائے مسجِدجو جگہ مسجِدسے باہَراس سے مُلحَق ضَروریاتِ مسجِدکیلئے ہے ، مَثَلًاجُوتااُتارنے کی جگہ اورغُسْل خانہ وغیرہ اِن میں جانے سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔''مزیدآگے فرماتے ہیں ،'' فِنائے مسجِداس مُعامَلے میں حُکمِ مسجِد میں ہے''۔[فتاوی امجدیہ، ج:١،ص:٣٩٩]۔
    امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں'' وہ مدارس متعلق مسجد، حدودمسجد کے اندرہیں اُن میں اور مسجد میں راستہ فاصل نہیں صرف ایک فصیل سے صحنوں کاامتیاز کردیاہے تو ان میں جانا مسجد سے باہر جاناہی نہیں یہاں تک کہ ایسی جگہ معتکف کوجاناجائز کہ وہ گویا مسجد ہی کا ایک قطعہ ہے۔وھذا ماقال الامام الطحاوی ان حجرۃ ام المؤمنین من المسجد
؎ فی ردالمحتار عن البدائع لوصعدای المعتکف المنارۃ لم یفسد بلاخلاف لانھا منہ لانہ یمنع فیھا من کل مایمنع فیہ من البول ونحوہ فاشبہ زاویۃ من زوایا المسجد؎۔یہی بات امام طحاوی نے فرمائی کہ ام المومنین کا حجرہ مسجد کاحصہ ہے۔ ردالمحتارمیںبدائع سے ہے اگر معتکف منارہ پرچڑھا توبالاتفاق اس کا اعتکاف فاسد نہ ہوگا کیونکہ منارہ مسجد کاحصہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اس میں ہر وہ عمل مثلاً بول وغیرہ منع ہے جومسجد میں منع ہے تویہ مسجد کے دیگر گوشوں کی طرح ایک گوشہ ٹھہرا''۔[فتاوی رضویہ ،ج:٧،ص:٤٥٣،رضافاؤنڈیشن لاہور]۔ واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم
(2)    محراب اصل مسجدہے مگر یہ کہ واقف نے اس کے خارج مسجد ہو نے کی نیت کی ہو بہرحال دونوں صورتوں میںمعتکف کامحراب میںجاناجائزہے۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم
(3)    معتکف مسجدوفنائے مسجدمیںبارش میںنہاسکتاہے۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم
(4)    اگرپانی کی چھینٹیںمسجدمیںنہیںگرتی کہ پانی شاپرپرہی گرتاہے تواس میںکوئی حرج نہیں،لیکن انھیںچاہئے کہ مسجدکے جوغسل خانہ فنائے مسجدمیںہوںان میںجاکرنہائیں۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم

Sunday 28 July 2013

کیاانبیاء کرام علیہم السلام پر فلم سازی کی جاسکتی ہے؟(۲)کیا فلم میں نبی علیہ السلام کا کردار ادا کیا جاسکتا ہے؟

کیافرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام دین مسئلہ کہ(۱)کیاانبیاء کرام علیہم السلام پر فلم سازی کی جاسکتی ہے؟(۲)کیا فلم میں نبی علیہ السلام کا کردار ادا کیا جاسکتا ہے؟(۳)کیا انبیاء علیہم السلام کی حیات مبارکہ پر فلمیں بنانا اور ادا کروں /عام انسانوں کا فلموں میں انبیاء علیہم السلام کا کردار ادا کرنا،انہی کے زمانوں کے لباس اور ماحول کو اجاگر کرنا ،انبیاء علیہم السلام کے کلمات وواقعات کو عام انسان کا نبی علیہ السلام کے کرداردیاجاسکتا ہے؟کیا یہ فقط ایک گناہ ہے یا نعوذ باللہ توہین رسالت ،اہانت انبیاء علیہم السلام اور تحقیر وتضحیک انبیاء علیہم السلام کے زمرے میں آتا ہے؟ازراہ کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں دلائل کے ساتھ رہنمائی فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
المستفتی :راؤ عبد الرحیم ایڈووکیٹ چیئر مین ناموس رسالت لائرز فورم پاکستان ،اسلام آباد
                              بسم اللہ الرحمن الرحیم
             الجواب بعون الوھا ب اللھم ھدایۃ الحق الصواب
آپ کے پیغام پروڈکشن کے بھیجے گئے انٹر نیٹ کے ایڈریس کے ذریعے جانچ پڑتال کی تو بات واضح ہوئی کہ مذکورہ ادارے نے انبیاء علیہم السلام کی زندگی پر فلمائی گئی فلموں کا اردو زبان میں ترجمہ کرنے کے بعد مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے اپنے نیٹ ورک پر نشر کررہے ہیں ۔جو کچھ ان فلموں میں ہے اس میں سے کچھ کا مختصر خلاصہ یہ ہے
(۱)ان فلموں میں حضرت آدم علیہ السلام ،حضرت یوسف علیہ السلام ،حضرت سلیمان علیہ السلام ،حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام ،حضرت مریم علیہا السلام کے فرضی کردار پیش کئے گئے ہیں۔
(۲)ان فلموں میں کئی مقامات پر نبی کا فرضی کردار کرنے والے کو اے نبی(علیہ السلام) ،اے یوسف (علیہ السلام)،اے ابراہیم(علیہ السلام) ،اے پیغمبر(علیہ السلام) کہہ کر پکارا گیا ہے۔
(۳)اسی طرح یہ فرضی کرداربھی کئی مقامات پر اپنے ڈائیلاگ سے خود کو اللہ کا پیغمبر کہتے ہیں۔
(۴)ان فلموں میں انبیاء علیہم السلام کے ناموں سے جن کرداروں کو دکھایا گیا ہے ان کو بار بار اس طرح پکارا جاتا ہے جیسے کسی عام آدمی کو پکاراجاتا ہے ۔کہہم وہ کرتے ہیں جو محمد(ﷺ) ہمیں کہتے ہیں ۔محمد(ﷺ) نے ہمیں بتایا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو۔
(۵)ایک انسان کو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے نام سے کردار دیا گیا ہے جو کئی بار وحی لاتا دکھائی دیتا ہے ۔
(۶)اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے نام سے بنائے گئے کرداروں پر ٹھٹھہ، پاگل،مجنون کہنا وغیرہ بھی فلمایا گیاہے۔
(۷)فلم ٹین کمانڈزمیں توحدہی کردی گئی اللہ تعالی کے معصوم نبی حضرت موسی کلیم اللہ علی نبیناوعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی کھلی توہین کی گئی ہے اوران کاحضرت آسیہ کے ساتھ جوتعلق فلمایاگیاوہ نہ صرف اسلامی تاریخ کے صریح خلاف بلکہ انتہائی شرمناک ہے۔اورپھراسی فلم میں معاذاللہ وحی کے نزول کودکھایاگیا۔
(۸)اسی طرح اس فلم میں بعض صحابیات مثل ہندہ رضی اللہ تعالی عنہاکے کردارکوبے پردہ وبے حجاب دکھایاگیا۔
(۹)تمثیل حیات طیبہ نامی فلم میں حضورنبی کریم ﷺکی والدہ ماجدہ سیدتناآمنہ رضی اللہ تعالی عنہاکے کردارکاچہرہ دکھایاگیا۔
(۱۰)اسی طرح حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنھاجورسول کریم ﷺکی رضاعی والدہ ماجدہ ہیں ان کے کردارمیں بھی چہرہ اوربال دکھائے گئے ہیں۔
(۱۱)ایسی ہی کئی توہین پر مبنی مثالیں ان فلموں میں حد سے زیادہ موجود ہیں۔رقص و موسیقی اوردیگرخرافات اس پرمزیدبرآں ہیں ۔
بہرحال پیغام پروڈکشن اور دیگرکے نیٹ ورک پر موجود انبیاء علیہم السلام کی مقدس زندگیوں پر بنائی گئی فلموں میں انبیاء علیہم السلام کی سخت توہین اور بے ادبی کا پہلو نکلتا ہے اور انبیاء علیہم السلام کی ادنیٰ سے ادنیٰ توہین کرنا بھی کفر ہے۔اوراسلام میں اس بات کی قطعاً گنجائش نہیں کہ انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں پر فلمیں تیار کی جائیں فلہذا حضرات انبیاء علیہم السلام کی مبارک زندگیوں پر فلم بنانااشد حرام اور موجب کفر ہے اورفلم بنانے والے اور ترجمہ کرنے والے اگرمسلمان ہیں تواس فعل کی وجہ سے ان پرکفرلازم آتاہے۔ان پر توبہ و استغفار اور تجدید ایمان و نکاح لازم ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں پر فلمیں بنانا بھی موجب کفرو گناہ ہے کیونکہ کسی غیر صحابی کو صحابی کہنا یا کسی کا اپنے آپ کو صحابی کہنا گویا اجراء نبوت کا قول کرنا ہے۔
ان فلموں میں مسلمان کا اپنے آپ کو نبی کہناکفرہے ۔فتاوی عالمگیری میں ہے: لوقال:أنارسول اللّٰہ،أوقال بالفارسیۃ:من پیغمبرم یرید بہمن پیغام می برم یکفر‘‘یعنی،’’اگر کوئی کہے میں اللہ کا رسول ہوں یا فارسی (یاکسی زبان)میں کہا میں پیغمبر ہوں اورمیرے پاس وحی آتی ہے تویہ کفر ہے ‘‘۔[کتاب السیر، الباب التاسع فی أحکام المرتدین، منھا مایتعلق بالأنبیاء علیھم السلام:،ج:۲،ص:۲۸۵،مطبوعہ،قدیمی کتب خانہ کراچی]۔
کسی دوسرے کو نبی بنانابھی کفر ہے ۔ان پر توبہ و استغفار اور تجدید ایمان و نکاح لازم ہے، اور جو شخص اپنے آپ کو صحابی یا دوسرے کو صحابی کہتا ہے وہ بھی فاسق و فاجر اور مرتکب کفر ہے کیونکہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استہزاء کیا ہے کہ غیر نبی کو نبی کہہ کر اپنے آپ کو صحابی کہا یا دوسرے کو صحابی بنایا۔اس پر بھی توبہ و استغفار کے ساتھ تجدید ایمان و نکاح لازم ہے۔
اس عمل کے ناجائزہونے کی بے شما روجوہات ہیں۔ان میں کچھ درجہ ذیل ہیں:

(۱)انبیاء کرام علیہم السلام کے نفوسِ قدسیہ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ذواتِ مطہرہ جس تکریم اورعظمت وجلال کی حامل ہیں،اس کاتقاضایہ ہے کہ ان مبارک شخصیات کی زندگی کے حالات کوپورے ادب واحترام کے ساتھ پڑھا،سنااورعملی طورپراپنایاجائے۔

اس کے برعکس ان فلموں میں پیشہ ورعام گنہگار انسانوں اوربہروپیوں کو ان مقدس شخصیات کی شکل میں پیش کرکے ان سے مصنوعی نقالی کرائی جاتی ہے۔ حالانکہ انبیاء کرام کی نقالی کفر جبکہ صحابہ کرام کی نقالی فسق ہے۔
 

(۲)ان مقدس شخصیات کا روپ دھارنے والے بہروپیوں کوعامیانہ لہجے میں پکارنا۔(۳)ان کے مخالفین کا کرداراداکرنے والے ایکٹروں کی طرف سے ان پردشنام طرازی کرنا۔(۴)انہیں مجنون۔(۵)شاعر(۶)ساحر(۷)کاہن اور(۸)قصہ گو وغیرہ کے الفاظ سے مخاطب کرنا۔(۹)فلمی ایکٹرز کی شکل وصورت بھی توہین آمیز ہوتی ہے مثلاً:خشخشی داڑھی اور(10)کلین شیو اور(11) بعض ایکٹرزکے سر کے بال اتنے بڑے جیسے عورتوں کے بال ہوتے ہیں وغیرہ تو یہ تمام تر امور ان مقدس شخصیات کی تنقیص وتوہین کے ساتھ ساتھ ان کی پیغمبرانہ،صحابیانہ اور بزرگانہ قدروقیمت کے منافی امور ہیں،غیرت اور حمیتِ ایمانی کے خلاف ہے،کفر کی ترجمانی ہے اوربالآخرنتیجہ کفر ہی نکلتا ہے۔ 

  اور اس فلم کے ناجائز اور حرام ہونے کے لئے ایک بات بھی کافی تھی لیکن مذکورہ فلموں میں تو بے شمار لغویات اور کفریات پائے جاتے ہیں۔
انبیاء کرام علیھم السلام کی پاک طیب طاہر مبارک مقدس زندگی پر فلم سازی کرنا اور فلم میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام یا دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی نقل اتارناانبیاء کرام کا منہ چِڑاناہے اور یہ منصب نبوت ورسالت کی توہین اوراس میں کئی وجوہ سے کفر ہے۔
رسول پاک ﷺ ودیگر انبیاء علیہم السلام واہل بیت اطہار اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی مبارک اور پاکیزہ زندگیوں پر مبنی ایسا شرمناک اور ناقابل قبول مواد شائع کیا جس میں ان مبارک ہستیوں کی تصویریں شائع کی گئیں اور مختلف خبیث الفطرت لوگوں اور کفار کو ان مبارک ہستیوں کے کردار کے طور پر پیش کیاگیاجو سخت گستاخی اور بیباکی اور کفر ہے۔
کتب سیروفقہ میں ہے کہ کسی عالم دین کی نقل بھی بوجہ استھزاء کفر ہے تو انبیاء علیھم السلام اور صحابہ کرام علیھم الرضوان کی نقلیں اتارنا اور ان کی طرح ایکٹنگ کرناگویا ان کا منہ چِڑانا ہے اگرچہ کوئی یہ بھی دعوی کرے کہ میری نیت اچھی ہے تب بھی ناجائز وحرام ہے۔اور اگر نیت میں کہیں بھی ذرا سی بھی تحقیر یا استھزا ء ہوا تو یقینی کفر ہے اور فلم بنانے میں مقصود مال بناناہوتاہے اوراس دوران ہنسی مذاق اور ٹھٹھے و قہقھے ،انجوائے کے نام پر کیسے کسی کی نیت محمود رہ سکتی ہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے’’ وَلَءِن سَأَلْتَہُمْ لَیَقُولُنَّ إِنَّمَا کُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللّہِ وَآیَاتِہِ وَرَسُولِہِ کُنتُمْ تَسْتَہْزِءُونَ‘‘ترجمہ کنز الایمان:اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو ‘‘۔۔[سورۃ التوبہ،آیت:۶۵]۔اس 

آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسر قرآن مفتی نعیم الدین مراد آباد علیہ الرحمہ خزائن العرفان میں لکھتے ہیں’’غزوہ تبوک میں جاتے ہوئے منافقین کے تین نفروں میں سے دو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت تمسخراً کہتے تھے کہ ان کا خیال ہے کہ یہ روم پر غالب آجائیں گے ،کتنا بعید خیال ہے اور ایک نفر بولتا تو نہ تھا مگر ان باتوں کو سن کر ہنستا تھا ۔حضور ﷺ نے ان کو طلب فرماکر ارشاد فرمایا کہ تم ایسا ایسا کہہ رہے تھے انہوں نے کہا ہم راستہ کے لئے ہنسی کھیل کے طور پر دل لگی کی باتیں کر رہے تھے ۔اس پر آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور ان کا یہ عذر وحیلہ قبول نہ کیا گیا اور ان کے لئے یہ فرمایا گیا جو آگے ارشاد ہوتا ہے ‘‘۔[سورۃ التوبہ، آیت:۶۵]۔

ارشاد باری تعالی ہے’’لا تَعْتَذِرُواْ قَدْ کَفَرْتُم بَعْدَ إِیْمَانِکُمْ‘‘ترجمہ کنز الایمان‘‘بہانے نہ بناؤ تم کافر ہو چکے مسلمان ہو کر‘‘اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے:اس آیت سے ثابت ہوا کہ رسولِ کرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کُفر ہے جس طرح بھی ہو اس میں عذر قبول نہیں‘‘۔[سورۃ التوبہ،آیت:۶۶]۔
 

 قرآن مجید فرقان حمید میں ایک اور مقام پر ارشاد رب العزت ہے’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُواْ وَلِلکَافِرِیْنَ عَذَابٌ أَلِیْمٌ ‘‘ترجمہ :اے ایمان والو !راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے درد ناک عذا ب ہے‘‘۔ [البقرۃ،آیت:۱۰۴]۔
 

 مذکورہ آیت کریمہ میں’’َلِلکَافِرِیْنَ‘‘ کی تفسیر میں ہے کہ’’لِلکَافِرِیْنَ‘‘میں اشارہ ہے کہ انبیاء علہھم السلام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے‘‘۔
 

 ذرا غور کیجئے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے بہتر اور شاندار نیت کس کی ہو سکتی ہے جو حضور جان عالم ﷺ کے اشارہ ابروپر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے ہر وقت حاضر رہتے تھے ان سے بڑھ کر کس کی نیت محمود ہو سکتی ہے مگر یہ لفظ سرکار دوعالم ﷺ کے شایان شان نہیں اس لئے حرام قرار دیا گیااور اگر اسی نیتِ یہود پر کہے تو یہ کفر ہے ۔
 

 اس طرح کی فلمیں بنانایہودونصاری کی پیروی کرناہے جنھوں نے اپنے دین کوکھیل کوددبنالیاہے ان کے یہاں انبیاء کرام علیہم السلام اوران کے اصحاب وحواریوں کی تعظیم کاوہ تصورنہیں جوالحمدللہ اسلام نے دیاہے اسی لئے یہ یہودونصاری اپنے انبیاء کرام کی کھلی توہین کرنے کوبھی معیوب نہیں سمجھتے بلکہ فخرسے اسے نام نہادآزادی اظہاررائے کہتے ہیں، اپنے انبیاء کرا م علیہم السلام کی زندگی پرمبنی فلمیں ان لوگوں نے بنائیں جس میں انہوں نے ان انبیاء کی شخصیت کوانتہائی مسخ کرکے پیش کیاجیساکہ یوسف پیمبر،ٹین کمانڈزاوردیگرفلمیں اس کی واضح دلیل ہیں گویاانھوں نے اپنے دین اوردینی رہنماؤں کوبھی تفریح کاذریعہ بنالیا،اورایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی ارشادفرماتاہے :’’الَّذِیْنَ اتَّخَذُواْ دِیْنَہُمْ لَہْواً وَلَعِباً وَغَرَّتْہُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا فَالْیَوْمَ نَنسَاہُمْ کَمَا نَسُواْ لِقَاء یَوْمِہِمْ ہَذَا وَمَا کَانُواْ بِآیَاتِنَا یَجْحَدُونَ‘‘جنھوں نے اپنے دین کوکھیل تماشابنالیااوردنیاکی زندگی نے انھیں فریب دیاتوہم انھیں چھوڑدیں گے جیساکہ انھوں نے اس دن کے ملنے کاخیال چھوڑاتھااورجیساہماری آیتوں کاانکارکرتے تھے‘‘۔[سورۃ الاعراف:۵۱]۔
 

