دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Sunday 10 May 2015

ہندو پاک میں رائج ومتعارف قرآن کریم کا رسم وضبط اور رسم عثمانی

دارالافتاء فیضان شریعت
جامع مسجد فیضان شریعت اقبال کالونی مارٹن روڈ تین ہٹی کراچی
E-mail:faizaneshariat@gmail.comفون نمبر:0300-2415263
تاریخ:2015-04-11                                                                       حوالہ:7879
محترم مفتی صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
دینی لحاظ سے ایک نہایت حساس اور اہم مسئلے کے بارے میں آپ کی رہنمائی مطلوب ہے ۔آپ اپنے متعلقہ شعبہ سے مشاورت کے بعد اپنے موقر ادارے کے باضابطہ موقف سے آگاہ فرمائیں۔
موضو ع : ہندو پاک میں رائج ومتعارف قرآن کریم کا رسم وضبط
واضح رہے کہ ہندو پاک میں قرآن کریم کا جورسم بطور عثمانی متعارف ہے، اس کا مرکزومحور  اِس فن کے امام ابو عمر والدانی (متوفی۴۴۴ھ)کی نصوص وترجیحات ہیں ،جبکہ عرب دنیا میں متعارف رسم ان کے شاگرد امام ابوداود بن نجاح رحمۃ اللہ علیہ کی ترجیحات کے مطابق ہے۔جبکہ نُقَط ،وقف اوراعراب(     َ   ِ  ُ    ٗ    ً      ّ     ۡ    ٓ  ) کے لیے وضع کردہ علامات اجتہادی ہیں، جن میں عرب وعجم کے علماء نے اپنی علاقائی ضروریات کو پیش نطر رکھا اور تاحال اسی پر عمل ہورہا ہے ۔اب ایک مخصوص طبعے نے آواز اٹھائی ہےکہ اس کو بدل کر عربوں میں رائج رسم وضبط کو ہندوپاک میں بھی رائج کرنا چاہیے ۔اس تناظر میں ہم آپ سے علمی رہنمائی چاہتے ہیں کہ :
۱۔ عام طور پر تاج کمپنی والا رسم وضبط جو ہندو پاک میں رائج ومتعارف ہے، وہ صحیح ہے یا غلط ؟۔
۲۔کیاہندو پاک میں عرب ممالک کے (علامات واعراب)کو رائج کرنا ضروری ہے ؟۔
۳۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسی تبدیلی امت میں ایک نئے اختلاف کو جنم دے گی؟۔
المستفتی :محمد حفیظ البرکات شاہ،ضیاء القرآن پبلی کیشنز ،لاہور
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
رسول اللہ ﷺ پر اللہ تبارک وتعالی نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کو تئیس سال کے عرصے میں تھوڑ اتھوڑا کر کے نازل فرمایا ۔رسول اللہ ﷺ
پرجوبھی وحی نازل ہوتی، آپ ﷺ صحابہ کرام علیھم الرضوان  کو اس کی تعلیم فرمایا کرتے اورجو صحابہ کرام لکھنا جانتے تھے،   ان کے ذریعے اس وحی ِالہی کو
تحریر  ی صورت میں بھی محفوظ کر لیا جاتا تھا،اور یہ سب کام حکم خداوندی کے مطابق انجام پاتاتھا۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:" لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ اِنَّ عَلَیۡنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰنَہٗ  فَاِذَا قَرَاۡنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ ۔ ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا بَیَانَہٗ ۔"
ترجمہ :"(قرآن کو یاد کرنے کے لئے )اپنی زبان کو جلدی حرکت نہ دیا کیجیئے،بے شک اس کا (آپ کے ذہن میں )محفوظ کرنا اور آپ کو اس کا پڑھانا ہماری ذمہ داری ہے۔جب ہم(یعنی جبرائیل امین) پڑھ چکیں تو آپ اُس پڑھے ہوئے کی اتباع کریں ،پھر اس(کے معانی)کا بیان (بھی)ہمارے ذمے ہے" ۔[القییٰمۃ،آیت: ۱۶ تا ۱۹]۔
صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین نے حفظ اور تحریر دونوں ذرائع سے قرآنِ کریم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا۔
رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعدجب ایک معرکہ میں کئی حفاظ صحابہ کرام شہید ہو گئے تو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورے پر خلیفہ اول حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ نےجمع قرآن  کے لئے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی سربراہی میں اکابر اور جلیل القدر صحابہ کرام کی ایک مجلس بنائی ،جس نے کڑی شرائط کے تحت جمع قرآن کا فريضہ انجام دیا ،اس مرتّب ومدوّن  مصحف مقدس کو "مصحف ِ صدیقی"  کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کی اساس اس عہد کے قراء قرآن کی یاد داشت اور صحابہ کرام کے پا س متفرق طورپر مکتوب آیا ت وسُوَر ِ قرآنی تھیں۔ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کے جمع کردہ قرآنِ کریم کی صحت پر تمام صحابہ کرام  وامت مسلمہ کا اجماع واتفاق ہے ۔
          پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نےاپنے دور خلافت میں شاذ اور غیر متواتر قراء ات کے فتنے سے امت کو بچانے کے لئے   مہاجرین و انصار میں سے اکابر قراء صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کی سرپرستی  میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے اسی مصحف میں سے قرآنِ کریم کے متعددمصاحف نقل کروائے۔یہ وہ قراء صحابہ کرام تھے جنہوں نے ذات رسالت مآب ﷺ سے براہ راست قرآن کریم کو سنا اور پڑھا اور جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خصوصی مجلس ِ جمع قرآن میں شامل رہے تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے پوری امت کو انہی مصاحف پر جمع فرمایااور تمام شاذ اور غیر متواتر قراءات پر پابندی لگا دی ۔ بعض صحابہ کرام علیھم الرضوان ،جنہوں نے اپنے ذاتی مصاحف میں کچھ ایسی باتیں بھی تحریر کر رکھیں تھی جو رسول اللہ ﷺ نے بطور تفسیر بیان فرمائیں تھیں،آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان تمام پربھی پابندی عائد کردی تاکہ ناواقف ان تفسیری باتوں کو قرآن کا حصہ نہ سمجھ لیں ۔
چنانچہ قرآنِ کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حفظ و کتابت دونوں طرح بذریعہ تواتر ہم تک پہنچا ہے۔ پھر لاکھوں لوگوں نے  کسی ادنیٰٰ کمی و بیشی اور تغیُّر و تبدُّل کے بغیر اسے لاکھوں لوگوں کی طرف آگے نقل کیا اور یقیناً روزِ قیامت تک  یہ بذریعہ تواتر ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہے گا۔
اس وقت روئے زمین پروحی الہٰی میں سے  قرآنِ کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو اَب تک اُسی طرح محفوظ ہے، جس طرح اس کا نزول ہوا تھا، کیونکہ اسے قیامت تک  تمام انسانیت کے لئے ہدایت کا چراغ اور پوری نوعِ انسانی کے لئے حجت بننا تھا۔ چنانچہ حفاظت ِقرآن کے اس ربانی وعدہ نے پوری دنیا پر یہ مہر تصدیق ثبت کردی ہے:
" اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ "
ترجمہ:بیشک ہم ہی نے یہ قرآن نازل کیا اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں"۔[الحجر،آیت:۹]۔
 صحابہ کرام سے لیکر آج تک سوائے چند افراد کے پوری امت اس بات پر متفق ہے کہ قرآن پاک کی کتابت اسی طرز تحریر میں ہونا ضروری ہے، جس کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کی تائید اور اتفاق کے ساتھ اختیار فرمایا اور اسی طرز تحریر میں صحابہ کرام علیھم الرضوان نے رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کی روشنی میں آپ کی حیات طیبہ میں قرآن پاک کو تحریر کیا ۔اس طرز تحریر کو رسم عثمانی کہا جاتا ہے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے جو مصاحف تحریر کیے تھے ان کی تعداد اکثر علماء کے نزدیک  چھ بیان کی جاتی ہے ۔ان مصاحف میں الفاظ کے لکھنے میں بعض جگہ پر اختلاف بھی تھا مثلاً : یلتقیان الف کے ساتھ اور یلتقیٰن الف کے بغیر دونوں طرح لکھا جاسکتا ہے اگرچہ قراءت  اور معنی میں دونوں ایک ہی ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی فرق صرف رسم میں ہوگا۔اُن مصاحف میں دونوں طرز تحریر کو اختیار کیا گیا ہے تاکہ یہ دونوں طریقے محفوظ ہو جائیں۔ بعض مصاحف میں تثنیہ کے الفاظ الف کے ساتھ اور بعض میں بغیر الف کے تحریر کیے گئے اسی طرح  بعض دیگر الفاظ کے رسم اور طرز تحریرمیں فرق تھا۔
 ہر وہ مُصحف رسم عثمانی کے مطابق قرار پائے گا، جس کے الفاظ کی تحریر کا انداز اُن مصاحف میں سے کسی ایک کے مطابق ہو ۔اسی لئے ہر دور کے علماء کرام اپنی سہولت ،آسانی اور اس علاقے میں رائج مصحف عثمانی سے مطابقت رکھنے والے طرز تحریر میں قرآن پاک کی کتابت کرتے رہے اور کبھی کسی عالم نے رسم عثمانی سے مطابقت کرنے والے طرز تحریر کو غلط نہیں کہا ۔
قرآن مجید کی طرز تحریر کے بارے میں دو علماء کرام کی تحقیقات بہت مشہور ہیں۔ ان میں ایک امام ابو عمرو الدانی متوفّٰی۴۴۴ھ اور دوسرے اُن کے شاگرد ابو داؤد بن نجاح متوفّٰی ۴۹۶ھ ہیں ۔امام ابو عمر الدانی نے اپنی مشہور کتاب" المُقنِّع فی معرفۃِ مرسومِ مَصاحفِ اھلِ الاَمصار"میں رسم عثمانی کے مطابق قرآنی کلمات کے طرز تحریر کو ضبط کیا ہے اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے مَصاحِف میں کلمات کے طرز تحریر میں جوبعض جگہ پر اختلافات تھے ،ان کو بھی بیان کیا ہے اور ان اختلافی جگہوں میں ان کے نزدیک جو زیادہ پسندیدہ صورت تھی، اس کو بھی بیان کیا ہے۔ان کے شاگرد امام ابو داؤد بن نجاح نے اپنی کتاب "مُختَصرُ التَّبیِین لِھجاءِالتَّنزیل "میں بعض جگہوں پر اپنے استاد کے مختار قول سے اختلاف کیا ہے اور دوسرے قول کو اپنا پسندیدہ قرار دیا ،مثلاً :تثنیہ کے تمام کلمات ،چاہے وہ اَفعال میں سے ہوں یا اَسماء میں سے ،ان کو کلمے کے وسط میں واقع الف کے بغیر لکھتے ہیں الا یہ کہ وہ کلمے کے آخر میں واقع ہو۔جبکہ امام ابود اؤدبن نجاح تثنیہ کے تمام کلمات میں  الف کے اثبات کے  راوی اور قائل ہیں،اس کی مثال افعال میں"تکذبان"اور"تجریان"کا الف ہے ،اور اَسماء میں"طائفتان"اور "الجمعان"کا الف ہے۔تثنیہ کا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آرہا ہو،تو تحریر میں  اس  کے اثبات پر سب کا اتفاق ہے،جیسےلفظ"قالا"کا الف بالاتفاق ثابت ہے ،کیونکہ وہ کلمے کے آخر میں ہےوسط میں نہیں ہے ۔اسی طرح امام إبراهيم بن موسى بن محمد اللخمي الغرناطي الشهير بالشاطبي(المتوفّٰى: ۷۹۰)نے امام دانی کی کتاب "المقنع "کو اپنی نظم "عقیلۃُ اَتراب القصائد "میں بطور اشعار تحریر کیا ہے اوربعض الفاظ میں انہوں نےبھی امام دانی کے برخلاف دوسرے طرز تحریر کو اپنا پسندیدہ قرار دیا ہے ۔
 اختلافی کلمات جن کا طرز تحریر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے مصاحف میں مختلف فیہ صرف چند سو ہیں ۔عالم اسلام میں ان کلمات کو تحریر کرنے کے طرز میں تین طرح کے مصحف عام طورپر پائے جاتے ہیں۔
(۱)مصر،سعودی عرب ،شام ،عراق اور دیگر عربی ممالک میں اِن اختلافی کلمات کے تحریر کرنے میں اکثر طور پر امام ابوداؤد بن نجاح کی ترجیحات پر عمل کیا جاتاہے ۔
(۲) مغربی ممالک مراکش ،الجزائر ،تیونس وغیرہ میں روایت قالون اور روایت وَرش میں قرآن پاک تحریر کیے جاتے ہیں اور اختلافی کلمات میں عرب
ممالک کی طرح اکثر وبیشتر امام ابوداؤد بن نجاح کی ترجیحات ہی پر عمل کیاجاتا ہے، سوائے چند کلمات کے جہاں امام ابوداؤد نے اپنی کتاب میں سکوت اختیار کیا
ہے یہ ممالک امام ابوالحسن البلنسی متوفّٰی۵۶۷ھ کی ترجیحات کو اختیار کرتے ہیں۔
(۳)برصغیر پاک وہند میں مروَّجہ مَصاحف بالکل درست اور رسم  عثمانی کے مطابق ہیں، کیونکہ ان کا رسم الخط امام ابو عمرو دانی کی تحقیق اور مختار قول کے مطابق ہے اور بعض الفاظ میں امام شاطبى کے مختار قول کو بھی اختیار کیا گیا ہے۔مثلاً:سورہ شوری ٰ 220میں "روضات الجنات"کے دونوں لفظ  جمع مؤنَث سالم کے صیغے ہیں ،اورجمع مؤنث سالم کے قاعدے کی رو سے ان دونوں میں الف محذوف ہونا چاہیے، مگر چونکہ امام ابو عمرو دانی اور امام ابوداؤدبن نجاح نے ان دونوں الفاظ کو عام قاعدے سے مستثنیٰ کرتے ہوئے ان میں اثبات ِالف نقل کیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ عرب ممالک میں چھپنے والے تمام مصاحف میں مذکورہ دونوں الفاظ میں اثبات ِ الف ہی کو اختیار کیا گیا ہے ،لیکن  امامشاطبى نے اپنی کتاب "العقیلۃ "میں ان دونوں الفاظ کو عام قاعدے سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ان کے نزدیک ان دونوں الفاظ کا الف بھی دیگر جمع مونث سالم کےالفاظ کی مانند محذوف ہی رہے گا ۔ برصغیر کے تمام مصاحف میں ان دونوں الفاظ میں امام شاطبى کے قول  کو اختیار کرتے ہوئےالف کومحذوف کرکے دونوں پر کھڑی زبر ڈالی گئی  ہے۔
اسلامی ممالک میں چھپنے والے تمام مصاحف صحیح اور درست ہیں کیونکہ ان میں سےہر ایک مصحف کا رسم اور طرز تحریر مَصاحف عثمانی میں موجود رسم سے مطابقت رکھتا ہے،ان میں سےکسی بھی مصحف کے انداز تحریریا رسم کو غلط کہنا پرلے درجے کی جہالت اور مسلمانو ں کو فتنے میں ڈالنا ہے۔ہر خطے کے لو گ اپنے یہاں مروج مصاحف کے طرز تحریر ہی  سےمانوس ہوتے ہیں اور ان کے لئے ان مصاحف  ہی سے قرا ءت کرنا آسان ہوتا ہے،اس لئے ہر خطے کے ارباب اقتدار پر لازم ہے کہ ان کے یہاں جو مصاحف کا طرز تحریر رائج ہے، اسی کےمطابق قرآن پاک کی اشاعت  کا اہتمام کریں، ورنہ  بے علم لوگ  اس طرح کےاختلافات کے سامنے آنے سے پریشان ہو کر کسی شیطانی وسوسے کا شکار ہو سکتے ہیں ان کی رعایت کرنا اور لوگوں کو فتنے سے بچانا لازم ہے۔
اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشادفرماتا ہے: "وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ"
ترجمہ:"فتنہ (اپنے مابعد نتائج کے اعتبار سے)قتل  سے بھی سخت ہے "[البقرۃ ،آیت:۱۹۱]۔
علامہ جلال الدین السیوطی رحمۃ اللہ علیہ" الجامع الصغیر "میں حدیث پاک لکھتے ہیں:
"الفِتۡنَۃُ نائِمۃٌ لعنَ اللہُ مَن اَیقَظَھا۔" (الرافعی عن انس (ض)۔
ترجمہ:فتنہ سو رہا ہے، جو اس کو جگائے  اس پراللہ کی لعنت ہو"۔[الجامع الصغیر،رقم الحدیث:5979]۔
یہ حدیث اگرچہ سنداً ضعیف ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے صحیح ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: «يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا»
ترجمہ : (دین میں)آسانی پیدا کرو اور دشواری پیدا نہ کرو اور(دین کے بارے میں) خوش خبری سناؤ اور(لوگوں کو دین سے)متنفر نہ کرو"
[ صحيح البخاري :رقم الحدیث:69
مقاصد شریعت میں سد ذرائع بھی ہے، یعنی امکانی طور پردر آنے والی خرابیوں کا راستہ روکنا ۔رسول پاک ﷺ نے بھی اسی دینی حکمت کے تحت اپنے بعض پسندیدہ امور کو ترک فرمایا ہے۔مثال کے طور پر آپ ﷺ کی خواہش تھی کہ بنائے قریش پر بنی ہوئی کعبۃ اللہ کی عمارت کو شہید کر دیں اور پھر اس میں حطیم کو شامل کر کے بنائے ابراہیم پر تعمیر کریں ،اسلام کو حجاز میں غلبہ حاصل ہو چکا تھا اور آپ کے پاس مالی وسائل بھی تھے ،لیکن آپ ﷺ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے فرمایا:
«لَوْلَا حَدَاثَةُ عَهْدِ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، وَلَجَعَلْتُهَا عَلَى أَسَاسِ إِبْرَاهِيمَ، فَإِنَّ قُرَيْشًا حِينَ بَنَتِ الْبَيْتَ
اسْتَقْصَرَتْ، وَلَجَعَلْتُ لَهَا خَلْفًا»
ترجمہ:اگر تمہاری قوم نے نیا نیا کفر نہ چھوڑاہوتا تو میں بیت اللہ کی عمارت کو منہدم کر دیتا اور اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قائم کی ہوئی بنیادوں پر قائم کرتا ،کیونکہ جب قریش نے اس کو بنایا تھا تو (وسائل کی کمی کے سبب ایک جانب سے)اُس کو چھوٹا کر دیا تھا اور میں اس کی پچھلی جانب بھی ایک دروازہ
بناتا۔[صحیح مسلم ، رقم الحدیث:1333]۔
