دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Friday 22 November 2013

نواز شریف اسکیم میں روز گار کے لئے LOANیا مالی معاونت لینا جائز ہے ؟


کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ نواز شریف اسکیم میں روز گار کے لئے LOANیا مالی معاونت بذریعہ بینک لینا جائز ہے ؟
                                                                                                    سائل: شکیل احمد ،کراچی
بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

    حکومت نے روزگار کے لئے مختلف اسکیموں کا اعلان کیا ہے ان میں سودی اور بلاسودی اسکیمیں شامل ہیں ۔شریعت مطہرہ کے مطابق صرف بلاسودی اسکیم سے استفادہ کرنا جائز ہے اس کے علاوہ کسی بھی سودی اسکیم سے LOANیا مالی معاونت لینا شرعاً ناجائز وحرام ہے ۔کیونکہ حکومت خود اعلان کر چکی ہے کہ قرض پر مارک اپ لیا جائے گا اس اعلان کے بعد کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہیں رہا شریعت مطہرہ نے سود کی سخت مذمت فرمائی اور سود لینے دینے والوں کو سخت مجرم اور آخرت میں سخت سزاؤں کی وعیدیں وارد فرمائی ہیں۔اورسود کی تعریف احادیث شریف میں اور فقہاء کرام نے بھی یہی فرمائی کہ ''الزیادۃالمشروطۃ فی العقد بغیر عوض''یعنی،''عقد میں مشروط کی گئی زیادتی جو کہ بغیر عوض ہو سود ہے''۔
     اور سودمطلقاً حرام ہے ۔امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کنز العمال کے حوالے سے حدیث پاک نقل فرماتے ہیں: '' کل قرض جر منفعۃ فھو ربوٰ'' یعنی،'' ہر وہ قرض جس سے نفع حاصل ہو وہ سود ہے ''۔[فتاوی رضویہ ،ج:١٧،ص:٣٧٣،رضافاؤنڈیشن ،لاہور ]۔
    سود کی حرمت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشا فرمایا'' أَحَلَّ اللّہُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا،،ترجمہ ،'' اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود ۔[البقرۃ آیت ٢٧٥]۔
    دوسرے مقام پر فرمایا ''یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَۃً ''ترجمہ کنز الایمان ''ائے ایمان والو سود دونا دون نہ کھاؤ''۔[آل عمران آیت:١٣٠]۔اور حدیث مبارک میں آتا ہے ''عن عبداللہ بن مسعود قال :آکل الر با،وموکلہ،وشاہداہ،وکاتباہ،اذاعلموابہٰ .....ملعونون علیٰ لسان محمدؐ،، یعنی،''حضرت عبداللہ بن مسود فرماتے ہیںسودکھانے والا، اس کا کھلانے ولا ،اسکے گواہ ،اور اسکو لکھنے والے جبکہ وہ جانتے ہوں کہ یہ سود ہے ، تووہ رسول اللہ ؐ کی زبان کے مطابق لعنتی ہیں ''۔[الترغیب والترہیب جلد٣ صفحہ٤٧١باب الربا وحیدی کتب خانہ پشاور ]۔
    اسی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے ''ا لربا سبعون باباادناھاکالذی یقع علیٰ امہ،، یعنی،''سود کے ـ(گناہ)کے ستر دروازے ہیںچھوٹے سے چھوٹا(گناہ کا) دروازہ ایسے ہے جیسے کوئی بندہ اپنی ماں سے زناکرے''۔[ایضاً]۔اسی میں ہے'' الرباثلاث و سبعون باباایسر ھا مثل ان ینکح الرجل امہ،، یعنی،''سود کے تہتردروازے ہیں کم سے کم یہ ہے کہ مرد اپنی ماں سے منہ کالا (زنا)کرے''۔[ایضاً] ۔
    امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں''سود حرام قطعی ہے اور اس پر سخت شدید وعیدیں قرآن و احادث صحیحہ متواترہ میں وارد ......سود لینا مطلقاً عموماً قطعا ًسخت کبیرہ ہے ''۔[فتاوی رضویہ ج:١٧،ص: ٣٥٨،رضافاؤنڈیشن ،لاہور]۔
    سود پر قرض لے کر اس سے کاروبار کیا جائے تو عین ممکن ہے سود کی نحوست کارو بار تباہ کر دے اور قرض سر کے اوپر چڑھ جائے اور پھر اس کو اتارنے کے لئے سود پر مزید قرض کی ضرورت پڑے اس لئے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:''یَمْحَقُ اللّہُ الْرِّبَا''ترجمہ کنزالایمان:''اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو ''۔[البقرۃ،آیت:٢٧٦]۔اس کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں مفسر قرآن نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں''اس کو برکت سے محروم کرتا ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : کہ اللہ تعالی اس سے نہ صدقہ قبول کرے نہ حج نہ جہاد نہ صِلہ''۔
    خلاصہ کلام یہ ہے کہ سود بہرحال حرام ہے اس کا لینا بھی حرام ہے دینا بھی حرام ہے ۔لہذا حکومت ِ پاکستان کی بلاسودی اسکیم سے اگر آپ کو قرض مل سکتا ہے تو و ہ لینا جائز ہے اس کے علاوہ سودی اسکیموں سے قرض لینا اور اصل رقم کے ساتھ سود دینا ناجائز وحرام ہے اس سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم