کیا صفر میں بلائیں اترتی ہیں ومسائل صفر
نُحوست کے وہمی تصورات کے شکارلوگ ماہِ صفرکو مصیبتوں اور آفتوں کے اُترنے کا مہینہ سمجھتے ہیں خصوصا اس کی ابتدائی تیرہ تاریخیں جنہیں ’’تیرہ تیزی‘‘ کہا جاتا ہے بہت منحوس تصوُّر کی جاتی ہیں ۔ وہمی لوگوں کا یہ ذہن بنا ہوتا ہے کہ صفر کے مہینے میں نیا کاروبار شروع نہیں کرناچا ہئے نقصان کا خطرہ ہے،سفرکرنے سے بچنا چاہئے ایکسیڈنٹ کا اندیشہ ہے،شادیاں نہ کریں ، بچیوں کی رخصتی نہ کریں گھر برباد ہونے کا امکان ہے،ایسے لوگ بڑا کاروباری لین دین نہیں کرتے،گھر سے باہر آمد و رفت میں کمی کردیتے ہیں ، اس گمان کے ساتھ کہ آفات ناز ل ہورہی ہیں اپنے گھر کے ایک ایک برتن کو اور سامان کو خوب جھاڑتے ہیں ،اسی طرح اگر کسی کے گھر میں اس ماہ میں میت ہو جائے تواسے منحوس سمجھتے ہیں اور اگر اس گھرانے میں اپنے لڑکے یا لڑکی کی منگنی طے ہوئی ہو تو اس کو توڑ دیتے ہیں۔صفر کے آخری بدھ کو چُوریاں بنائی جائی ہیں کہ اس بدھ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا نے آپ ﷺ کو شفاء ملنے پر بنائی تھی سب بے بنیاد توہمات وخیالات ہیں۔جس کی تفصیل آگے مذکور ہے۔
حضرت مولانا شاہ عبد الحق محدثِ دہلوی علیہ رحمۃُ االلہ علیہ لکھتے ہیں : عوام اسے (یعنی صفر کے مہینے کو) بلاوں،حادثوں اور آفتوں کے نازل ہونے کا وَقْت قرار دیتے ہیں ،یہ عقیدہ باطِل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔(اشعۃ اللمعات)
حدیث : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ مرض کا اڑکر لگنا ہے، نہ پرندہ نہ اُلّو، نہ صفر کوئی چیز ہے۔اور کوڑھی سے ایسے بھاگے جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو۔(بخاری)
شرح: اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ بیماریوں میں عقل و ہوش ہے جو بیمار کے پاس بیٹھے اسے بھی اس مریض کی بیماری لگ جاتی ہے وہ پاس بیٹھنے والے کو جانتی پہچانتی ہے یہاں اسی عقیدے کی تردید ہے۔موجودہ حکیم ڈاکٹر سات بیماریوں کو متعدی مانتے ہیں: جذام،خارش،چیچک،موتی جھرہ،منہ کی یا بغل کی بو،آشوب چشم،وبائی بیماریاں اس حدیث میں ان سب وہموں کو دفع فرمایا گیا ہے۔(مرقات و اشعہ)اس معنی سے مرض کا اڑ کر لگنا باطل ہے مگر یہ ہوسکتا ہے کہ کسی بیمار کے پاس کی ہوا متعفن ہو اور جس کے جسم میں اس بیماری کا مادہ ہو وہ اس تعفن سے اثر لے کر بیمار ہوجاوے اس معنی سے متعدی ہوسکتی ہے ۔
مسئلہ: ماہ صفر کا آخر بدھ پاکستان خصوصاً پنجاب میں بہت منایا جاتا ہے اس کے لئے دیسی گھی کی چُوری بنائی جاتی ہے ۔ کہتے یہ ہیں کہ حضور اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کو تکلیف ہوئی تو حضرت بی بی صاحبہ نے منت مانی تھی کہ اللہ تعالی آپ ﷺ کو شفاء دے تو میں چوری بناؤں گی صفر کے آخری بدھ شفاء ملی اور آپ ﷺ نے غسلِ صحت فرمایا تھا۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں، بلکہ اسی بدھ کے دن میں حضور اکرم ﷺم کا مرض شروع ہوا جس میں آپ کا وصال مبارک ہوا لہذا مذکورہ نظریہ کے تحت چُوری بنانا درست نہیں ہے۔بلکہ چند دن بعد استقبال ربیع الاول کی چُوری بنالی جائے کہ ہمارے آقا ومولا ﷺ کی ولادت کا مبارک مہینہ ہے۔
مسئلہ: بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ صفر میں بلائیں اترتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں سب بے ثبوت ہیں،بلکہ حدیث کا یہ ارشاد لاصفر.یعنی صفر کوئی چیز نہیں۔ ایسی تمام خرافات کو رد کرتا ہے۔
مسئلہ: اہلِ عرب کا خیال تھا کہ میت کی گلی ہڈیاں اُلّو بن کر آجاتی ہیں اور اُلّو جہاں بول جاوے وہاں ویرانہ ہوجاتا ہے یہ عقیدہ غلط ہے۔
مسئلہ: جو شخص یہ سُوال کرے کہ کیا بعض دن منحوس ہوتے ہیں اس کے جواب سے اِعراض کیا جائے اور اس کے فعل کو جہالت کہا جائے اور اس کی مذمت بیان کی جائے، ایسا سمجھنا یہود کا طریقہ ہے، مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے جو اللہ تعالی پر توکُّل کرتے ہیں۔(تنقیح الفتاوی الحامدیہ)
مسئلہ:ماہِ صفربھی دیگر مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے جس طرح دوسرے مہینوں میں رب عَزَّوَجَلَّ کے فضل وکرم کی بارشیں ہوتی ہیں اس میں بھی ہوسکتی ہیں ، اس لئے تو صَفَرُ الْمُظَفَّرکہا جاتا ہے یعنی کامیابی کا مہینہ،یہ کیونکر منحوس ہوسکتا ہے؟ اب اگر کوئی شخص اس مہینہ میں احکامِ شرع کا پابند رہا،نیکیاں کرتا اور گناہوں سے بچتا رہا تو یہ مہینہ یقیناًاس کے لئے مبارک ہے اور اگر کسی بَدکردار نے یہ مہینہ بھی گناہوں میں گزارا، جائز ناجائز اور حرام حلال کا خیال نہ رکھا تو اس کی بربادی کے لئے گناہوں کی نُحوست ہی کافی ہے۔اب ماہِ صفر ہویا کسی بھی مہینے کا سیکنڈ، منٹ یا گھنٹہ! اگر اُسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ اس کی شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے۔
من گھڑت حدیث
مسئلہ: عوام میں مشہور ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جو صفر کے ختم ہونے اور ربیع الاول کے شروع ہونے کی خبر سب پہلے دے اس پر جنت واجب ہے ،یہ من گھڑت اور حضور ﷺ پر بہتان ہے ۔حضور اکرم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے: جو میری حدیث نہ ہو پھر اس کو میری حدیث کے طور پر بیان کرے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔(بخاری ومسلم)
مسئلہ:محرم اورصفر میں شادی کو اکثر لوگ منحوس وناجائز سمجھتے۔اس سے اگر تومروجہ شادیا ں مراد ہیں جس میں ڈھول تماشہ ،عورتوں اور مردوں میں رقص ورسرو ،ناچ گانہ ہوتا ہے راتوں کو دیر تک دنگل لگا رہتا ہے تو ایسی شادی سال کے بارہ مہینوں میں جائز نہیں ہیں۔اگر ایسی شادی مراد ہے جو حضور اکرم ﷺ کی لخت جگر حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی عنھاکی شادی ہوئی تھی تووہ محرماور صفر میں بھی جائز ہے کیونکہ آپ کی شادی یکم ہجری صفرکے مہینے میں ہوئی تھی ۔
ماہ صفر میں پیش آنے والے چندتاریخی واقعات
(۱)صفر المظفرپہلی ہجری میں حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اورخاتونِ جنت حضرتِ سَیِّدَتُنا فاطمہ زہرہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکی شادی خانہ آبادی ہوئی۔(الکامل فی التاریخ)
(۲)صفر المظفر سات ہجری میں مسلمانوں کو فتحِ خیبر نصیب ہوئی۔(البدایۃ والنہایۃ)
(۳)سیفُ اللہ حضرتِ سیِّدُنا خالد بن ولید،حضرتِ سیِّدُنا عمرو بن عاص اور حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن طلحہ عبدری رضی اللہ تعالٰی عنہم نے صفر المظفرآٹھ ہجری میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکراسلام قبول کیا۔ (الکامل فی التاریخ) (۴)ماہ صفر المظفر 11سن ہجری میں کذاب اسود عنسی کو صحابی رسول حضرت سیدنا فیروز دیلمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے واصل جہنم فرمایا۔
(۵) مدائن (جس میں کسرٰی کا محل تھا) کی فتح صفر المظفر سولہ ہجری کے مہینے میں ہوئی۔ (الکامل فی التاریخ)کیا اب بھی آپ صفر کو منحوس جانیں گے؟یقیناً نہیں ۔
ستاروں کے اچھے بُرے اثرات پر یقین رکھنا
مسئلہ:خود کو پڑھا لکھا سمجھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ستاروں کے اثرات کی اس قدر قائل ہوتی ہے کہ شادی اور کاروبارجیسے اہم فیصلے بھی ستاروں کی نَقْل وحرکت کے مطابق کرتی ہے، ایسے لوگ ستارہ شناسی کا دعویٰ کرنے والوں کا آسان شکار ہوتے ہیں جو ان کو بے وقوف بنا کر بڑی بڑی رقمیں بٹورتے رہتے ہیں ۔بارہا ایسا ہوتا ہے کہ لڑکا لڑکی کا رشتہ طے ہوچکا ہوتا ہے، ضَروری چھان بین بھی ہوچکی ہوتی ہے لیکن ایک فریق یہ کہہ کررشتے سے انکار کردیتا ہے کہ ہم نے پتا کروایا ہے کہ لڑکے اور لڑکی کا ستارہ آپس میں نہیں ملتالہٰذا یہ شادی نہیں ہوسکتی اس طرح کے خیالات درست نہیں۔
نُجومی کو ہاتھ دکھانا
مسئلہ:بہت سے لوگ کاہنوں، نُجومیوں، پروفیسروں اور رَمل و جَفَر کے جھوٹے دعویداروں کے ہاں جا کر قسمت کاحال معلوم کرتے ہیں،اپنا ہاتھ دکھاتے ہیں، فالنامے نکلواتے ہیں ،پھر اس کے مطابق آئندہ زندگی کا لائحہ عمل بناتے ہیں ۔اس طرزِ عمل میں نقصان ہی نقصان ہے ان کو ہاتھ دکھا کر تقدیر کا بھلا بُرا دریافت کرنا اگر بطورِ اِعتقاد ہو یعنی جو یہ بتائیں حق ہے تو کفرِخالص ہے،اسی کو حدیث میں فرمایا: فَقَدْ کَفَرَ بِمَانُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّد یعنی اس نے محمدﷺپر نازل ہونے والی شے کا انکار کیا۔ اور اگر بطورِاِعتِقاد وتَیَقُّن(یعنی یقین رکھنے کے)نہ ہو مگر مَیل ورَغبت کے ساتھ ہو تو گناہِ کبیرہ ہے،اسی کو حدیث میں فرمایا: لَمْ یَقْبَلِ اللہ صَلٰوۃَ اَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ فرمائیگا۔ (فتاویٰ رضویہ)۔
گرہن سے جڑے ہوئے توہمات
مسئلہ:سورج اورچاند گرہن کے بارے میں مختلف تصورات وتوہُّمات پائے جاتے ہیں،مثلاً:* گرہن کے وَقْت حاملہ خواتین کو کمرے کے اندر رہے اور سبزی وغیرہ نہ کاٹے تاکہ ان کے بچے کسی پیدائشی نَقْص کے بغیر پیدا ہوں * گرہن کے وَقْت حاملہ خواتین کو سلائی کڑھائی سے بھی منع کیا جاتا ہے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے بچے کے جسم پر غَلَط اثر پڑسکتا ہے شریعت مطہرہ میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔
نہ جانے کس منحوس کی شکل دیکھی تھی
مسئلہ:بَدشگونی وبد فالی کی عادتِ بَد میں مبتلا شخص کو جب کسی کام میں نقصان ہوتا ہے یا کسی مقصد میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ یہ جملہ کہتا ہے:آج فلاں شخص صبح صبح ملا اور ساردن خراب ہو گیا کوئی گاہک نہیں آیا ۔یا فلاں نائی ،موچی ،کالی بلی ،کالاکتا متھے لگا(ملا)آج کا دن کوئی کام درست نہیں ہوگا۔یا کسی دن مقصد میں کامیابی نہ ہوتو کہتاہے آج صبح سویرے نہ جانے کس منحوس کی شکل دیکھی تھی؟حالانکہ! انسان صبح سویرے بستر پر آنکھ کھلنے کے بعد سب سے پہلے اپنے ہی گھر کے کسی فرد کی شکل دیکھتا ہے، تو کیا گھر کا کوئی آدمی اس قدر منحوس ہوسکتا ہے کہ صِرْف اس کی شکل دیکھ لینے سے سارا دن نُحوست میں گزرتا ہے؟۔
کیا کسی کو نظر لگ سکتی ہے؟
مسلمان بھائیو! انسانی جسم اور دیگر اشیاء کو نظر لگنا، اس سے بچنے کی تدابیر کرنا،اس کا علاج کرنا شَرْعاً ثابت ہے لیکن یاد رہے کسی کی نظر لگنااور چیز ہے اور کسی کو منحوس سمجھنا اور چیز۔
کیانظرلگتی ہے
حدیث:رسول اللہﷺ نے اِرشادفرمایا: نظر حق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے بڑھ سکتی تو اس پر نظر بڑھ جاتی اور جب تم دھلوائے جاؤ تو دھودو۔(مسلم،کتاب السلام،باب الطب و المرض و الرقی)