برصغیر پاک وہند کے عظیم فقیہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:" پس ان امور میں ضابطہء کلیّہ واجبۃ ُالحفظ (یعنی ایسا ضابطہ وقانون ِ شرعی جسے لازماً یاد رکھنا چاہے) کہ فعلِ فرائض وترک ِمحُرَّمات (یعنی فرائض کو ادا کرنےاور حرام کا موں کے چھوڑنے)کو ارضائے خلق (لوگوں کی خوشنودی)پر مقدَّم رکھے اور ان اُمور میں کسی کی مُطلقاً پروانہ کرے اور اِتیانِ مستحب(مستحب کو ادا کرنے) وترک ِغیر اَولٰی(غیر افضل کاموں کو چھوڑنے) پر مُداراتِ خَلق ومُراعات ِقلوب (مخلوق کی دلداری)کو اہم جانے اور فتنہ ونفرت وایذا ووحشت کا باعث ہونے سے بہت بچے۔ اسی طرح جو عادات ورسوم خَلق میں جاری ہوں اور شرع ِمُطہَّر سے اُن کی حُرمت وشَناعت  ثابت نہ ہو، اُن میں اپنے تَرفُّع(بڑائی) وتنُّزہ(دعوائے پارسائی) کے لئے خلاف وجُدائی نہ کرے کہ یہ سب امور ایِتلاف وموانَست (لوگوں کے دلوں کو جوڑنے اور دین کی طرف مائل کرنے)کے مُعارِض (خلاف)اور مُراد ومحبوب شارع کے منُاقِض (خلاف)ہیں، ہاں ہاں! ہوشیار وگوش دار (کان لگا کرسن)کہ یہ وہ نکتہ جمیلہ وحکمتِ جلیلہ (عظیم حکمت)وکُوچہ سلامت وجادَہ کرامت ہے، جس سے بہت زاہدانِ خشک واہلِ تکشُّف غافل وجاہل ہوتے ہیں وہ اپنے زَعم میں ُمحتاط ودین پرور بنتے ہیں اور فی الواقع مغزِحکمت ومقصودِ شریعت سے دور پڑتے ہیں خبردار ومحکم گیر(یعنی اس مشورے کو مضبوطی سے تھام لے) یہ چند سطروں میں علمِ غزیر(وافر علم) وباللّٰہِ التوفیق والیہِ المصیر (یہ سب اللہ تعالٰی کی توفیق سے ہے ،اور اسی کی طرف رجوع کرنا ہے
[فتاوی رضویہ ،ج:۴،ص: ۵۲۸،رضافاؤنڈیشن لاہور
جہاں تک قرآن پاک کے الفاظ پر اِعراب کی بات ہے ،تو مصحف عثمانی میں الفاظ پر اعراب نہیں لگائے گئے تھے ۔بعد میں جب اسلام غیر عربی اقوام تک پہنچا اور ان کو قرآن پاک کی صحیح قراء ت میں دشواری پیش آنے لگی تو حجاج بن یوسف کے حکم پر قرآن پاک کے الفاظ پر اعراب لگائے گئے ۔ابتداء میں اس کے لئے نقطوں کا سہارا لیا گیا لیکن بعد میں آج کل مروَّجہ اعراب یعنی زبر کے لئے لفظ کے اوپر اور زیر کے لئے لفظ کے نیچے ایک ترچھی لکیر لگائی گئی علٰی ھٰذا القیاس ۔الفاظ پر اعراب لگانے کو ضبط وشکل  کہتے ہیں،آج کل  اعراب کو تحریر کرنے کا اندازعرب ممالک میں برصغیر پاک وہند میں مروَّج مصاحف سے کچھ مختلف ہے،مثلاً :ہمارے یہاں  رائج مصاحف میں جس حرف پر کھڑی زبر ہو، اس کے ساتھ کوئی اور حرکت نہیں لگائی جاتی ،جیسے لفظ: مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِ۔جبکہ عرب ممالک میں کھڑی زبر کے ساتھ فتح کی حرکت بھی لگائی جاتی ہے، یعنی یوں لکھا جاتا ہے:مَٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِ۔اعراب کا مقصد قرآن پاک کو صحیح اور درست پڑھنا ہے اس لئے ہر خطے میں رائج ضبط وشکل کے انداز سے اس خطے کے مسلمانوں کے لئے قرآن پاک کو درست پڑھنا نسبتاً     آسان ہوتا ہے، اس لئے عوام میں رائج انداز پرہی  قرآن پاک پر اعراب لگانے چاہیں کیونکہ غیر مانوس اور اجنبی انداز سے لوگ درست قرآن پڑھنے سے محروم ہو جائیں گے ۔جو لوگ حرمین طیبین گئے ہیں، انہوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ برصغیر پاک وہند کے لوگ مسجد حرام اور مسجد نبوی شریف میں نیلی جلد والے قرآن پاک کی تلاش میں رہتے ہیں، کیونکہ سبز جلد والے قرآن پاک  میں عربی انداز میں اعراب لگے ہوتے ہیں اور ان کو اس قرآن پاک سے تلاوت کرنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے، جبکہ نیلی جلد والے قرآن پاک سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے پاک وہندکے حاجیوں کی آسانی کے لئے انہی کے انداز پر چھپوائے جاتے ہیں ،اس لئے اس خطے کے لوگ اُن سے بآسانی تلاوت کر لیتے ہیں ۔جب سعودی عرب نے بھی پاک  وہند کے لوگوں کی رعایت کی ہے، تو ہمارے یہاں کے ارباب اقتدار کو اپنی رعایا کی سہولت کا ان سے بھی بڑھ کراحساس ہونا چاہیے اور لوگوں کی آسانی کے لئے مروجہ انداز میں ضبط وشکل والے مصاحف کی نشرواشاعت کی اجازت دینی چاہیے اور اس کے علاوہ مصاحف کی نشرواشاعت پر پابندی عائد کر دینی چاہیے ۔
قرآن پاک میں آیات کے درمیان وقف اور وصل کی علامات بھی لگائی جاتی ہیں، مصحف عثمانی اس سے بھی خالی تھا۔ کیونکہ عربی زبان سے واقف شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ کلام کی انتہاکہاں ہو رہی ہے کہ وہاں رک جائیں اور کس مقام پرکلام ابھی جاری ہے  تاکہ وہاں نہ رکیں۔غیر عربی اقوام کی آسانی کے لئے قرآن پاک کی آیات کے درمیان وقف ووصل کی علامات علماء کے اتفاق اور اجتہاد سے لگائی گئی ہیں ۔بعض جگہ پر وقف اور وصل کے اعتبار سے علماء میں اختلاف بھی ہو جاتا ہے،چنانچہ  برصغیر پاک وہند اور عالم عرب میں رائج مصاحف کے مابین ان علامتوں میں اختلاف  کایہی سبب  ہے ۔اس بارے میں علمِ قراء  ت کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ،جو پاک وہند میں چھپنے والے قرآن پاک میں تحریر کردہ وصل اور وقف کی علامات پر نظر ثانی کریں اور تمام مصاحف میں ایک ہی طرح کی علامات تحریر کی جائیں تاکہ عوام صحیح طورپر قرآن پاک پڑھ سکیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ برصغیر پاک وہند میں مروج رسم اور ضبط والے قرآن پاک بالکل درست ہیں اور حکومت پر لازم ہے کہ قرآن کی خدمت کے نام پر کوئی نیا فتنہ کھڑا کرنے کی بجائےقرآن کےرسم الخط اور طباعت کے حوالے سےصدیوں سے رائج ،نافذ العمل اور قبول عام شِعار کواختیار کرے ۔سعودی عرب نے" مجمع الفہد لطباعۃ المصحف الشریف "کے لئے اپنے ثقہ علماء اور مستند قراء کرام کا باقاعدہ ایک بورڈ قائم کیا اور ان کی نگرانی میں برصغیر پاک وہند ،بنگلہ دیش ،ملحق ممالک اور اکثر غیر عربی ممالک کے لئے ان خطوں میں جاری شِعارکے مطابق قرآن کریم طبع کیے ،حجاج ،مُعتَمرین میں تقسیم کیے اور آج بھی حرمین طیبین میں ان کی تلاوت کے لئے دستیاب ہیں،لہذا اسی انداز میں قرآن پاک کی نشرواشاعت  کومملکت پاکستان قانونی قرار دے اور اس کے علاوہ دیگر رسم وضبط والے قرآن پاک کی اشاعت کو ممنوع قرار دے ۔واللہ تعالی اعلم
  الجواب صحيح                                  کتبــــه

 مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن                                      ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اختر المدنی

11اپریل،2015،۲۱جمادی الاخری۱۴۳۶ھ                            11اپریل،2015،۲۱جمادی الاخری۱۴۳۶ھ 

Monday 4 May 2015

مسٹر غامدی اورداڑھی کا وجوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخری قسط

مسٹر غامدی اورداڑھی کا وجوب
مسٹرغامدی کے دین ’’غامدیت‘‘کی رو سے داڑھی ضروری نہیں ہے ۔
مسٹر غامدی سے ایک سوال پوچھا گیا کہ ’’ میں نے کچھ عرصہ پہلے داڑھی رکھی مگر میری امی اور سب گھر والوں کو پسند نہ آئی کیونکہ بال 
ٹھیک طرح سے نہ آئے تھے ۔اب امی بار بار مجھے داڑھی کٹوانے کا کہتی ہیں ،کیا میں اسے کٹوا سکتا ہوں؟‘‘
مسٹر غامدی کی ویب سائٹ پر جواب دیا گیا ’’ عام طور پر اہل علم داڑھی رکھنا دینی لحاظ سے ضروری قراردیتے ہیں ،تاہم ہمارے نزدیک داڑھی رکھنے کا حکم دین میں کہیں بیان نہیں ہوا ،لہذا دین کی رو سے داڑھی رکھنا ضروری نہیں ہے‘‘۔
[www.urdu.understanding,islam.org]۔
مسٹر غامدی نے پہلے تو سنت کی من مانی تعریف کی اورسنت کو دین ابراہیمی کی روایات قرار دیا اور پھر سنت میں وہ چیزیں گنوائیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے فطرت میں سے قرار دیاتھا ۔لیکن کیونکہ مسٹر غامدی کے دین کا منبع اور ماوی مغرب ہے اور اہل مغرب آج کل داڑھی مونچھ دونوں سے صاف ہیں 
