دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Tuesday 10 June 2014

احکام شرعیہ کی توہین کا شرعی حکم

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک
 TVچینل پر ''رخصار''کے نام سے ایک ڈرامہ آتا ہے 12مئی 2014کو اس کی جو قسط نشر ہوئی اس میں ایک انتہائی قابل اعتراض سین نشر ہوا ۔جس میں تین خواتین آپس میں بات چیت کررہی تھیں موضوع ِ بحث تینوں خواتین میں سے ایک کی طلاق کا تھا جو اپنے موجودہ شوہر سے طلاق لے کر دوسری شخص سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن شوہر طلاق دینے پر راضی نہیں تھا ۔اس خاتون نے کیا ''نبیل ''(یہ وہ شخص ہے جس سے وہ خاتون شادی کرنا چاہتی ہے)اب زیادہ دیر انتظار نہیں کرے گا ۔اس پر دوسری عورت اس سے کہتی ہے انتظار تو اسے کرنا پڑے گا کیونکہ طلاق کے بعد عورت کے بھی کچھ مہینے ہوتے ہیں ۔اس پر وہ عورت کہتی ہے کہ ''او بی بی بھاڑ میں گئی عدت ودت میں کسی بھی بندے کے لئے گھر بیٹھنے کو تیار نہیں''۔مفتیان ِ کرام سے گزارش ہے کہ اس ڈرامہ کے لکھنے والے ، بنانے والے ، اسے نشر کرنے والے اور دیکھنے والے کے لئے شرعی حکم کیا ہے ۔
                                    سائل : احسن بخاری،ڈیفنس ویو،کراچی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
  

  سائل دارالافتاء میں اس ڈرامے کی وڈیو لایا اور دارالافتاء میں موجود مفتیان کرام کوسوال میں مذکور احکام شرعیہ کی توہین پر مبنی حصہ سنایا اور سائل کے مطابق اس ڈرامہ کی مذکورہ قسط کئی مرتبہ نشر ہو چکی ہے لیکن احکام شرعیہ کی توہین پر مبنی مواد جوں کا توں موجود رہا۔
    احکام شرعیہ میں طلاق کے بعد عدت منصوص من اللہ حکم ہے ۔اگر عورت حیض والی ہو تو اس کی عدت طلاق کے بعد تین حیض ہے 

 چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے۔ ''وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوَئٍ''ترجمہ کنزالایمان :طلاق والیاںاپنی جانوں کوروکے رہیں تین حیض تک ''۔ [البقرۃ ،آیت: ٢٢٨]۔
    اور اگر عورت حمل سے ہو تو اس کی عدت وضع حمل یعنی بچہ پیدا ہونے تک ہے قرآن مجےد مےں ارشادربانی ہے:''وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَن یَضَعْنَ حَمْلَہُنّ''( الطلاق،آےت:٤)۔ترجمہئ کنزاالایمان :''حمل والےوں کی مےعاد (عدت)ےہ ہے کہ وہ اپنا بچہ جن لےں''۔
    اور اگر مطلقہ عورت بوڑھی ہوجس کوحیض نہ آتا ہو تو اس کی عدت تین ما ہ ہے۔ارشاد باری تعالی ہے ''وَاللَّائِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِن نِّسَائِکُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَۃُ أَشْہُرٍ وَاللَّائِیْ لَمْ یَحِضْنَ ''ترجمہئ کنزاالایمان :'' تمہاری عورتوں میں جنہیں حیض کی امید نہ رہی( بوڑھی ہوجانے کی وجہ سے کہ وہ سن ِ ایاس کو پہنچ گئی ہو ں)اگر تمہیں کچھ شک ہو(ان کا حکم کیا ہے )تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی جنہیں ابھی حیض نہ آیا ''۔[سورہ طلاق،آےت:٤]۔      قرآن کریم میں اللہ تعالی نے حضور علیہ السلام کے واسطے سے امت کو مخاطب فرمایاارشاد باری تعالی ہے: یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآء َ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّۃَ وَ اتَّقُوا اللہَ رَبَّکُمْ لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ بُیُوْتِہِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ''ترجمہ کنز الایمان ''اے نبی جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت پر انہیں طلاق دو، اور عدت کا شمار رکھو اور اپنے رب اللہ سے ڈرو، عدت میں انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ آپ نکلیں''۔[پارہ ،٢٨، آیت:١] ۔
    احکام القرآن میں ہے۔'' فیہ نہی عن اخراجہا ونہی لہا عن الخروج''یعنی'' اس آیت میں شوہروں کو اس سے منع کیا گیا کہ وہ دوران عدت اپنی بیویوں کو گھر سے نکالیںاور عورتوں کو بھی از خود گھر سے نکلنے کو منع کیا''۔ [احکام القرآن صفحہ جلد ٣صفحہ ٦٨٠بطبوعہ قدیمی کتب خانہ]۔

    الغرض مدخولہ عورت کو طلاق کے بعد عدت گزارنا فرض ہے جس کی تفصیل اوپر مذکور ہوئی اس شرعی حکم پر عمل فرض ہے اگر کوئی شیطانی دھوکہ میں آکر اس حکم کی خلاف ورزی کرے تو وہ سخت گنہگار اور مستحق عذاب نار ہے ۔لیکن کسی شرعی حکم کو یہ جان کر کہ یہ شریعت کا حکم ہے اس کا انکار کرنا یا اس کی توہین کرنا شریعت کا انکار وکفر ہے عدت کے بارے میں مذکورہ جملہ عدت کی صریح توہین ہے اور مذکورہ جملہ لکھنے والے، اس کو فلمانے والے ، اس پر اداکاری کرنے والے اوراس کو نشر کرنے والے سب توہین شریعت اور کفر کے مرتکب ہوئے ان پر لازم ہے کہ اس کفر سے توبہ اور تجدید ایمان اگر شادی شدہ تھے تو تجد ید نکاح بھی کریں۔ مذکورہ ڈرامہ دیکھنا حرام حرام حرام اشد حرام ہے۔
    اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے''وَلَئِن سَأَلْتَہُمْ لَیَقُولُنَّ إِنَّمَا کُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللّہِ وَآیَاتِہِ وَرَسُولِہِ کُنتُمْ تَسْتَہْزِئُونَ۔لاَ تَعْتَذِرُواْ قَدْ کَفَرْتُم بَعْدَ إِیْمَانِکُمْ إِن نَّعْفُ عَن طَآئِفَۃٍ مِّنکُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَۃً بِأَنَّہُمْ کَانُواْ مُجْرِمِیْنَ''ترجمہ کنزالایمان:'' اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے(یقیناً یہی بات مذکورہ چینل والے بھی کہیں گے ،ڈرامہ ہی تو تھا حقیقت تھوڑی تھی) تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو۔بہانے نہ بناؤ تم کافر ہو چکے مسلمان ہو کر اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کریں تو اوروں کو عذاب دیں گے اس لئے کہ وہ مجرم تھے ''۔[التوبہ،آیت:٥٦،٦٦]۔
    مجمع الانہر میں ہے''من اھان الشریعۃ او المسائل التی لابد منھا کفر''یعنی،''جس نے شریعت کی توہین کی یا مسائل ضروریہ شرعیہ(فرض یا واجب یا سنت) کی توہین کی تو یہ کفر ہے ''۔[مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابہر،الفاظ الکفر انواع]۔
    فتاوی التاتار خانیہ میں ہے''اذ انکر آیۃ من القرآن او سخربآیۃ من القرآن و فی الخزانۃ: او عاب فقد کفر''یعنی،''جب کوئی قرآن کی آیت کا انکار کرے یا قرآن کی آیت کا مذاق اڑائے اور خزانہ میں ہے یا آیت قرآنی میں عیب لگائے اس نے کفر کیا ''۔[فتاوی التاتار خانیہ ،کتاب احکام المرتدین،ج:٧،ص:٣١٥،مکتبہ فاروقیہ،کوئٹہ ]۔
    امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ایک سوال کہ'' ہم تم اہل اسلام پابند شریعت کے ہیں شرح محمد پرفیصلہ ہونا چاہیے خالد جو متروکہ زید پر قابض وجابر ہے صاف کہہ دیا کہ ہم کو شریعت نامنظور ہے بلکہ رواج منظور ،اب فرمائیے کہ عند الشریعت خالد کا کیا حکم ہے نکاح رہا یا فسخ ہو گیا''کے جواب میں فرماتے ہیں'' خالد پر حکمِ کفر ہے اور یہ کہ اس کا نکاح فسخ ہو گیا اس پر توبہ فرض ہے نئے سرے سے اسلام لائے ،اس کے بعد اگر عورت راضی ہو اس سے دوبارہ نکاح کرے۔