 امام المحدثین قاضی عیاض بن موسی مالکی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ﷺ‘‘ کی تقسیم رابع کے باب اول کی فصل خامس میں امت محمد یہ کا متفقہ مذہب بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :’’پانچویں قسم یہ ہے کہ: قائل کانہ توانبیاء کرام علیہم السلام پرنقص لگانے کاارادہ ہواورنہ ہی ان پرعیب لگانے یاان کوبراکہنے کامقصدہولیکن اس کے کلام میں حضور نبی کریم ﷺکے کسی وصف کاذکرہویاحضور ﷺکے کسی ایسے احوال کابیان ہوجودنیاوی حکم کے مطابق آپ کے لئے جائزہواوراس کایہ ذکرکرناضرب المثل کے طورپرہویااپنے یاکسی دوسرے کوصحیح ثابت کرنے کے لئے بطوردلیل ہویااپنے کسی قول وفعل کوآپ ﷺسے تشبیہ دینے کے لئے ہویااس ظلم ورسوائی کوجواس کوپہنچے انبیاء کرام علیہم السلام کیساتھ روا رکھے گئے ظلم وآزمائش کیساتھ تشبیہ دے اوراس کے اس کلام کامقصدنبی کریم ﷺکی اطاعت نہ ہواورنہ ہی تحقیق کرنامقصودہوبلکہ اس کامقصدیہ ہوکہ اپنے یاکسی دوسرے کے لئے سربلندی حاصل ہو،یاتمثیل دینے میں اپنی فوقیت ظاہرکرنامقصودہواورنبی کریم ﷺکی تعظیم وتوقیرمقصودنہ ہویایہ کلام ہنسی مذاق کے طورہو۔مثلاًکوئی یہ کہے کہ’’ اگرمجھ میں برائی کہی جاتی ہے تویہ بات نبی کریم ﷺمیں بھی کہی گئی ہے‘‘ ۔یایہ کہے ’’ا گرمجھے جھٹلایاگیاہے توکیاہواانبیاء کرام علیہم السلام بھی توجھٹلائے گئے ہیں‘‘۔ یایہ کہے کہ’’ میں لوگوں کی زبانوں سے کیابچوں گا،اس سے توانبیاء ورسل علیہم السلام بھی محفوظ نہ رہے‘‘ ۔
آگے مزیدقاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ کچھ شعراء کی بیباکیاں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فَرّمن الخلد واستجار بنا فصبر اللہ قلب رضوان‘‘
ترجمہ :وہ شخص جنت سے بھاگ کرہماری پناہ میں آگیا پس اللہ رضوان(داروغہ جنت) کے دل کو صبر دے۔
اور جیسے حسان مصیصی کا شعر ہے جو اس نے محمد بن عبادجومعتمدکے نام کیساتھ مشہورہے اور اس کے وزیر ابو بکر بن زیدون کی مدح سرائی میں مبالغہ کرتے ہوئے کہا: ’’کأن ابابکر ابوبکر الرضا.....وحسّان حسّان وانت محمد۔
ترجمہ:گویاکہ تیرا وزیر ابوبکر (بن زیدون)ابوبکر صدیق جوپیکررضاتھے ان کی طرح ہے۔۔۔۔اور(میں شاعر) حسان مصیصی حسان(بن ثابت) کی طرح ہوں جونبی کریم ﷺکی نعت کہاکرتے تھے اورتویعنی محمدبن عباد محمد ﷺکی طرح ہے۔

قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ آگے مزیدتحریر فرماتے ہیں :ہماری اس فصل میں کلام کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جومثالیں ہم نے بیان کی لوگ ان سے بچیں کیونکہ اس طرح کے کلام اگرچہ انبیاء وملائکہ علیہم السلام کی سب وشتم (گالی) پرمشتمل نہیں ہیں لیکن اس طرح کے کلام میں ملائکہ اورانبیاء کرام علیہم السلام کی طرف یک گونہ نقصان ضرورمنسوب کیاگیاہے ۔اس طرح کے کلام میں نہ تومنصب نبوت کی توقیرہے اورنہ ہی مقام رسالت کی تعظیم ہے اس میں نہ تواللہ تعالی کے منتخب کردہ ہستیوں کی حر مت کاخیال رکھاگیاہے اورنہ ہی ان کے بلندمرتبہ شرف کوپیش نظررکھاگیاہے ،دنیاوی مال کے حصول کے لئے ممدوح کوجن کیساتھ چاہا(خواہ وہ نبی ہوں یافرشتے ان کیساتھ )تشبیہ دیدی اوراپنے اوپرآنے والے الزام وعیب کوانبیاء کرام علیہم السلام پرالزام لگانے کیساتھ دورکرنے کی کوشش کی اورایسی تمثیل دیدی جس سے اس کی مجلس خوش ہوجائے یاممدوح کی تعریف میں اس لئے مبالغہ کیاکہ اپناکلام عمدہ ہوجائے اورتمثیل بھی ایسی ہستی کیساتھ دی جن کا اللہ تعالی نے مرتبہ بڑھایاہے اوران کے مقام ومرتبہ کواللہ تعالی نے عزت بخشی اوران کی تعظیم وتوقیراوران کیساتھ اچھاسلوک کرنے کوفرض قراردیااوران کے سامنے اونچابولنے اورآوازبلندکرنے کوحرام قراردیا۔
پس اس طرح کاکلام کرنے والاشخص اگرچہ مستحق قتل نہیں لیکن اس کواس طرح کاکلام کرنے پرسزاضروردی جائے اورقیدمیں رکھاجائے اوردیکھاجائے کہ اس کے کلام کی برائی کتنی ہے اوروہ ایسے کلام کاعادی ہے یاکبھی کبھی بکتاہے اوراس کے کلام کاقرینہ(سیاق وسباق) کیاہے اوراپنے کہے پرنادم ہوتاہے یانہیں ،پس ان تمام باتوں کی روشنی میں اس کے حسب حال اس کوسخت سزادی جائے ‘‘۔[الشفا بتعریف حقوق المصطفی، ج:۲،ص:۱۴۶،مکتبہ روضۃ القرآن پشاور]۔
 

 بعینہ یہ تمام صورتحال مذکورہ مسئلہ میں ہے جس میں ایسے ٹیلی ویژن نیٹ ورک کاواضح مقصدمال کمانا اورسستی شہرت کا حصول ہے ،اوریہ فلمیں دکھاناانبیاء علیھم السلام وصحابہ کرام واہلبیت اطہار علیہم الرضوان کی شان میں نقصان اور ان کی وہ عظمتیں اور عزتیں جن کا ہمیں شریعت مطہرہ نے پاس رکھنے کا ہمیشہ حکم دے کر انہیں جان ایمان قرار دیا ۔ان عظیم ہستیوں کی شان ومحبت کو مسلمانان عالم کے دلوں سے نکال باہر کرنے کی خطرناک سازش ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگراس چیز پر روک نہ لگائی گئی تو معاذ اللہ اگلامرحلہ یہ ہوگاکہ ان عظیم ہستیوں کی تصاویر عید کارڈوں پر چھپنے لگیں گی ،اوران مقدس ہستیوں کی اینی میٹیڈ(کارٹون)فلمیں بھی بننے لگیں گی ۔
ایسے ٹی وی چینل کی انتظامیہ پرفرض ہے کہ اس طرح کی فلمیں جس سے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے دکھانابندکرے اوراعلانیہ طورپراس کی معافی بھی مانگے اوراللہ تعالی کی بارگاہ میں سچی توبہ بھی کرے اور اپنے قبلہ کو درست کر لیں اور اپنے مذموم افعال واقوال وکردارسے باز آجائیں بصورت دیگر تمام عالم اسلام پر لازم کہ ان کے خلاف ہرممکن قانونی چارہ جوئی کی جائے اوراس نیٹ ورک اور اس مذموم سازش میں شریک لوگوں کو قرار واقعی سزادی جائے ۔

ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمان اس بات پر شاہد ہیں اور ان کے دل یہ گواہی دے رہے ہیں کہ فلم دی میسج ،ٹین کمانڈزاور ڈرامہ تمثیل حیات طیبہ ضرور بالضرور ان عظیم ہستیوں کی شان میں نقصان اور منصب نبوت ورسالت کی توہین اور خود انبیاء کرام علیھم السلام کی سخت گستاخی اور کفر ہے۔ اور لوگ ان بیہود ہ لوگوں کو ان مقدس ہستیوں کے روپ میں دیکھ کر دو حال سے خالی نہیں ہوں گے سمجھ دار اور علم والے لوگ یقیناًبیزار ہونگے اور سادہ لوح لوگ ان اداکاروں کو مقدس یا نبی یا صحابی سمجھیں گے جو خودایک بہت بڑے فتنے میں ڈالنا ہے کہ غیر نبی کو نبی سمجھناکفر ہے الامان والحفیظ :اللہ عزوجل عقل سلیم عطاء فرمائے اگر انہیں عقل آئے اور توفیقِ توبہ ہو تو ٹھیک ورنہ مسلمان اپنی اپنی بساط کے مطابق ان کے خلاف ہرممکن قانونی واخلاقی اوراحتجاجی جدوجہد شروع کریں اور ایسوں کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔ھذا ماعندی واللہ اعلم

Tuesday 23 July 2013

روزہ میں ٹوتھ پیسٹ کرنے کا شرعی حکم

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ روزہ کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کرناکیساہے؟

 سائل:شاہدنواز،تخصص فی الفقہ الاسلامی سال اول،جامعہ نعیمیہ کراچی

                              بسم اللہ الرحمن الرحیم

            الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

روزہ کی حالت میں کسی طرح کا ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا اگرچہ اس کا کوئی ذرہ حلق میں نہ جائے مکروہ ہے کہ روزے کی حالت میں بلاعذرکوئی چیزمنہ میں رکھنامکروہ ہے۔ہاں اگر اس کاکوئی ذرہ حلق میں چلا گیااور اس کا ذائقہ بھی حلق میں پایا گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

 مفتی جلال الدین احمد امجدی فرماتے ہیں’’حالت روزہ میں کسی طرح کا منجن یا کول گیٹ وغیرہ کا استعمال بلاضرورت صحیحہ مکروہ ہے ...اگر اس کا کچھ حصہ حلق میں چلاگیا اور حلق میں اس کا مزہ محسوس ہوا تو روزہ جاتارہا مگر اس صورت میں صرف قضا واجب ہو گی کفارہ نہیں ۔

 رد المحتار جلد دوم ص ۹۸میں ہے ’’اکل مثل سمسمۃ من خارج یفطر الا مضغ بحیث تلا شت فی فمہ الا ان یجد الطعم فی حلقہ‘‘ حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ’’ غلطی سے پانی وغیرہ کو ئی چیز حلق میں چلی گئی تو صرف قضا واجب ہو گی ‘‘۔[فتاوٰی فیض الرسو ل، ج:۳ ،ص: ۳۱۴،مطبوعہ: شبیر برادرزلاہور]۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم

Friday 19 July 2013

جس کے ذمہ قضاء نمازیں ہوں وہ نوافل پڑھ سکتا ہے؟

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ سنا ہے کہ جب قضاء نمازیں ذمے میں ہوں تو نفل نماز قبول نہیں ہوتی ۔کیا نماز اوابین ،چاشت، اشراق و توبہ وغیرہ کی جگہ قضاء عمری ادا کریںیا نوافل ادا کریں؟
                                  سائل:اللہ بخش مظہری،جامعۃ المصطفیٰ ،کراچی
                                   بسم اللہ الرحمن الرحیم
                    الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب

ایسا مضمون ایک حدیث مبارک میں وارد ہے لیکن اس حدیث کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ 

چنانچہ ملا علی قاری علیہ رحمۃ الباری فرماتے ہیں ، ’’ واما خبر لا تقبل نافلۃ المصلی حتی یؤدی الفریضۃ فضعیف ‘‘ [ مرقاۃ المفاتیح ج۳ ص ۴۲۲ ] ترجمہ، ’’ یہ روایت کہ نمازی کے نفل قبول نہیں ہوتے یہانتک کہ وہ اپنے فرائض ادا کرے‘ ضعیف ہے ‘‘۔

 صحیح حدیث میں وارد ہے جسے امام ترمذی نے اپنی جامع میں ج۱ ص ۵۵ اور امام ابو داؤد نے اپنی سنن ج۱ ص ۲۷۱ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم رؤف رحیم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ بندے کا وہ عمل جس کا قیامت کے دن سب سے پہلے حساب ہوگا وہ اسکی نماز ہے اگر نماز ٹھیک ہوگی تو وہ بندہ کامیاب ہوگیا اور نجات پاگیا اور اگر نماز بگڑگئی تو محروم رہ گیا اور نقصان پاگیا اگر بندے کے فرض میں کمی ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، ’’ دیکھو کیا میرے بندے کے پاس کچھ نفل ہیں ان سے فرض کی کمی پوری کردی جائے گی ‘‘ پھر بقیہ اعمال اسی طرح ہوں گے اورایک روایت میں ہے کہ پھر زکوٰۃ اسی طرح ہے پھر دوسرے اعمال اسی طرح کئے جائیں گے ‘‘۔ ( مشکوٰۃ ص ۱۱۷ )۔

 علامہ حافظ ابن العربی المالکی علیہ الرحمۃ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں ، ’’ یحتمل ان یکون یکمل لہ ما نقص من فرض الصلوٰۃ و اعدادھا بفضل التطوع و یحتمل اما نقصہ من الخضوع والاول عندی اظہر لقولہ ﷺ ثم الزکاۃ کذالک و سائر الاعمال و لیس فی الزکاۃ الا فرض او فضل ، فکما یکمل فرض الزکوٰۃ بفضلھا کذالک الصلاۃ ‘‘ ( عارضۃ الاحوذی ج۱ ص ۴۲۱ ) (ترجمہ ) ’’ اس میں یہ احتمال ہے کہ مکمل کیا جائے گا جو فرض نماز اور اسکی تعداد میں کمی ہوگی نوافل کے ساتھ اور یہ بھی احتمال ہے کہ جو کچھ خشوع میں کمی ہو وہ پوری کی جائے گی اور پہلی بات میرے نزدیک زیادہ ظاہر ہے سرکار ﷺ کے فرمانے کی وجہ سے کہ پھر زکوٰۃ اسی طرح پھر بقیہ اعمال اور زکاۃ یا تو فرض ہے یا نفلی ( صدقہ ) پس جیسے فرض زکوٰۃ نفلی صدقہ سے پوری کی جائے گی ایسے ہی نماز کا بھی معاملہ ہے ‘‘۔

 اسی قسم کا قول ترمذی کے حاشیے ص ۶۶ پر شیخ عزالدین بن عبد السلام ملک العلماء سے بھی نقل کیا گیا ۔ علامہ عراقی شرح الترمذی میں فرماتے ہیں ، ’’ ھذاالذی و رد من اکمال ما ینتقص العبد من الفریضۃ بما لہ من التطوع یحتمل ان یراد بہ ما انتقص من السنن و الھیئات المشروعۃ المرغب فیھا من الخشوع والاذکار و الادعیۃ و انہ یحصل لہ ثواب ذالک فی الفریضۃ و ان لم یفعلہ فی الفریضۃ و انما فعلہ فی التطوع ، و یحتمل ان یراد ما ترک من الفرائض رأسا فلم یصلہ فیعوض عنہ من التطوع ، واﷲ تعالیٰ یقبل من التطوعات الصحیحۃ عوضا عن الصلاۃ المفروضۃ واﷲسبحانہ یفعل ما شاء فلہ الفضل والمن بل لہ ان یسامح وان لم یصل شیئا لا فریضۃ ولا نفلاً ( عون المعبود ج۳ ص ۸۸ ) خلاصہ گذرچکا ۔