مسئلہ:نظرِ بَد کا اثر برحق ہے اس سے منظور (یعنی جسے نظر لگی اس)کو نقصان پہنچ جاتاہے۔
مسئلہ: نظر کا اثر اس قدر سَخْت ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر کا مقابلہ کرسکتی تو نظرِ بَد کرلیتی کہ تقدیر میں آرام لکھا ہو مگر یہ تکلیف پہنچادیتی مگر چونکہ کوئی چیز تقدیر کا مقابلہ نہیں کرسکتی اس لیے یہ نظرِ بَد بھی تقدیر نہیں پلٹ سکتی۔
مسئلہ: اگر کسی نظرے ہوئے (یعنی جس کو نظر لگی ہو اس)کو تم پر شبہ ہو کہ تمہاری نظر اسے لگی ہے اور وہ دفعِ نظر (یعنی نظر اُتارنے)کے لیے تمہارے ہاتھ پاؤں دُھلواکر اپنے پر چھینٹا مارنا چاہے تو تم بُرانہ مانو بلکہ فورا اپنے یہ اَعضاء دھو کر اسے دے دو، نظر لگ جانا عیب نہیں۔نظر تو ماں کی بھی لگ جاتی ہے۔
مسئلہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عوام میں نظر اتارنے کے ٹوٹکے اگر خلافِ شرع نہ ہوں تو ان کا بند کرنا ضَروری نہیں ،دیکھو نظر والے کے ہاتھ پاؤں دھو کر مَنْظُور (یعنی جس کو نظر لگی ہو)کو چھینٹا مارنے کا عرب میں رواج تھا، حضورﷺ نے اس کو باقی رکھا۔
مسئلہ:ہمارے ہاں تھوڑی سی آٹے کی بھوسی تین سُرخ مرچیں منظور (یعنی جس کو نظر لگی ہو)پر سات بار گھما کر سرسے پاؤں تک پھر آگ میں ڈال دیتے ہیں اگر نظر ہوتی ہے تو بُھس نہیں اٹھتی اور رب تعالیٰ شفاء دیتا ہے۔اس طرح کے دیگر ٹوٹکے جس میں خلافِ شرع کوئی امرنہ ہوتو جائز ہیں۔
مسئلہ:جیسے دواؤں میں نَقْل(دلیل) کی ضرورت نہیں تجربہ کافی ہے ایسے ہی دعاؤں اور ٹوٹکوں میں نَقْل ضَروری نہیں خلافِ شرع نہ ہوں تو دُرُست ہیں اگرچہ ماثُور دعائیں افضل ہیں ۔
مسئلہ:حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک خوبصورت تندُرُست بچہ دیکھا تو فرمایا اس کی ٹھوڑی میں سیاہی لگا دو تاکہ نظر نہ لگے۔
مسئلہ: حضرت ہشام ابن عروہ (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ)جب کوئی پسندیدہ چیز دیکھتے تو فرماتے: ماشاءَ اللہُ لَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ۔
مسئلہ: علماء فرماتے ہیں کہ بعض نظروں میں زہریلا پن ہوتا ہے جو اثر کرتاہے۔ (مرقات،مراٰۃ المناجیح)
کھیتوں وغیرہ کو نظر لگنے سے بچانے کا نسخہ
مسئلہ:اس بات میں کوئی حَرَج نہیں ہے کہ کھیتی یاخربوز اور تربوز کے کھیت میں نظر بَد سے بچاؤ کے لیے ہڈیاں لٹکائی جائیں کیو نکہ نظر بَدمال،آدمی اور جانور سب کو لگ جاتی ہے اور اس کا اثرعلامات سے ظاہِر ہوجاتا ہے تودیکھنے والا جب کھیتی کی جانب دیکھے گا تو اس کی نگاہ پہلے ہڈیوں پر پڑے گی کیو نکہ وہ کھیت سے بلند ہوتی ہیں اس کے بعد کھیتی پرپڑے گی تو یوں اس کی نظر کا زہر وہیں ضائع ہوجائے گا اور کھیت کو نقصان نہیں پہنچے گا۔اور کہیں پُرانی ہنڈیہ وغیرہ اُلٹی مکانوں کی چھتوں پر رکھی جاتی ہیں تاکہ نظر بد سے محفوظ رہے یہ بھی جائز ہے۔
حدیث : ایک صحابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں کہ ہم کسان لوگ ہیں اور ہمیں اپنے کھیتوں پر نظرِ بَد کا اندیشہ رہتا ہے،آپ نے کھیتی میں ہڈیاں رکھنے کا حکم اِرشادفرمایا۔(سنن الکبری للبیہقی)۔(رد المحتار)
ماہانہ مفت سلسلہ اشاعت ماہ صفرالمظفر اصلاح عامہ کے لئے ہے
مؤلف: مفتی غلام مرتضیٰ مظہری شازلی حسنی رضوی
خادم دارالافتاء فیضان شریعت گلشن مصطفی لیہ وفیضان کوثرلدھانہ
صدر مدرس جامعہ انوار حبیب لدھانہ ضلع لیہ
تصدیق شدہ: استادیم مفتی محمد وسیم اختر المدنی انچارج تخصص فی الفقہ جامعہ نعیمیہ کراچی
فون:03022576336..03422740086..03333834636
نُحوست کے وہمی تصورات کے شکارلوگ ماہِ صفرکو مصیبتوں اور آفتوں کے اُترنے کا مہینہ سمجھتے ہیں خصوصا اس کی ابتدائی تیرہ تاریخیں جنہیں ’’تیرہ تیزی‘‘ کہا جاتا ہے بہت منحوس تصوُّر کی جاتی ہیں ۔ وہمی لوگوں کا یہ ذہن بنا ہوتا ہے کہ صفر کے مہینے میں نیا کاروبار شروع نہیں کرناچا ہئے نقصان کا خطرہ ہے،سفرکرنے سے بچنا چاہئے ایکسیڈنٹ کا اندیشہ ہے،شادیاں نہ کریں ، بچیوں کی رخصتی نہ کریں گھر برباد ہونے کا امکان ہے،ایسے لوگ بڑا کاروباری لین دین نہیں کرتے،گھر سے باہر آمد و رفت میں کمی کردیتے ہیں ، اس گمان کے ساتھ کہ آفات ناز ل ہورہی ہیں اپنے گھر کے ایک ایک برتن کو اور سامان کو خوب جھاڑتے ہیں ،اسی طرح اگر کسی کے گھر میں اس ماہ میں میت ہو جائے تواسے منحوس سمجھتے ہیں اور اگر اس گھرانے میں اپنے لڑکے یا لڑکی کی منگنی طے ہوئی ہو تو اس کو توڑ دیتے ہیں۔صفر کے آخری بدھ کو چُوریاں بنائی جائی ہیں کہ اس بدھ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا نے آپ ﷺ کو شفاء ملنے پر بنائی تھی سب بے بنیاد توہمات وخیالات ہیں۔جس کی تفصیل آگے مذکور ہے۔
حضرت مولانا شاہ عبد الحق محدثِ دہلوی علیہ رحمۃُ االلہ علیہ لکھتے ہیں : عوام اسے (یعنی صفر کے مہینے کو) بلاوں،حادثوں اور آفتوں کے نازل ہونے کا وَقْت قرار دیتے ہیں ،یہ عقیدہ باطِل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔(اشعۃ اللمعات)
حدیث : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ مرض کا اڑکر لگنا ہے، نہ پرندہ نہ اُلّو، نہ صفر کوئی چیز ہے۔اور کوڑھی سے ایسے بھاگے جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو۔(بخاری)
شرح: اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ بیماریوں میں عقل و ہوش ہے جو بیمار کے پاس بیٹھے اسے بھی اس مریض کی بیماری لگ جاتی ہے وہ پاس بیٹھنے والے کو جانتی پہچانتی ہے یہاں اسی عقیدے کی تردید ہے۔موجودہ حکیم ڈاکٹر سات بیماریوں کو متعدی مانتے ہیں: جذام،خارش،چیچک،موتی جھرہ،منہ کی یا بغل کی بو،آشوب چشم،وبائی بیماریاں اس حدیث میں ان سب وہموں کو دفع فرمایا گیا ہے۔(مرقات و اشعہ)اس معنی سے مرض کا اڑ کر لگنا باطل ہے مگر یہ ہوسکتا ہے کہ کسی بیمار کے پاس کی ہوا متعفن ہو اور جس کے جسم میں اس بیماری کا مادہ ہو وہ اس تعفن سے اثر لے کر بیمار ہوجاوے اس معنی سے متعدی ہوسکتی ہے ۔
مسئلہ: ماہ صفر کا آخر بدھ پاکستان خصوصاً پنجاب میں بہت منایا جاتا ہے اس کے لئے دیسی گھی کی چُوری بنائی جاتی ہے ۔ کہتے یہ ہیں کہ حضور اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کو تکلیف ہوئی تو حضرت بی بی صاحبہ نے منت مانی تھی کہ اللہ تعالی آپ ﷺ کو شفاء دے تو میں چوری بناؤں گی صفر کے آخری بدھ شفاء ملی اور آپ ﷺ نے غسلِ صحت فرمایا تھا۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں، بلکہ اسی بدھ کے دن میں حضور اکرم ﷺم کا مرض شروع ہوا جس میں آپ کا وصال مبارک ہوا لہذا مذکورہ نظریہ کے تحت چُوری بنانا درست نہیں ہے۔بلکہ چند دن بعد استقبال ربیع الاول کی چُوری بنالی جائے کہ ہمارے آقا ومولا ﷺ کی ولادت کا مبارک مہینہ ہے۔
مسئلہ: بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ صفر میں بلائیں اترتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں سب بے ثبوت ہیں،بلکہ حدیث کا یہ ارشاد لاصفر.یعنی صفر کوئی چیز نہیں۔ ایسی تمام خرافات کو رد کرتا ہے۔
مسئلہ: اہلِ عرب کا خیال تھا کہ میت کی گلی ہڈیاں اُلّو بن کر آجاتی ہیں اور اُلّو جہاں بول جاوے وہاں ویرانہ ہوجاتا ہے یہ عقیدہ غلط ہے۔
مسئلہ: جو شخص یہ سُوال کرے کہ کیا بعض دن منحوس ہوتے ہیں اس کے جواب سے اِعراض کیا جائے اور اس کے فعل کو جہالت کہا جائے اور اس کی مذمت بیان کی جائے، ایسا سمجھنا یہود کا طریقہ ہے، مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے جو اللہ تعالی پر توکُّل کرتے ہیں۔(تنقیح الفتاوی الحامدیہ)
مسئلہ:ماہِ صفربھی دیگر مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے جس طرح دوسرے مہینوں میں رب عَزَّوَجَلَّ کے فضل وکرم کی بارشیں ہوتی ہیں اس میں بھی ہوسکتی ہیں ، اس لئے تو صَفَرُ الْمُظَفَّرکہا جاتا ہے یعنی کامیابی کا مہینہ،یہ کیونکر منحوس ہوسکتا ہے؟ اب اگر کوئی شخص اس مہینہ میں احکامِ شرع کا پابند رہا،نیکیاں کرتا اور گناہوں سے بچتا رہا تو یہ مہینہ یقیناًاس کے لئے مبارک ہے اور اگر کسی بَدکردار نے یہ مہینہ بھی گناہوں میں گزارا، جائز ناجائز اور حرام حلال کا خیال نہ رکھا تو اس کی بربادی کے لئے گناہوں کی نُحوست ہی کافی ہے۔اب ماہِ صفر ہویا کسی بھی مہینے کا سیکنڈ، منٹ یا گھنٹہ! اگر اُسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ اس کی شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے۔
من گھڑت حدیث
مسئلہ: عوام میں مشہور ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جو صفر کے ختم ہونے اور ربیع الاول کے شروع ہونے کی خبر سب پہلے دے اس پر جنت واجب ہے ،یہ من گھڑت اور حضور ﷺ پر بہتان ہے ۔حضور اکرم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے: جو میری حدیث نہ ہو پھر اس کو میری حدیث کے طور پر بیان کرے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔(بخاری ومسلم)
مسئلہ:محرم اورصفر میں شادی کو اکثر لوگ منحوس وناجائز سمجھتے۔اس سے اگر تومروجہ شادیا ں مراد ہیں جس میں ڈھول تماشہ ،عورتوں اور مردوں میں رقص ورسرو ،ناچ گانہ ہوتا ہے راتوں کو دیر تک دنگل لگا رہتا ہے تو ایسی شادی سال کے بارہ مہینوں میں جائز نہیں ہیں۔اگر ایسی شادی مراد ہے جو حضور اکرم ﷺ کی لخت جگر حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی عنھاکی شادی ہوئی تھی تووہ محرماور صفر میں بھی جائز ہے کیونکہ آپ کی شادی یکم ہجری صفرکے مہینے میں ہوئی تھی ۔
ماہ صفر میں پیش آنے والے چندتاریخی واقعات
(۱)صفر المظفرپہلی ہجری میں حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اورخاتونِ جنت حضرتِ سَیِّدَتُنا فاطمہ زہرہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکی شادی خانہ آبادی ہوئی۔(الکامل فی التاریخ)
(۲)صفر المظفر سات ہجری میں مسلمانوں کو فتحِ خیبر نصیب ہوئی۔(البدایۃ والنہایۃ)
(۳)سیفُ اللہ حضرتِ سیِّدُنا خالد بن ولید،حضرتِ سیِّدُنا عمرو بن عاص اور حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن طلحہ عبدری رضی اللہ تعالٰی عنہم نے صفر المظفرآٹھ ہجری میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکراسلام قبول کیا۔ (الکامل فی التاریخ) (۴)ماہ صفر المظفر 11سن ہجری میں کذاب اسود عنسی کو صحابی رسول حضرت سیدنا فیروز دیلمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے واصل جہنم فرمایا۔
(۵) مدائن (جس میں کسرٰی کا محل تھا) کی فتح صفر المظفر سولہ ہجری کے مہینے میں ہوئی۔ (الکامل فی التاریخ)کیا اب بھی آپ صفر کو منحوس جانیں گے؟یقیناً نہیں ۔
ستاروں کے اچھے بُرے اثرات پر یقین رکھنا
مسئلہ:خود کو پڑھا لکھا سمجھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ستاروں کے اثرات کی اس قدر قائل ہوتی ہے کہ شادی اور کاروبارجیسے اہم فیصلے بھی ستاروں کی نَقْل وحرکت کے مطابق کرتی ہے، ایسے لوگ ستارہ شناسی کا دعویٰ کرنے والوں کا آسان شکار ہوتے ہیں جو ان کو بے وقوف بنا کر بڑی بڑی رقمیں بٹورتے رہتے ہیں ۔بارہا ایسا ہوتا ہے کہ لڑکا لڑکی کا رشتہ طے ہوچکا ہوتا ہے، ضَروری چھان بین بھی ہوچکی ہوتی ہے لیکن ایک فریق یہ کہہ کررشتے سے انکار کردیتا ہے کہ ہم نے پتا کروایا ہے کہ لڑکے اور لڑکی کا ستارہ آپس میں نہیں ملتالہٰذا یہ شادی نہیں ہوسکتی اس طرح کے خیالات درست نہیں۔
نُجومی کو ہاتھ دکھانا
مسئلہ:بہت سے لوگ کاہنوں، نُجومیوں، پروفیسروں اور رَمل و جَفَر کے جھوٹے دعویداروں کے ہاں جا کر قسمت کاحال معلوم کرتے ہیں،اپنا ہاتھ دکھاتے ہیں، فالنامے نکلواتے ہیں ،پھر اس کے مطابق آئندہ زندگی کا لائحہ عمل بناتے ہیں ۔اس طرزِ عمل میں نقصان ہی نقصان ہے ان کو ہاتھ دکھا کر تقدیر کا بھلا بُرا دریافت کرنا اگر بطورِ اِعتقاد ہو یعنی جو یہ بتائیں حق ہے تو کفرِخالص ہے،اسی کو حدیث میں فرمایا: فَقَدْ کَفَرَ بِمَانُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّد یعنی اس نے محمدﷺپر نازل ہونے والی شے کا انکار کیا۔ اور اگر بطورِاِعتِقاد وتَیَقُّن(یعنی یقین رکھنے کے)نہ ہو مگر مَیل ورَغبت کے ساتھ ہو تو گناہِ کبیرہ ہے،اسی کو حدیث میں فرمایا: لَمْ یَقْبَلِ اللہ صَلٰوۃَ اَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ فرمائیگا۔ (فتاویٰ رضویہ)۔
گرہن سے جڑے ہوئے توہمات
مسئلہ:سورج اورچاند گرہن کے بارے میں مختلف تصورات وتوہُّمات پائے جاتے ہیں،مثلاً:* گرہن کے وَقْت حاملہ خواتین کو کمرے کے اندر رہے اور سبزی وغیرہ نہ کاٹے تاکہ ان کے بچے کسی پیدائشی نَقْص کے بغیر پیدا ہوں * گرہن کے وَقْت حاملہ خواتین کو سلائی کڑھائی سے بھی منع کیا جاتا ہے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے بچے کے جسم پر غَلَط اثر پڑسکتا ہے شریعت مطہرہ میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔
نہ جانے کس منحوس کی شکل دیکھی تھی
مسئلہ:بَدشگونی وبد فالی کی عادتِ بَد میں مبتلا شخص کو جب کسی کام میں نقصان ہوتا ہے یا کسی مقصد میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ یہ جملہ کہتا ہے:آج فلاں شخص صبح صبح ملا اور ساردن خراب ہو گیا کوئی گاہک نہیں آیا ۔یا فلاں نائی ،موچی ،کالی بلی ،کالاکتا متھے لگا(ملا)آج کا دن کوئی کام درست نہیں ہوگا۔یا کسی دن مقصد میں کامیابی نہ ہوتو کہتاہے آج صبح سویرے نہ جانے کس منحوس کی شکل دیکھی تھی؟حالانکہ! انسان صبح سویرے بستر پر آنکھ کھلنے کے بعد سب سے پہلے اپنے ہی گھر کے کسی فرد کی شکل دیکھتا ہے، تو کیا گھر کا کوئی آدمی اس قدر منحوس ہوسکتا ہے کہ صِرْف اس کی شکل دیکھ لینے سے سارا دن نُحوست میں گزرتا ہے؟۔
کیا کسی کو نظر لگ سکتی ہے؟
مسلمان بھائیو! انسانی جسم اور دیگر اشیاء کو نظر لگنا، اس سے بچنے کی تدابیر کرنا،اس کا علاج کرنا شَرْعاً ثابت ہے لیکن یاد رہے کسی کی نظر لگنااور چیز ہے اور کسی کو منحوس سمجھنا اور چیز۔
کیانظرلگتی ہے
حدیث:رسول اللہﷺ نے اِرشادفرمایا: نظر حق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے بڑھ سکتی تو اس پر نظر بڑھ جاتی اور جب تم دھلوائے جاؤ تو دھودو۔(مسلم،کتاب السلام،باب الطب و المرض و الرقی)
مسئلہ:نظرِ بَد کا اثر برحق ہے اس سے منظور (یعنی جسے نظر لگی اس)کو نقصان پہنچ جاتاہے۔
مسئلہ: نظر کا اثر اس قدر سَخْت ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر کا مقابلہ کرسکتی تو نظرِ بَد کرلیتی کہ تقدیر میں آرام لکھا ہو مگر یہ تکلیف پہنچادیتی مگر چونکہ کوئی چیز تقدیر کا مقابلہ نہیں کرسکتی اس لیے یہ نظرِ بَد بھی تقدیر نہیں پلٹ سکتی۔
مسئلہ: اگر کسی نظرے ہوئے (یعنی جس کو نظر لگی ہو اس)کو تم پر شبہ ہو کہ تمہاری نظر اسے لگی ہے اور وہ دفعِ نظر (یعنی نظر اُتارنے)کے لیے تمہارے ہاتھ پاؤں دُھلواکر اپنے پر چھینٹا مارنا چاہے تو تم بُرانہ مانو بلکہ فورا اپنے یہ اَعضاء دھو کر اسے دے دو، نظر لگ جانا عیب نہیں۔نظر تو ماں کی بھی لگ جاتی ہے۔
مسئلہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عوام میں نظر اتارنے کے ٹوٹکے اگر خلافِ شرع نہ ہوں تو ان کا بند کرنا ضَروری نہیں ،دیکھو نظر والے کے ہاتھ پاؤں دھو کر مَنْظُور (یعنی جس کو نظر لگی ہو)کو چھینٹا مارنے کا عرب میں رواج تھا، حضورﷺ نے اس کو باقی رکھا۔
مسئلہ:ہمارے ہاں تھوڑی سی آٹے کی بھوسی تین سُرخ مرچیں منظور (یعنی جس کو نظر لگی ہو)پر سات بار گھما کر سرسے پاؤں تک پھر آگ میں ڈال دیتے ہیں اگر نظر ہوتی ہے تو بُھس نہیں اٹھتی اور رب تعالیٰ شفاء دیتا ہے۔اس طرح کے دیگر ٹوٹکے جس میں خلافِ شرع کوئی امرنہ ہوتو جائز ہیں۔
مسئلہ:جیسے دواؤں میں نَقْل(دلیل) کی ضرورت نہیں تجربہ کافی ہے ایسے ہی دعاؤں اور ٹوٹکوں میں نَقْل ضَروری نہیں خلافِ شرع نہ ہوں تو دُرُست ہیں اگرچہ ماثُور دعائیں افضل ہیں ۔
مسئلہ:حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک خوبصورت تندُرُست بچہ دیکھا تو فرمایا اس کی ٹھوڑی میں سیاہی لگا دو تاکہ نظر نہ لگے۔
مسئلہ: حضرت ہشام ابن عروہ (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ)جب کوئی پسندیدہ چیز دیکھتے تو فرماتے: ماشاءَ اللہُ لَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ۔
مسئلہ: علماء فرماتے ہیں کہ بعض نظروں میں زہریلا پن ہوتا ہے جو اثر کرتاہے۔ (مرقات،مراٰۃ المناجیح)
کھیتوں وغیرہ کو نظر لگنے سے بچانے کا نسخہ
مسئلہ:اس بات میں کوئی حَرَج نہیں ہے کہ کھیتی یاخربوز اور تربوز کے کھیت میں نظر بَد سے بچاؤ کے لیے ہڈیاں لٹکائی جائیں کیو نکہ نظر بَدمال،آدمی اور جانور سب کو لگ جاتی ہے اور اس کا اثرعلامات سے ظاہِر ہوجاتا ہے تودیکھنے والا جب کھیتی کی جانب دیکھے گا تو اس کی نگاہ پہلے ہڈیوں پر پڑے گی کیو نکہ وہ کھیت سے بلند ہوتی ہیں اس کے بعد کھیتی پرپڑے گی تو یوں اس کی نظر کا زہر وہیں ضائع ہوجائے گا اور کھیت کو نقصان نہیں پہنچے گا۔اور کہیں پُرانی ہنڈیہ وغیرہ اُلٹی مکانوں کی چھتوں پر رکھی جاتی ہیں تاکہ نظر بد سے محفوظ رہے یہ بھی جائز ہے۔
حدیث : ایک صحابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں کہ ہم کسان لوگ ہیں اور ہمیں اپنے کھیتوں پر نظرِ بَد کا اندیشہ رہتا ہے،آپ نے کھیتی میں ہڈیاں رکھنے کا حکم اِرشادفرمایا۔(سنن الکبری للبیہقی)۔(رد المحتار)
ماہانہ مفت سلسلہ اشاعت ماہ صفرالمظفر اصلاح عامہ کے لئے ہے
مؤلف: مفتی غلام مرتضیٰ مظہری شازلی حسنی رضوی
خادم دارالافتاء فیضان شریعت گلشن مصطفی لیہ وفیضان کوثرلدھانہ
صدر مدرس جامعہ انوار حبیب لدھانہ ضلع لیہ
تصدیق شدہ: استادیم مفتی محمد وسیم اختر المدنی انچارج تخصص فی الفقہ جامعہ نعیمیہ کراچی
فون:03022576336..03422740086..03333834636