    عالمگیریہ میں ہے اذا قال الرجل لغیر حکم الشرع ھذہ الحادثۃ کذا فقال ذٰلک الغیر من برسم کارمی کنم نہ بشرع یکفر عند بعض المشائخ۔جب کسی نے دوسرے سے کہا اس معاملہ میں شریعت کا حکم یہ ہے وہ دوسرا جواباً کہتا ہے میں تو رسم کے مطابق کروں گا نہ کہ شرع کے مطابق ،تو بعض مشائخ کے نزدیک یہ کافر ہو جائے گا ۔
    اقول وصورۃ النازلۃ اشد من ھذا بکثیر فان ھذا اخبار عن عملہ والرجل ربما یعمل بالمعصیۃ وھولا یرضا ھا فیکون عاصیا لا کافرا لعدم الاستحسان والا ستحلال بخلاف ماثمہ فانہ صریح فی عدم قبول الشرع وترجیح الرسم علیہ فکان کالمسألۃ قبلھا رجل قال لخصمہ اذھب معی الی الشرع قال بیادہ ببار تا بردم بے جبر نروم یکفر لانہ عاند الشرع۔ میں کہتا ہوں صورتِ نازلہ ،مذکورہ صورت سے بہت زیادہ شدید ہے کیونکہ اس میں عمل کی اطلاع ہے اور آدمی بہت دفعہ معصیت (گناہ)کا عمل کرتا ہے مگر اسے گناہ تصور کرتا ہے اور دلی طور پر اس پر خوش نہیں ہوتا تو اب عاصی ٹھہرانہ کہ کافر ،کیونکہ اس نے اسے حلال تصور نہیں کیا بخلاف سوالیہ صورت کے یہاں قبولِ شرع کا انکار ہے اور رسم کو اس پر ترجیح دے رہا ہے یہ اس سے قبل والے مسئلے جیسا ہے کہ کسی نے اپنے مخالف سے کہا میرے ساتھ شریعت کی طرف چل ،تو وہ کہنے لگا پیغام ِ شریعت لادے تاکہ میں چلوں ،بغیر جبر کے میں نہیں جاؤں گا ،تو وہ کافر ہو جائے گا کیونکہ اس نے شریعت سے عناد رکھا ہے''۔[فتاوی رضویہ ،ج:١٤،ص:٦٩١،رضافاؤنڈیشن لاہور]۔
    خلاصہ کلام یہ ہے کہ طلاق کے بعد عدت گزارنے کاحکم اللہ تعالی کی طرف سے ہے طلاق کے بعد عدت کے احکام پر عمل نہ کرنا گناہ ہے عدت کے دوران دوسری جگہ نکاح نافذ نہیں ہوگا لیکن عدت کے حکم شرعی کو گالی دینا کہ ''بھاڑ میں گئی عدت ودت'' بالاتفاق وبالاجماع شرعی مسئلہ کی توہین اور کفر ہے یہ جملہ لکھنے والا، بولنے والا،فلمانے والا ،نشر کرنے والا سب کفر کے مرتکب ہوئے ان پر توبہ ، تجدید ایمان اور اگر شادی شدہ ہےں تو تجدید نکاح لازمی ہے ۔
    باقی رہا مسئلہ ڈرامے دیکھنے کا تو یہ ڈرامے معاشرے میں عریانی ،فحاشی، بے حیائی اور بے غیرتی کی تعلیم دے رہے ہیںان کا دیکھنا حرام حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اور جب یہی
TVچینل عریانی، فحاشی ،بے حیائی اور بے غیرتی کے ساتھ ساتھ احکام شرعیہ کو بھی تختہ مشق بنالیںاور لوگوں کو احکام شرعیہ کی توہین کرنے کی تعلیم دینا شروع کر دیں تو اس حرمت میں مزید شدت آجاتی ہے۔لہذا حکومت کو چاہیے کہ اس طرح کے TVچینل پر مستقل پابندی لگائے اور احکام شرعیہ کی توہین کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی ڈرامہ باز یا TVچینل اس طرح کی جرأت نہ کر سکے۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم