دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Friday 12 June 2015

ویلفیئر اداروں ،فلاحی تنظموں کو زکاۃ/زکوٰۃ دینے سے پہلے اسے ضروری پڑھیں

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایسا شخص جس کی لاکھوں روپے زکوٰۃ بنتی ہے وہ غریب اور مستحق لوگوں کوتلاش کرنے کے بجائے اپنی زکوٰۃ کسی ویلفیئر ،ادارے کو دے دیتا ہے ۔اور یہ بات ہر ایک شخص جانتا ہے کہ ویلفیئر یا ادارے سالانہ جمع ہونے والی زکوٰۃ فطرہ کی رقم کئی سالوں تک جمع رکھ کر بینک بیلنس بنانے میں لگے رہتے ہیں اور سائلین کو فنڈ نہیں ہے کا لقمہ دے کر ٹرخا دیا جاتا ہے اور اگرلوگوں کے دکھانے کے لئے  زکوٰۃ تقسیم کریں بھی تو اکثرویلفیئر میں زکوٰۃ کی تقسیم کا طریقہ کار بھی عجیب ہے اس کی چھان پٹخ کرنے کی غرض سے کہ مستحق زکوٰۃ ہے یانہیں؟ اس کے گھر جا کر گلی محلہ میں رہنے والے لوگوں سے اس کے بارے میں تفتیش کر کے رسوا کیا جاتا ہے اوررزلٹ یہ نکلتا ہے کہ ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں اور عوام اور ڈونرز میں اپنی واہ کرانے کے لئے  سینکڑوں لوگوں کو اپنے آفس کے سامنے لمبی لمبی لائینوں میں لگائے رکھتے ہیں ان میں کسی ایک ،دو کوتفتیش میں پاس کرکے کچھ رقم دے دی جاتی ہے اورلوگوں میں اکثر کو ادارے یا ویلفیئر کے چکر لگواتے ہیں تاکہ لوگوں میں واہ ہو جائے کہ بڑی خدمت کر رہے ہیں مستحق زکوٰۃ ہونے کے باوجودکچھ نہیں ملتا کیونکہ  ان کی کوئی جان پہچان یا سفارشی نہیں۔
2011میں BBCکی رپورٹ کے مطابق ایک سال میں 16ہزار لوگوں نے غربت کی وجہ سے خود کشی کی ہے ۔اگر یہ ویلفیئر والے زکوٰۃ فقراء تک پہنچاتے تو کیا اس ملک میں یہ حال ہوتا ۔اور دوسری طرف حکومت زکوٰۃ کی رقم کا کیا حشر کرتی ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں آئے دن زکوٰۃ فنڈ میں کرپشن کی خبریں اخباروں کی زینت بنتی رہتی ہیں اور بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کی حالت زار بھی کسی سے مخفی نہیں ۔اس صورت حال میں تو لازم ہونا چاہیے کہ صاحب نصاب خود غریبوں کو تلاش کریں اور اس کو زکوٰۃ دیں ۔
المختصراکثرلوگوں نے ویلفیئریا فلاحی تنظیم کے نام پر لوگوں سے زکوٰۃ فطرہ اور دیگر عطیات کی مد میں رقم جمع کرنے کا دھندہ شروع کیا ہوا ہے تو کیا ایسے حالات میں مالداروں کااپنی لاکھوں کی زکوٰۃ کسی ویلفیئر یا ادارے یا فلاحی تنظم کو دےکر جان چھڑوانا درست ہے کیا ان کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ؟
(2)اگر کسی شخص کا ذہن بنایا جائے کہ آپ اپنی زکوٰۃ خود لوگوں کو دے تو وہ دو سوال کرتا ہے (۱)میں ایک دن میں کس طرح یہ زکوٰۃ تقسیم کروں اس کا طریقہ بتادیں کیونکہ اتنی زکوٰۃ بنتی ہےجس کو میں لے کر نکلوں تو ایک دن میں اس کا تقسیم کرنا میرے لئے ممکن نہیں ہے اس کا کوئی حل بتائیں۔(۲)اگر میں خود تقسیم کرتا ہوں تو جب لوگوں کو پتہ چلے گا تو وہ میرے گھر میں آنا شروع ہو جائیں گے اور نظم وضبط کو برقرار رکھنا مشکل اور میرا جینا حرام کر دیں گے اور کراچی جیسے شہر میں جب لوگوں کو پتہ چل گیا کہ میں اتنا امیر ہوں تو پھر بھتہ خوری کی پرچیاں آنا شروع ہو نے کا خطرہ  ہے ۔اس کا بھی حل ارشاد فرمادیں۔
(3)بعض افراد ایسے ہیں کہ جو سال بھر پیشگی زکوٰۃ تقسیم کرتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی سال پورا ہونے پر اتنی زکوٰۃ کی ادائیگی باقی ہوتی ہے جو ایک دن میں تقسیم کرنا ممکن نہیں ہوتی تو اس کا کیا حل ہے؟
(4)مستحق زکوٰۃ کی پہچان کیا ہے ؟آج کل ٹی وی اور فریج تقریباً ہر گھر میں ہے اور موٹر سائیکل ہو تو ایسے شخص کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟
المستفتی: علامہ مفتی محمد محسن نقشبندی قادری مجددی ،کراچی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
(1)زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے دو چیزیں اہم ہیں ۔
(۱)زکوٰۃ  کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد مال اگر کسی کے پاس ہے اور اس پر اسلامی سال گزر جائے تو اس میں سے ڈھائی فیصد زکوٰۃ ادا کرنا فوراً لازم ہے حتی کہ بغیرعذر شرعی کے ادائیگی میں تاخیر کر نا گناہ ہے۔
(۲)زکوٰۃ کا مال کسی مستحق زکوٰۃ شخص کو دے کر مالک بنانا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے ’’ فھی تملیک المال من فقیر مسلم ‘‘
ترجمہ:’’ زکوٰۃ کی ادائیگی مال کا مسلمان فقیر کو مالک بنا دینا ہے ‘‘۔[فتاوی عالمگیری ،ج:۱،ص:۱۸۸،قدیمی کراچی]۔
امام اہلسنت امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں ’’زکوٰۃ کا رکن تملیک فقیر ہے جس کا م میں فقیر کی تملیک نہ ہو کیسا ہی کار حسن ہو جیسےتعمیرمسجد یاتکفینِ میت یا تنخواہِ مدرسان علم دین،اس سے زکوٰہ نہیں ادا ہو سکتی ‘‘۔[فتاوی رضویہ ،ج:۱۰،ص:۲۶۹، رضافاؤنڈیشن،لاہور]۔
زکوٰۃ جمع کرنے والے ویلفیئر ادارے عام طور پر زکوٰۃ ادا کرنے والوں کی طرف سے وکیل ہوتے ہیں لہذا جب تک مستحقین ِ زکوٰۃ کو رقم کی ادائیگی اور مالک بنانا نہیں پایا جائے گا اس وقت تک صرف اس ویلفیئر ادارے کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی اس لئے ان ویلفیئر اداروں پر یہ لازم  ہے کہ وصول کردہ رقم جلد از جلد مستحقین تک پہنچائیں کیونکہ زکوٰۃ دینے والوں نے ان کو یہ رقم مستحقین تک پہنچانے کے لئے دی ہوتی ہے بینک میں جمع کرنے کے لئے نہیں دی ہوتی ۔اگر کوئی ویلفیئر ادارہ زکوٰۃ کی رقم ایک سال سے زائداپنے اکاؤنٹ میں جمع رکھتا ہے اور اس کے بعد مستحقین ِ زکوٰہ کو دیتا ہے  تو زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا تو ہو جائے گی لیکن تاخیر کا گناہ ان پر لازم آئے گا ۔
زکوٰۃ دینے والوں کا یہ سمجھ لینا ہم نےسال پورا ہونے پر کسی ویلفیئر یا ادارے کو زکوٰۃ دے دی تو اب ہم بری الذمہ ہیں ہماری زکوٰۃ ادا ہو گئی درست نہیں۔لہذا مالدار اور صاحب ثروت لوگوں کو چاہیےکہ اپنی زکوٰٰۃ اپنے ہاتھوں سے مستحقین تک پہنچائیں یا کسی ایسے ویلفیئر یا ادارےکو دیں جو فوری طور پر زکوٰۃ کی رقم مستحق تک پہنچا دے ۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن صاحب مدظلہ العالی  ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں " کمونیٹیز یا انجمنوں کے ذمہ داران زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے اہل ِ ثروت حضرات کے صرف وکیل ہوتے ہیں ،اگر وہ اس ذمہ داری کو شرعی احکام کے مطابق ادا نہیں کریں گے تو عند اللہ جواب دہ ہوں گے ۔زکوٰۃ جب تک مستحق تک نہیں پہنچے گی ،محض کمونیٹیز یا برادریوں کے فنڈ/اکاؤنٹ میں جمع ہونے سے ادا نہیں ہوگی ،نیز فطرہ وزکوٰۃ کی رقوم جب تک الگ مَد میں رکھ کر تملیک (کسی کو مال کا مالک بنانا)کے شرعی اصول کے مطابق مستحق افراد کو ادا نہیں کی جائے ،ادا نہیں ہوگی "۔[زکوٰۃ،معنی ومفہوم ،اہمیت ،فضائل ومسائل ،ص:۱۶۵،مکتبہ نعیمیہ کراچی]۔
مالداراورصاحبِ ثروت لوگوں کااپنے مال کی  زکوٰۃ لازم ہونے کے بعد کسی ایسی ویلفیئر یا فلاحی تنظیم یا ادارے  کو زکوٰۃ کا مال دینا جس میں غالب گمان یہ ہو کہ  میری زکوٰۃ فوری طور پر مستحق زکوٰۃ تک نہیں پہنچائیں گے ،کو دینا جائز نہیں ہے کیونکہ ایسی صورتِ حال میں زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر یقینی ہے اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں بلا عذر شرعی تاخیرکرنا گناہ ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے ’’ وتجب علی الفورعند تمام الحول حتی یأثم بتاخیرہ من غیر عذر ‘‘
ترجمہ:’’ جب سال تما م ہو نے پر زکوٰۃ واجب الادا ہو جائے تو فوراً ادا کر نا لازم ہے حتی کہ بغیر عذر شرعی کے تاخیر کر نے کی وجہ سے گنہگار ہو گا ‘‘۔[فتاوی عالمگیری ،ج:۱،ص:۱۸۸،مطبوعہ ،قدیمی ،کراچی] ۔
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں ’’اگر سال گزر گیا اور زکوٰہ واجب الادا ہو چکی تو اب تفریق وتدریج ممنوع ہو گی بلکہ فوراً تما م وکما ل زرواجب الادا ادا کر ے کہ مذہب صحیح ومعتمد ومفتی بہ پر ادائے زکوٰۃ کاوجوب فوری ہے جس میں تاخیرباعثِ گناہ ‘‘۔[فتاوی رضویہ ،ج:۱۰،ص:۷۶،رضافاؤنڈیشن ،لاہور]۔
بعض ویلفیئر ادارے اپنے بینک بیلنس کو بھرنے کے لئے حیلہ شرعی کا سہارا لیتے ہیں اوربعض ویلفیئر کے ذمہ داران خود ہی اپنے آپ کو شرعی فقیر تصور کرتے ہوئے اپنی ہی ذات سے زکوٰۃ کا حیلہ شرعی کر لیتے ہیں ۔ان کا یہ حیلہ کرنا باطل ہے کیونکہ زکوٰۃ دینے والوں نے ان کو زکوٰۃ تقسیم کرنے کا وکیل کیا ہوتا ہے خود اپنی ذات کے لئے زکوٰۃ رکھنے کا اختیار نہیں دیا ہوتا ۔
الدرالمختار میں ہے :"وللوکیل أن یدفع لولدہ الفقیر وزوجتہ لا لنفسہ الا اذا قال ربھا"
ترجمہ: (زکوٰۃ تقسیم کرنے والے)وکیل کے لئے اپنی (بالغ) فقیر اولاد اور زوجہ کو دینا جائز ہے لیکن خود زکوٰۃ کی رقم نہیں رکھ سکتا جب تک  زکوٰۃ دینے والے نے اس کی اجازت نہ دی ہو "۔[الدرالمختار،ج:۳،ص:۲۲۴،مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ]۔
مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:" وکیل کو یہ اختیار نہیں کہ خود لے لے، ہاں اگر زکاۃ دینے والے نے یہ کہہ دیا ہو کہ جس جگہ چاہو صرف کرو تو لے سکتا ہے"[بہارشریعت ،ج:۱،ص:۸۸۸،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی]۔