اس لئے مسٹر غامدی مغرب کی مخالفت کس طرح کر سکتے تھے لہذا انہوں نے فطرت کی وہ چیزیں تو لے لیں جن پر اہل مغرب کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا تھا جیسے مونچھیں تراشنا بدن کے فاضل بال دور کرنا ،ناخن کاٹنا وغیرہ لیکن حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک ہر نبی نے جس چیز (داڑھی)کو اختیار اور پسندکیااس کو مسٹر غامدی شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کر گئے ۔اور ان کی شیطانی طبیعت جوش پر آئی تو داڑھی کا دین سے ہونے کا ہی انکار کر دیا اور بیسیوں احادیث جن میں داڑھی رکھنے کا حکم دیا اور داڑھی نہ رکھنے والوں پر شدید تھدید فرمائی ان سب کو دین سے ہی خارج قرار دے دیا ۔
کثیر صحیح احادیث میں حضور نبی کریم ﷺ کا داڑھی رکھنے کا واضح فرمان موجود ہے اسی وجہ سے علماء اسلام نے داڑھی کو واجب قرار دیا ہے ۔
صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں’’عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ ،الحدیث‘‘
ترجمہ:’’دس چیزیں فطرت میں سے ہیں ۔ مونچھیں کم کرانااورداڑھی( حدشرع تک) چھوڑدینا‘‘الحدیث۔[صحیح مسلم،حدیث :۵۶،سنن ابو داؤد،حدیث: ۵۳،سنن ترمذی ،حدیث:۲۷۵۷]۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’معناہ انہا من سنن الانبیاء‘‘
ترجمہ: اس کامعنی یہ ہے کہ دس چیزیں انبیاء کی سنتوں میں سے ہیں۔[شرح صحیح مسلم، ج: ۱، ص:۱۲۹،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔
صحیح بخاری میں ہے :حضور ﷺارشادفرماتے ہیں’’خالفواالمشرکین واوفوااللحیٰ واعفوا الشوارب‘‘
ترجمہ: مشرکین کی مخالفت کرو اورداڑھیاں پوری رکھو اورمونچھیں کم کردو‘‘۔[ صحیح بخاری ،حدیث: ۵۸۹۲،صحیح مسلم،حدیث:۵۳]۔
صحیح مسلم میں ہے’’عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جزوا الشوارب وارخوا اللحیٰ خالفوا المجوس۔
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مونچھیں کٹواؤ، داڑھیاں بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔[صحیح مسلم ،ج: ۱، ص: ۲۲۲،مطبوعہ دارالحیاء بیروت]۔
امام ابن حجر عسقلانی اس کی شرح میں فرماتے ہیں :’’فی حدیث ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ عند مسلم خالفوالمجوس وھوالمراد فی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما فانہم کانوا یقصون لحاہم ومنہم من کان یحلقہا‘‘۔
ترجمہ : امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے جو روایت نقل فرمائی ہے اس میں خالفوالمشرکین کی بجائے خالفوالمجوس کے الفاظ ہیں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں بھی یہی مراد ہے کیونکہ مجوسیوں کی عادت تھی کہ وہ اپنی داڑھیاں کاٹتے تھے اور ان میں سے بعض لوگ اپنی داڑھیوں کو مونڈتے تھے ‘‘۔[فتح الباری ج۱۰، ص۳۴۹،مطبوعہ دارالمعرفۃ،بیروت]۔
نیز امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فحصل خمس روایات، اعفوا، واوفوا، وارخوا، وارجو، ووفروا ومعناہا کلہا ترکہا علی حالھا ہذا ھوالظاہرمن الحدیث الذی یقتضیہ الفاظہ و ھوالذی قالہ جماعۃ من اصحابنا وغیرہم من العلماء ۔
ترجمہ:احادیث میں داڑھی بڑھانے کے متعلق پانچ قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں ۔
(۱) اعفوا۔ داڑھیاں چھوڑ و
(۲) واوفوا۔ داڑھیوں پوری رکھو
(۳) وارخوا۔ ڈاڑھیاں بڑھاؤ
(۴) وارجو ۔ داڑھیاں چھوڑ ے رکھو
(۵) وفروا۔ داڑھیاں بڑھاؤ
ان تمام الفاظ کے معنی داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑ دیناہے اوریہی ان احادیث کے الفاظ کا ظاہر ہے اور یہی وہ معنی ہیں جن کو ہمارے اصحاب اوردیگر علماء نے بیان کیا ہے‘‘۔[شرح صحیح مسلم، ج: ۱، ص:۱۲۹،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔
البدایۃ والنھایۃ میں ہے’’عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعث بکتابہ مع رجل الیٰ کسریٰ 133133ودخلا علیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد حلقا لحاھما و اعفیا شواربھما فکرہ النظر الیہما وقال ویلکما من امرکما بہذا؟ قالا امرنا ربنا یعنیان کسریٰ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولکن ربی امرنی باعفاء لحیتی وقص شاربی‘‘۔
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک قاصد کو شاہ ایران کی طرف اسلام کا پیغام دے کر بھیجا133133133133133 شاہ ایران کے دو قاصدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی داڑھیاں منڈی ہوئی اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف نظر کرنا بھی پسند نہ کیا اور فرمایا تمہاری ہلاکت ہو تمہیں ایسی شکل بنانے کا حکم کس نے دیاہے ؟ وہ بولے یہ ہمارے رب یعنی شاہ ایران کا حکم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میرے رب نے تو مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم فرمایاہے‘‘ ۔[البدایۃ والنہایۃ: ج۴ ص۳۰۷،مطبوعہ دارالحیاء بیروت]۔
رسول اللہ ﷺ تو داڑھی رکھنے کا حکم رب تعالی کی طرف منسوب فرمائیں لیکن مسٹر غامدی کا دین تو مغرب سے درآمدشدہ ہے اس لئے ان کے نزدیک داڑھی کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
داڑھی کے بارے میں احادیث پاک میں وارد ہونے الفاظ امر کے صیغے ہیں اگرداڑھی رکھنا محض عادتاً تھا اور دین کا حکم نہیں تھا تو امت کورسول اللہ ﷺ نے اتنی تاکید کے ساتھ یہ حکم کیوں ارشاد فرمایا؟۔اور وہ افراد جوابھی مسلمان بھی نہیں ہوئے اور غیر مسلم بادشاہ کی طرف سے سفیر بن کر آئے تھے ان پر رسول اللہ ﷺشدید اظہار کراہیت فرمایا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسٹرغامدی کے نظریات اور اس کے دین(غامدیت) کا اسلامی شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔وہ اپنے ذاتی نظریات کو اورمغربی سامراجی ایجنڈے کو اسلام کے نام پر پیش کر کے مسلمانوں کو دھوکہ دے رہا ہے ۔ ایسے نظریات کا حامل شخص بدترین مخلوق معتزلہ ،خوارج ،منکر حدیث ،قرآن میں معنوی تحریف کرنے والا،قرآن کی تفسیر بالرائے کرنا والا،خواہش پرست ،گمراہ بددین ،مسلمانوں کے لئے آستین کا سانپ ہے مسلمانوں پر لازم ہے کہ مسٹر غامدی اور اس کے نظریات کو ماننے والے لوگوں کا سماجی بائیکاٹ کریں اور اس کے نظریات پر مبنی کتابوں اور لٹریچر سے کوسوں دور رہیں اور اس کے کسی بھی قسم کے پروگرام کو ہرگزنہ سنیں۔اور ٹی وی مالکان اور ان کی انتظامیہ پر لازم ہے کہ ایسے گمراہ نظریات رکھنے والے شخص کو اپنے ٹی وی چینل پر ہرگز موقعہ نہ دیں اور مغربی سامراج کے ایجنڈے کا ساتھی بننے کے بجائے اسلام اور پاکستان کا ساتھ دیں ۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے :
’’وَإِمَّا یُنسِیَنَّکَ الشَّیْْطَانُ فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرَی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ‘‘
ترجمہ کنز الایمان :’’ جو کہیں تجھے شیطان بھلادے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ ‘‘۔[الانعام،آیت ۶۸]۔
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے :
’’ وَلاَ تَرْکَنُواْ إِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ‘‘
ترجمہ کنز الایمان :’’ ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آگ چھوئے گی ‘‘۔[ھود ،آیت :۱۱۳]۔
سنن ابن ماجہ میں ہے: ’’ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا ’’ان مرضوا فلا تعود و ھم وان ماتو ا فلا تشھد وھم وان لقیتموھم فلا تسلموا علیھم‘‘۔
ترجمہ:’’بد مذہب اگر بیمار پڑجائیں تو پوچھنے مت جاؤ اور اگر وہ مرجائیں توان کے جنازے میں حاضر نہ ہو اور جب ان سے ملو تو سلام نہ کرو‘‘ ۔[سنن ابن ماجہ،ج:۱،ص:۶۹،مطبوعہ دار احیاء الکتب العربیہ ،بیروت]۔
صحیح مسلم کی حد یث پاک میں ہے ’’ایاکم وایاھم لا یضلونکم ولایفتنو نکم ‘‘ یعنی ،’’گمراہوں سے دور بھا گو انھیں اپنے سے دور کرو کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں کہیں وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں ‘‘۔[صحیح مسلم،ج:۱،ص:۱۲،داراحیاء بیروت] ۔
سنن دارمی میں ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ لاتجلسوا اھل الاھواء ولا تجادلوا ھم فانی لا اٰمن ان یغمسوا فی ضلالتھم او یلبسوا علیکم ماکنتم تعرفون ‘‘
ترجمہ:’’ خواہش نفس کے پیچھے چلنے والوں کے پاس نہ بیٹھو نہ ان سے بحث کرو کیونکہ مجھے یہ خد شہ ہے کہ وہ اپنی گمراہی میں تم کو مبتلاء کردیں گے یا تمہارے عقائد کو تم پر مشتبہ کر دیں گے ‘‘۔[سنن دارمی،ج:۱،ص:۳۸۷،دارالمغنی ،مطبوعہ مکۃ المکرمہ]۔
مسلمانوں پر لازم ہے ایسے گمراہ ،مغرب زدہ اور خواہش نفس پر چلنے والے شخص کے نظریات پر توجہ نہ دیں۔ بلکہ صحابہ کرام وتابعین عظام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین اورمجتہدینِ اسلام و فقہاءِ کرام اور علماء وبزرگان دین کی تعلیمات اور نظریات پر یقین رکھیں اوراسی کو اپنے لئے راہ نجات سمجھیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:’’وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّی یَأْتِیَکَ الْیَقِیْنُ‘‘ترجمہ کنزالایمان:مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں رہو‘‘۔[الحجر،۹۹]۔واللہ تعالی اعلم


مسٹر غامدی کے نظریات کا رد غلام مرتضیٰ مظہر ی نے ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اختر المدنی کی رہنمائی میں لکھا ۔

امام مہدی ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مسٹر غامدی کے تصورات۔۔۔۔قسط:10

امام مہدی ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مسٹر غامدی کے تصورات
مسٹر غامدی نے اپنی کتب میں ظہور امام مہدی اورحضرت عیسٰی علیہ السلام کی دوبارہ آمدکا اپنے من گھڑت اور خودساختہ اصول کی بنیاد پر انکار کیا ہے۔
مسٹر غامدی اپنی کتاب میزان میں لکھتے ہیں’’ ظہور مہدی اور مسیح علیہ السلام کے آسمان سے نزول کو بھی قیامت کی علامات میں شمارکیا جاتا ہے ،ہم نے ان کا ذکر نہیں کیا، اس کی وجہ یہ ہے ظہور مہدی کی روایتیں محدثانہ تنقید کے معیار پر پوری نہیں اترتیں، ان میں کچھ ضعیف ہیں اور کچھ موضوع ہیں، اس میں شبہ نہیں کہ بعض روایتوں میں جو سند کے لحاظ سے قابل قبول ہیں ایک فیاض خلیفہ کے آنے کی خبر دی گئی ہے، لیکن دقت نظر سے غور کیا جائے تو صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اس کا مصداق سیّدنا عمر بن عبدالعزیز تھے جو خیر القرون کے آخری خلیفہ بنے۔۔۔ نزول مسیح کی روایتوں کو اگرچہ محدثین نے بالعموم قبول کیا ہے، لیکن قرآن مجید کی روشنی میں دیکھیئے تو وہ بھی محل نظر ہیں۔‘‘ [میزان، ص:۱۷۷،۱۷۸]۔
مسٹر غامدی کی یہ عبارت تضادات کا مجموع ہے ایک طرف وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ امام مہدی کے بارے میں بعض روایات سند کے اعتبار سے قابل قبول ہیں اور دوسری طرف وہ تمام روایتوں کو ناقابل اعتبار ٹھہراتے ہیں ۔تنقید کا اتنا اعلیٰ معیار قائم کیا ہے کہ بغیر کوئی حدیث ذکر کیے اور بغیر کسی سند اور راوی کی خرابی بیان کیے بیک جنبش قلم تمام احادیث کو خود ساختہ محدثانہ تنقیدکے معیار سے کم تر قرار دے دیا ۔اور نزول عیسیٰ علیہ السلام کی روایات ان کی محدثانہ تنقید کی زد سے بچ جانے اور محدثین کے نزدیک بالعموم مقبول ہونے کے باوجود ان کے خود ساختہ قرآن کی روشنی کے مطابق قابل رد ٹھہر گئیں ۔مسٹر غامدی نے یہ روشنی قرآن کی کس آیت سے حاصل کی اس کا ذکر کرنا بھی انہوں نے مناسب نہ سمجھا کہ آخر قرآن کی کونسی آیت ہے جس میں نزول عیسیٰ علیہ السلام کا صراحتاً انکار کیا گیا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے ان تمام صحیح احادیث کو رد کر دیا ۔مسلمانوں کے قرآن میں تو ایسی کوئی آیت ہے ہی نہیں شاید ان کے قبلہ وکعبہ مغرب کے ٹکسال میں ابھی کوئی ایسی آیت تیار کی جارہی ہو جس کا ابھی ذکر کرنا انہوں نے مناسب نہ سمجھا ہو۔
مسٹر غامدی کے شیطانی تصورات کے برخلاف امت مسلمہ ظہور امام مہد ی اور نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر یقین رکھتی ہے ۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے کہنے ہی پر قرآن کو اللہ کا کلام اور اللہ تعالی کا وجود بن دیکھے تسلیم کر لیا ہے توان کے کہے پر کوئی مسلمان ظہور امام مہدی اور نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں شک نہیں کر سکتا ۔
مسٹر غامدی کو محدثانہ تنقید کی الف ب بھی معلوم نہیں۔جن محدثین نے اپنی ساری عمر احادیث کی خدمت میں گزار دی اور حدیث کے بارے میں جن کی رائے مسلّمہ حیثیت رکھتی ہے انہوں نے ظہور امام مہدی اور نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روایات اپنی کتب میں درج فرمائی ہیں اور ان کو صحیح بھی قرار دیا ہے ۔
سنن ابوداؤد میں ہے’’عَنْ اَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: 171الْمَھْدِیُّ مِنِّی، اَجْلَی الْجَبْھۃِ، اَقْنَی الْاَنْفِ، یَمْلَأُ الْاَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا، کَمَا مُلِءَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا، یَمْلِکُ سَبْعَ سِنِینَ‘‘۔
ترجمہ: ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:مہدی مجھ سے ہیں روشن پیشانی والے ستواں ناک والے، وہ زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دیں گے جیسے وہ ظلم اور جفا سے بھری تھی اور وہ سات سال تک حکومت کریں گے‘‘[سنن ابو داؤد،ج:۲،ص:۱۳۶۷،مطبوعہ مکتبۃ العصریہ بیروت]۔
ابوداؤد میں ہے’’عَنْ اُمِّ سَلَمَۃ رضی اللہ عنھا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ یَقُولُ: اَلْمَھدِیُّ مِنْ عِتْرَتِیْ مِنْ وُّلْدِ فَاطِمَۃ ‘‘
ترجمہ:حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ:مہدی میرے خاندان اور فاطمہ کی اولاد میں سے ہو گا ۔ [ ابوداؤد ،کتاب الفتن،ج:۴،ص:۱۰۷،مطبوعہ مکتبۃ العصریہ،بیروت]۔
عرب میں خلیفہ وقت کی موت کے بعد نئے خلیفہ کی بیعت پر اختلاف ہو گا بالآخر امام مہدی( محمد بن عبداللہ )کی بیعت پر لوگ متفق ہو جائیں گے امام موصوف کی بیعت مسجد حرام میں حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ہو گی۔ امام مہدی کی بیعت کو بغاوت سمجھ کر کچلنے کے لیے آنے والا لشکر بیداء کے مقام پر دھنس جائے گا ۔
مسلمان یہ احادیث غور سے پڑھیں جس میں رسول اللہ ﷺ نے امام مہدی کو اپنے خاندان اور خاتون جنت کی اولاد میں سے قرار دیا اور ان کا نام اپنے نام کے مطابق بتایا سات سال تک ان کی حکومت کا عرصہ بھی بیان فرمایا ۔مسٹر غامدی کا ان تمام نشانیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالی عنہ کو ان احادیث کا مصداق بتانا اسی طرح ہے جیسے مرزا قادیانی نے ان احادیث کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیا تھا ۔
اور یہی حال نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے ،ناصرف احادیث مبارکہ بلکہ قرآن پاک میں بھی اس بارے میں واضح اشارات موجود ہیں ۔
مسٹرغامدی قرآن سے روشنی لینے کے بجائے کینیڈاسے روشنی لیتے ہیں اس لئے ان کو تو قرآنی وہ آیات نظر نہیں سکتیں ہیں جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کو بیان کیا گیا ہے لیکن مسلمانوں کے لئے ہم وہ آیات اور احادیث نقل کر دیتے ہیں جن میں نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بیان کیا گیا ہے ۔
آیت:وَقَوْلِہِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُولَ اللّہِ وَمَا قَتَلُوہُ وَمَا صَلَبُوہُ وَلَکِن شُبِّہَ لَہُمْ وَإِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُواْ فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوہُ یَقِیْناً۔ بَل رَّفَعَہُ اللّہُ إِلَیْْہِ وَکَانَ اللّہُ عَزِیْزاً حَکِیْماً۔ وَإِن مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکُونُ عَلَیْْہِمْ شَہِیْداً۔ 
ترجمہ کنز الایمان:اور اُن کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسٰی بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا۔ اور ہے یہ کہ انہوں نے نہ اُسے قتل کیا اور نہ اُسے سولی دی بلکہ ان کے لئے اُس کی شبیہ کا ایک بنادیا گیا۔ اور وہ جو اس کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہہ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ انہیں اس کی کچھ بھی خبر نہیں ۔ مگر یہی گمان کی پیروی۔ اور بے شک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا ۔بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا ، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس (حضرت عیسیٰ علیہ السلام)کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے، اورقیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا‘‘۔[النساء،آیت:۱۵۷،۱۵۸،۱۵۹]۔
اگران آیات بینات کا باغورجائزہ لیں تواس میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات کی نفی کی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی طرف اٹھالیا توحضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات کب ہوگی ؟اوراگر نہیں ہو گی تو پھرقرآن مجید کی اس آیت کاکیا مطلب ہوگا:
’’کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ‘‘ 
ترجمہ کنز الایمان :ہر جان کو موت چکھنی ہے ‘‘۔[اٰل عمران ،آیت:۱۸۵]۔
لامحالہ اس کا مطلب یہی ہوا کہ ابھی حضرت عیسٰی علیہ السلام زندہ وحیات ہیں ان کی دوبارہ آمد ہوگی اوران کی وفات بھی ہو گی جیساکہ احادیث میں بیان ہوا ہے جس کو ہم آگے بیان کریں گے ۔
اگرحضرت عیسٰی علیہ السلام واپس نہیں آئیں گے تو یہ آیت کب پوری ہوگی جس کے مطابق تمام اہل کتاب اُن پر ایمان لائیں گے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام قیامت کے قریب واپس آئیں گے اورتمام عیسائی مسلمان ہو جائیں گے اورآپ علیہ السلام صلیب کو توڑ دیں گے 
اورپوری دنیا میں صرف دینِ اسلام ہوگااور بقیہ تمام مذاہب ختم ہو جائیں گے۔
سورہ الِ عمران کی آیت:۴۶میں ارشاد باری تعالی ہے ’’وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِیْ الْمَہْدِ وَکَہْلاً وَمِنَ الصَّالِحِیْنَ‘‘۔
ترجمہ کنز الایمان:’’ لوگوں سے بات کرے گا پالنے میں اورپکی عمر میں اور خاصوں میں ہوگا ‘‘۔[اٰل عمران،آیت:۴۶ ]۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پالنے اور پختگی کی عمر میں کلام کرنے کو ذکر فرمایا ہے ۔حضرت عیسٰی علیہ السلام کا پالنے میں کلام کرنے کاواقعہ سورہ مریم آیت:۲۹ ...تا.۳۳...میں بیان ہوا ہے۔پکی عمرکی مدت قرآن کریم کے مطابق چالیس سال ہے ۔
اللہ تعالی کافرمان ہے’’حَتَّی إِذَا بَلَغَ أَشُدَّہُ وَبَلَغَ أَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ‘‘
ترجمہ کنز الایمان:’’یہاں تک کہ جب اپنے زور کو پہنچااور چالیس برس کا ہوا ‘‘۔[سورۃ الاحقاف ،آیت:۱۵]۔
قرآن کریم کے بعد احادیث کا مطالعہ کریں توقرآن کریم میں موجود نزول حضرت عیسیٰ علیہ کے اشارات کی تصدیق ہو جاتی ہے کیونکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو....۳۳ ....برس کی عمر میں اللہ نے اپنی طرف اٹھالیا تھااور بائیبل میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے اور احادیث کے مطابق حضرت عیسٰی علیہ السلام سات سال زمین میں رہیں گے اور چالیس برس کی عمر میں وہ لوگوں سے کلام کریں گے پھران کی وفات ہو جائے گی تب قرآن مجید کی اس آیت کی خبر کاظہور ہوگا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام پختگی کی عمر میں بھی لوگوں سے کلام کریں گے۔اس آیت کریمہ میں بھی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دوبارہ آمد کی طرف واضح اشارہ موجود ہے ۔
درج ذیل آیت کریمہ میں توحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کو قیامت کی نشانی قرار دیاگیا ہے :
’’ وَ اِنَّہ' لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ فَلاَ تَمْتَرُنَّ بِھَاوَاتَّبِعُوْنِ،ھٰذَا صِرَاطُ مُّسْتَقِیْمُ‘‘
ترجمہ کنز الایمان :’’ بیشک عیسٰی قیامت کی خبر ہے تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میرے پیرو ہونا یہ سیدھی راہ ہے ‘‘[الزخرف،آیت:۶۱]۔
اس آیت میں میں انہ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسٰی علیہ السلام ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قیامت کی نشانی قرار دیاگیا ہے سید المفسرین حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’(وَاِنَّہ) یَعْنِی نزُول عِیسَی ابْن مَرْیَم(لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ) لبَیَان قیام السَّاعَۃ وَیُقَال عَلامَۃ لقِیَام السَّاعۃ‘‘
ترجمہ:بے شک اس یعنی حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا نزول قیامت کی خبر ہے (لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ)میں قیامت کے قائم ہونے کا بیان ہے اس کو قیامت کی علامت بھی کہا جاتا ہے ‘‘۔[تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس ،ص: ۴۱۵،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ لبنان]۔
اسی طرحتفسیر ابن کثیر ،ج:۷،ص:۲۱۵،مطبوعہ دارالکب العلمیہ بیروت ۔
تفسیر البغوی ،ج:۴،ص:۱۶۵،مطبوعہ احیاء التراث بیروت ۔
تفسیر القرطبی ،ج:۱۷،ص:۱۱۷،دارالکتب المصریہ ۔
تفسیر بیضاوی ،ج:۵،ص:۹۴،مطبوعہ مکتبہ داراحیاء بیروت ۔
احکام القرآن للجصاص ،ج:۵،ص:۲۶۵،مطبوعہ داراحیاء بیروت۔
تفسیر النسفی ،ج:۳،ص:۱۷۹،مطبوعہ مکتبہ دارالکلم بیروت میں اور اس کے علاوہ دیگر تفاسیر میں (لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ) سے مراد نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں۔
حدیث سے بھی ابن عباس کے قول کی تائید ہوتی ہے ۔
’’عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ اَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ، قَالَ: اطَّلَعَ النَّبِیُّ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاکَرُ، فَقَالَ: 171مَا تَذَاکَرُونَ؟187 قَالُوا: نَذْکُرُ السَّاعَۃَ، قَالَ: " اِنّہَا لَنْ تَقُومَ حَتَّی تَرَوْنَ قَبْلَھَا عَشْرَ آیَاتٍ ۔ فَذَکَرَ ۔ الدُّخَانَ، وَالدَّجَّالَ، وَالدَّابَّۃَ، وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِھَا، وَنُزُولَ عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَیَاَجُوجَ وَمَاْجُوجَ، وَثَلَاثَۃَ خُسُوفٍ: خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِجَزِیرَۃِ الْعَرَبِ، وَآخِرُ ذَلِکَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْیَمَنِ، تَطْرُدُ النَّاسَ اِلی مَحْشَرِھِمْ‘‘
ترجمہ:حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے کہ ہم باتیں کر رہے تھے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے فرمایا: تم کیا باتیں کر رہے ہو۔ ہم نے کہا ہم قیامت کا ذکر رہے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دھویں اور دجال اور دابہ اور سورج کا مغرب سے طلوع اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول اور یاجوج ماجوج کا ذکر فرمایا اور تین جگہوں کے دھنس جانے کا بھی ذکر فرمایا ایک مشرق دوسرا مغرب اور تیسرا جزیرہ عرب میں اور پھر یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو محشر کے میدان میں جمع کر دے گی ‘‘۔[صحیح مسلم ،حدیث : ۳۹،ابن ماجہ ،حدیث:۴۰۵۵،ترمذی ،حدیث:۲۱۸۳]۔
سنن ابوداؤد میں ہے ’’عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ، اَنَّ النَّبِیَّ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَیْسَ بَیْنِی وَبَیْنہُ نَبِیٌّ ۔ یَعْنِی عِیسی ۔ وَانہُ نَازِلٌ، فَاِذَا راَیْتُمُوہُ فَاعْرِفُوہُ: رَجُلٌ مَرْبُوعٌ اِلی الْحُمْرَۃِ وَالْبَیَاضِ، بَیْنَ مُمَصَّرَتَیْنِ، کاَنَّ رَاْسَہُ یَقْطُرُ، وَاِنْ لَمْ یُصِبْہُ بَلَلٌ، فَیُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَی الْاِسْلَامِ، فَیَدُقُّ الصَّلِیبَ، وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ، وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ، وَیھْلکُ اللّہُ فِی زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلھَا اِلَّا الاِسْلَامَ، وَیُھْلِکُ الْمَسِیحَ الدَّجَّالَ، فَیَمْکُثُ فِی الاَرْضِ ارْبَعِینَ سَنَۃً، ثُمَّ یُتَوَفی فَیُصَلِّی عَلَیہِ الْمُسْلِمُونَ‘‘
ترجمہ:ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اور عیسٰی کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور بیشک عیسٰی اتریں گے جب تم ان کودیکھو توپہچان لووہ ایک ایسے شخص ہیں جو متوسط قدوقامت کے ہوں گے اور سرخی اورسفیدی کے درمیان ان کی رنگت ہوگی ، وہ ہلکے زردرنگ کے کپڑے پہنے ہوں گے، ان کے بالوں سے پانی ٹپکتا معلوم ہوگا اگرچہ وہ تر نہ ہوں گے ۔وہ لوگوں کے قبولیت اسلام تک جہاد کریں گے اورصلیب کوتوڑڈالیں گے اورخنزیر کوقتل کریں گے اورجزیہ کوختم کردیں گے اوراللہ تعالٰی ان کے زمانے میں اسلام کے سواء سب مذہبوں کو مٹا دے گا اوروہ دجال مسیح کو قتل کریں گے ۔ پھرچالیس برس کی عمر تک دنیا میں رہیں گے پھر ان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان کے جنازے کی نمازپڑھیں گے ‘‘۔[سنن ابوداؤد۔ج:۴،ص:۱۱۷،رقم الحدیث:۴۳۲۴،مطبوعہ مکتبۃ العصریہ بیروت]۔واللہ تعالی اعلم

مسٹر غامدی کا شادی شدہ زانی کی سزا رجم کا انکار کرنا۔۔۔۔۔قسط نمبر9

مسٹر غامدی کا شادی شدہ زانی کی سزا رجم کا انکار کرنا
رجم کی سزا توریت میں بھی بیان کی گئی تھی اور اسلام نے بھی اس سزا کو برقرار رکھا ہے لیکن دورِ رسالت ﷺ کے یہودیوں نے توریت کے اس حکم میں تبدیلی کر کے اپنی مرضی کی سزا نافذ کر لی تھی ۔آج مغرب پر یہود ہی کا غلبہ ہے اس لئے مغرب کی طرف سے اسلام پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں سر فہرست رجم کی سزا بھی ہے ۔ مسٹر غامدی مغرب کے پیروکار ہیں اس لئے اپنے مربی اور محسن یہود کے نقش قدم سے کس طرح دور رہ سکتے تھے ۔تو مسٹر غامدی نے یہود کی پیروی کرتے ہوئے شادی شدہ زانی کے لئے رجم کی شرعی سزا یعنی حد کا انکاردیا۔ اپنے دنیا میں واحد امام ،حمید الدین فراہی کی تحقیق کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں : زانی کنوارا ہو یا شادی شدہ ،اس کی اصل سزا تو سورہ نورمیں قرآن کی صریح حکم کی بنا پر سوکوڑے ہی ہے ،لیکن اگر مجرم زنا بالجبر کا ارتکاب کرے یا بدکاری کو پیشہ بنالے یا کھلم کھلا اوباشی پر اتر آئے یا اپنی آوارہ منشی ،بدمعاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت وناموس کے لیے خطرہ بن جائے یا مردہ عورتوں کی نعش قبروں سے نکال کر ان سے بدکاری کا مرتکب ہو یا اپنی دولت اور اقتدار کے نشے میں غربا کی بہو ،بیٹیوں کو سربازار برہنہ کر ے یا کم سن بچیاں بھی اس کی درندگی سے محفوظ نہ رہیں تو مائدہ کی اس آیت محاربہ کی رو سے اسے رجم کی سزا بھی دی جاسکتی ہے ۔...........زنا کی سزا کے بارے میں اپنا جو نقطء نظر ہم نے اوپر بیان کیا ہے ،اس سے حقیقت بالکل مبرہن ہو جاتی ہے کہ کنوارے زانیوں کی طرح شادی شدہ زانیوں کی سزا بھی قرآن مجید کی رو سے ضربِ تازیانہ ہی ہے۔[برھان ،ص:۹۱]۔
مسٹر غامدی کی مذکورہ عبارت سے ان کا یہ موقف سامنے آتا ہے۔
(۱) قرآن مجید میں ہر قسم کے زانی کی سزا صرف کوڑے مارنا ہے ۔
(۲) جو زنابالجبر کرے یا بدکاری کا پیشہ کرے یا کھلم کھلا اوباشی کرے اور اسی کی مثل دیگر زانی کی سزا بھی اصل میں کوڑے ہی ہیں صرف حاکم چاہے تو ایسے افراد کو محاربے کی آیت کے ضمن میں رجم کی سزا بھی دے سکتا ہے۔
(۳) حضور ﷺ اور صحابہ کے دور میں جن افراد کو رجم کیا گیا مسٹر غامدی کے موقف کے مطابق ان میں مذکورہ بالا خرابیاں پائی جاتیں تھیں ۔
مسٹر غامدی کا موقف سرا سر باطل اور ان کا اپنا من گھڑت ہے صحیح احادیث اور اجماعِ امت سلفاً وخلفاً اس بات پر ہے کہ شادی شدہ زانی کو بطور حد رجم کیا جائے گا چاہے وہ زنا بالجبر ہو یا نہ ہو اسی طرح اس میں مذکورہ خرابیاں پائی جائیں یا نہ پائی جائیں ۔
صحیح بخاری میں امیرالمؤمنین حضرت عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے :’’ان اللہ بعث محمد ابالحق وانزل علیہ الکتاب فکان مماانزل اللہ تعالیٰ آیۃ الرجم ،رجم رسول اللہ ﷺورجمنا بعد ہ والرجم فی کتاب اللہ حق علی من زنیٰ اذا احصن من الرجال والنساء اذاقامت البینۃ اوکان الحبل اوالاعتراف‘‘
ترجمہ:’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے حضوراکرم ﷺکوحق کے ساتھ بھیجاہے اورآپ پرکتاب اتاری۔جوآیات اللہ تعالیٰ نے اتاریں ان میں سے آیتِ رجم بھی تھی ۔رسول اللہ ﷺنے رجم فرمایا اورآپ کے بعدہم نے بھی رجم کیا،اوررجم کا حکم کتاب اللہ سے ثابت ہے ،ان مرد وعورتوں پر جواحصان(شادی شدہ)ہونے کے بعدزنا کے مرتکب ہوں۔ جبکہ زنا کے ثبوت کے گواہ گواہی دے دیں یا(زناسے)عورت کوحمل ٹھہرجائے یاکوئی زناکااقرارکرلے‘‘۔ [صحیح بخاری ،حدیث :۶۷۳۰،صحیح مسلم ،حدیث:۱۶۹۱]۔
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضرہوا،آپ مسجدمیں تشریف فرماتھے تواس نے پکارا،یارسول اللہ ﷺ!’’میں نے زناکیاہے ‘‘۔نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے چہرۂ اقدس پھیرلیا،تووہ آپ کے چہرۂ انورکے اس رخ کی طرف آگیاجس طرف آپ نے اپناچہرہ انورکیاتھا۔اس نے پھرعرض کی :’’میں نے زناکیاہے‘‘۔نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے پھرچہرۂ اقدس پھیرلیا؛اسی طرح جب چارمرتبہ اقرارکرچکا،توحضور ﷺنے اسے بلایا،فرمایا:’’کیاتجھے دیوانگی ہے ؟‘‘بولا‘نہیں،فرمایا:’’کیاتومحصن (شادی شدہ )ہے ؟‘‘عرض کیا،’’ہاںیارسول اللہ ﷺ!‘‘ قال اذہبوابہ فارجموہ‘‘
ترجمہ:’’تورسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ارشادفرمایا:’’اسے لے جاکررجم کردو‘‘۔
قال ابن شہاب فاخبرنی من سمع جابربن عبداللہ یقول فرجمناہ بالمد ینۃ ‘‘
ترجمہ:’’ حضرت ابن شہاب رحمۃاللہ علیہ نے ارشادفرمایا:’’کہ مجھے اس نے خبردی جس نے حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کوفرماتے ہوئے سناہے کہ پھرہم نے اسے مدینہ میں رجم کردیا‘‘ ۔[صحیح بخاری،حدیث :۵۲۷۱ و ۷۱۶۷]۔
مسٹر غامدی بتائیں اس حدیث میں جس شخص کو رجم کرنا بیان کیا گیا ہے اس میں زنا بالجبر، کھلم کھلا اوباشی،شرفاء کی عزت کے لئے خطرہ ،غریبوں کی بیٹیوں کو سرعام برہنہ کرنا ،کم سن بچیوں سے زنا، مردہ عورتوں سے زناان میں سے کونسی خرابی پائی جاتی تھی۔ اس شخص نے تو رضاکارانہ طور پر خود گناہ کا اعتراف کیا اور ایک مثالی توبہ دنیا میں ہی کر گئے ۔
موسوعۃ الاجماع میں ہے’’ ان المسلمین اجمعوا علی ان الزانی المحصن ،اذا زنی عامدا ۔عالما،مختارا ،حدّہ الرجم حتی یموت ،وقالت الخوارج وبعض المعتزلۃ بعد م الرجم ‘‘
ترجمہ: مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ شادی شدہ زانی جب جان بوجھ کر اپنے اختیار سے زنا کا مرتکب ہو تو اس کی سزا رجم ہے ،یہاں تک کہ وہ مر جائے ،جبکہ خارجیوں اور بعض معتزلہ کا موقف رجم نہ کرنے کا ہے۔‘‘[موسوعۃ الاجماع،باب :۱۱۳۸،حد الزانی الحر المحصن،ص:۳۴۱]۔
مسٹر غامدی کی معتمد کتاب بدایۃ المجتہد میں ہے ’’فاما الثیب الاحرار المحصنون فان المسلمین اجمعوا علی حدھم الرجم الامزقۃ من اھل الأھواء فانھم رأوا ان حد کل زان الجلد ‘‘
ترجمہ: ’’ شادی شدہ آزادمحصن زانی کے بارے میں مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس کی حد رجم ہے ،سوائے اپنے نفس کی خواہش پر چلنے والے چندافراد کے ،کہ ان کا گمان ہے کہ ہر زانی کی سزا کوڑے مارنا ہے‘‘۔[بدایۃ المجتہد ،جزء:۴،ص:۲۱۸]۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا متفقہ موقف یہ ہے کہ شادی شدہ زانی خواہ وہ زنا بالجبر کرے یا زنا بالرضا کرے اس کی سزا رجم ہی ہے ۔ مسٹر غامدی مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر خوارج ،معتزلہ اور خواہش پرستوں کے راستے پر گامزن ہیں اور ان کا انجام بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا ۔واللہ تعالی اعلم

مسٹرغامدی کی مرتدین سے ہمدردی۔۔۔۔۔آٹھویں قسط

مسٹرغامدی کی مرتدین سے ہمدردی
قبول اسلام کے لئے کسی غیر مسلم پر جبر واکراہ کرنا جائز نہیں ہے لیکن اپنی رضا و خوشنودی سے اسلام لانے کے بعد اگر کوئی شخص اسلام کوچھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کر لے تو اسے ارتداد اور اس کے مرتکب کو مُرْتَدّ کہا جاتا ہے۔ایسے شخص کے بارے میں حکم ہے کہ اگر کسی شبہے کی وجہ سے اسلام سے پھرا ہے تو اس کے شبہات کو دور کیا جائے گا اور پھراس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا اگر وہ توبہ نہ کرے تو حاکم اسلام بطور سزااس شخص کے قتل کا حکم دے گا اوراگر وہ عورت ہو تو اس کے قتل کا حکم نہیں دیا جائے گا بلکہ اسے قید میں رکھا جائے گا یہاں تک کہ وہ توبہ کر لے ۔لیکن یہ بات یاد رہے کہ یہ حکم حاکم اسلام کے ساتھ خاص ہے عام افراد کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ خود سے کسی پر یہ حد جاری کریں ۔
مرتد کے حوالے سے مسٹرغامدی اور ان کے حواریوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ سزا صرف نبی کریم ﷺ کے زمانے کے مرتدین کے ساتھ خاص تھی ،اس کے بعد کسی شخص کو ارتداد کی یہ سزا نہیں دی جاسکتی ۔[برھان ،ص:۱۴۲،۱۴۳]۔
مسٹر غامدی شرعی احکام میں اپنی طرف سے کتروبیونت کے عادی ہیں۔ جب جی چاہتا ہے بغیرکسی شرعی دلیل کے کسی حکم کو عام اور کسی حکم کو خاص قرار دے دیتے ہیں ۔جن احادیث میں مرتد کی سزا قتل بیان کی گئی ہے، ان کا سیاق وسباق اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین جنہوں نے یہ فرمان مصطفیﷺ براہ راست اپنے کانوں سے سنا اور اس کا مفہوم سمجھا ان کا عمل سب اس بات پر دلالت کر تے ہیں کہ یہ حکم ہر زمانے کے مرتدوں کے لئے ہے ۔
امت مسلمہ کے فقہاء کرام میں سے کسی عالم دین نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اس حدیث کا تعلق بنو اسماعیل کے ساتھ خاص ہے ۔اسی لئے ہزار باتوں میں اختلافات کے باوجود تمام علماء اسلام کے نزدیک بالاتفاق یہ حکم عام ہے اور ہر دور کے مسلمان حکمرانوں نے مرتدین کی سزا قتل ہی رکھی ہے ۔اور بالفعل کئی مرتدین کوریاست کے حکم پر قتل بھی کیا گیا ہے۔ کتب تواریخ میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔
مسٹر غامدی اپنے مغربی آقاؤں کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں اورانہی کو خوش کرنے کے لئے شیطانی اجتہاد کرتے رہتے ہیں۔ ان کے اجتہاد کو ان کے حواری تو تسلیم کرسکتے ہیں لیکن امت مسلمہ مسٹر غامدی کے اجتہاد سے لاتعلق ہے اور وہ اللہ تعالی اوراس رسول اللہ ﷺ کے فرمودات اورصحابہ کرام علیھم الرضوان اور علماء اسلام کے بیان کردہ شرعی احکامات پر کار بند ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے ’’وَمَن یَرْتَدِدْ مِنکُمْ عَن دِیْنِہِ فَیَمُتْ وَہُوَ کَافِرٌ فَأُوْلَءِکَ حَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ فِیْ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَأُوْلَءِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ‘‘۔
ترجمہ کنز الایمان:’’ اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے پھر کافر ہوکر مرے تو ان لوگوں کا کیا اکارت گیا دنیا میں اور آخرت میں ۔ اور وہ دوزخ والے ہیں انہیں اس میں ہمیشہ رہنا‘‘۔[البقرۃ،آیت:۲۱۷]۔
صحاح ستہ اور حدیث کی دوسری کتب میں حضور نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتد کی سزا کے بارے میں متعدد ارشادات اورصحابہ کرام علیھم الرضوان کا عمل بھی منقول ہے ۔ 
صحیح بخاری میں ہے’’عن عکرمۃ قال: اتی علی رضی اللہ عنہ بزنادیق فاحرقہم فبلغ ذالک ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فقال: لو کنت انا لم احرقہم لنہی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم145 قال: لا تعذبوا بعذاب اللہ ولقتلتہم لقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘۔
ترجمہ:’’حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس چند زندیق لائے گئے تو انہوں نے ان کو آگ میں جلانے کا حکم دیا۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو جب یہ معلوم ہوا تو فرمایا: میں ہوتا تو ان کو نہ جلاتا145 اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا اور فرمایا:ایسا عذاب نہ دو جو اللہ تعالیٰ (جہنم میں) دے گا۔میں ان کوحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد:جو شخص اپنا دین(اسلام) تبدیل کرے ، اس کو قتل کردو،کے تحت قتل کردیتا‘‘۔[صحیح بخاری،حدیث:۳۰۱۷،۶۹۲۲۔ ابوداؤد،حدیث:۴۳۵۱۔ ترمذی،حدیث:۱۴۵۸۔سنن النسائی،حدیث:۴۰۵۹]۔
سنن نسائی میں ہے’’عن عکرمۃ قال قال ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘
ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا دین(اسلام) تبدیل کرے اس کو قتل کردو‘‘۔[سنن نسائی، ص:۹۴۱145 ج:۲145 سنن ابن ماجہ ص:۲۸۱]۔
صحیح مسلم میں ہے ’’عن عبداللّٰہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم133 لایحل دم رجل مسلم یشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ و انی رسول اللّٰہ الا باحدی ثلاث: الثیب الزانی، والنفس بالنفس، والتارک لدینہ المفارق للجماعۃ‘‘ 
ترجمہ:’’حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دے 145 اس کا خون بہانا جائز نہیں، سوائے تین میں سے کسی ایک وجہ کے :(۱) شادی شدہ ہوکر زنا کرنے والا(۲) جان کے بدلے جان (۳)اپنے دین کو چھوڑ کر جماعت سے علیحدہ ہو جانے والا ‘‘۔[ مسلم ص:۹۵ ج:۲۔ابوداؤد ص: ۲۴۲،ج:۲۔ سنن نسائی،ص: ۵۶۱، ج:۲۔ ابن ماجہ، ص:۲۸۱۔ سنن کبریٰ بیہقی ص:۴۹۱،ج:۸۔ ترمذی:،ص:۹۵۲، ج:۱]۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ فقہ اسلامی کی مشہورکتاب بدایۃ المجتہد جس کا ترجمہ حال ہی میں مسٹرغامدی کے ایماء پر شائع کیا گیا ہے جس سے یہ لگتا ہے کہ مسٹر غامدی کے نزدیک یہ کتاب مستند اور قابل اعتماد ہے ۔ اسی میں ہے ’’والمرتد اذا ظفربہ قبل ان یحارب فاتفقوا علی انہ یقتل الرجل لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام :من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘۔
ترجمہ:’’ اگر مرتد جنگ سے پہلے گرفتار ہو جائے تو علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اس مردکو قتل کر دیا جائے گا کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے جوشخص اپنا دین بدل لے اسے قتل کر دو ‘‘۔[بدایۃ المجتہد ،جزء :۴،ص:۲۴۲]۔واللہ تعالی اعلم