دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Tuesday, 16 October 2018

کیا صفر میں بلائیں اترتی ہیں ومسائل صفر

کیا صفر میں بلائیں اترتی ہیں ومسائل صفر
نُحوست کے وہمی تصورات کے شکارلوگ ماہِ صفرکو مصیبتوں اور آفتوں کے اُترنے کا مہینہ سمجھتے ہیں خصوصا اس کی ابتدائی تیرہ تاریخیں جنہیں ’’تیرہ تیزی‘‘ کہا جاتا ہے بہت منحوس تصوُّر کی جاتی ہیں ۔ وہمی لوگوں کا یہ ذہن بنا ہوتا ہے کہ صفر کے مہینے میں نیا کاروبار شروع نہیں کرناچا ہئے نقصان کا خطرہ ہے،سفرکرنے سے بچنا چاہئے ایکسیڈنٹ کا اندیشہ ہے،شادیاں نہ کریں ، بچیوں کی رخصتی نہ کریں گھر برباد ہونے کا امکان ہے،ایسے لوگ بڑا کاروباری لین دین نہیں کرتے،گھر سے باہر آمد و رفت میں کمی کردیتے ہیں ، اس گمان کے ساتھ کہ آفات ناز ل ہورہی ہیں اپنے گھر کے ایک ایک برتن کو اور سامان کو خوب جھاڑتے ہیں ،اسی طرح اگر کسی کے گھر میں اس ماہ میں میت ہو جائے تواسے منحوس سمجھتے ہیں اور اگر اس گھرانے میں اپنے لڑکے یا لڑکی کی منگنی طے ہوئی ہو تو اس کو توڑ دیتے ہیں۔صفر کے آخری بدھ کو چُوریاں بنائی جائی ہیں کہ اس بدھ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا نے آپ ﷺ کو شفاء ملنے پر بنائی تھی سب بے بنیاد توہمات وخیالات ہیں۔جس کی تفصیل آگے مذکور ہے۔
حضرت مولانا شاہ عبد الحق محدثِ دہلوی علیہ رحمۃُ االلہ علیہ لکھتے ہیں : عوام اسے (یعنی صفر کے مہینے کو) بلاوں،حادثوں اور آفتوں کے نازل ہونے کا وَقْت قرار دیتے ہیں ،یہ عقیدہ باطِل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔(اشعۃ اللمعات)
حدیث : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ مرض کا اڑکر لگنا ہے، نہ پرندہ نہ اُلّو، نہ صفر کوئی چیز ہے۔اور کوڑھی سے ایسے بھاگے جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو۔(بخاری)
شرح: اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ بیماریوں میں عقل و ہوش ہے جو بیمار کے پاس بیٹھے اسے بھی اس مریض کی بیماری لگ جاتی ہے وہ پاس بیٹھنے والے کو جانتی پہچانتی ہے یہاں اسی عقیدے کی تردید ہے۔موجودہ حکیم ڈاکٹر سات بیماریوں کو متعدی مانتے ہیں: جذام،خارش،چیچک،موتی جھرہ،منہ کی یا بغل کی بو،آشوب چشم،وبائی بیماریاں اس حدیث میں ان سب وہموں کو دفع فرمایا گیا ہے۔(مرقات و اشعہ)اس معنی سے مرض کا اڑ کر لگنا باطل ہے مگر یہ ہوسکتا ہے کہ کسی بیمار کے پاس کی ہوا متعفن ہو اور جس کے جسم میں اس بیماری کا مادہ ہو وہ اس تعفن سے اثر لے کر بیمار ہوجاوے اس معنی سے متعدی ہوسکتی ہے ۔
مسئلہ: ماہ صفر کا آخر بدھ پاکستان خصوصاً پنجاب میں بہت منایا جاتا ہے اس کے لئے دیسی گھی کی چُوری بنائی جاتی ہے ۔ کہتے یہ ہیں کہ حضور اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کو تکلیف ہوئی تو حضرت بی بی صاحبہ نے منت مانی تھی کہ اللہ تعالی آپ ﷺ کو شفاء دے تو میں چوری بناؤں گی صفر کے آخری بدھ شفاء ملی اور آپ ﷺ نے غسلِ صحت فرمایا تھا۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں، بلکہ اسی بدھ کے دن میں حضور اکرم ﷺم کا مرض شروع ہوا جس میں آپ کا وصال مبارک ہوا لہذا مذکورہ نظریہ کے تحت چُوری بنانا درست نہیں ہے۔بلکہ چند دن بعد استقبال ربیع الاول کی چُوری بنالی جائے کہ ہمارے آقا ومولا ﷺ کی ولادت کا مبارک مہینہ ہے۔
مسئلہ: بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ صفر میں بلائیں اترتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں سب بے ثبوت ہیں،بلکہ حدیث کا یہ ارشاد لاصفر.یعنی صفر کوئی چیز نہیں۔ ایسی تمام خرافات کو رد کرتا ہے۔ 
مسئلہ: اہلِ عرب کا خیال تھا کہ میت کی گلی ہڈیاں اُلّو بن کر آجاتی ہیں اور اُلّو جہاں بول جاوے وہاں ویرانہ ہوجاتا ہے یہ عقیدہ غلط ہے۔
مسئلہ: جو شخص یہ سُوال کرے کہ کیا بعض دن منحوس ہوتے ہیں اس کے جواب سے اِعراض کیا جائے اور اس کے فعل کو جہالت کہا جائے اور اس کی مذمت بیان کی جائے، ایسا سمجھنا یہود کا طریقہ ہے، مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے جو اللہ تعالی پر توکُّل کرتے ہیں۔(تنقیح الفتاوی الحامدیہ) 
مسئلہ:ماہِ صفربھی دیگر مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے جس طرح دوسرے مہینوں میں رب عَزَّوَجَلَّ کے فضل وکرم کی بارشیں ہوتی ہیں اس میں بھی ہوسکتی ہیں ، اس لئے تو صَفَرُ الْمُظَفَّرکہا جاتا ہے یعنی کامیابی کا مہینہ،یہ کیونکر منحوس ہوسکتا ہے؟ اب اگر کوئی شخص اس مہینہ میں احکامِ شرع کا پابند رہا،نیکیاں کرتا اور گناہوں سے بچتا رہا تو یہ مہینہ یقیناًاس کے لئے مبارک ہے اور اگر کسی بَدکردار نے یہ مہینہ بھی گناہوں میں گزارا، جائز ناجائز اور حرام حلال کا خیال نہ رکھا تو اس کی بربادی کے لئے گناہوں کی نُحوست ہی کافی ہے۔اب ماہِ صفر ہویا کسی بھی مہینے کا سیکنڈ، منٹ یا گھنٹہ! اگر اُسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ اس کی شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے۔
من گھڑت حدیث
مسئلہ: عوام میں مشہور ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جو صفر کے ختم ہونے اور ربیع الاول کے شروع ہونے کی خبر سب پہلے دے اس پر جنت واجب ہے ،یہ من گھڑت اور حضور ﷺ پر بہتان ہے ۔حضور اکرم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے: جو میری حدیث نہ ہو پھر اس کو میری حدیث کے طور پر بیان کرے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔(بخاری ومسلم)
مسئلہ:محرم اورصفر میں شادی کو اکثر لوگ منحوس وناجائز سمجھتے۔اس سے اگر تومروجہ شادیا ں مراد ہیں جس میں ڈھول تماشہ ،عورتوں اور مردوں میں رقص ورسرو ،ناچ گانہ ہوتا ہے راتوں کو دیر تک دنگل لگا رہتا ہے تو ایسی شادی سال کے بارہ مہینوں میں جائز نہیں ہیں۔اگر ایسی شادی مراد ہے جو حضور اکرم ﷺ کی لخت جگر حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی عنھاکی شادی ہوئی تھی تووہ محرماور صفر میں بھی جائز ہے کیونکہ آپ کی شادی یکم ہجری صفرکے مہینے میں ہوئی تھی ۔
ماہ صفر میں پیش آنے والے چندتاریخی واقعات
(۱)صفر المظفرپہلی ہجری میں حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اورخاتونِ جنت حضرتِ سَیِّدَتُنا فاطمہ زہرہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکی شادی خانہ آبادی ہوئی۔(الکامل فی التاریخ)
(۲)صفر المظفر سات ہجری میں مسلمانوں کو فتحِ خیبر نصیب ہوئی۔(البدایۃ والنہایۃ)
(۳)سیفُ اللہ حضرتِ سیِّدُنا خالد بن ولید،حضرتِ سیِّدُنا عمرو بن عاص اور حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن طلحہ عبدری رضی اللہ تعالٰی عنہم نے صفر المظفرآٹھ ہجری میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکراسلام قبول کیا۔ (الکامل فی التاریخ) (۴)ماہ صفر المظفر 11سن ہجری میں کذاب اسود عنسی کو صحابی رسول حضرت سیدنا فیروز دیلمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے واصل جہنم فرمایا۔
(۵) مدائن (جس میں کسرٰی کا محل تھا) کی فتح صفر المظفر سولہ ہجری کے مہینے میں ہوئی۔ (الکامل فی التاریخ)کیا اب بھی آپ صفر کو منحوس جانیں گے؟یقیناً نہیں ۔
ستاروں کے اچھے بُرے اثرات پر یقین رکھنا
مسئلہ:خود کو پڑھا لکھا سمجھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ستاروں کے اثرات کی اس قدر قائل ہوتی ہے کہ شادی اور کاروبارجیسے اہم فیصلے بھی ستاروں کی نَقْل وحرکت کے مطابق کرتی ہے، ایسے لوگ ستارہ شناسی کا دعویٰ کرنے والوں کا آسان شکار ہوتے ہیں جو ان کو بے وقوف بنا کر بڑی بڑی رقمیں بٹورتے رہتے ہیں ۔بارہا ایسا ہوتا ہے کہ لڑکا لڑکی کا رشتہ طے ہوچکا ہوتا ہے، ضَروری چھان بین بھی ہوچکی ہوتی ہے لیکن ایک فریق یہ کہہ کررشتے سے انکار کردیتا ہے کہ ہم نے پتا کروایا ہے کہ لڑکے اور لڑکی کا ستارہ آپس میں نہیں ملتالہٰذا یہ شادی نہیں ہوسکتی اس طرح کے خیالات درست نہیں۔ 
نُجومی کو ہاتھ دکھانا 
مسئلہ:بہت سے لوگ کاہنوں، نُجومیوں، پروفیسروں اور رَمل و جَفَر کے جھوٹے دعویداروں کے ہاں جا کر قسمت کاحال معلوم کرتے ہیں،اپنا ہاتھ دکھاتے ہیں، فالنامے نکلواتے ہیں ،پھر اس کے مطابق آئندہ زندگی کا لائحہ عمل بناتے ہیں ۔اس طرزِ عمل میں نقصان ہی نقصان ہے ان کو ہاتھ دکھا کر تقدیر کا بھلا بُرا دریافت کرنا اگر بطورِ اِعتقاد ہو یعنی جو یہ بتائیں حق ہے تو کفرِخالص ہے،اسی کو حدیث میں فرمایا: فَقَدْ کَفَرَ بِمَانُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّد یعنی اس نے محمدﷺپر نازل ہونے والی شے کا انکار کیا۔ اور اگر بطورِاِعتِقاد وتَیَقُّن(یعنی یقین رکھنے کے)نہ ہو مگر مَیل ورَغبت کے ساتھ ہو تو گناہِ کبیرہ ہے،اسی کو حدیث میں فرمایا: لَمْ یَقْبَلِ اللہ صَلٰوۃَ اَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ فرمائیگا۔ (فتاویٰ رضویہ)۔
گرہن سے جڑے ہوئے توہمات 
مسئلہ:سورج اورچاند گرہن کے بارے میں مختلف تصورات وتوہُّمات پائے جاتے ہیں،مثلاً:* گرہن کے وَقْت حاملہ خواتین کو کمرے کے اندر رہے اور سبزی وغیرہ نہ کاٹے تاکہ ان کے بچے کسی پیدائشی نَقْص کے بغیر پیدا ہوں * گرہن کے وَقْت حاملہ خواتین کو سلائی کڑھائی سے بھی منع کیا جاتا ہے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے بچے کے جسم پر غَلَط اثر پڑسکتا ہے شریعت مطہرہ میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔
نہ جانے کس منحوس کی شکل دیکھی تھی
مسئلہ:بَدشگونی وبد فالی کی عادتِ بَد میں مبتلا شخص کو جب کسی کام میں نقصان ہوتا ہے یا کسی مقصد میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ یہ جملہ کہتا ہے:آج فلاں شخص صبح صبح ملا اور ساردن خراب ہو گیا کوئی گاہک نہیں آیا ۔یا فلاں نائی ،موچی ،کالی بلی ،کالاکتا متھے لگا(ملا)آج کا دن کوئی کام درست نہیں ہوگا۔یا کسی دن مقصد میں کامیابی نہ ہوتو کہتاہے آج صبح سویرے نہ جانے کس منحوس کی شکل دیکھی تھی؟حالانکہ! انسان صبح سویرے بستر پر آنکھ کھلنے کے بعد سب سے پہلے اپنے ہی گھر کے کسی فرد کی شکل دیکھتا ہے، تو کیا گھر کا کوئی آدمی اس قدر منحوس ہوسکتا ہے کہ صِرْف اس کی شکل دیکھ لینے سے سارا دن نُحوست میں گزرتا ہے؟۔
کیا کسی کو نظر لگ سکتی ہے؟
مسلمان بھائیو! انسانی جسم اور دیگر اشیاء کو نظر لگنا، اس سے بچنے کی تدابیر کرنا،اس کا علاج کرنا شَرْعاً ثابت ہے لیکن یاد رہے کسی کی نظر لگنااور چیز ہے اور کسی کو منحوس سمجھنا اور چیز۔
کیانظرلگتی ہے
حدیث:رسول اللہﷺ نے اِرشادفرمایا: نظر حق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے بڑھ سکتی تو اس پر نظر بڑھ جاتی اور جب تم دھلوائے جاؤ تو دھودو۔(مسلم،کتاب السلام،باب الطب و المرض و الرقی)
مسئلہ:نظرِ بَد کا اثر برحق ہے اس سے منظور (یعنی جسے نظر لگی اس)کو نقصان پہنچ جاتاہے۔
مسئلہ: نظر کا اثر اس قدر سَخْت ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر کا مقابلہ کرسکتی تو نظرِ بَد کرلیتی کہ تقدیر میں آرام لکھا ہو مگر یہ تکلیف پہنچادیتی مگر چونکہ کوئی چیز تقدیر کا مقابلہ نہیں کرسکتی اس لیے یہ نظرِ بَد بھی تقدیر نہیں پلٹ سکتی۔ 
مسئلہ: اگر کسی نظرے ہوئے (یعنی جس کو نظر لگی ہو اس)کو تم پر شبہ ہو کہ تمہاری نظر اسے لگی ہے اور وہ دفعِ نظر (یعنی نظر اُتارنے)کے لیے تمہارے ہاتھ پاؤں دُھلواکر اپنے پر چھینٹا مارنا چاہے تو تم بُرانہ مانو بلکہ فورا اپنے یہ اَعضاء دھو کر اسے دے دو، نظر لگ جانا عیب نہیں۔نظر تو ماں کی بھی لگ جاتی ہے۔
مسئلہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عوام میں نظر اتارنے کے ٹوٹکے اگر خلافِ شرع نہ ہوں تو ان کا بند کرنا ضَروری نہیں ،دیکھو نظر والے کے ہاتھ پاؤں دھو کر مَنْظُور (یعنی جس کو نظر لگی ہو)کو چھینٹا مارنے کا عرب میں رواج تھا، حضورﷺ نے اس کو باقی رکھا۔
مسئلہ:ہمارے ہاں تھوڑی سی آٹے کی بھوسی تین سُرخ مرچیں منظور (یعنی جس کو نظر لگی ہو)پر سات بار گھما کر سرسے پاؤں تک پھر آگ میں ڈال دیتے ہیں اگر نظر ہوتی ہے تو بُھس نہیں اٹھتی اور رب تعالیٰ شفاء دیتا ہے۔اس طرح کے دیگر ٹوٹکے جس میں خلافِ شرع کوئی امرنہ ہوتو جائز ہیں۔
مسئلہ:جیسے دواؤں میں نَقْل(دلیل) کی ضرورت نہیں تجربہ کافی ہے ایسے ہی دعاؤں اور ٹوٹکوں میں نَقْل ضَروری نہیں خلافِ شرع نہ ہوں تو دُرُست ہیں اگرچہ ماثُور دعائیں افضل ہیں ۔
مسئلہ:حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک خوبصورت تندُرُست بچہ دیکھا تو فرمایا اس کی ٹھوڑی میں سیاہی لگا دو تاکہ نظر نہ لگے۔
مسئلہ: حضرت ہشام ابن عروہ (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ)جب کوئی پسندیدہ چیز دیکھتے تو فرماتے: ماشاءَ اللہُ لَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ۔
مسئلہ: علماء فرماتے ہیں کہ بعض نظروں میں زہریلا پن ہوتا ہے جو اثر کرتاہے۔ (مرقات،مراٰۃ المناجیح)
کھیتوں وغیرہ کو نظر لگنے سے بچانے کا نسخہ
مسئلہ:اس بات میں کوئی حَرَج نہیں ہے کہ کھیتی یاخربوز اور تربوز کے کھیت میں نظر بَد سے بچاؤ کے لیے ہڈیاں لٹکائی جائیں کیو نکہ نظر بَدمال،آدمی اور جانور سب کو لگ جاتی ہے اور اس کا اثرعلامات سے ظاہِر ہوجاتا ہے تودیکھنے والا جب کھیتی کی جانب دیکھے گا تو اس کی نگاہ پہلے ہڈیوں پر پڑے گی کیو نکہ وہ کھیت سے بلند ہوتی ہیں اس کے بعد کھیتی پرپڑے گی تو یوں اس کی نظر کا زہر وہیں ضائع ہوجائے گا اور کھیت کو نقصان نہیں پہنچے گا۔اور کہیں پُرانی ہنڈیہ وغیرہ اُلٹی مکانوں کی چھتوں پر رکھی جاتی ہیں تاکہ نظر بد سے محفوظ رہے یہ بھی جائز ہے۔
حدیث : ایک صحابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں کہ ہم کسان لوگ ہیں اور ہمیں اپنے کھیتوں پر نظرِ بَد کا اندیشہ رہتا ہے،آپ نے کھیتی میں ہڈیاں رکھنے کا حکم اِرشادفرمایا۔(سنن الکبری للبیہقی)۔(رد المحتار)
ماہانہ مفت سلسلہ اشاعت ماہ صفرالمظفر اصلاح عامہ کے لئے ہے
مؤلف: مفتی غلام مرتضیٰ مظہری شازلی حسنی رضوی
خادم دارالافتاء فیضان شریعت گلشن مصطفی لیہ وفیضان کوثرلدھانہ 
صدر مدرس جامعہ انوار حبیب لدھانہ ضلع لیہ 
تصدیق شدہ: استادیم مفتی محمد وسیم اختر المدنی انچارج تخصص فی الفقہ جامعہ نعیمیہ کراچی
فون:03022576336..03422740086..03333834636

Friday, 21 September 2018

زیارتِ قبور کا سنت طریقہ


زیارتِ قبور کا سنت طریقہ
زیارتِ قبر کا طریقہ : میت کے قدموں کی جانب سے جا کر قبر کو ہاتھ لگائے اور بوسہ دیئے بغیر میّت کے منہ کے سامنے کھڑا ہو جائے ، سرہانے سے نہ آئے کہ میّت کے لیے باعثِ تکلیف ہے یعنی میّت کو گردن پھیر کر دیکھنا پڑے گا کہ کون آتا ہے اور یہ کہے :السلام علیکم یا اھل القبور
پھرفاتحہ پڑھے اور بیٹھنا چاہے تو اتنے فاصلہ سے بیٹھے کہ اس کے پاس زندگی میں نزدیک یا دور جتنے فاصلہ پر بیٹھ سکتا تھا جبکہ کسی قبر کے اوپر نہ بیٹھے ہے ۔ (ردالمحتار)
قبرستان میں ایصال ثواب کرنے کا طریقہ
مسئلہ : قبرستان میں جائے تو الحمد شریف اور الم سے مُفْلِحُوْنَ تک اور آیۃ الکرسی اور اٰمَنَ الرَّسُوْلُ آخر سورہ تک اور سورۂ یٰس اور تَبَارَکَ الَّذِیْ اور اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرْ ایک ایک بار اور قُلْ ھُوَ اللہُ بارہ یا گیارہ یا سات یا تین بار پڑھے (یا جو کچھ یاد ہو پڑھ لے )اور ان سب کا ثواب مردوں کو پہنچائے ۔ حدیث میں ہے : ''جو گیارہ بار قُلْ ھُوَ اللہُ شریف پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو پہنچائے تو مردوں کی گنتی برابر اسے ثواب ملے گا۔'' (درمختار، ردالمحتار)
کونسی نیکیاں ایصال ثواب کر سکتے ہیں
مسئلہ :نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور ہر قسم کی عبادت اور ہر عمل نیک فرض و نفل کا ثواب مُردوں کو پہنچا سکتا ہے ، اُن سب کو پہنچے گا اور اس کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی، بلکہ اُس کی رحمت سے امید ہے کہ سب کو پورا ملے یہ نہیں کہ اُسی ثواب کی تقسیم ہو کر ٹکڑا ٹکڑا ملے ۔ (ردالمحتار) بلکہ یہ امید ہے کہ اس ثواب پہنچانے والے کے لیے اُن سب کے مجموعے کے برابر ملے گا مثلاً کوئی نیک کام کیا، جس کا ثواب کم از کم دس ملے گا، اس نے دس مُردوں کو پہنچایا تو ہر ایک کو دس دس ملیں گے اور اس کو ایک سو دس اور ہزار کو پہنچایا تو اسے دس ہزار دس وعلیٰ ہذا القیاس۔ [فتاویٰ رضویہ،ج:۹]۔
نابالغ کا ایصال ثواب کرنا
مسئلہ : نابالغ نے کچھ پڑھ کر یا کوئی نیک عمل کر کے اُس کا ثواب مُردہ کو پہنچایا تو اِنْ شَاءَ اللہ تعالیٰ پہنچے گا۔ (فتاویٰ رضویہ،ج:۹،ص:۶۲۹۔۶۴۲)
قبر کو بوسہ دینا
مسئلہ : قبر کو بوسہ دینا بعض علما نے جائز کہا ہے ، مگر صحیح یہ ہے کہ منع ہے ۔ (اشعۃ اللمعات) اور قبر کا طوافِ تعظیمی منع ہے ۔(بہار شریعت)
قبر یا میت پر پھول ڈالنا
مسئلہ : قبر پر پھول ڈالنا بہتر ہے کہ جب تک تر رہیں گے تسبیح کرینگے اور میّت کا دل بہلے گا۔(ردالمحتار) اسی طرح جنازہ پر پھولوں کی چادر ڈالنے میں حرج نہیں۔
قبر کا کھاس نوچنا
مسئلہ : قبر پر سے تر گھاس نوچنا نہ چاہیے کہ اُس کی تسبیح سے رحمت اُترتی ہے اور میّت کو اُنس ہوتا ہے اور نوچنے میں میّت کا حق ضائع کرنا ہے ۔ (ردالمحتار)
قبر کو پکا کرنا اور اس پر روضہ بنانا
مسئلہ : علما و سادات کی قبور پر قبہ وغیرہ بنانے میں حرج نہیں اورقبر کو پختہ نہ کیا جائے ۔(درمختار، ردالمحتار) یعنی اندر سے پختہ نہ کی جائے اور اگر اندر خام ہو، اوپر سے پختہ تو حرج نہیں۔عوام کی قبروں پر قبہ بنانا منع ہے کہ لوگوں کو اس سے دھوکہ ہوگا۔ 
مسئلہ : قبر کے اس حصہ میں کہ میّت کے جسم سے قریب ہے ، پکی اینٹ لگانا مکروہ ہے کہ اینٹ آگ سے پکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو آگ کے اثر سے بچائے ۔ (عالمگیری وغیرہ) قبر پر لکھنا
مسئلہ : اگر ضرورت ہو تو قبر پر نشان کے لیے کچھ لکھ سکتے ہیں، مگر ایسی جگہ نہ لکھیں کہ بے ادبی ہو۔ (جوہرہ، درمختار)عمومی طور پر گاؤں دیہاتوں کے اکثر قبرستان چار دیواری کے بغیر ہوتے ہیں اور کتوں اور دیگر جانور وں کا گزر ان پر سے ہوتا رہتا ہے اور بعض اوقات پیشاب بھی کر دیتے ہیں اس لئے صرف نام پر اکتفاء کیا جائے تو بہتر ہے۔ 
قبر پر بیٹھنا ،ٹیک لگانا،سونا چلنا وغیرہ
مسئلہ : قبر پر بیٹھنا، سونا، چلنا، پاخانہ، پیشاب کرنا حرام ہے ۔ قبرستان میں جو نیا راستہ نکالا گیا اس سے گزرنا ناجائز ہے ، خواہ نیا ہونا اسے معلوم ہو یا اس کا گمان ہو۔(عالمگیری، درمختار)
مسئلہ : اپنے کسی رشتہ دار کی قبر تک جانا چاہتا ہے مگر قبروں پر گزرنا پڑے گا تو وہاں تک جانا منع ہے ، دور ہی سے فاتحہ پڑھ دے ، قبرستان میں جوتیاں پہنے کر نہ جائے ۔ ایک شخص کو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جوتے پہنے دیکھا، فرمایا: ''جوتے اتار دے ، نہ قبر والے کو تُو ایذا دے ، نہ وہ تجھے ۔'' (ردالمحتار)
زیارتِ قبور 
مسئلہ : زیارتِ قبور مستحب ہے ہر ہفتہ میں ایک دن زیارت کرے ،جمعہ یا جمعرات یا ہفتہ یا پیر کے دن مناسب ہے ، سب میں افضل روزِ جمعہ وقتِ صبح ہے ۔ اولیائے کرام کے مزارات طیبہ پر سفر کر کے جانا جائز ہے ، وہ اپنے زائر کو نفع پہنچاتے ہیں اور اگر وہاں کوئی منکرِ شرعی ہو مثلاً عورتوں سے اختلاط تو اس کی وجہ سے زیارت ترک نہ کی جائے کہ ایسی باتوں سے نیک کام ترک نہیں کیا جاتا، بلکہ اسے بُرا جانے اور ممکن ہو تو بُری بات زائل کرے ۔ (ردالمحتار)
عورتوں کا قبرستان جانا
مسئلہ : عورتوں کا قبرستان جانا مطلقاً منع ہے ۔ اپنوں کی قبور کی زیارت میں تو وہی جزع و فزع ہے( رونا، پیٹنا) اور صالحین کی قبور پر یا تعظیم میں حد سے گزر جائیں گی یا بے ادبی کریں گی کہ عورتوں میں یہ دونوں باتیں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ (ملخص ازفتاویٰ رضویہ،ج:۹،ص:۵۳۸)
قبر پر اگر بتی یا چراغ جلانا
مسئلہ : قبرکے او پر اگر بتی نہ سلگائی جائے کہ قبر پر سے دھواں اٹھنا بُری فال ہے ۔قبرسے دور سلگائی جائے توجائز ہے کیونکہ اگر بتی کاقبروالے کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ یہ قبرستان کے زائرین کے لئے ہے ۔
مسئلہ : قبر کے اوپر چراغ نہ جلایا جائے کہ یہ بُری فال ہے ۔ اگر عالم دین یا اللہ کے ولی کا مزار ہے توقبر سے دور اس کی روح کی تعظیم کے لئے چراغ جلایا جائے تو جائز ہے لیکن عوام کی قبروں کے پاس چراغ نہ جلایا جائے۔
قبرستان میں مٹھائی تقسیم کرنا
مسئلہ :قبرستان میں مٹھائی تقسیم کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ عمومی طور پردھکم پیل اورچھینا جھپٹی ہوتی ہے اس سے مسلمان کی قبروں کااحترام برقرارنہیں رہتا بلکہ لوگ مٹھائی کی خاطر قبروں کے اوپر بھاگتے دوڑتے ،پاؤں رکھتے ہیں اور ایسا کرنا حرام ہے ۔حدیث پاک میں ہے ’’ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بے شک آدمی کا آگ کی چنگاری پر بیٹھا رہنا یہاں تک کہ وہ اس کے کپڑے جلا کر جلد تک پہنچ جائے اس کے لئے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے ‘‘۔[الترغیب والترھیب،ج:۴،ص:۸۲۸]۔
قبر پرپانی ڈالنا
مسئلہ :اگر قبر کی مٹی بکھری پڑی ہے یا ابھی مُردے کو دفن کیا ہے تو مٹی کواکٹھا کر کے اس پر پانی ڈالنا تاکہ قبر کانشان باقی رہے اور بے ادبی سے محفوظ رہے توسنت ہے ۔لیکن اگر قبرکا نشان پختہ ہے یا قبر تو کچی ہے لیکن لیپائی کی ہوئی ہے تو اس پر پانی ڈالنامسنون نہیں ہے ۔بلکہ اس پانی کی قیمت مرحومین کے لئے ایصال ثواب کے لئے مسجد یا دیگر نیک کاموں میں خرچ کی جائے تو ضرور ثواب ملے گا۔
قبر وں پرچُوگ ڈالنا
مسئلہ :دس محرم کو بالخصوص اور اس کے علاوہ بالعموم لوگ گھر وں سے قبروں پرندوں کوچُوگ ڈالنے کے لئے گندم،چاول،مسور کی دال وغیرہ مکس کرکے قبروں پر ڈالتے ہیں یہ دانے لوگوں کے پاؤں کے نیچے آتے ہیں جس سے رزق کی توہین ہے بجائے اس کے اگر یہ دانے اپنے گھر کی چھتوں پریا چنوٹیوں کے سوراخوں پر ڈالے جائیں اورثواب کی نیت اپنے مرحومین کے لئے ہو تو بلا شبہ جائز ہیں اور ثواب بھی ملے گا اور رزق کی توہین بھی نہیں ہوگی ۔
قبر پرھد یہ کرانا
مسئلہ:مروجہ ہدیہ جوپنجاب پاکستان میں عاشورہ کے دن کیا جاتاہے یا جنازہ کے بعدمیت کے لئے کیا جاتاہے مسنون نہیں ہے ۔بجائے اس کے اگر مرحوم کی ایک نماز یا روزہ اگرقضاء ہوگئے تھے تو اس کافدیہ دو کلوم گندم یا اس کی قیمت کسی مستحق زکوٰۃ شخص کو دیدے تو اللہ کی بارگاہ میں ایک نماز یا ایک روزہ کی معافی اور بخشش ہو جائے گی ۔اسی طرح جتنی نمازیں اور روزے مرحوم کے قضاء ہو گئے ہوں سب کی طرف سے ایک ایک صدقہ فطرکی مقدارگندم یا اس کی قیمت مستحق زکوٰۃ شخص کودیں تو اللہ کی بارگاہ میں معافی کی امید ہے۔(فتاوی رضویہ)مروجہ ہدیہ شایداوپر بیان کی گئی فدیہ کی بگڑی ہوئی شکل ہے ۔ لہذا مروجہ ہدیہ کو چھوڑ کر فدیہ ہی کواپنایا جائے جو کہ شریعت مطہرہ سے ثابت بھی ہے اور مرحوم پر احسان کاسبب بھی ہے۔
نوحہ اور مرثیہ سننا
مسئلہ:ماتم کی مجلس میں جانا ،مجلس ماتم دیکھنا،نوحہ کرنااور نوحہ اور مرثیہ سننا حرام ہے ۔اسی طرح تعزیہ دیکھنابھی جائز نہیں ۔اور تعزیہ کی زیارت کی منت ماننا بھی جائز نہیں ہے اوراپنے بچوں کو امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کافقیر بنا کر بھیک منگوانا بھی حرام ہے۔[فتاوی رضویہ ]۔
دس محرم کو گھر میں جھاڑو نہ دینا
مسئلہ: دس محرم الحرام کے دن یا ابتدائی دس دن میں روٹی نہ پکانا،گھر میں جھاڑو نہ دینا،پرانے کپڑے نہ اتارنا یعنی صاف ستھرے کپڑے نہ پہننا ،سوائے امام حسن وامام حسین رضی اللہ تعالی عنھماکے کسی کی فاتحہ نہ دینا اور مہندی نکالنا ،یہ تمام باتیں جہالت پرمبنی ہیں ۔[ملخص از فتاوی رضویہ ،ج۲۴،ص:۴۸۸]۔
کالے کپڑے پہننا
مسئلہ:محرم الحرام میں سبزاور سیاہ کپڑے علامت سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے خصوصاسیاہ(لباس) پہننا جائزنہیں کہ یہ رافضیوں کا شعار ہے۔لہذا مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہیے۔[احکام شریعت،فتاوی رضویہ،ج:۲۳]۔
کتبہ :مفتی غلام مرتضیٰ مظہری ،شازلی ،حسنی،رضوی
صدر تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ پاکستان ضلع لیہ فون:03022576336....03333834636.....03422740086
ماہانہ مفت سلسلہ اشاعتِ دین اصلاح عامہ کے لئے ہے۔
اگر آپ اس ماہانہ سلسلہ اشاعتِ دین میں حصہ ملانا چاہتے ہیں یا اپنے مرحومین کے ایصال ثواب کے طور پر چھپوانا یا پھر اپنے علاقے میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو اوپر دیئے گئے نمبر پر رابطہ فرمائیں

نماز،روزہ ،حج،زکوٰۃ ،نکاح ،طلاق،کاروباری مسائل کے حل اور تحریری فتوی کے لئے رابطہ فرمائیں
دارالافتاء فیضان شریعت ،گلشن مصطفی چک 147ضلع لیہ 

Monday, 27 July 2015

تین طلاق ایک سانس پراور اہلحدیث مولوی کا رد


کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے ایک دوست نے غصے میں آکر ایک ہی سانس اور ایک ہی وقت میں دوسرے افراد خانہ کے سامنے اپنی بیوی کو تین مرتبہ طلاق دی ۔کیا یہ طلاق مؤثر ہو گئی ہے یانہیں؟اصل معاملہ یہ ہے کہ وٹے سٹے کا رشتہ تھا ایک طرف سے طلاق ہوئی تو اس نے بھی کہا میں تمہاری بہن کو طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہو ں ۔اب آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ تین طلاق ایک ساتھ واقع ہو جاتی ہیں یانہیں؟برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
سائل: ممتاز احمد بخاری ،بہاولنگر ،پنجاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
پوچھی گئی صورت میں  آپ کے دوست کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور وہ اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے۔
اپنی بیوی کو طلاق دینے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ ہر طہر میں( یعنی جب عورت مخصوص ایام سے فارغ ہوجائے ) تو اس وقت ایک طہر میں ایک طلاق دے جبکہ تین طلاق اکٹھے دینا سنت کے مخالف ہے ، لہذا شوہر گناہ کا مرتکب ہوا اور اس پراس کو توبہ کرنا واجب ہے ۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مذہب حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی چاروں ائمہ کے نزدیک ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے تین طلاقیں ہی واقع ہوتی ہیں، چاہے ایک جملہ میں تین طلاق کا لفظ کہا مثلاً میں اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ہوں یا الگ الگ جملوں میں کہا مثلاً میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی، یا ایک مجلس یا دن میں تین طلاق دی بہر صورت تمام طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔
جیساکہ ناصر السنہ محی الدین العلامہ ابو زکریا یحی بن شرف النووی نے شرح النووی میں فرمایا : قال لامرأتہ انت طالق ثلاثاً فقال الشافعی ومالک وابو حنیفۃ واحمد وجماھیر العلماء من السلف والخلف یقع ثلاثاً‘‘۔ 
جس شخص نے اپنی بیوی کو کہا تجھے تین طلاقیں ہیں تو اس کے متعلق امام شافعی، امام مالک، امام اعظم ابو حنیفہ، امام احمد اور جمہور علماء سلف وخلف نے تین طلاق کے واقع ہونے کا فتوی صادر فرمایا۔[ شرح النووی علی المسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث: 1/478، مطبوعہ: قدیمی کتب خانہ،کراچی]۔
محقق علی الاطلاق علامہ کمال الدین ابن ہمام نے فرمایا: ذھب جمھورالصحابۃ والتابعین ومن بعدھم من ائمۃ المسلمین الی ان یقع ثلاثاً‘‘۔
ترجمہ: جمہور صحابہ، تابعین اور ان کے بعد والے مسلمانوں کے ائمہ کرام کا مسلک ہے کہ ایک لفظ سے تین طلاقیں دینے سے تین طلاقیں واقع ہوں گی۔[فتح القدیر، کتاب الطلاق، باب طلاق السنۃ: 3/469، مطبوعہ: دارالفکر، بیروت، لبنان]۔
عمد ۃالقاری شرح صحیح بخاری میں ہے ’’ مذہب جماھیر العلماء من التابعین ومن بعد ھم منھم الاوزاعی والنخعی والثوری ابو حنیفہ واصحابہ ومالک واصحابہ والشافعی واصحابہ واحمد واصحابہ واسحاق وابو ثوروابو عبید وآخرون کثیرون علی ان من طلق امراتہ ثلاثا وقعن ولکنہ یاثم وقالوا من خالف فیہ فھو شاذمخالف لاھل السنۃ وانما تعلق بہ اھل البدع ‘‘
ترجمہ:’’ جمہور علماء کرام تابعین میں سے اور جو ان کے بعد والے ہیں ان میں امام اوزاعی اور علامہ نخعی اور علامہ ثوری اور امام ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب اور امام مالک اور اس کے اصحاب اور امام شافعی اور اس کے اصحاب اور امام احمد اور ان کے اصحاب اور علامہ اسحاق اور علامہ ابو ثور اور علامہ ابو عبید اور بہت سے متاخرین کا مذہب یہ ہے کہ جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو واقع ہو جائیں گی لیکن اس سے گناہ گار ہو گا اور علماء نے فرمایا جو اس کے خلاف مذہب رکھتا ہو شاذاور اہل سنت کا مخالف ہے اور اس کا تعلق اہل بدعت سے ہے ‘‘۔[ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، کتاب الطلاق، باب من اجاز طلاق الثلاث: 20/233، دار احیاء التراث العربی، بیروت]۔
’’اذاقال لامرأتہ’’ انت طالق وطالق وطالق‘‘ ولم یعلقہ بالشرط، ان کانت مدخولۃ طلقت ثلثا‘‘
ترجمہ:’’جب مرد نے اپنی بیوی کو کہا ’’تجھے طلاق ہے اور طلاق ہے اورطلاق ہے‘‘ اور طلاق کو کسی شرط کے ساتھ معلق نہ کیا،اگر بیوی مدخولہ ہے تو اس پر تین طلاق واقع ہوگئیں ‘‘۔[ فتاوی ہندیہ، کتاب الطلاق، الباب الثانی، الفصل الاول: 1/355، مطبوعہ: دار الفکر، بیروت]۔
اسی طرح تقریباً چاروں مذاہب کی فقہی کتب میں یہ بات موجود ہے کہ تین طلاق بیک وقت دینے سے تین ہی ہوتی ہیں، مثلاً فقہ حنفی کی کتب میں رد المحتار، الدر المختار، تبیین الحقائق، النھر الفائق، بدائع الصنائع، فتح القدیر، الجوہرۃ النیرۃ، شرح الوقایۃ، الہدایۃ، البنایۃ، حاشیۃ الطحطاوی وغیرہم میں تین طلاق کو تین ہی شمار کیا اورنافذ کیا ہے ۔
تین طلاقیں تین ہونے پر قرآن پاک سے دلیل:
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اولاً دو طلاق کا ذکر کرکے فرمایا کہ اب بھی خاوندکو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے ، اور تیسری طلاق کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اب ان کے درمیان حرمت مغلظہ قائم ہوچکی ہے لہذا بغیر حلالہ شرعیہ کے واپسی ناممکن ہے ۔
سورہ البقرہ میں اللہ تعالی فرماتا ہے ’’الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ‘‘[البقرۃ :آیت ۲۲۹] ۔
ترجمہ کنز الایمان :’’یہ طلاق دو بارتک ہی ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے‘‘۔ پھر اسکے بعد مزید فرمایا:
’’
فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ‘‘
ترجمہ کنز الایمان:’’ پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہو گی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے ۔ ‘‘۔[البقرۃ ،آیت:۲۳۰]۔
ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالی نے مطلقاً تین طلاق کا حکم بیان فرمایا اور اسکو ایک مجلس یا متعدد مجلس کے ساتھ مقید نہیں کیا یعنی تین طلاقیں ایک مجلس میں دے یا ایک ایک سال کے وقفے سے دے بہرصورت تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔
جیسا کہ غیر مقلد اہلحدیث کے امام ابن حزم ظاہری نے اپنی کتاب میں لکھا: فھذا یقع علی الثلاث مجموعۃ ومفرقۃ، ولا یجوز ان یخص بھذہ الآیۃ بعض ذلک دون بعض بغیر نص‘‘۔
ترجمہ: یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ تین طلاق اکٹھی دی جائیں یا الگ الگ بہر حال طلاقیں واقع ہو جائیں گی، اور اس آیت کو بغیر دلیل کے بعض صورتوں کے ساتھ خاص کرنا جائز نہیں ہے ۔[ المحلی بالآثار: 3/394، مطبوعہ: دار الفکر بیروت، لبنان]۔
تین طلاق تین ہونے پراحادیث سے دلائل :
امام نسائی نے محمود بن لبید سے روایت کیا:عن محمود بن لبید قال اخبر رسول اللہ ﷺ عن رجل طلق امراتہ ثلث تطلیقات جمیعا فقام غضبان ثم قال ایلعب بکتاب اللہ عزوجل وانا بین اظہر کم حتی قام رجل فقال یا رسول اللہ الااقتلہ‘‘
ترجمہ:’’ حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک شخص کے متعلق خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے دی ہیں تو آپ ﷺ غضب ناک حالت میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا ’میرے سامنے کتاب اللہ کو کھیل بنایا جارہا ہے ؟ حتی کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ،میں اس کو قتل نہ کردوں‘‘۔[ سنن النسائی، کتاب الطلاق، حدیث نمبر( 3401): 6/142، مطبوعہ: مکتب المطبوعات الاسلامیۃ، حلب]۔
اگرتین طلاقوں سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے اتنا سخت اظہار ناراضگی کیوں فرمایا؟ یہاں تک کہ ایک صحابی نے اس شخص کے اس جرم کی وجہ سے اسکو قتل کرنے کی اجازت طلب کی۔
(۲) امام المحدثین ابو عبد اللہ امام بخاری کے استادِ محترم عظیم محدث امام عبد الرزاق نے اپنی مصنف میں روایت کیا: عَنْ دَاوُدَ بْنِ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: طَلَّقَ جَدِّی امْرَاَۃً لَہُ اَلْفَ تَطْلِیقَۃٍ، فَانْطَلَقَ اَبِی اِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَذَکَرَ ذَلِکَ لَہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اما اتَّقَی اللَّہَ جَدَُّک، اَمَّا ثَلَاثٌ فَلَہُ، وَاَمَّا تِسْعُ مِاءَۃٍ وَسَبْعَۃٌ وَتِسْعُونَ فَعُدْوَانٌ وَظُلْمٌ، اِنْ شَاءَ اللَّہُ تَعَالَی عَذَّبَہُ، وَاِنْ شَاءَ غَفَرَ لَہُ‘‘
ترجمہ: داود کہتے ہیں کہ میرے دادا نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھیں تو میرے والد رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ان کی خدمت میں سارا معاملہ عرض کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تیرا دادا اللہ سے نہیں ڈرتا؟ تین طلاق کا ان کو حق تھا ( وہ واقع ہوگئیں) اور نو سو ستانوے طلاق انکی طرف سے ظلم وزیادتی ہے ، اللہ تعالی کی مرضی چاہے تو اسے عذاب دے یاچاہے تو اسے بخش دے ۔[ مصنف عبد الرزاق، کتاب الطلاق، حدیث نمبر( 11339): 6/393، مطبوعہ: المکتب الاسلامی، بیروت]۔
(۳)صحاح ستہ کی چھٹی کتاب سنن ابن ماجہ کی حدیث پاک ہے : عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ:’’قَالَ: قُلْتُ لِفَاطِمَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ: حَدِّثِینِی عَنْ طَلَاقِکِ، قَالَتْ: طَلَّقَنِی زَوْجِی ثَلَاثًا، وَھُوَ خَارِجٌ اِلَی الْیَمَنِ، فاَجَازَ ذَلِکَ رَسُولُ اللَّہِ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘‘۔ 
ترجمہ: حضرت عامر شعبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے فاطمہ بنت قیس سے کہا کہ آپ مجھے اپنی طلاق کا واقعہ بیان کیجئے ، انہوں نے جواب دیا مجھے میرے شوہرنے یمن جاتے وقت تین طلاقیں دیں، تو رسول اللہ ﷺ نے یہ تینوں طلاقیں نافذ فرما دیں۔ [سنن ابن ماجہ ، کتاب الطلاق، باب من طلق ثلاثاً فی مجلس واحد، حدیث نمبر( 2024): 1/652، مطبوعہ:احیاء الکتب العربیۃ، بیروت]۔
حدیث میں یہ بات ظاہر ہے کہ یہ تین طلاقیں ایک مجلس میں دی گئیں تھیں جبھی تو حضرت فاطمہ نے یہ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ طلاقیں نافذ فرمادیں۔ اگر الگ الگ مجلس میں تین طلاقیں واقع ہوتیں تو رسول اللہ ﷺ کا ان طلاقوں کو نافذ کرنے کا کیا معنی ہے ؟ اسی لئے امام ابن ماجہ نے اس حدیث کیلئے جو باب باندھا وہ من طلق ثلاثاً فی مجلس واحد ہے یعنی جو ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ۔
(۴)امام المحدثین ابو عبد اللہ بخاری اپنی صحیح بخاری میں حضرت عویمر عجلانی کا واقعہ لعان ذکر کرنے کے بعد نقل فرماتے ہیں: فلما فرغا قال عویمر کذبت علیھا یارسول اللہ ان ا مسکتھا فطلقھا ثلاثاً‘‘
ترجمہ: جب دونوں میاں بیوی لعان سے فارغ ہو گئے تو حضرت عویمر نے کہا: یارسول اللہ ﷺ اگر میں اسکو روکے رکھوں تو یہ میرا اسٍپر جھوٹ ہوگا۔ چنانچہ حضرت عویمر نے (اسی وقت ) تین طلاقیں دے دیں۔[ صحیح بخاری، کتاب الطلاق، باب اللعان، حدیث نمبر5308: 7/53، دار طوق النجاۃ، بیروت]۔
(۵) اسی واقعہ کے بارے میں سنن ابی داود میں یہ الفاظ منقول ہیں: فَطَلَّقَھَا ثَلَاثَ تَطْلِیقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَاَنْفَذَہُ رَسُولُ اللّہِ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلّم‘‘
ترجمہ: حضرت عویمر عجلانی نے رسول اللہ ﷺ کے روبرو تین طلاقیں دیں تو رسول اللہ ﷺ نے تینوں طلاقوں کو نافذ فرما دیا‘‘۔[ سنن ابی داود، کتاب الطلاق، باب اللعان، حدیث نمبر( 2250): 2/274، المکتبۃ العصریۃ، بیروت]۔
امام دار الہجرت عظیم مجتہد ومحدث امام مالک نے حدیث کی عظیم الشان کتاب موطا امام مالک میں مفسر شہیر حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کیا:’’اَنَّ رَجُلاً قَالَ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ: اِنِّی طَلَّقْتُ امْرَاَتِی مِاءَۃَ تَطْلِیقَۃٍ، فَمَاذَا تَری عَلَیَّ؟ فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ: طَلُقَتْ مِنْکَ لِثَلاَثٍ، وَسَبْعٌ وَتِسْعُونَ اتَّخَذْتَ آیَاتِ اللہِ ھُزُواً‘‘
ترجمہ: ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں تو آپ کیا فرماتے ہیں؟ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا : تیری عورت کو تیری طرف سے تین طلاقیں واقع ہو گئیں اور باقی ستانوے کی وجہ سے تونے اللہ تعالی کی آیات کو مذاق بنا لیا۔[ مؤطا امام مالک، کتاب الطلاق، حدیث نمبر( 2021): 4/789، مطبوعہ: مؤسسہ زاید بن سلطان، ابو ظہبی]۔
غیرمقلدین وہابیہ کے مکڑی کے جالے سے بھی کمزور دلائل کا جواب:
غیر مقلدین نے جن روایتوں کو اپنے لئے حجت بنایا ہے ان میں سے ایک صحیح مسلم کی روایت ہے اور دوسری مسند احمد بن حنبل کی روایت ہے ۔
غیر مقلدین وہابیہ کی پہلی دلیل:
مسلم والی روایت یہ ہے : ’’عن طاؤس عن ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَھْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللیُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ، وَاَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: اِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِی اَمْرٍ قَدْ کَانَتْ لَھُمْ فِیہِ اَنَاۃٌ، فَلَوْ اَمْضَیْنَاہُ عَلَیْھِمْ، فَاَمْضَاہُ عَلَیْھِمْ‘‘
ترجمہ: طاؤس حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاق کو ایک شمار کیا جاتاتھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: جس کام میں لوگوں کیلئے مہلت تھی اس میں لوگوں نے جلدی کرنا شروع کردی ہے پس اگر ہم تین طلاق نافذ کردیں تو بہتر ہوگا پھر آپ نے تین طلاق کے نافذ ہونے کا حکم دے دیا۔[ صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب الطلاق الثلاث، حدیث نمبر( 1472): 3/1099، مطبوعہ: دار احیاء التراث، بیروت]۔
غیر مقلدین کا مسلم کی حدیث سے استدلال کرنا سات وجوہ سے باطل ہے۔ 
(۱)طاؤس کویہ روایت بیان کرنے میں مغالطہ اور وہم ہوا ہے ۔ 
امام ماردینی نے صاحب استذکار کے حوالے سے فرمایا: ان ھذہ الروایۃ وھم وغلط لم یعرج علیھا احد من العلماء‘‘
ترجمہ: یہ روایت وہم اور غلط ہے ، علماء میں سے کسی نے اسکو قبول نہیں کیا۔[ الجوہر النقی: 7/337، مطبوعہ: دار الفکر، بیروت، لبنان]۔
(۲)سید المحدثین امام بخاری کے نزدیک یہ حدیث صحیح نہیں تھی جبھی آپ نے دانستہ طور پر اس حدیث کو اپنی صحیح میں نقل نہیں فرمایا۔
امام بیہقی نے فرمایا: وھذا الحدیث احد ما اختلف فیہ البخاری ومسلم فاخرجہ مسلم، وترکہ البخاری واظنہ انما ترکہ لمخالفتہ سائر الروایات عن ابن عباس‘‘
ترجمہ: یہ روایت ان میں سے ایک ہے جس میں امام بخاری اور امام مسلم کا باہم اختلاف ہے ، امام مسلم نے اس حدیث کو اپنی کتاب میں درج کیا لیکن امام بخاری(جو کہ امام مسلم کے استاد بھی ہیں اور انکی حیثیت امام مسلم سے بر تر ہے ) نے اس روایت کو اپنی صحیح میں درج نہ کیا کیونکہ یہ روایت تین طلاقوں کے بارے میں حضر ت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی دیگر تمام روایات کے مخالف ہے ۔[ السنن الکبری، کتاب الطلاق، حدیث نمبر( 14974): 7/551، مطبوعہ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت]۔
(۳) یہ روایت خود حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے فتوی کے خلاف ہے ۔ 
ایسانہیں ہو سکتا کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس ایک روایت نقل کریں اور فتوی اسکے خلاف دیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کا فتوی مؤطا امام مالک کے حوالے سے گزر چکا۔ کوئی صحابی جان بوجھ کر حدیث کی مخالفت ہرگز نہیں کرسکتا اسی لئے اہل سنت کے نزدیک تمام صحابہ عادل ہیں۔ اگر مسلم کی اس حدیث کو درست مانا جائے تو حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی عدالت پر حرف آتا ہے اور یہ بات اہل سنت کو ہرگز گوارانہیں۔ شیعوں کی طرح غیر مقلدین حضرات کے نزدیک شاید تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم عادل نہیں ہیں اس لئے ان کے نزدیک صحابہ کرام حضور کی صریح حدیث کے برخلاف فتوے دے سکتے ہیں۔ 
(۴) اس روایت میں خلیفہ رسول اللہ ﷺحضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر شدید تبراء ہے ۔
اس روایت میں یہ ذکر کیا گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق کے طریقے کو چھوڑ کر اپنی طرف سے حکم شریعت میں تبدیلی کردی۔شیعوں اور غیر مقلدین میں کیا فرق رہ گیا؟ وہ بھی شیخین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلافت کے حق کو غصب کرکے حکم شریعت میں تبدیلی کردی۔ غیر مقلدین بھی اس حدیث سے استدلال کرکے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پر تبراء کے مرتکب ہوتے ہیں۔
(۵) اس روایت کو درست ماننے سے تمام صحابہ کی عدالت پر حرف آتا ہے ۔
اس روایت کو اگر درست مانا جائے تو اس سے یہ لازم آئیگا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بر خلاف ایک حکم شریعت میں اپنی طرف سے تبدیلی واقع کردی اور تمام صحابہ کرام نے اس فعل میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ساتھ دیا اور کسی ایک نے بھی صدائے احتجاج بلند نہیں کی تو جو افراد حکم شریعت کی مخالفت جان بوجھ کریں اور اسکی تائید وحمایت کریں تو ان کو عادل کیسے کہا جا سکتا ہے ۔لہذا فرض ہے کہ تمام صحابہ میں نقص ماننے کے بجائے ایسی روایت کو ہی باطل قرار دیا جائے ۔ 
(۶) طاؤس کی روایت شاذ ہے ۔
یہ روایت شاذ بھی ہے ، جیسا کہ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں لکھا: معارضتہ بفتوی ابن عباس بوقوع الثلاث، فلا یظن بابن عباس انہ کان عندہ ھذاالحکم عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم یفتی بخلافہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہ مذھب شاذ‘‘
ترجمہ: طاؤس کی روایت حضرت ابن عباس کے تین طلاق کے وقوع والے فتوے کے خلاف ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے یہ متصور نہیں کہ وہ کہ وہ نبی کریم ﷺسے ایک چیز روایت کریں اور فتوی اس کے خلاف دیں، اور یہ روایت شاذ بھی ہے ۔[ فتح الباری، کتاب الطلاق: 9/363، مطبوعہ: دارالمعرفہ، بیروت، لبنان]۔
(۷) طاؤس کو اس روایت میں غیر مدخولہ کی طلاق کے ساتھ مغالطہ لگا ہے ۔
تین طلاق کا ایک ہونا غیر مدخولہ عورت کا حکم ہے طاؤس نے یہ حکم مدخولہ عورت کا بھی سمجھ لیا۔ جیسا کہ ابن ابی شیبہ کی روایت اس پر دلالت کرتی ہے :’’ عَنْ لَیْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ وَعَطَاءٍ، اَنھُمَا قَالَا: اِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَاَتَہُ ثَلَاثًا، قَبْلَ اَنْ یَدْخُلَ بِھَا فَھِیَ وَاحِدۃٌ‘‘
ترجمہ: لیث روایت کرتے ہیں کہ طاؤس اور عطاء کہتے تھے کہ جب مرد نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی دخول کرنے سے قبل تو اسے ایک طلاق واقع ہوگی۔ [ مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الطلاق، حدیث نمبر( 17878): 4/69، مطبوعہ: م?تبۃ الرشد، ریاض]۔
مسلم شریف کی حدیث کا صحیح معنی ومحمل:
بالفرض اگر طاؤس کی روایت درست ہو تو اس کا صحیح محمل وہی ہو سکتا ہے جو کمال ابن ہمام نے فرمایا: فتاویلہ ان قول الرجل انت طالق انت طالق انت طالق اان واحدۃ فی الزمن الاول لقصد ہم التاکید فی ذلک الزمان، ثم صاروا یقصدون التجدید فالزمھم عمر رضی اللہ عنہ‘‘۔
ترجمہ: اس طاؤس کی روایت کی تاویل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں انت طالق انت طالق انت طالق میں لوگ دوسرے اور تیسرے الفاظ طلاق سے( نئی طلاق کے بجائے پچھلی طلاق کی) تاکید مراد لیتے تھے ، پھر وہ دوسرے اور تیسرے الفاظ طلاق سے (تاکید کے بجائے ) نئی طلاق مراد لینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے تین طلاق کے نافذ کرنے کا حکم دے دیا۔ [ فتح القدیر، کتاب الطلاق، باب طلاق السنۃ: 3/471، مطبوعہ: دارالفکر، بیروت، لبنان]۔
غیر مقلدین کا اس حدیث سے استدلال کرنا سوال چنا اور جواب جو کے قبیل سے ہے اس حدیث میں تو اس بات کا ذکر ہے کہ جب دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید مراد لینے کا رواج ہو تو نئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور جب دوسری اور تیسری طلاق سے نئی طلاق لینے کا رواج ہو تو ان الفاظوں سے بھی مزید طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔ غور کیجئے کیا غیر مقلد مولوی سے پوچھے گئے سوال میں کہیں اس بات کی صراحت یا اشارہ موجود ہے کہ سائل نے دوسری یا تیسری مرتبہ طلاق کا لفظ تاکید کیلئے بولا ہو یا ہمارے عرف میں دوسری یا تیسری مرتبہ طلاق کا لفظ تاکید کیلئے کہا جاتا ہو؟ ہرگز نہیں! یہاں تو اس بات کی صراحت ہوتی ہے کہ سائل نے نئی طلاق کے قصد سے ہی دوسری اور تیسری مرتبہ طلاق کا لفظ کہا ہے اور رواج میں بھی دوسری اور تیسری مرتبہ طلاق کے الفاظ سے تاکید کے بجائے نئی طلاقیں مراد ہوتی ہیں ۔ اور ہر ایک تین مرتبہ کہے الفاظوں سے تین مرتبہ طلاق دینا ہی سمجھتا ہے ۔ ان تمام باتوں کے برخلاف تین طلاقوں کو ایک ماننا اور دلیل میں اس حدیث کو پیش کرنا اس کام کو بے وقوفی، جہالت، ہٹ دھرمی، گمراہی کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے ؟ 
غیر مقلدین وہابیہ کی دوسری دلیل:
نام نہادغیر مقلدین وہابی حضرات اپنے مؤقف کی تائید میں حدیث رکانہ بھی پیش کرتے ہیں اور اس دلیل کو اپنے زعم میں سب سے مضبوط سمجھتے ہیں۔ وہ روایت یہ ہے : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: طَلَّقَ رُکَانَۃُ امْرَاَتَہُ ثَلَاثًا فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَحَزِنَ عَلَیْھَا حُزْنًا شَدِیدًا، فَسَاَلَہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: کَیْفَ طَلَّقْتَھَا؟ قَالَ: طَلَّقْتُھَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَقَالَ: فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَاِنَّمَا تِلْکَ وَاحِدَۃٌ فَاَرْجِعْھَا اِنْ شِْتَ‘‘
ترجمہ: رکانہ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دی تو وہ سخت پریشان ہوئے ، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ تو نے کیسے طلاق دی تھی ، کہا تین ، آپ ﷺنے فرمایا : ایک مجلس میں؟ اس نے کہا ہاں، تو آ پ ﷺ نے فرمایا: ایک طلاق ہوئی ہے پس اگر چاہے تو رجوع کرلے ۔[ مسند احمد، مسند ابن عباس، حدیث نمبر( 2387): 4/215، مطبوعہ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت]۔
غیر مقلدین حضرات کا حدیث رکانہ سے استدلال چھ وجوہ سے باطل ہے ۔
(۱)یہ حدیث ضعیف ہے اور ضعیف حدیث قابل استدلال نہیں ہے ۔
اس حدیث کے متعلق امام ابن جوزی فرماتے ہیں: ھذا حدیث لا یصح، ابن اسحاق مجروح وداود اشد منہ ضعفاً، قال ابن حبان: فیجب مجانبۃ روایتہ والظاھر انہ من غلط الرواۃ‘‘
ترجمہ: یہ حدیث صحیح نہیں ہے ، ابن اسحاق مجروح ہے اور داود سخت ترین ضعیف ہے ، اور ابن حبان فرماتے ہیں: کہ ان کی روایات سے بچنا ضروری ہے ، اور ظاہر ہے کہ یہ روایت راویوں کی غلطی ہے ۔[ العلل المتناہیہ فی الاحادیث الواہیہ، کتاب النکاح، حدیث نمبر1059: 2/151، ادارۃ العلوم الاثریۃ، پاکستان]۔
(۲) یہ حدیث منکر ہے ۔
حدیث رکانہ ضعیف ہونے کے ساتھ منکربھی ہے جیساکہ کمال الدین ابن ہمام نے اس حدیث کو منکر قرار دیا ہے ۔ فتح القدیر میں فرماتے ہیں: حدیث رکانۃ فمنکر‘‘۔
ترجمہ: رکانہ کی حدیث منکرہے ۔[ فتح القدیر، کتاب الطلاق، باب طلاق السنۃ: 3/471، مطبوعہ: دارالفکر، بیروت، لبنان]۔
(۳)حدیث رکانہ معلل اور مضطرب ہے ۔
امام المحدثین امام بخاری نے اس حدیث کو مضطرب اور معلل قرار دیتے ہوئے اس حدیث کو اپنی صحیح بخاری میں نقل نہیں فرمایا،اگر یہ حدیث صحت کے درجے کو پہنچتی تو وہ لازماً اس کو درج فرماتے ، جیساکہ امام ابن حجرعسقلانی نے فرمایا: واعلہ البخاری بالاضطراب، وعن ابن عباس رواہ احمد والحاکم وھو معلول ایضاً‘‘
ترجمہ: امام بخاری نے حدیث رکانہ کو اضطراب کی وجہ سے معلل قرار دیا اور حضرت عبد اللہ ابن عباس سے روایت جسکو امام احمد اور امام حاکم نے روایت کیا وہ بھی معلول ہے ۔[ التلخیص الحبیر، کتاب الطلاق، حدیث نمبر( 1603): 3/458، مطبوعہ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت]۔
(۴) حدیث رکانہ مسند احمدکے بجائے جو صحاح ستہ کی کتب حدیث میں درج ہے وہی صحیح ہے اور اسمیں تین طلاق کے بجائے ایک طلاق کا ذکر ہے ۔
غیر مقلدین وہابیہ مذکورہ حدیث رکانہ جو مسند احمد میں ضعیف سند سے روایت کی گئی ہے اس سے تو استدلال کرتے ہیں لیکن اس کے مقابل وہی حدیث رکانہ جو سند کے اعتبار سے صحیح ہے اور اسے صحاح ستہ کے تین عظیم محدثین یعنی امام ابو عیسی ترمذی نے جامع الترمذی میں حدیث نمبر (1177)، امام ابو داود نے سنن ابی داود میں (2206) اور امام ابن ماجہ نے سنن ابن ماجہ میں (2051 )نقل فرمایا اسکو ترک کردیتے ہیں۔ منکر اور ضعیف حدیث سے استدلال اپنے زعم فاسد کیلئے کیا جا رہا ہے اور صحیح حدیث کو ترک کیا جارہا، کیا دیانت اسی چیزکا نام ہے ؟ کیا اسی بوتے پر اپنا نام اہل حدیث رکھا ہے ؟ 
امام ابو داود نے فرمایا: قال ابو داود: وھذا اصح من حدیث ابن جریج ان رکانۃ طلق امراتہ ثلاثاً‘‘
ترجمہ: امام ابو داود نے فرمایا: یہ حدیث ابن جریج کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے کہ جس میں یہ ذکر ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی۔[سنن ابی داود، کتاب الطلاق، باب فی البتہ، حدیث نمبر(2208): 2/263، مطبوعہ: المکتبۃ العصریۃ، بیروت]۔
ایک طلاق والی صحیح حدیث مبارکہ کی امام ابو داود نے دو سندیں بیان کی (۱) نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ۔ (۲) یزید بن رکانہ، دونوں حدیثیں درج ذیل ہیں: 
’’ حدثنا ابن السرح، وابراھیم بن خالد الکلبی ابو ثور، فی آخرین قالوا: حدثنا محمد بن ادریس الشافعی، حدثنی عمی محمد بن علی بن شافع، عن عبد اللہ بن علی بن السائب، عن نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانۃ: اَنَّ رکَانَۃَ بْنَ عَبْدِ یَزِیدَ طَلَّقَ امْرَاَتَہُ سُھَیْمَۃَ الْبَتَّۃَ، فَاَخْبَرَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذَلِکَ، وَقَالَ: وَاللّہِ مَا اَرَدْتُ اِلَّا وَاحِدَۃً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: وَاللَّہِ مَا اَرَدْتَ اِلَّا وَاحِدَۃً؟، فَقَالَ رُکَانَۃُ: وَاللَّہِ مَا اَرَدْتُ اِلَّا وَاحِدۃً، فَرَدھَا اِلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَطَلَّقَھَا الثَّانِیَۃَ فِی زَمَانِ عُمَرَ، وَالثَّالِثَۃَ فِی زَمَانِ عُثْمَانَ‘‘ 
ترجمہ: رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سھیمہ کو طلاق البتہ دی، اور اس معاملے کو رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں پیش کیا اور کہا: اللہ کی قسم میں نے طلاق البتہ سے صرف ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اللہ کی قسم تونے ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا؟ رکانہ نے عرض کی: اللہ کی قسم میں نے ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا، تورسول اللہﷺ نے ( اسکے ارادے کی تصدیق کرتے ہوئے ) انکا نکاح برقرار رکھا، رکانہ نے اپنی بیوی کو دوسری طلاق حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں دی، اور تیسری طلاق حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں دی۔[ سنن ابی داود، کتاب الطلاق، باب فی البتہ، حدیث نمبر(2206): 2/263، مطبوعہ: المکتبۃ العصریۃ، بیروت]۔
امام ابو داود نے اس کی دوسری سند اس طرح بیان کی: حدثنا سلیمان بن داود العتکی، حدثنا جریر بن حازم، عن الزبیر بن سعید، عن عبد اللہ بن علی بن یزید بن رکانۃ، عن ابیہ، عن جدہ: انہ طلق امراتہ البتۃ، فاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال: ما اردت، قال: واحدۃ، قال: آللہ؟، قال: آللہ، قال: ھو علی ما اردت‘‘۔
ترجمہ: عبد اللہ بن علی بن یزید بن رکانہ اپنے والد یزید بن رکانہ سے اور وہ انکے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں اپنی بیوی کو طلاق البتہ دی تو رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر سارا معاملہ عرض کیا، رسول اللہ نے پوچھا تم نے اس لفظ سے کیا ارادہ کیا؟ عرض کیا ایک طلاق، رسول اللہ نے پوچھا کیا اللہ کے نام کا حلف اٹھا کر کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا اللہ کی قسم، رسول اللہ نے فرمایا وہی طلاق واقع ہوئی جس کا تم نے ارادہ کیا(یعنی ایک طلاق)۔ 
(۵) مذکورہ بالا البتہ والی حدیث بھی تین طلاق واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔
انت طالق البتہ میں لفظ ’’ البتہ‘‘کا معنی کاٹنا ہے اور اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ تجھے ایسی طلاق جو تیرے میرے درمیان تعلق نکاح کو کاٹ دے ۔ اب تعلق نکاح کا کٹنا ایک طلاق بائن سے بھی ہوتا ہے اور تین طلاق مغلظہ سے بھی ، لہذا یہ لفظ ایک طلاق بائن کا بھی احتمال رکھتا ہے اور تین طلاق کا بھی احتمال رکھتا ہے ،اس زمانے میں" البتہ" کا لفظ عام طور پر تین طلاق کیلئے بولا جاتا تھا اسی لئے رسول اللہ نے حلف کے ذریعے حضرت رکانہ سے انکی نیت دریافت فرمائی اورجب انہوں نے حلفیہ یہ بیان دیا کہ میں نے اس لفظ سے ایک طلاق کی نیت کی تھی تو رسول اللہ نے ایک طلاق بائن کا حکم دے کر دوبارہ بذریعہ نکاح رجوع کا حکم ارشاد فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکی نیت پر حلف لینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر وہ صحابی تین طلاق مراد لیتے یا ایک طلاق مرادنہ لیتے تو حضور علیہ الصلاۃ والسلام تین طلاق کے واقع ہونے کا حکم صادر فرمادیتے ۔ اور اگر تین طلاقوں سے ایک ہی طلاق مراد ہوتی تو پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے قسم لینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، کہ آپ مطلقاًفرمادیتے ایک ہی طلاق ہوئی ہے تم تین کی نیت کرو یا نہ کرو۔ جیساکہ علامہ نووی نے شرح مسلم میں ارشاد فرمایا
:’’ فھذا دلیل علی انہ لو اراد الثلاث لوقعن والا فلم یکن لتحلیفہ معنی‘‘
ترجمہ: یہ اس پر دلیل ہے کہ اگر وہ صحابی رسول تین طلاق مراد لیتے تو تین طلاق واقع ہو جاتیں وگرنہ قسم لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔[ شرح النووی علی المسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث: 1/478، مطبوعہ: قدیمی کتب خانہ،کراچی]۔
(۶) گھر والے دوسروں کے مقابلے میں اپنے گھر کے معاملات زیادہ بہتر جانتے ہیں۔
امام ابوداد ، امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے حدیثِ رکانہ کوانکے بیٹے یزید بن رکانہ کے حوالے سے اور امام ابوداود نے نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ سے روایت کیا جیساکہ ماقبل دونوں حدیثیں بیان کی جا چکیں ہیں، جبکہ امام احمد نے حدیثِ رکانہ کواپنی مسند میں ابن جریج کے حوالے سے روایت کیا،ہر باشعور پر یہ بات واضح ہے کہ جب یزید بن رکانہ اور نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ حضرت رکانہ کے گھرکے افراد میں سے ہیں تویقیناً کسی دوسرے کے مقابلے میں وہ زیادہ جانتے ہیں کہ ان کے بزرگوار حضرت رکانہ نے اپنی اہلیہ کو طلاق البتہ دی تھی یا تین طلاقیں دی تھیں۔ لہذا محدثین نے یزید بن رکانہ اور نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ کی روایت کو ابن جریج کی روایت پر ترجیح دی اور ابن جریج کی روایت کو مجروح اور ناقابل قبول قرار دیا۔
امام ابو داودنے ارشاد فرمایا: لانھم اھل بیتہ وھم اعلم بہ‘‘
ترجمہ: یزید بن رکانہ حضرت رکانہ کے گھر کے افراد میں سے ہیں اور وہ اس معاملے کو زیادہ جانتے ہیں۔[ سنن ابی داود، کتاب الطلاق، باب فی البتہ، حدیث نمبر(2206): 2/263?264، مطبوعہ: المکتبۃ العصریۃ، بیروت]۔
غیر مقلدین وہابیہ کے اپنے گھر سے ان کے خلاف دلیل:
غیر مقلدین کے امام ابن تیمیہ کے نزدیک بھی حنفی شخص کوتین طلاق کو ایک ماننے کا فتوی دیناباطل اور اجماع کے خلاف ہے ۔
نام نہاد غیر مقلدین وہابیہ کے امام ابن تیمیہ جو تین طلاقوں کو ایک ماننے کے قائل ہیں انکے بیان کردہ اصول کی روشنی میں حنفی شخص کا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تین طلاقیں ہی واقع ہوتی ہیں۔
شیخ ابن تیمیہ نے اپنے فتاوی میں یہ اصول بیان کیا ہے کہ جو شخص جس مذہب کی تقلید کرتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ اپنے معاملات میں اپنے مذہب ہی کی پیروی کرے ، محض اپنے مفادات اور خواہش نفس کی خاطر کسی دوسرے مذہب کی پیروی کرنا ناجائز وحرام اور پوری امت کے خلاف ہے ۔ جس طرح کہ آج کل لوگ بغیر سوچے سمجھے وقتی غصے اور جذبات کے تحت اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیتے ہیں، پھر جب جذبات ٹھنڈے ہوتے ہیں تو پچھتاوا ہوتا ہے کہ یہ میں نے کیا کردیا۔جب کسی طرف سے کوئی راستہ نہیں ملتا تو اپنے مفاد کی خاطرفرقہ اہلحدیث کے پاس چلے جاتے ہیں حالانکہ طلاق دینے سے قبل وہ فقہ حنفی کے تقلید کررہے ہوتے ہیں اور تین طلاقوں کو تین ہی ماننے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔فرقہ اہلحدیث کے مولوی صاحبان یہ جاننے کے باوجود کہ یہ شخص تین طلاقوں کو تین ہی ماننے کا اعتقاد رکھتا تھا اور اسی اعتقاد کی بنیاد پر اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے چکا ہے اور اب دنیا کی مشکلات اور نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہمارے پاس فتوی لینے آیا ہے ، یہ نام نہاد اہلحدیث مولوی اپنے امام ابن تیمیہ کی مخالفت کرتے ہوئے سائل کے اعتقاد کے برخلاف ایک طلاق کا گمراہیت اور ہوائے نفس پر مبنی فتوی جاری کردیتے ہیں۔
فتاوی ابن تیمیہ میں ہے :حیث قال فیمن نکح عند شھود فسقۃ ثم طلقھا ثلاثا فاراد التخلص من الحرمۃ بان النکاح کان فاسدا فی الاصل علی مذھب الشافعی رحمہ اللہ تعالی فلم یقع الطلاق مانصہ وھذا القول یخالف اجماع المسلمین فانھم متفقون علی ان من اعتقد حل الشی ء کان علیہ ان یعتقد ذلک سواء وافق غرضہ او خالف ومن اعتقد تحریمہ کا ن علیہ ان یعتقدذٰلک فی الحالین وھٰؤلاء المطلقون لایقولون بفساد النکاح بفسق الولی الاعند الطلاق الثلاث لا عند الاستمتاع والتوارث یکونون فی وقت یقلدون من یفسد ہ وفی وقت یقلدون من یصححہ بحسب الغرض والھوٰی ومثل ھذا لایجوز باتفاق الامۃ (ثم قال بعد ثلاثہ اسطر)ونظیر ھٰذا ان تعتقد الرجل ثبوت شفعۃ الجوار اذا کان طالباً لھا وعدم ثبوتھا اذا کان مشتریاً فان ھٰذا لایجوز بالاجماع وکذا من بنی علیٰ صحۃ ولایۃ الفاسق فی حا ل نکاحہ وبنی علی فساد ولایتہ حال طلاقہ لم یجز ذلک باجماع المسلمین ولو قال المستفتی المعین انالم اکن اعرف ذٰلک وانا الیوم التزم ذٰلک لم یکن من ذٰلک لہ لان ذٰلک یفتح باب التلاعب بالدین ویفتح الذریعۃ الی ان یکون التحلیل والتحریم بحسب الاھواء‘‘۔[فتاوٰی ابن تیمیہ ،ج:۲،ص:۲۴۰]۔
ترجمہ:’’انہوں نے اس طرح کہا کہ اگرکسی نے فاسق گواہوں کی موجودگی میں نکاح کیا پھر اس کو تین طلاقیں دے دیں پس وہ چاہتا ہے اس حرمت سے خلاصی پائے کہ یہ نکاح امام شافعی علیہ الرحمہ کے مذہب کے مطابق فاسدہوا تھاپس اس کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہو تو اس کا یہ قول اجماع مسلمین کے خلاف ہے۔پس تمام امت مسلمہ اس پر متفق ہے کہ جو کسی چیز کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو تو اس پر لازم ہے کہ اسی پر ہی اعتقاد رکھے خواہ وہ اس کی خواہش کے موافق ہو یا مخالف اورجو کسی چیز کے حرام ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے تو اس پر بھی لازم ہے وہ دونوں حالتوں میں اسی کا اعتقاد رکھے ۔اور یہ طلاق دینے والے ولی کے فاسق ہونے کی وجہ سے نکاح کو فاسد نہیں کہتے مگر تین طلاق کے وقت اوریہ لوگ عورت سے نفع لیتے وقت اور وارثت میں حصہ دار ہوتے وقت نکاح کے فاسد ہونے کا دعوی نہیں کرتے اور یہ ایک وقت میں اس کے مقلد ہوئے جو ان کی غرض اور خواہش کے مطابق نکاح کو فاسد کہتا ہے اور دوسرے وقت میں اس کے مقلد ہوئے جو ان کی غرض اور خواہش کے مطابق اس نکاح کو درست کہتا ہے ۔اور اس کی مثل کے حرام ہونے پر پوری امت کا اتفاق ہے (پھر چند سطر کے بعد لکھا)اس کی مثال یہ ہے کہ ایک مرد یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ پڑوسی پر شفعہ حق ثابت تب ہو گا جب بھی وہ اس کا مطالبہ کرے اور لیکن جب خود خریدار ہو دوسرے کے لئے اس طرح شفعہ کو ثابت نہ مانے پس یہ بالاجماع جائز نہیں اور اسی طرح ایک شخص نکاح کرتے وقت تو ولی کے فاسق ہونے کے باوجود نکاح کو صحیح مانے اور طلاق کے وقت اس نکاح کو فاسد مانے تو یہ بالاجماع تمام مسلمانوں کے نزدیک جائز نہیں ۔اور اگر سوال کرنے والا کہے مجھے اس بات کا علم نہیں تھا اور آج سے اس پر میرا اعتقاد ہے تو بھی اس کے لئے جواز کا حکم نہیں ہو گاکیونکہ اس طرح کرنے سے دین کے ساتھ مذاق کا دروازہ کھل جائے گا اور اپنی خواہشِ نفس کے مطابق حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرنے کاذریعہ بن جائے گا‘‘۔[ مجموع الفتاوی، باب ارکان النکاح وشروطہ: 32/101، مطبوعہ: مجمع الملک فہد، المدینۃ المنورۃ، السعودیۃ]۔
اس عبارت سے واضح ہوا کہ جس شخص نے تین طلاق دی اور وہ اسوقت حنفی تھا تو اس پرلازم ہے کہ وہ تین طلاق کے واقع ہونے کا اعتقاد رکھے اور اپنی خواہش کے مطابق تین طلاق کو ایک ثابت کرنے کیلئے غیر مقلد اہلحدیثوں کے پاس نہ جائے ، انکے اس فتوے کا اس شخص کو کوئی فائدہ نہیں ہوگاکیوں کہ شیخ ابن تیمیہ کے مطابق اس شخص کی عورت اس پر حرام ہی رہے گی اور اس پر ساری امت کا اتفاق اور اجماع ہے ۔ لہذا فرقہ اہل حدیث کے مولوی صاحبان اپنے امام کی اس عبارت کو بغور پڑھیں، اور اپنے امام کے اصول پر عمل کرتے ہوئے کسی حنفی کے پوچھے گئے تین طلاق کے سوال میں ایک طلاق کے واقع ہونے کا فتوی جاری کرکے اجماع کی مخالفت اور امت کے اتفاق کو توڑ نے کی راہ پر نہ چلیں۔ 
ان تمام دلائل کی روشنی میں عورت پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور اب حلالہ شرعیہ کے بغیر رجوع کی کوئی صورت نہیں ہے ۔
اللہ تعالی کاارشاد پاک ہے ’’فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا أَن یَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن یُقِیْمَا حُدُودَ اللّہِ وَتِلْکَ حُدُودُ اللّہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوْمٍ یَعْلَمُون‘‘
ترجمہ کنز الایمان:’’ پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہو گی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے ۔پھروہ دوسرااسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں ،اگر سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدیں نباہیں گے اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جنہیں بیان کرتا ہے دانش مندوں کے لئے ‘‘۔[البقرۃ ،آیت:۲۳۰] ۔
اس آیت کر یمہ کے تحت تفسیر روح المعانی میں علامہ آلوسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
’’ فان طلقھا بعد الثنتین (فلاتحل لہ من بعد)ای من بعد التطلیق(حتی تنکح زوجاً غیرہ )ای تتزوج زوجاً غیرہ ،ویجامعھا فلا تکفی مجرد العقد‘‘
ترجمہ:’’ پس اگر شوہر دو طلاقوں کے بعد تیسری طلاق دے دے تو وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں ہو گی حتی کہ دوسرے مرد سے نکاح کر ے اور وہ دوسرا مرد اس سے جماع بھی کر ے محض نکاح کافی نہیں ‘‘۔[ تفسیر روح المعانی: 1/535، مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ]۔
اس آیت کی تفسیر خود حضور ﷺ نے بھی فرمادی کہ جس طرح بخاری شریف :ج ،2،ص، 801،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی اور صحیح مسلم شریف :1،ص463 ,مطبوعہ دار الحدیث اور مشکوٰۃ شریف باب مطلقہ ثلاثاً میں اور ترمذی شریف میں بھی ہے ۔
واللفظ لہ’’ عن عائشۃ قالت جائت امرأ ۃ رفاعۃ القرظی الی رسول اللہ فقالت انی عند رفاعۃ و طلقنی فبت طلا قی فتزوجت عبد الرحمن بن الزبیر ومامعہ الا ھد بۃ الثوب فقال اترید ین ان ترجعی الی رفاعۃ ،لا حتی تذ وقی عسیلتہ ویذ وق عسیلتک ‘‘ 
ترجمہ:’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں‘حضرت رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی عورت رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کی کہ میں حضرت رفاعہ کے پاس تھی آپ نے مجھے تین طلاقیں دے دیں پھر میں نے حضرت عبد الرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے نکاح کیااور ان کو میں نے کپڑے کے پھندنے کی طرح(نامرد) پایا ،تو حضور ﷺ نے فرمایا کیا تو رفاعہ کی طرف واپس جانا چاہتی ہے؟ تو یہ جائز نہیں حتی کہ تو اس کاذائقہ چکھے اور وہ تیراذائقہ چکھے(یعنی جب تک جسمانی تعلق قائم نہیں ہوتا اس وقت تک واپس نہیں جا سکتی ) اس حدیث کے تحت امام ابو عیسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
’’ حدیث عائشۃ حدیث حسن صحیح والعمل علی ھذا عند عامۃ اھل العلم من اصحاب النبی وغیر ھم ان الرجل اذا طلق امراتہ ثلاثا فتزوجت زوجا غیر ہ فطلقھا قبل ان یدخل بھا انھا لا تحل للزوج الاول اذا لم یکن جامع الزوج الاخر ‘‘
ترجمہ:’’ حضرت عائشہ کی حدیث صحیح حسن ہے اصحاب النبی ﷺاور ان کے علاوہ اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ جب زوج نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اس نے اس کے علاوہ زوج سے نکا ح کیا تو اس( دوسرے شوہر) نے جسمانی تعلق سے پہلے طلاق دے دی تو وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرا شوہرجسمانی تعلق قائم نہ کرے ۔[تر مذی شریف باب النکاح :ج ،اول ،ص213،مطبوعہ ،قدیمی کتب خانہ ،کراچی ] ۔
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں علامہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ شرح السنہ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’ وفی شرح السنۃ : العمل علی ھذا عند اھل العلم من الصحابۃ وغیرھم ،قالوا اذا طلق الرجل امرأتہ ثلاثاً فلا تحل لہ بعد ذلک حتی تنکح زوجاً غیرہ ویصیبھا الزوج الثانی ،فان فارقھا او مات عنھا قبل اصابتھا فلا تحل ‘‘
ترجمہ:’’ شرح السنہ میں ہے کہ اس (حلالہ )پر عمل صحابہ کرام اور دیگر علماء کا ہے۔انہوں نے فرمایا:جب شوہر اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لئے حلال نہیں ہو گی حتی کہ دوسرے شوہر سے نکاح کر ے اور دوسرا شوہر اس سے جسمانی تعلق بھی قائم کر ے ،پس اگر نکاح کے بعد جسمانی تعلق قائم کر نے سے پہلے جدائی ہوگئی یا شوہر جسمانی تعلق قائم کر نے سے پہلے فوت ہو گیا تو وہ پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہو گی ‘‘۔[مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ،ج:۶،ص:۴۰۴،مکتبہ ، رشیدیہ کو ئٹہ ]۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ کے دوست کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور وہ اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے اب ان کا بغیر حلالہ شرعی ایک ساتھ رہنا جائز نہیں عورت اپنی عدت گزار کر جہاں مرضی ہو دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے ۔واللہ تعالی اعلم