اور بعض ویلفیئر  اپنے ہی کسی ملازم، جو  ان کے دباؤ میں ہوتا ہے سے زکوٰۃ کا حیلہ کر کے کروڑوں اربوں روپے اپنے بینکوں میں جمع کر لیتے ہیں اور اپنی صواب دید پر اس طرح خرچ کرتے ہیں گویا وہ اس رقم کے مالک ہیں ۔اس طرح حیلہ  کرنا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ حیلہ شرعی صرف انتہائی ضرورت کے وقت جائز قرار دیا گیا ہے اور یہاں کوئی ایسی ضرورت موجود نہیں ہے ۔ہزاروں مستحقین موجود ہیں جن کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے تو پھر حیلہ کر کے بینک بیلنس بڑھانے میں کونسی ضرورت شرعی ہے ؟
بغیر ضرورت کے حیلہ کر نا جا ئز نہیں ہے کہ اس میں فقراء اور مستحقِ زکوٰۃ لوگوں کا حق مارنا اور باطل کرنا ہے ۔جو کہ حرام ہے ۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے ’’ ھی مایتوصل بہ الی مقصود بطریق خفی ۔وھی عند العلماء علی اقسام بحسب الحامل علیھا ۔فان توصل بھا بطریق مباح الی ابطال حق او اثبات فھی حرام ‘‘
ترجمہ:’’حیلہ یہ ہے کہ جائز طریقے سے کسی مقصود تک پہنچنا۔اور علماء کے نزدیک حیلہ کرنے والے کے اعتبار سے اس کی کئی اقسام ہیں : اگر جائز طریقے سے غیر کے حق کو باطل یا باطل چیز کو حاصل کرنے کے لئے کیا جائے حرام ہے ‘‘۔[فتح الباری ،شرح صحیح بخاری ،ج:۱۲،ص:۴۰۴،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔
پروفیسر مفتی منیب الرحمن لکھتے ہیں ’’ اگر جائز طریقے سے کسی کا حق(خواہ اللہ کا حق ہو جیسے زکوٰۃ یا بندے کا حق)باطل کیاجائے یا کسی باطل (مثلاًسود ،رشوت وغیرہ )کو حاصل کیا جائے تو یہ حیلہ حرام ہے ‘‘۔[تفہیم المسائل ،ج:۲،ص:۱۷۵،مطبوعہ ضیا ء القرآن]۔
اور بینک بیلنس بھرنے کے لئے حیلے کا سہارا لینا مستحق مسلمانوں کا حق مارنا ہے اور یہ گناہ ہے۔
فتح الباری میں اسی صفحہ پر ہے ’’ وان کانت لابطال حق مسلم فلا بل ھی اثم وعدوان‘‘
ترجمہ:’’اگر حیلہ سے کسی مسلمان کا حق باطل کرنا ہو تو یہ جائز نہیں بلکہ یہ گناہ اور زیادتی ہے‘‘۔[فتح الباری ،شرح صحیح بخاری ،ج:۱۲،ص:۴۰۴،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔
 اگر ان ویلفیئر اداروں کی بیلنس شیٹ چیک کی جائے تو بعض اداروں میں کروڑوں اور بعض بڑے اداروں میں اربوں روپے سالہاسال تک پڑے رہتے ہیں یہ وہی رقم ہوتی ہے جو غریبوں کی فلاح وبہبود کے نام پر لوگوں نے ان پر اعتماد کر کے جمع کرائی ہوتی ہے لیکن ان  اداروں کو خرچ کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ یہ ادارے بڑے زور وشور سے اس بات کی تشہیر تو کرتے ہیں کہ ہم نے اس سال اتنے کروڑ یا ارب روپے خرچ کیے اور اس کے لئے مہنگے مہنگے بک لیٹ شائع کرتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ادارہ بھی الا ماشاء اللہ   اپنے سالانہ کارکردگی  رپوٹ یا بک لیٹ میں اس بات کو واضح نہیں کرتا کہ اس کے پاس کتنے کروڑ یا ارب روپے بیلنس میں موجود ہیں ۔وہ اپنے اس بینک بیلنس کو اس طرح چھپاتے ہیں جس طرح انسان اپنے گناہوں کو چھپاتا ہے ۔بعض ویلفیئر ادارے غریبوں کی فلاح وبہبود کے بجائے  اپنی ذاتی مقاصد کی تکمیل اور غریبوں کے استحصال کا شاندار نمونہ ہیں بعض لوگوں نے تو غربیوں کا نام لے کر اپنی برادری اور کمیونٹی کے لئے ویلفیئر کھول رکھا ہے ۔وہ پیسہ تو غریبوں کے نام پر پوری دنیا سے جمع کرتے ہیں لیکن ان کو غریب صرف اپنی برادری اور کمیونٹی کے افراد ہی نظر آتے ہیں، بعض اوقات دکھاوے کے لئے کچھ غیر برادری کے لوگوں کی بھی مدد کر دیتے ہیں لیکن اکثر صرف اپنی برادری یا جان پہچان کے لوگوں پر ہی رقم خرچ کرتے ہیں ۔
اگر پاکستان میں کوئی آسمانی آفت جیسے سیلاب یا زلزلہ آجائے تو ان ویلفیئر اداروں کی چاندی ہو جاتی ہے ۔ان آفت زدہ لوگوں کے نام پر یہ لوگ اپنے بینک بیلنس میں مزید اضافہ کرتے ہیں اور کروڑوں اربوں روپے ان آفت زدہ لوگوں کے نام پر جمع کرتے ہیں اور اس رقم میں سے ایک بہت قلیل مقدار ان آفت زدہ مستحق لوگوں تک پہنچتی ہے اور بقیہ ان کے بینکوں میں پڑی رہتی ہے جس کو یہ اپنے ذاتی مفادات اور مقاصد میں خرچ کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔بعض ویلفیئر اداروں نے تو غریب کے بجائے اپنے خاندان کی ویلفیئر کو سامنے رکھا ہوتا ہے اور اس کے لئے انہوں نے بڑے زبردست حیلے ڈھونڈے ہوتے ہیں غریبوں میں تقسیم کرنے کے لئے جو سامان خریدا جاتا ہے وہ انتہائی ناقص اور مہنگے داموں خریدا جاتا ہے اور یہ سامان بیچنے والے افراد عام طور اسی ویلفیئر کے ذمہ داران کے رشتے دار یا دوست احباب ہوتے ہیں ۔
زکوٰۃ وعطیات  دینے والوں کو چاہیے  کہ اگر وہ کسی ویلفیئر ادارے کو اپنی زکوٰۃ یا عطیہ دینا چاہتے ہیں تو اس کی سالانہ رپوٹ میں یہ ضرور چیک کریں کہ ان کے پاس کتنا بیلنس موجود ہے ،ہماری اس بات کی سچائی خود ان کے سامنے آجائے گی لیکن یہ یاد رہے اس ویلفیئر سے منسلک افراد کی زبانی بات پر اعتماد نہ کریں بلکہ  مصدقہ تحریر ی ثبوت طلب کریں۔
اور اگرکوئی  پیشگی زکوٰۃ دینا چاہتا ہے یعنی ابھی اس کے نصاب پر سال پورا نہیں ہوا اور وہ ایڈوانس زکوٰۃ کسی ویلفیئر کو دینا چاہتا ہے اور اس کا غالب گمان یہ ہے کہ میرے نصاب پر سال پورا ہونےپر یا اس سے پہلے میری زکوٰۃ مستحق زکوٰۃ تک پہنچ جائےگی تو جائز ہے۔
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں ’’ اگر زکوٰۃ پیشگی ادا کر تا ہے یعنی ہنوز حولانِ حول (سال کا گزرنا)نہ ہوا کہ وجوبِ ادا ہو جاتا ،خواہ یوں کہ ابھی نصاب نامی فارغ عن الحوائج کا مالک ہو ئے سال تمام نہ ہوا یا یوں کہ سال گزشتہ کی دے چکا ہے اور سالِ رواں ہنوز ختم پر نہ آیا تو جب تک انتہائے سال نہ ہو بلا شبہ تفریق وتدریج کا اختیار کامل رکھتا ہے جس میں اصلاً کو ئی نقصان نہیں ‘‘ ۔[فتاوی رضویہ ،ج:۱۰،ص:۷۵،رضافاؤنڈیشن ،لاہور]۔
کسی ویلفیئر یا ادارے کا لوگوں سے جمع کردہ زکوٰۃ اور دیگر صدقات  کا مال فوری طور پر مستحقین تک پہنچانے کے لئے ہوتے ہیں ایسے مال کو بینکوں میں جمع رکھنا اور اس پر نفع لینا بھی جائز نہیں اور اس طرح زکوٰۃ بھی ادا نہیں ہوتی اور اگر زکوٰۃ دینے والوں کی مرضی بھی شامل ہو تو وہ بھی گنہگار ہوں گے ۔
 مفتی اعظم پاکستان پروفیسرمفتی منیبُ الرحمن مدظلہ العالی اس طرح کے سوا ل کے جواب میں فرماتے ہیں ’’ بعض انجمنیں زکوٰۃ کی رقوم کی قومی بچت کی اسکیموں میں لگا کر سرمایہ کاری کرتی ہیں ،اور ان سے سود حاصل ہو تا ہے اس سے ناداروں کی اعانت کر تی ہیں ،یہ عمل بھی شرعاً ناجائز ہے ، اس سے زکوٰۃ بھی ادا نہیں ہو تی اور سود لینے کا وبال الگ ہے ،ایسے لو گ گنہگار ہیں ،اگر زکوٰۃ دینے والوں کی منشاء بھی شامل ہے تو وہ بھی گنہگار ہوں گے اور ان کی زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی ‘‘۔[تفہیم المسائل :ج:۲،ص:۱۷۶]۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی ویلفیئر یا فلاحی تنظیم یا ادارے کو زکوٰۃ دینا اور دینے والے کاغالب گمان یہ ہو کہ میری زکوٰۃ فوری طور پر مستحق زکوٰۃ تک نہیں پہنچے گی جس کی وجہ سے میں گنہگار ہوں گا تو ایسی ویلفیئر وغیرہ کو زکوٰۃ نہ دے بلکہ کوشش کرے اپنے ہاتھوں مستحقین تک پہنچائے اور فقراء اور مساکین کی پاکستان جیسے ملک میں کمی نہیں ہے ۔مستفتی کی سوال میں پیش کردہ میڈیا رپورٹ ہی غریب مسلمانوں کا درد رکھنے والے مالداروں اور صاحب ثروت لوگوں کے لئے کافی ہے ایسے میں صاحب ِنصاب افراد کو چاہیے کہ خود اپنے ہاتھوں غریبوں کو زکوٰۃ دے کر اللہ کے فریضہ کی ادائیگی کریں ۔واللہ تعالی اعلم
(3،2)صاحب ِ ثروت لوگوں کے خدشات ملکی حالات کی وجہ سے کسی حد تک درست ہیں لیکن اللہ تعالی کے فرض کی ادائیگی اللہ تعالی کے حکم کے مطابق کرنا لازم ہے ،اس کے لئے کئی طریقے اپنائے جاسکتے ہیں ۔
(۱)سال پورا ہونے پر زکوٰۃ ادا کر ناچاہتا  ہے تواس کو مستحقین کی تلاش سال مکمل ہونے سے پہلے کر لینی چاہیے تاکہ سال پورا ہوتے ہی فوراً زکوٰۃ ادا کی جاسکے ۔سب سے پہلے  زکوٰۃ کی رقم کو اپنے مال سے الگ کر ے اور پھر مستحقین میں تقسیم کرنا شروع کر دے ۔
(۲)دوسرا طریقہ زیادہ آسان ہے وہ یہ کہ اپنے مال کی پیشگی زکوٰۃ ادا کرےاس طرح پورے سال میں مستحقین کو تلاش کرنا اور ان کی مدد کرنا آسان ہو گاسال پورا ہونے پر اپنی زکوٰۃ کی ادائیگی کی پڑتال کر کے اگر پوری ہو گئی تو فبہا اگر کم ہوئی ہے تو کمی کو پورا کر دے اور اگر زیادہ چلی گئی ہے تو اس کو آئندہ سال میں شمار کر لے۔
(۳)شہر یا اپنی ہی کمپنی میں زکوٰۃ کاؤنٹر کا قیام عمل میں لائیں جس کے لئے ایک دو ملازم رکھ لیے جائیں اور وہ پورا سال مستحقین کی تلاش اور ان کے کوائف جمع کریں اور ان تک زکوٰۃ پہنچائیں خواہ وہ راش  ہوکی صورت میں ہو یا کپڑوں کی صورت میں یا قرضوں کی ادائیگی کی صورت میں ہو ۔سال بھر زکوٰۃ کی رقم تقسیم کرنے کے باوجود بچ جائے تو اس کی فوری ادئیگی کریں اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اہلسنت کے دینی مدارس  اسلام کے قلعے ہیں ان میں اکثر طلباء فقراء ہوتے ہیں اہلسنت کے مدارس کا وزٹ کر لیا جائے اور جہاں ضرورت محسوس کریں اس مدرسہ کے مہتمم جو طلباء کا کفیل اور وکیل ہوتا ہے کو دے دی جائے توفوری  زکوٰۃ اداء ہو جائے گی ۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی منیت الرحمن صاحب مد ظلہ العالی لکھتے ہیں:" ایسے تمام دینی مدارس وجامعات ،یتیموں /معذوروں /محتاجوں کے دارالکفالت ،جن میں سب طلبہ یا یتامیٰ یا معذورین مستحق زکوٰۃ ہوں ،اُن کا مہتمم /متولی زکوٰۃ وصدقات ِ واجبہ کی وصولی کے لئے اُن کا وکیل ہے ۔لہذا جب ایسے ادارے کے متولی یا مہتمم کو زکوٰۃ اور صدقات ِ واجبہ دے دیئے جائیں ،تو وہ ادا ہو جائیں گے ۔اور ادارے کا متولی /مہتمم اُن کے وکیل کی حیثیت اُن کے مصالح میں دیانت وامانت کے اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اِس رقم کو خرچ کر سکتا ہے ،مصالح سے مراد اُن کی خوراک ،لباس ،علاج ،کتب اورتعلیم وتدریس کے مصارف ہیں ۔اِن میں مدرسین وعملے کے مشاہرات ،گیس ،بجلی ،پانی کے بل ،عمارت کی نگہداشت اور دیگر سب امور شامل ہیں "۔[زکوٰۃ،معنی ومفہوم ،اہمیت ،فضائل ومسائل ،ص:۱۲۳،مکتبہ نعیمیہ کراچی]۔
مزید دو صفحات کے بعد امام اہلسنت امام احمد رضا علیہ رحمۃ الرحمن یتیم خانہ کے بارے میں سوال وجواب ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:" امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالی کے اس فتوے سے معلوم ہوا کہ ہر وہ ادارہ جو دارالکفالت ہے ،جس میں سب کے سب خواہ یتامیٰ ہوں یا فقراء ومساکین یامستحق طلبوں ،تو اس کا متولی زکوٰۃ وصول کرنے میں اُن کا وکیل ہے اور اسے زکوٰۃ ادا کرنے سے مال دار کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ،کیونکہ وکیل کا وصول کرنا مؤکل کا وصول کرنا ہے "۔ [زکوٰۃ،معنی ومفہوم ،اہمیت ،فضائل ومسائل ،ص:۱۲۵،مکتبہ نعیمیہ]۔
(4)کسی ویلفیئر ادارے سے مستحقین کے کوائف لے لیے جائیں اور اپنے ملازمین کے ذریعے ان میں زکوٰۃ تقسیم کر اد ی جائے ۔لیکن بعض ویلفیئر اداروں نے مستحق کی تلاش اور چھان بین کاجو طریقہ اپنا رکھا ہے  وہ انتہائی شرم ناک اور سفید پوش افراد کے لئےذلت ورسوائی کا سامان ہے۔ شریعت مطہرہ کی طرف سے اس طرح کی رسوائی والی چھان بین کا کوئی حکم نہیں ہے ۔شریعت کا حکم تو اتنا ہے کہ جس کو زکوٰۃ دینا چاہتے ہیں اس کے بارے میں  تحری یعنی غوروفکر کریں کہ اس کی ظاہری حالت کے مطابق یہ مستحق زکوٰۃ ہے یانہیں اگردل اس بات پر جمے کہ یہ مستحق زکوٰۃ ہے تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ۔بالفرض اگر وہ مستحق نہیں تھا پھر بھی دینے والے کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ، اور کسی نے سوال کیا اور اس کو مستحق جان کر زکوٰۃ دے دی تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ۔
مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں" جس نے تحری کی یعنی سوچا اور دل میں یہ بات جمی کہ اس کو زکاۃ دے سکتے ہیں اورزکاۃ دے دی بعد میں ظاہر ہوا کہ وہ مصرف زکاۃ ہے یا کچھ حال نہ کُھلا تو ادا ہوگئی اور اگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غنی تھا یا اُس کے والدین میں کوئی تھا یا اپنی اولاد تھی یا شوہر تھا یا زوجہ تھی یا ہاشمی یا ہاشمی کا غلام تھا یا ذمّی تھا، جب بھی ادا ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ بھی تحری ہی کے حکم میں ہے کہ اُس نے سوال کیا، اس نے اُسے غنی نہ جان کر دے دیا یا وہ فقیروں کی جماعت میں انھیں کی وضع میں تھا اُسے دے دیا"[بہارشریعت ،ج:۱،ص:۹۳۲،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی]۔
اس سے واضح ہو گیا کہ مستحق زکوٰۃ کی پہچان کا جو طریقہ بعض ویلفیئر والوں نے اختیار کر رکھا ہے قطعا مقصود شرعاً کے خلاف ہےاس کا وجود شریعت مطہرہ میں کہیں نہیں ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے:" لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ لَا یَسْتَطِیۡعُوۡنَ ضَرْبًا فِی الۡاَرْضِ۫ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِۚ تَعْرِفُہُمۡ بِسِیۡمٰہُمْۚ لَا یَسْئَلُوۡنَ النَّاسَ اِلْحَافًاؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنْ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ"
ترجمہ کنزالایمان:" ان فقیروں کے لئے جو راہ خدا میں روکے گئے ، زمین میں چل نہیں سکتے ، نادان انہیں تونگر(مالدار) سمجھے بچنے کے سبب ،تُو انہیں ان کی صورت سے پہچان لے گا ، لوگوں سے سوال نہیں کرتے کہ گڑگڑانا پڑے اور تم جو خیرات کرو اللہ اسے جانتا ہے"۔[سورہ البقرۃ،آیت:۲۷۳]۔
ضروریات اصلیہ (رہائش کے مکان ،ذاتی سواری کی گاڑی،اور کھانے پینے کی اشیاء اور دوسری ایسی اشیا ء جو اکثر گھروں میں استعمال ہو تی ہیں جیسے ٹی ۔وی ،فریج ،فرنیچروغیرہ )استحقاق زکوٰۃ سے مانع نہیں ہیں ۔
 مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن لکھتے ہیں:گھریلو سامان جس کا تعلق اس کی بنیادی حاجات وضروریات سے ہے ،اِس سے وہ مال دار نہیں قرار پاتا ،جیسے آج کل لوگوں کے پاس ریفریجریٹر اور ٹی ۔وی  ہوتا ہے یا کوئی سواری ہوتی ہے ،جیسے موٹر سائیکل یا کار وغیرہ یا استعمال کے برتن اور فرنیچر وغیرہ ہوتا ہے۔یہ چیزیں استحقاق زکوٰۃ سے مانع نہیں ہیں "۔[ زکوٰۃ،معنی ومفہوم ،اہمیت ،فضائل ومسائل ،ص:۱۵۷ ،مکتبہ نعیمیہ کراچی]۔
مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: جس کے پاس مکان یا دکان ہے جسے کرایہ پر اٹھاتا ہے اور اُس کی قیمت مثلاً تین ہزار ہو مگر کرایہ اتنانہیں جو اُس کی اور بال بچوں کی خورش کو کافی ہو سکے تو اُس کو زکاۃ دے سکتے ہیں۔ یوہیں اس کی مِلک میں کھیت ہیں جن کی کاشت کرتا ہے، مگر پیداوار اتنی نہیں جو سال بھر کی خورش کے لیے کافی ہو اُس کو زکاۃ دے سکتے ہیں، اگرچہ کھیت کی قیمت دو سو ۲۰۰ درم (نصاب کی مقدار کے برابر)یا زائد ہو۔"[بہارشریعت ،ج:۱،ص:۹۲۹،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی]۔واللہ تعالی اعلم
  الجواب صحيح                                     کتبــــه

ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اختر المدنی                                                       ابوالجمیل غلام مرتضیٰ مظہری

12جون،2015، ۲۴شعبان المعظم ۱۴۳۶ھ                                       12جون،2015، ۲۴شعبان المعظم ۱۴۳۶ھ