ترمذی کے حاشیے ص ۵۵ پر یہ روایت منقول ہے کہ سات سو نفل ایک فرض کے برابر ہوں گے ۔ یہ تو بات نفل کے قبول ہونے کی تھی لیکن جس کے ذمے قضاء نمازیں ہوں اسے نوافل ، تہجد ، اوابین ، چاشت اشراق وغیرہ میں قضاء عمری پڑھنی چاہئیں کہ فرض نماز کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا نوافل کے بارے میں نہیں اور قضاء عمری ان نوافل کی جگہ پڑھتے ہوئے ا گر اسکی نیت یہ ہو کہ اگر یہ قضا نمازیں نہ ہوتیں تو میں نوافل پڑھتا تو ان شاء اللہ عزوجل اُسے نوافل کا بھی ثواب ملے گا کہ انما الاعمال بالنیات ولکل امری مانوی ۔اور حدیث پاک میں ہے نیۃ المومن خیر من عملہ کہ مومن کی نیت اسکے عمل سے بہتر ہے ۔ امام اہلسنت اعلٰحضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں ، ’’ خالی نفلوں کی جگہ بھی قضائے عمری پڑھے ‘‘ ( فتاوی رضویہ ج۳ ص ۶۲۲ )۔

صدقہ فطرہ کس کس پر لازم ہے .....

کیا فر ماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ درمیانے طبقے کے لوگوں پر کم از کم کتنا صدقہ فطر واجب ہے ؟
                                                           سائل : انیس امین ،کراچی

                                      بسم اللہ الرحمن الرحیم
                  الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃالحق والصواب
صدقہ فطر ہر مسلمان ،آزاد اورمالک نصاب پراپنی اوراپنی نابالغ اولادکی طرف سے واجب ہے ۔ حدیث پاک میں ہے’’ عن ابن عباس قا ل فرض رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زکوۃ الفطر طہر الصیام من اللغووالرفث وطعمۃللمساکین‘‘ یعنی،’’حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہے کہ حضور سیددو عالم ﷺنے صدقہ فطرکوواجب فرمایاروزوں کو بیہودگی اور فحش سے پا ک کرنے اور مسکینوں کو کھانا دینے کیلئے‘‘۔[مشکوۃالمصابیح،کتاب الزکوۃ،باب صدقۃالفطر،فصل الثانی،ص۱۶۲]۔

اس حدیث پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں ’’فطرہ واجب کرنے کی دوحکمتیں ہیں ایک روزہ دار کے روزوں کی کوتاہیوں کی معافی اکثر روزے میں غصہ بڑھ جاتا ہے تو بلاوجہ لڑپڑ تا کبھی جھوٹ غیبت وغیرہ بھی ہوجاتے ہیں رب تعالی اس فطرہ کی برکت سے وہ کوتاہیاں معاف کردیگا کہ نیکیوں سے گناہ معاف ہوتے ہیں ،دوسرے کہ مسکین کی روزی کا انتظام ‘‘۔[مرآۃالمناجیح شرح کتاب المصابیح،ج۳،کتاب الزکوۃ ،باب صدقہ فطر ،فصل ۲،ص ۵۷]۔
صدقہ فطر فی آدمی نصف صاع یعنی دو کلو گندم یا آٹایا ان کی قیمت سے ادا کر نا واجب ہے ۔تنویر الابصار میں ہے ’’نصف صاع من بر او دقیقہ او سویقہ ‘‘یعنی ،’’ نصف صاع (دوکلو )گندم یا آٹایا گند م کا ستو(یا اس کی قیمت ) کے حساب سے (ادا کر نا واجب ہے )‘‘۔[تنویرالابصار ،کتاب الزکوٰۃ، باب صدقۃ الفطر ،ج۳، ص ۳۱۸،مطبو عہ مکتبہ امدادیہ ملتان ]۔

 صدقہ فطر عید کے دن صبح صادق ہوتے ہی امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللہ تعالی علیہ کے نزدیک واجب ہوجاتاہے کہ عالمگیری میں ہے ’’ووقت الوجوب بعد طلوع الفجر الثانی من یوم الفطر ‘‘یعنی ،عید کے دن صبح صادق ہونے کے بعد واجب ہوتاہے [الفتاوی العالمگیریہ ،کتاب الزکوۃ ،باب صدقۃالفطر،ج۱،ص۲۱۱،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔
اوراداکرنے کا مستحب وقت طلوع فجر کے بعد سے لے کر نماز عید ادا کر نے کیلئے جانے تک ہے’’ والمستحب للناس ان یخرجو ا الفطرۃ بعد طلوع الفجریو م الفطر قبل الخروج الی المصلی کذا فی الجوہرۃالنیرۃ‘‘یعنی ،جوہر نیرہ کے حوالہ سے عالمگیر ی میں ہے’’مستحب ہے لوگوں کیلئے کہ عید کے دن طلوع فجر بعد نماز عید کے لئے جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کریں ۔ [الفتاوی العالمگیریہ ،کتاب الزکوۃ ،باب صدقۃالفطر،ج۱،ص۲۱۱،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم