دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Friday, 12 June 2015

ویلفیئر اداروں ،فلاحی تنظموں کو زکاۃ/زکوٰۃ دینے سے پہلے اسے ضروری پڑھیں

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایسا شخص جس کی لاکھوں روپے زکوٰۃ بنتی ہے وہ غریب اور مستحق لوگوں کوتلاش کرنے کے بجائے اپنی زکوٰۃ کسی ویلفیئر ،ادارے کو دے دیتا ہے ۔اور یہ بات ہر ایک شخص جانتا ہے کہ ویلفیئر یا ادارے سالانہ جمع ہونے والی زکوٰۃ فطرہ کی رقم کئی سالوں تک جمع رکھ کر بینک بیلنس بنانے میں لگے رہتے ہیں اور سائلین کو فنڈ نہیں ہے کا لقمہ دے کر ٹرخا دیا جاتا ہے اور اگرلوگوں کے دکھانے کے لئے  زکوٰۃ تقسیم کریں بھی تو اکثرویلفیئر میں زکوٰۃ کی تقسیم کا طریقہ کار بھی عجیب ہے اس کی چھان پٹخ کرنے کی غرض سے کہ مستحق زکوٰۃ ہے یانہیں؟ اس کے گھر جا کر گلی محلہ میں رہنے والے لوگوں سے اس کے بارے میں تفتیش کر کے رسوا کیا جاتا ہے اوررزلٹ یہ نکلتا ہے کہ ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں اور عوام اور ڈونرز میں اپنی واہ کرانے کے لئے  سینکڑوں لوگوں کو اپنے آفس کے سامنے لمبی لمبی لائینوں میں لگائے رکھتے ہیں ان میں کسی ایک ،دو کوتفتیش میں پاس کرکے کچھ رقم دے دی جاتی ہے اورلوگوں میں اکثر کو ادارے یا ویلفیئر کے چکر لگواتے ہیں تاکہ لوگوں میں واہ ہو جائے کہ بڑی خدمت کر رہے ہیں مستحق زکوٰۃ ہونے کے باوجودکچھ نہیں ملتا کیونکہ  ان کی کوئی جان پہچان یا سفارشی نہیں۔
2011میں BBCکی رپورٹ کے مطابق ایک سال میں 16ہزار لوگوں نے غربت کی وجہ سے خود کشی کی ہے ۔اگر یہ ویلفیئر والے زکوٰۃ فقراء تک پہنچاتے تو کیا اس ملک میں یہ حال ہوتا ۔اور دوسری طرف حکومت زکوٰۃ کی رقم کا کیا حشر کرتی ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں آئے دن زکوٰۃ فنڈ میں کرپشن کی خبریں اخباروں کی زینت بنتی رہتی ہیں اور بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کی حالت زار بھی کسی سے مخفی نہیں ۔اس صورت حال میں تو لازم ہونا چاہیے کہ صاحب نصاب خود غریبوں کو تلاش کریں اور اس کو زکوٰۃ دیں ۔
المختصراکثرلوگوں نے ویلفیئریا فلاحی تنظیم کے نام پر لوگوں سے زکوٰۃ فطرہ اور دیگر عطیات کی مد میں رقم جمع کرنے کا دھندہ شروع کیا ہوا ہے تو کیا ایسے حالات میں مالداروں کااپنی لاکھوں کی زکوٰۃ کسی ویلفیئر یا ادارے یا فلاحی تنظم کو دےکر جان چھڑوانا درست ہے کیا ان کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ؟
(2)اگر کسی شخص کا ذہن بنایا جائے کہ آپ اپنی زکوٰۃ خود لوگوں کو دے تو وہ دو سوال کرتا ہے (۱)میں ایک دن میں کس طرح یہ زکوٰۃ تقسیم کروں اس کا طریقہ بتادیں کیونکہ اتنی زکوٰۃ بنتی ہےجس کو میں لے کر نکلوں تو ایک دن میں اس کا تقسیم کرنا میرے لئے ممکن نہیں ہے اس کا کوئی حل بتائیں۔(۲)اگر میں خود تقسیم کرتا ہوں تو جب لوگوں کو پتہ چلے گا تو وہ میرے گھر میں آنا شروع ہو جائیں گے اور نظم وضبط کو برقرار رکھنا مشکل اور میرا جینا حرام کر دیں گے اور کراچی جیسے شہر میں جب لوگوں کو پتہ چل گیا کہ میں اتنا امیر ہوں تو پھر بھتہ خوری کی پرچیاں آنا شروع ہو نے کا خطرہ  ہے ۔اس کا بھی حل ارشاد فرمادیں۔
(3)بعض افراد ایسے ہیں کہ جو سال بھر پیشگی زکوٰۃ تقسیم کرتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی سال پورا ہونے پر اتنی زکوٰۃ کی ادائیگی باقی ہوتی ہے جو ایک دن میں تقسیم کرنا ممکن نہیں ہوتی تو اس کا کیا حل ہے؟
(4)مستحق زکوٰۃ کی پہچان کیا ہے ؟آج کل ٹی وی اور فریج تقریباً ہر گھر میں ہے اور موٹر سائیکل ہو تو ایسے شخص کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟
المستفتی: علامہ مفتی محمد محسن نقشبندی قادری مجددی ،کراچی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
(1)زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے دو چیزیں اہم ہیں ۔
(۱)زکوٰۃ  کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد مال اگر کسی کے پاس ہے اور اس پر اسلامی سال گزر جائے تو اس میں سے ڈھائی فیصد زکوٰۃ ادا کرنا فوراً لازم ہے حتی کہ بغیرعذر شرعی کے ادائیگی میں تاخیر کر نا گناہ ہے۔
(۲)زکوٰۃ کا مال کسی مستحق زکوٰۃ شخص کو دے کر مالک بنانا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے ’’ فھی تملیک المال من فقیر مسلم ‘‘
ترجمہ:’’ زکوٰۃ کی ادائیگی مال کا مسلمان فقیر کو مالک بنا دینا ہے ‘‘۔[فتاوی عالمگیری ،ج:۱،ص:۱۸۸،قدیمی کراچی]۔
امام اہلسنت امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں ’’زکوٰۃ کا رکن تملیک فقیر ہے جس کا م میں فقیر کی تملیک نہ ہو کیسا ہی کار حسن ہو جیسےتعمیرمسجد یاتکفینِ میت یا تنخواہِ مدرسان علم دین،اس سے زکوٰہ نہیں ادا ہو سکتی ‘‘۔[فتاوی رضویہ ،ج:۱۰،ص:۲۶۹، رضافاؤنڈیشن،لاہور]۔
زکوٰۃ جمع کرنے والے ویلفیئر ادارے عام طور پر زکوٰۃ ادا کرنے والوں کی طرف سے وکیل ہوتے ہیں لہذا جب تک مستحقین ِ زکوٰۃ کو رقم کی ادائیگی اور مالک بنانا نہیں پایا جائے گا اس وقت تک صرف اس ویلفیئر ادارے کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی اس لئے ان ویلفیئر اداروں پر یہ لازم  ہے کہ وصول کردہ رقم جلد از جلد مستحقین تک پہنچائیں کیونکہ زکوٰۃ دینے والوں نے ان کو یہ رقم مستحقین تک پہنچانے کے لئے دی ہوتی ہے بینک میں جمع کرنے کے لئے نہیں دی ہوتی ۔اگر کوئی ویلفیئر ادارہ زکوٰۃ کی رقم ایک سال سے زائداپنے اکاؤنٹ میں جمع رکھتا ہے اور اس کے بعد مستحقین ِ زکوٰہ کو دیتا ہے  تو زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا تو ہو جائے گی لیکن تاخیر کا گناہ ان پر لازم آئے گا ۔
زکوٰۃ دینے والوں کا یہ سمجھ لینا ہم نےسال پورا ہونے پر کسی ویلفیئر یا ادارے کو زکوٰۃ دے دی تو اب ہم بری الذمہ ہیں ہماری زکوٰۃ ادا ہو گئی درست نہیں۔لہذا مالدار اور صاحب ثروت لوگوں کو چاہیےکہ اپنی زکوٰٰۃ اپنے ہاتھوں سے مستحقین تک پہنچائیں یا کسی ایسے ویلفیئر یا ادارےکو دیں جو فوری طور پر زکوٰۃ کی رقم مستحق تک پہنچا دے ۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن صاحب مدظلہ العالی  ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں " کمونیٹیز یا انجمنوں کے ذمہ داران زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے اہل ِ ثروت حضرات کے صرف وکیل ہوتے ہیں ،اگر وہ اس ذمہ داری کو شرعی احکام کے مطابق ادا نہیں کریں گے تو عند اللہ جواب دہ ہوں گے ۔زکوٰۃ جب تک مستحق تک نہیں پہنچے گی ،محض کمونیٹیز یا برادریوں کے فنڈ/اکاؤنٹ میں جمع ہونے سے ادا نہیں ہوگی ،نیز فطرہ وزکوٰۃ کی رقوم جب تک الگ مَد میں رکھ کر تملیک (کسی کو مال کا مالک بنانا)کے شرعی اصول کے مطابق مستحق افراد کو ادا نہیں کی جائے ،ادا نہیں ہوگی "۔[زکوٰۃ،معنی ومفہوم ،اہمیت ،فضائل ومسائل ،ص:۱۶۵،مکتبہ نعیمیہ کراچی]۔
مالداراورصاحبِ ثروت لوگوں کااپنے مال کی  زکوٰۃ لازم ہونے کے بعد کسی ایسی ویلفیئر یا فلاحی تنظیم یا ادارے  کو زکوٰۃ کا مال دینا جس میں غالب گمان یہ ہو کہ  میری زکوٰۃ فوری طور پر مستحق زکوٰۃ تک نہیں پہنچائیں گے ،کو دینا جائز نہیں ہے کیونکہ ایسی صورتِ حال میں زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر یقینی ہے اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں بلا عذر شرعی تاخیرکرنا گناہ ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے ’’ وتجب علی الفورعند تمام الحول حتی یأثم بتاخیرہ من غیر عذر ‘‘
ترجمہ:’’ جب سال تما م ہو نے پر زکوٰۃ واجب الادا ہو جائے تو فوراً ادا کر نا لازم ہے حتی کہ بغیر عذر شرعی کے تاخیر کر نے کی وجہ سے گنہگار ہو گا ‘‘۔[فتاوی عالمگیری ،ج:۱،ص:۱۸۸،مطبوعہ ،قدیمی ،کراچی] ۔
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں ’’اگر سال گزر گیا اور زکوٰہ واجب الادا ہو چکی تو اب تفریق وتدریج ممنوع ہو گی بلکہ فوراً تما م وکما ل زرواجب الادا ادا کر ے کہ مذہب صحیح ومعتمد ومفتی بہ پر ادائے زکوٰۃ کاوجوب فوری ہے جس میں تاخیرباعثِ گناہ ‘‘۔[فتاوی رضویہ ،ج:۱۰،ص:۷۶،رضافاؤنڈیشن ،لاہور]۔
بعض ویلفیئر ادارے اپنے بینک بیلنس کو بھرنے کے لئے حیلہ شرعی کا سہارا لیتے ہیں اوربعض ویلفیئر کے ذمہ داران خود ہی اپنے آپ کو شرعی فقیر تصور کرتے ہوئے اپنی ہی ذات سے زکوٰۃ کا حیلہ شرعی کر لیتے ہیں ۔ان کا یہ حیلہ کرنا باطل ہے کیونکہ زکوٰۃ دینے والوں نے ان کو زکوٰۃ تقسیم کرنے کا وکیل کیا ہوتا ہے خود اپنی ذات کے لئے زکوٰۃ رکھنے کا اختیار نہیں دیا ہوتا ۔
الدرالمختار میں ہے :"وللوکیل أن یدفع لولدہ الفقیر وزوجتہ لا لنفسہ الا اذا قال ربھا"
ترجمہ: (زکوٰۃ تقسیم کرنے والے)وکیل کے لئے اپنی (بالغ) فقیر اولاد اور زوجہ کو دینا جائز ہے لیکن خود زکوٰۃ کی رقم نہیں رکھ سکتا جب تک  زکوٰۃ دینے والے نے اس کی اجازت نہ دی ہو "۔[الدرالمختار،ج:۳،ص:۲۲۴،مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ]۔
مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:" وکیل کو یہ اختیار نہیں کہ خود لے لے، ہاں اگر زکاۃ دینے والے نے یہ کہہ دیا ہو کہ جس جگہ چاہو صرف کرو تو لے سکتا ہے"[بہارشریعت ،ج:۱،ص:۸۸۸،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی]۔
اور بعض ویلفیئر  اپنے ہی کسی ملازم، جو  ان کے دباؤ میں ہوتا ہے سے زکوٰۃ کا حیلہ کر کے کروڑوں اربوں روپے اپنے بینکوں میں جمع کر لیتے ہیں اور اپنی صواب دید پر اس طرح خرچ کرتے ہیں گویا وہ اس رقم کے مالک ہیں ۔اس طرح حیلہ  کرنا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ حیلہ شرعی صرف انتہائی ضرورت کے وقت جائز قرار دیا گیا ہے اور یہاں کوئی ایسی ضرورت موجود نہیں ہے ۔ہزاروں مستحقین موجود ہیں جن کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے تو پھر حیلہ کر کے بینک بیلنس بڑھانے میں کونسی ضرورت شرعی ہے ؟
بغیر ضرورت کے حیلہ کر نا جا ئز نہیں ہے کہ اس میں فقراء اور مستحقِ زکوٰۃ لوگوں کا حق مارنا اور باطل کرنا ہے ۔جو کہ حرام ہے ۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے ’’ ھی مایتوصل بہ الی مقصود بطریق خفی ۔وھی عند العلماء علی اقسام بحسب الحامل علیھا ۔فان توصل بھا بطریق مباح الی ابطال حق او اثبات فھی حرام ‘‘
ترجمہ:’’حیلہ یہ ہے کہ جائز طریقے سے کسی مقصود تک پہنچنا۔اور علماء کے نزدیک حیلہ کرنے والے کے اعتبار سے اس کی کئی اقسام ہیں : اگر جائز طریقے سے غیر کے حق کو باطل یا باطل چیز کو حاصل کرنے کے لئے کیا جائے حرام ہے ‘‘۔[فتح الباری ،شرح صحیح بخاری ،ج:۱۲،ص:۴۰۴،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔
پروفیسر مفتی منیب الرحمن لکھتے ہیں ’’ اگر جائز طریقے سے کسی کا حق(خواہ اللہ کا حق ہو جیسے زکوٰۃ یا بندے کا حق)باطل کیاجائے یا کسی باطل (مثلاًسود ،رشوت وغیرہ )کو حاصل کیا جائے تو یہ حیلہ حرام ہے ‘‘۔[تفہیم المسائل ،ج:۲،ص:۱۷۵،مطبوعہ ضیا ء القرآن]۔
اور بینک بیلنس بھرنے کے لئے حیلے کا سہارا لینا مستحق مسلمانوں کا حق مارنا ہے اور یہ گناہ ہے۔
فتح الباری میں اسی صفحہ پر ہے ’’ وان کانت لابطال حق مسلم فلا بل ھی اثم وعدوان‘‘
ترجمہ:’’اگر حیلہ سے کسی مسلمان کا حق باطل کرنا ہو تو یہ جائز نہیں بلکہ یہ گناہ اور زیادتی ہے‘‘۔[فتح الباری ،شرح صحیح بخاری ،ج:۱۲،ص:۴۰۴،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔
 اگر ان ویلفیئر اداروں کی بیلنس شیٹ چیک کی جائے تو بعض اداروں میں کروڑوں اور بعض بڑے اداروں میں اربوں روپے سالہاسال تک پڑے رہتے ہیں یہ وہی رقم ہوتی ہے جو غریبوں کی فلاح وبہبود کے نام پر لوگوں نے ان پر اعتماد کر کے جمع کرائی ہوتی ہے لیکن ان  اداروں کو خرچ کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ یہ ادارے بڑے زور وشور سے اس بات کی تشہیر تو کرتے ہیں کہ ہم نے اس سال اتنے کروڑ یا ارب روپے خرچ کیے اور اس کے لئے مہنگے مہنگے بک لیٹ شائع کرتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ادارہ بھی الا ماشاء اللہ   اپنے سالانہ کارکردگی  رپوٹ یا بک لیٹ میں اس بات کو واضح نہیں کرتا کہ اس کے پاس کتنے کروڑ یا ارب روپے بیلنس میں موجود ہیں ۔وہ اپنے اس بینک بیلنس کو اس طرح چھپاتے ہیں جس طرح انسان اپنے گناہوں کو چھپاتا ہے ۔بعض ویلفیئر ادارے غریبوں کی فلاح وبہبود کے بجائے  اپنی ذاتی مقاصد کی تکمیل اور غریبوں کے استحصال کا شاندار نمونہ ہیں بعض لوگوں نے تو غربیوں کا نام لے کر اپنی برادری اور کمیونٹی کے لئے ویلفیئر کھول رکھا ہے ۔وہ پیسہ تو غریبوں کے نام پر پوری دنیا سے جمع کرتے ہیں لیکن ان کو غریب صرف اپنی برادری اور کمیونٹی کے افراد ہی نظر آتے ہیں، بعض اوقات دکھاوے کے لئے کچھ غیر برادری کے لوگوں کی بھی مدد کر دیتے ہیں لیکن اکثر صرف اپنی برادری یا جان پہچان کے لوگوں پر ہی رقم خرچ کرتے ہیں ۔
اگر پاکستان میں کوئی آسمانی آفت جیسے سیلاب یا زلزلہ آجائے تو ان ویلفیئر اداروں کی چاندی ہو جاتی ہے ۔ان آفت زدہ لوگوں کے نام پر یہ لوگ اپنے بینک بیلنس میں مزید اضافہ کرتے ہیں اور کروڑوں اربوں روپے ان آفت زدہ لوگوں کے نام پر جمع کرتے ہیں اور اس رقم میں سے ایک بہت قلیل مقدار ان آفت زدہ مستحق لوگوں تک پہنچتی ہے اور بقیہ ان کے بینکوں میں پڑی رہتی ہے جس کو یہ اپنے ذاتی مفادات اور مقاصد میں خرچ کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔بعض ویلفیئر اداروں نے تو غریب کے بجائے اپنے خاندان کی ویلفیئر کو سامنے رکھا ہوتا ہے اور اس کے لئے انہوں نے بڑے زبردست حیلے ڈھونڈے ہوتے ہیں غریبوں میں تقسیم کرنے کے لئے جو سامان خریدا جاتا ہے وہ انتہائی ناقص اور مہنگے داموں خریدا جاتا ہے اور یہ سامان بیچنے والے افراد عام طور اسی ویلفیئر کے ذمہ داران کے رشتے دار یا دوست احباب ہوتے ہیں ۔
زکوٰۃ وعطیات  دینے والوں کو چاہیے  کہ اگر وہ کسی ویلفیئر ادارے کو اپنی زکوٰۃ یا عطیہ دینا چاہتے ہیں تو اس کی سالانہ رپوٹ میں یہ ضرور چیک کریں کہ ان کے پاس کتنا بیلنس موجود ہے ،ہماری اس بات کی سچائی خود ان کے سامنے آجائے گی لیکن یہ یاد رہے اس ویلفیئر سے منسلک افراد کی زبانی بات پر اعتماد نہ کریں بلکہ  مصدقہ تحریر ی ثبوت طلب کریں۔
اور اگرکوئی  پیشگی زکوٰۃ دینا چاہتا ہے یعنی ابھی اس کے نصاب پر سال پورا نہیں ہوا اور وہ ایڈوانس زکوٰۃ کسی ویلفیئر کو دینا چاہتا ہے اور اس کا غالب گمان یہ ہے کہ میرے نصاب پر سال پورا ہونےپر یا اس سے پہلے میری زکوٰۃ مستحق زکوٰۃ تک پہنچ جائےگی تو جائز ہے۔
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں ’’ اگر زکوٰۃ پیشگی ادا کر تا ہے یعنی ہنوز حولانِ حول (سال کا گزرنا)نہ ہوا کہ وجوبِ ادا ہو جاتا ،خواہ یوں کہ ابھی نصاب نامی فارغ عن الحوائج کا مالک ہو ئے سال تمام نہ ہوا یا یوں کہ سال گزشتہ کی دے چکا ہے اور سالِ رواں ہنوز ختم پر نہ آیا تو جب تک انتہائے سال نہ ہو بلا شبہ تفریق وتدریج کا اختیار کامل رکھتا ہے جس میں اصلاً کو ئی نقصان نہیں ‘‘ ۔[فتاوی رضویہ ،ج:۱۰،ص:۷۵،رضافاؤنڈیشن ،لاہور]۔
کسی ویلفیئر یا ادارے کا لوگوں سے جمع کردہ زکوٰۃ اور دیگر صدقات  کا مال فوری طور پر مستحقین تک پہنچانے کے لئے ہوتے ہیں ایسے مال کو بینکوں میں جمع رکھنا اور اس پر نفع لینا بھی جائز نہیں اور اس طرح زکوٰۃ بھی ادا نہیں ہوتی اور اگر زکوٰۃ دینے والوں کی مرضی بھی شامل ہو تو وہ بھی گنہگار ہوں گے ۔
 مفتی اعظم پاکستان پروفیسرمفتی منیبُ الرحمن مدظلہ العالی اس طرح کے سوا ل کے جواب میں فرماتے ہیں ’’ بعض انجمنیں زکوٰۃ کی رقوم کی قومی بچت کی اسکیموں میں لگا کر سرمایہ کاری کرتی ہیں ،اور ان سے سود حاصل ہو تا ہے اس سے ناداروں کی اعانت کر تی ہیں ،یہ عمل بھی شرعاً ناجائز ہے ، اس سے زکوٰۃ بھی ادا نہیں ہو تی اور سود لینے کا وبال الگ ہے ،ایسے لو گ گنہگار ہیں ،اگر زکوٰۃ دینے والوں کی منشاء بھی شامل ہے تو وہ بھی گنہگار ہوں گے اور ان کی زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی ‘‘۔[تفہیم المسائل :ج:۲،ص:۱۷۶]۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی ویلفیئر یا فلاحی تنظیم یا ادارے کو زکوٰۃ دینا اور دینے والے کاغالب گمان یہ ہو کہ میری زکوٰۃ فوری طور پر مستحق زکوٰۃ تک نہیں پہنچے گی جس کی وجہ سے میں گنہگار ہوں گا تو ایسی ویلفیئر وغیرہ کو زکوٰۃ نہ دے بلکہ کوشش کرے اپنے ہاتھوں مستحقین تک پہنچائے اور فقراء اور مساکین کی پاکستان جیسے ملک میں کمی نہیں ہے ۔مستفتی کی سوال میں پیش کردہ میڈیا رپورٹ ہی غریب مسلمانوں کا درد رکھنے والے مالداروں اور صاحب ثروت لوگوں کے لئے کافی ہے ایسے میں صاحب ِنصاب افراد کو چاہیے کہ خود اپنے ہاتھوں غریبوں کو زکوٰۃ دے کر اللہ کے فریضہ کی ادائیگی کریں ۔واللہ تعالی اعلم
(3،2)صاحب ِ ثروت لوگوں کے خدشات ملکی حالات کی وجہ سے کسی حد تک درست ہیں لیکن اللہ تعالی کے فرض کی ادائیگی اللہ تعالی کے حکم کے مطابق کرنا لازم ہے ،اس کے لئے کئی طریقے اپنائے جاسکتے ہیں ۔
(۱)سال پورا ہونے پر زکوٰۃ ادا کر ناچاہتا  ہے تواس کو مستحقین کی تلاش سال مکمل ہونے سے پہلے کر لینی چاہیے تاکہ سال پورا ہوتے ہی فوراً زکوٰۃ ادا کی جاسکے ۔سب سے پہلے  زکوٰۃ کی رقم کو اپنے مال سے الگ کر ے اور پھر مستحقین میں تقسیم کرنا شروع کر دے ۔
(۲)دوسرا طریقہ زیادہ آسان ہے وہ یہ کہ اپنے مال کی پیشگی زکوٰۃ ادا کرےاس طرح پورے سال میں مستحقین کو تلاش کرنا اور ان کی مدد کرنا آسان ہو گاسال پورا ہونے پر اپنی زکوٰۃ کی ادائیگی کی پڑتال کر کے اگر پوری ہو گئی تو فبہا اگر کم ہوئی ہے تو کمی کو پورا کر دے اور اگر زیادہ چلی گئی ہے تو اس کو آئندہ سال میں شمار کر لے۔
(۳)شہر یا اپنی ہی کمپنی میں زکوٰۃ کاؤنٹر کا قیام عمل میں لائیں جس کے لئے ایک دو ملازم رکھ لیے جائیں اور وہ پورا سال مستحقین کی تلاش اور ان کے کوائف جمع کریں اور ان تک زکوٰۃ پہنچائیں خواہ وہ راش  ہوکی صورت میں ہو یا کپڑوں کی صورت میں یا قرضوں کی ادائیگی کی صورت میں ہو ۔سال بھر زکوٰۃ کی رقم تقسیم کرنے کے باوجود بچ جائے تو اس کی فوری ادئیگی کریں اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اہلسنت کے دینی مدارس  اسلام کے قلعے ہیں ان میں اکثر طلباء فقراء ہوتے ہیں اہلسنت کے مدارس کا وزٹ کر لیا جائے اور جہاں ضرورت محسوس کریں اس مدرسہ کے مہتمم جو طلباء کا کفیل اور وکیل ہوتا ہے کو دے دی جائے توفوری  زکوٰۃ اداء ہو جائے گی ۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی منیت الرحمن صاحب مد ظلہ العالی لکھتے ہیں:" ایسے تمام دینی مدارس وجامعات ،یتیموں /معذوروں /محتاجوں کے دارالکفالت ،جن میں سب طلبہ یا یتامیٰ یا معذورین مستحق زکوٰۃ ہوں ،اُن کا مہتمم /متولی زکوٰۃ وصدقات ِ واجبہ کی وصولی کے لئے اُن کا وکیل ہے ۔لہذا جب ایسے ادارے کے متولی یا مہتمم کو زکوٰۃ اور صدقات ِ واجبہ دے دیئے جائیں ،تو وہ ادا ہو جائیں گے ۔اور ادارے کا متولی /مہتمم اُن کے وکیل کی حیثیت اُن کے مصالح میں دیانت وامانت کے اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اِس رقم کو خرچ کر سکتا ہے ،مصالح سے مراد اُن کی خوراک ،لباس ،علاج ،کتب اورتعلیم وتدریس کے مصارف ہیں ۔اِن میں مدرسین وعملے کے مشاہرات ،گیس ،بجلی ،پانی کے بل ،عمارت کی نگہداشت اور دیگر سب امور شامل ہیں "۔[زکوٰۃ،معنی ومفہوم ،اہمیت ،فضائل ومسائل ،ص:۱۲۳،مکتبہ نعیمیہ کراچی]۔
مزید دو صفحات کے بعد امام اہلسنت امام احمد رضا علیہ رحمۃ الرحمن یتیم خانہ کے بارے میں سوال وجواب ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:" امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالی کے اس فتوے سے معلوم ہوا کہ ہر وہ ادارہ جو دارالکفالت ہے ،جس میں سب کے سب خواہ یتامیٰ ہوں یا فقراء ومساکین یامستحق طلبوں ،تو اس کا متولی زکوٰۃ وصول کرنے میں اُن کا وکیل ہے اور اسے زکوٰۃ ادا کرنے سے مال دار کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ،کیونکہ وکیل کا وصول کرنا مؤکل کا وصول کرنا ہے "۔ [زکوٰۃ،معنی ومفہوم ،اہمیت ،فضائل ومسائل ،ص:۱۲۵،مکتبہ نعیمیہ]۔
(4)کسی ویلفیئر ادارے سے مستحقین کے کوائف لے لیے جائیں اور اپنے ملازمین کے ذریعے ان میں زکوٰۃ تقسیم کر اد ی جائے ۔لیکن بعض ویلفیئر اداروں نے مستحق کی تلاش اور چھان بین کاجو طریقہ اپنا رکھا ہے  وہ انتہائی شرم ناک اور سفید پوش افراد کے لئےذلت ورسوائی کا سامان ہے۔ شریعت مطہرہ کی طرف سے اس طرح کی رسوائی والی چھان بین کا کوئی حکم نہیں ہے ۔شریعت کا حکم تو اتنا ہے کہ جس کو زکوٰۃ دینا چاہتے ہیں اس کے بارے میں  تحری یعنی غوروفکر کریں کہ اس کی ظاہری حالت کے مطابق یہ مستحق زکوٰۃ ہے یانہیں اگردل اس بات پر جمے کہ یہ مستحق زکوٰۃ ہے تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ۔بالفرض اگر وہ مستحق نہیں تھا پھر بھی دینے والے کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ، اور کسی نے سوال کیا اور اس کو مستحق جان کر زکوٰۃ دے دی تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ۔
مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں" جس نے تحری کی یعنی سوچا اور دل میں یہ بات جمی کہ اس کو زکاۃ دے سکتے ہیں اورزکاۃ دے دی بعد میں ظاہر ہوا کہ وہ مصرف زکاۃ ہے یا کچھ حال نہ کُھلا تو ادا ہوگئی اور اگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غنی تھا یا اُس کے والدین میں کوئی تھا یا اپنی اولاد تھی یا شوہر تھا یا زوجہ تھی یا ہاشمی یا ہاشمی کا غلام تھا یا ذمّی تھا، جب بھی ادا ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ بھی تحری ہی کے حکم میں ہے کہ اُس نے سوال کیا، اس نے اُسے غنی نہ جان کر دے دیا یا وہ فقیروں کی جماعت میں انھیں کی وضع میں تھا اُسے دے دیا"[بہارشریعت ،ج:۱،ص:۹۳۲،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی]۔
اس سے واضح ہو گیا کہ مستحق زکوٰۃ کی پہچان کا جو طریقہ بعض ویلفیئر والوں نے اختیار کر رکھا ہے قطعا مقصود شرعاً کے خلاف ہےاس کا وجود شریعت مطہرہ میں کہیں نہیں ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے:" لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ لَا یَسْتَطِیۡعُوۡنَ ضَرْبًا فِی الۡاَرْضِ۫ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِۚ تَعْرِفُہُمۡ بِسِیۡمٰہُمْۚ لَا یَسْئَلُوۡنَ النَّاسَ اِلْحَافًاؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنْ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ"
ترجمہ کنزالایمان:" ان فقیروں کے لئے جو راہ خدا میں روکے گئے ، زمین میں چل نہیں سکتے ، نادان انہیں تونگر(مالدار) سمجھے بچنے کے سبب ،تُو انہیں ان کی صورت سے پہچان لے گا ، لوگوں سے سوال نہیں کرتے کہ گڑگڑانا پڑے اور تم جو خیرات کرو اللہ اسے جانتا ہے"۔[سورہ البقرۃ،آیت:۲۷۳]۔
ضروریات اصلیہ (رہائش کے مکان ،ذاتی سواری کی گاڑی،اور کھانے پینے کی اشیاء اور دوسری ایسی اشیا ء جو اکثر گھروں میں استعمال ہو تی ہیں جیسے ٹی ۔وی ،فریج ،فرنیچروغیرہ )استحقاق زکوٰۃ سے مانع نہیں ہیں ۔
 مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن لکھتے ہیں:گھریلو سامان جس کا تعلق اس کی بنیادی حاجات وضروریات سے ہے ،اِس سے وہ مال دار نہیں قرار پاتا ،جیسے آج کل لوگوں کے پاس ریفریجریٹر اور ٹی ۔وی  ہوتا ہے یا کوئی سواری ہوتی ہے ،جیسے موٹر سائیکل یا کار وغیرہ یا استعمال کے برتن اور فرنیچر وغیرہ ہوتا ہے۔یہ چیزیں استحقاق زکوٰۃ سے مانع نہیں ہیں "۔[ زکوٰۃ،معنی ومفہوم ،اہمیت ،فضائل ومسائل ،ص:۱۵۷ ،مکتبہ نعیمیہ کراچی]۔
مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: جس کے پاس مکان یا دکان ہے جسے کرایہ پر اٹھاتا ہے اور اُس کی قیمت مثلاً تین ہزار ہو مگر کرایہ اتنانہیں جو اُس کی اور بال بچوں کی خورش کو کافی ہو سکے تو اُس کو زکاۃ دے سکتے ہیں۔ یوہیں اس کی مِلک میں کھیت ہیں جن کی کاشت کرتا ہے، مگر پیداوار اتنی نہیں جو سال بھر کی خورش کے لیے کافی ہو اُس کو زکاۃ دے سکتے ہیں، اگرچہ کھیت کی قیمت دو سو ۲۰۰ درم (نصاب کی مقدار کے برابر)یا زائد ہو۔"[بہارشریعت ،ج:۱،ص:۹۲۹،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی]۔واللہ تعالی اعلم
  الجواب صحيح                                     کتبــــه

ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اختر المدنی                                                       ابوالجمیل غلام مرتضیٰ مظہری

12جون،2015، ۲۴شعبان المعظم ۱۴۳۶ھ                                       12جون،2015، ۲۴شعبان المعظم ۱۴۳۶ھ

Sunday, 10 May 2015

ہندو پاک میں رائج ومتعارف قرآن کریم کا رسم وضبط اور رسم عثمانی

دارالافتاء فیضان شریعت
جامع مسجد فیضان شریعت اقبال کالونی مارٹن روڈ تین ہٹی کراچی
E-mail:faizaneshariat@gmail.comفون نمبر:0300-2415263
تاریخ:2015-04-11                                                                       حوالہ:7879
محترم مفتی صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
دینی لحاظ سے ایک نہایت حساس اور اہم مسئلے کے بارے میں آپ کی رہنمائی مطلوب ہے ۔آپ اپنے متعلقہ شعبہ سے مشاورت کے بعد اپنے موقر ادارے کے باضابطہ موقف سے آگاہ فرمائیں۔
موضو ع : ہندو پاک میں رائج ومتعارف قرآن کریم کا رسم وضبط
واضح رہے کہ ہندو پاک میں قرآن کریم کا جورسم بطور عثمانی متعارف ہے، اس کا مرکزومحور  اِس فن کے امام ابو عمر والدانی (متوفی۴۴۴ھ)کی نصوص وترجیحات ہیں ،جبکہ عرب دنیا میں متعارف رسم ان کے شاگرد امام ابوداود بن نجاح رحمۃ اللہ علیہ کی ترجیحات کے مطابق ہے۔جبکہ نُقَط ،وقف اوراعراب(     َ   ِ  ُ    ٗ    ً      ّ     ۡ    ٓ  ) کے لیے وضع کردہ علامات اجتہادی ہیں، جن میں عرب وعجم کے علماء نے اپنی علاقائی ضروریات کو پیش نطر رکھا اور تاحال اسی پر عمل ہورہا ہے ۔اب ایک مخصوص طبعے نے آواز اٹھائی ہےکہ اس کو بدل کر عربوں میں رائج رسم وضبط کو ہندوپاک میں بھی رائج کرنا چاہیے ۔اس تناظر میں ہم آپ سے علمی رہنمائی چاہتے ہیں کہ :
۱۔ عام طور پر تاج کمپنی والا رسم وضبط جو ہندو پاک میں رائج ومتعارف ہے، وہ صحیح ہے یا غلط ؟۔
۲۔کیاہندو پاک میں عرب ممالک کے (علامات واعراب)کو رائج کرنا ضروری ہے ؟۔
۳۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسی تبدیلی امت میں ایک نئے اختلاف کو جنم دے گی؟۔
المستفتی :محمد حفیظ البرکات شاہ،ضیاء القرآن پبلی کیشنز ،لاہور
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
رسول اللہ ﷺ پر اللہ تبارک وتعالی نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کو تئیس سال کے عرصے میں تھوڑ اتھوڑا کر کے نازل فرمایا ۔رسول اللہ ﷺ
پرجوبھی وحی نازل ہوتی، آپ ﷺ صحابہ کرام علیھم الرضوان  کو اس کی تعلیم فرمایا کرتے اورجو صحابہ کرام لکھنا جانتے تھے،   ان کے ذریعے اس وحی ِالہی کو
تحریر  ی صورت میں بھی محفوظ کر لیا جاتا تھا،اور یہ سب کام حکم خداوندی کے مطابق انجام پاتاتھا۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:" لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ اِنَّ عَلَیۡنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰنَہٗ  فَاِذَا قَرَاۡنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ ۔ ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا بَیَانَہٗ ۔"
ترجمہ :"(قرآن کو یاد کرنے کے لئے )اپنی زبان کو جلدی حرکت نہ دیا کیجیئے،بے شک اس کا (آپ کے ذہن میں )محفوظ کرنا اور آپ کو اس کا پڑھانا ہماری ذمہ داری ہے۔جب ہم(یعنی جبرائیل امین) پڑھ چکیں تو آپ اُس پڑھے ہوئے کی اتباع کریں ،پھر اس(کے معانی)کا بیان (بھی)ہمارے ذمے ہے" ۔[القییٰمۃ،آیت: ۱۶ تا ۱۹]۔
صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین نے حفظ اور تحریر دونوں ذرائع سے قرآنِ کریم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا۔
رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعدجب ایک معرکہ میں کئی حفاظ صحابہ کرام شہید ہو گئے تو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورے پر خلیفہ اول حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ نےجمع قرآن  کے لئے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی سربراہی میں اکابر اور جلیل القدر صحابہ کرام کی ایک مجلس بنائی ،جس نے کڑی شرائط کے تحت جمع قرآن کا فريضہ انجام دیا ،اس مرتّب ومدوّن  مصحف مقدس کو "مصحف ِ صدیقی"  کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کی اساس اس عہد کے قراء قرآن کی یاد داشت اور صحابہ کرام کے پا س متفرق طورپر مکتوب آیا ت وسُوَر ِ قرآنی تھیں۔ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کے جمع کردہ قرآنِ کریم کی صحت پر تمام صحابہ کرام  وامت مسلمہ کا اجماع واتفاق ہے ۔
          پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نےاپنے دور خلافت میں شاذ اور غیر متواتر قراء ات کے فتنے سے امت کو بچانے کے لئے   مہاجرین و انصار میں سے اکابر قراء صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کی سرپرستی  میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے اسی مصحف میں سے قرآنِ کریم کے متعددمصاحف نقل کروائے۔یہ وہ قراء صحابہ کرام تھے جنہوں نے ذات رسالت مآب ﷺ سے براہ راست قرآن کریم کو سنا اور پڑھا اور جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خصوصی مجلس ِ جمع قرآن میں شامل رہے تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے پوری امت کو انہی مصاحف پر جمع فرمایااور تمام شاذ اور غیر متواتر قراءات پر پابندی لگا دی ۔ بعض صحابہ کرام علیھم الرضوان ،جنہوں نے اپنے ذاتی مصاحف میں کچھ ایسی باتیں بھی تحریر کر رکھیں تھی جو رسول اللہ ﷺ نے بطور تفسیر بیان فرمائیں تھیں،آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان تمام پربھی پابندی عائد کردی تاکہ ناواقف ان تفسیری باتوں کو قرآن کا حصہ نہ سمجھ لیں ۔
چنانچہ قرآنِ کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حفظ و کتابت دونوں طرح بذریعہ تواتر ہم تک پہنچا ہے۔ پھر لاکھوں لوگوں نے  کسی ادنیٰٰ کمی و بیشی اور تغیُّر و تبدُّل کے بغیر اسے لاکھوں لوگوں کی طرف آگے نقل کیا اور یقیناً روزِ قیامت تک  یہ بذریعہ تواتر ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہے گا۔
اس وقت روئے زمین پروحی الہٰی میں سے  قرآنِ کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو اَب تک اُسی طرح محفوظ ہے، جس طرح اس کا نزول ہوا تھا، کیونکہ اسے قیامت تک  تمام انسانیت کے لئے ہدایت کا چراغ اور پوری نوعِ انسانی کے لئے حجت بننا تھا۔ چنانچہ حفاظت ِقرآن کے اس ربانی وعدہ نے پوری دنیا پر یہ مہر تصدیق ثبت کردی ہے:
" اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ "
ترجمہ:بیشک ہم ہی نے یہ قرآن نازل کیا اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں"۔[الحجر،آیت:۹]۔
 صحابہ کرام سے لیکر آج تک سوائے چند افراد کے پوری امت اس بات پر متفق ہے کہ قرآن پاک کی کتابت اسی طرز تحریر میں ہونا ضروری ہے، جس کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کی تائید اور اتفاق کے ساتھ اختیار فرمایا اور اسی طرز تحریر میں صحابہ کرام علیھم الرضوان نے رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کی روشنی میں آپ کی حیات طیبہ میں قرآن پاک کو تحریر کیا ۔اس طرز تحریر کو رسم عثمانی کہا جاتا ہے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے جو مصاحف تحریر کیے تھے ان کی تعداد اکثر علماء کے نزدیک  چھ بیان کی جاتی ہے ۔ان مصاحف میں الفاظ کے لکھنے میں بعض جگہ پر اختلاف بھی تھا مثلاً : یلتقیان الف کے ساتھ اور یلتقیٰن الف کے بغیر دونوں طرح لکھا جاسکتا ہے اگرچہ قراءت  اور معنی میں دونوں ایک ہی ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی فرق صرف رسم میں ہوگا۔اُن مصاحف میں دونوں طرز تحریر کو اختیار کیا گیا ہے تاکہ یہ دونوں طریقے محفوظ ہو جائیں۔ بعض مصاحف میں تثنیہ کے الفاظ الف کے ساتھ اور بعض میں بغیر الف کے تحریر کیے گئے اسی طرح  بعض دیگر الفاظ کے رسم اور طرز تحریرمیں فرق تھا۔
 ہر وہ مُصحف رسم عثمانی کے مطابق قرار پائے گا، جس کے الفاظ کی تحریر کا انداز اُن مصاحف میں سے کسی ایک کے مطابق ہو ۔اسی لئے ہر دور کے علماء کرام اپنی سہولت ،آسانی اور اس علاقے میں رائج مصحف عثمانی سے مطابقت رکھنے والے طرز تحریر میں قرآن پاک کی کتابت کرتے رہے اور کبھی کسی عالم نے رسم عثمانی سے مطابقت کرنے والے طرز تحریر کو غلط نہیں کہا ۔
قرآن مجید کی طرز تحریر کے بارے میں دو علماء کرام کی تحقیقات بہت مشہور ہیں۔ ان میں ایک امام ابو عمرو الدانی متوفّٰی۴۴۴ھ اور دوسرے اُن کے شاگرد ابو داؤد بن نجاح متوفّٰی ۴۹۶ھ ہیں ۔امام ابو عمر الدانی نے اپنی مشہور کتاب" المُقنِّع فی معرفۃِ مرسومِ مَصاحفِ اھلِ الاَمصار"میں رسم عثمانی کے مطابق قرآنی کلمات کے طرز تحریر کو ضبط کیا ہے اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے مَصاحِف میں کلمات کے طرز تحریر میں جوبعض جگہ پر اختلافات تھے ،ان کو بھی بیان کیا ہے اور ان اختلافی جگہوں میں ان کے نزدیک جو زیادہ پسندیدہ صورت تھی، اس کو بھی بیان کیا ہے۔ان کے شاگرد امام ابو داؤد بن نجاح نے اپنی کتاب "مُختَصرُ التَّبیِین لِھجاءِالتَّنزیل "میں بعض جگہوں پر اپنے استاد کے مختار قول سے اختلاف کیا ہے اور دوسرے قول کو اپنا پسندیدہ قرار دیا ،مثلاً :تثنیہ کے تمام کلمات ،چاہے وہ اَفعال میں سے ہوں یا اَسماء میں سے ،ان کو کلمے کے وسط میں واقع الف کے بغیر لکھتے ہیں الا یہ کہ وہ کلمے کے آخر میں واقع ہو۔جبکہ امام ابود اؤدبن نجاح تثنیہ کے تمام کلمات میں  الف کے اثبات کے  راوی اور قائل ہیں،اس کی مثال افعال میں"تکذبان"اور"تجریان"کا الف ہے ،اور اَسماء میں"طائفتان"اور "الجمعان"کا الف ہے۔تثنیہ کا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آرہا ہو،تو تحریر میں  اس  کے اثبات پر سب کا اتفاق ہے،جیسےلفظ"قالا"کا الف بالاتفاق ثابت ہے ،کیونکہ وہ کلمے کے آخر میں ہےوسط میں نہیں ہے ۔اسی طرح امام إبراهيم بن موسى بن محمد اللخمي الغرناطي الشهير بالشاطبي(المتوفّٰى: ۷۹۰)نے امام دانی کی کتاب "المقنع "کو اپنی نظم "عقیلۃُ اَتراب القصائد "میں بطور اشعار تحریر کیا ہے اوربعض الفاظ میں انہوں نےبھی امام دانی کے برخلاف دوسرے طرز تحریر کو اپنا پسندیدہ قرار دیا ہے ۔
 اختلافی کلمات جن کا طرز تحریر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے مصاحف میں مختلف فیہ صرف چند سو ہیں ۔عالم اسلام میں ان کلمات کو تحریر کرنے کے طرز میں تین طرح کے مصحف عام طورپر پائے جاتے ہیں۔
(۱)مصر،سعودی عرب ،شام ،عراق اور دیگر عربی ممالک میں اِن اختلافی کلمات کے تحریر کرنے میں اکثر طور پر امام ابوداؤد بن نجاح کی ترجیحات پر عمل کیا جاتاہے ۔
(۲) مغربی ممالک مراکش ،الجزائر ،تیونس وغیرہ میں روایت قالون اور روایت وَرش میں قرآن پاک تحریر کیے جاتے ہیں اور اختلافی کلمات میں عرب
ممالک کی طرح اکثر وبیشتر امام ابوداؤد بن نجاح کی ترجیحات ہی پر عمل کیاجاتا ہے، سوائے چند کلمات کے جہاں امام ابوداؤد نے اپنی کتاب میں سکوت اختیار کیا
ہے یہ ممالک امام ابوالحسن البلنسی متوفّٰی۵۶۷ھ کی ترجیحات کو اختیار کرتے ہیں۔
(۳)برصغیر پاک وہند میں مروَّجہ مَصاحف بالکل درست اور رسم  عثمانی کے مطابق ہیں، کیونکہ ان کا رسم الخط امام ابو عمرو دانی کی تحقیق اور مختار قول کے مطابق ہے اور بعض الفاظ میں امام شاطبى کے مختار قول کو بھی اختیار کیا گیا ہے۔مثلاً:سورہ شوری ٰ 220میں "روضات الجنات"کے دونوں لفظ  جمع مؤنَث سالم کے صیغے ہیں ،اورجمع مؤنث سالم کے قاعدے کی رو سے ان دونوں میں الف محذوف ہونا چاہیے، مگر چونکہ امام ابو عمرو دانی اور امام ابوداؤدبن نجاح نے ان دونوں الفاظ کو عام قاعدے سے مستثنیٰ کرتے ہوئے ان میں اثبات ِالف نقل کیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ عرب ممالک میں چھپنے والے تمام مصاحف میں مذکورہ دونوں الفاظ میں اثبات ِ الف ہی کو اختیار کیا گیا ہے ،لیکن  امامشاطبى نے اپنی کتاب "العقیلۃ "میں ان دونوں الفاظ کو عام قاعدے سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ان کے نزدیک ان دونوں الفاظ کا الف بھی دیگر جمع مونث سالم کےالفاظ کی مانند محذوف ہی رہے گا ۔ برصغیر کے تمام مصاحف میں ان دونوں الفاظ میں امام شاطبى کے قول  کو اختیار کرتے ہوئےالف کومحذوف کرکے دونوں پر کھڑی زبر ڈالی گئی  ہے۔
اسلامی ممالک میں چھپنے والے تمام مصاحف صحیح اور درست ہیں کیونکہ ان میں سےہر ایک مصحف کا رسم اور طرز تحریر مَصاحف عثمانی میں موجود رسم سے مطابقت رکھتا ہے،ان میں سےکسی بھی مصحف کے انداز تحریریا رسم کو غلط کہنا پرلے درجے کی جہالت اور مسلمانو ں کو فتنے میں ڈالنا ہے۔ہر خطے کے لو گ اپنے یہاں مروج مصاحف کے طرز تحریر ہی  سےمانوس ہوتے ہیں اور ان کے لئے ان مصاحف  ہی سے قرا ءت کرنا آسان ہوتا ہے،اس لئے ہر خطے کے ارباب اقتدار پر لازم ہے کہ ان کے یہاں جو مصاحف کا طرز تحریر رائج ہے، اسی کےمطابق قرآن پاک کی اشاعت  کا اہتمام کریں، ورنہ  بے علم لوگ  اس طرح کےاختلافات کے سامنے آنے سے پریشان ہو کر کسی شیطانی وسوسے کا شکار ہو سکتے ہیں ان کی رعایت کرنا اور لوگوں کو فتنے سے بچانا لازم ہے۔
اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشادفرماتا ہے: "وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ"
ترجمہ:"فتنہ (اپنے مابعد نتائج کے اعتبار سے)قتل  سے بھی سخت ہے "[البقرۃ ،آیت:۱۹۱]۔
علامہ جلال الدین السیوطی رحمۃ اللہ علیہ" الجامع الصغیر "میں حدیث پاک لکھتے ہیں:
"الفِتۡنَۃُ نائِمۃٌ لعنَ اللہُ مَن اَیقَظَھا۔" (الرافعی عن انس (ض)۔
ترجمہ:فتنہ سو رہا ہے، جو اس کو جگائے  اس پراللہ کی لعنت ہو"۔[الجامع الصغیر،رقم الحدیث:5979]۔
یہ حدیث اگرچہ سنداً ضعیف ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے صحیح ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: «يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا»
ترجمہ : (دین میں)آسانی پیدا کرو اور دشواری پیدا نہ کرو اور(دین کے بارے میں) خوش خبری سناؤ اور(لوگوں کو دین سے)متنفر نہ کرو"
[ صحيح البخاري :رقم الحدیث:69
مقاصد شریعت میں سد ذرائع بھی ہے، یعنی امکانی طور پردر آنے والی خرابیوں کا راستہ روکنا ۔رسول پاک ﷺ نے بھی اسی دینی حکمت کے تحت اپنے بعض پسندیدہ امور کو ترک فرمایا ہے۔مثال کے طور پر آپ ﷺ کی خواہش تھی کہ بنائے قریش پر بنی ہوئی کعبۃ اللہ کی عمارت کو شہید کر دیں اور پھر اس میں حطیم کو شامل کر کے بنائے ابراہیم پر تعمیر کریں ،اسلام کو حجاز میں غلبہ حاصل ہو چکا تھا اور آپ کے پاس مالی وسائل بھی تھے ،لیکن آپ ﷺ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے فرمایا:
«لَوْلَا حَدَاثَةُ عَهْدِ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، وَلَجَعَلْتُهَا عَلَى أَسَاسِ إِبْرَاهِيمَ، فَإِنَّ قُرَيْشًا حِينَ بَنَتِ الْبَيْتَ
اسْتَقْصَرَتْ، وَلَجَعَلْتُ لَهَا خَلْفًا»
ترجمہ:اگر تمہاری قوم نے نیا نیا کفر نہ چھوڑاہوتا تو میں بیت اللہ کی عمارت کو منہدم کر دیتا اور اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قائم کی ہوئی بنیادوں پر قائم کرتا ،کیونکہ جب قریش نے اس کو بنایا تھا تو (وسائل کی کمی کے سبب ایک جانب سے)اُس کو چھوٹا کر دیا تھا اور میں اس کی پچھلی جانب بھی ایک دروازہ
بناتا۔[صحیح مسلم ، رقم الحدیث:1333]۔
برصغیر پاک وہند کے عظیم فقیہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:" پس ان امور میں ضابطہء کلیّہ واجبۃ ُالحفظ (یعنی ایسا ضابطہ وقانون ِ شرعی جسے لازماً یاد رکھنا چاہے) کہ فعلِ فرائض وترک ِمحُرَّمات (یعنی فرائض کو ادا کرنےاور حرام کا موں کے چھوڑنے)کو ارضائے خلق (لوگوں کی خوشنودی)پر مقدَّم رکھے اور ان اُمور میں کسی کی مُطلقاً پروانہ کرے اور اِتیانِ مستحب(مستحب کو ادا کرنے) وترک ِغیر اَولٰی(غیر افضل کاموں کو چھوڑنے) پر مُداراتِ خَلق ومُراعات ِقلوب (مخلوق کی دلداری)کو اہم جانے اور فتنہ ونفرت وایذا ووحشت کا باعث ہونے سے بہت بچے۔ اسی طرح جو عادات ورسوم خَلق میں جاری ہوں اور شرع ِمُطہَّر سے اُن کی حُرمت وشَناعت  ثابت نہ ہو، اُن میں اپنے تَرفُّع(بڑائی) وتنُّزہ(دعوائے پارسائی) کے لئے خلاف وجُدائی نہ کرے کہ یہ سب امور ایِتلاف وموانَست (لوگوں کے دلوں کو جوڑنے اور دین کی طرف مائل کرنے)کے مُعارِض (خلاف)اور مُراد ومحبوب شارع کے منُاقِض (خلاف)ہیں، ہاں ہاں! ہوشیار وگوش دار (کان لگا کرسن)کہ یہ وہ نکتہ جمیلہ وحکمتِ جلیلہ (عظیم حکمت)وکُوچہ سلامت وجادَہ کرامت ہے، جس سے بہت زاہدانِ خشک واہلِ تکشُّف غافل وجاہل ہوتے ہیں وہ اپنے زَعم میں ُمحتاط ودین پرور بنتے ہیں اور فی الواقع مغزِحکمت ومقصودِ شریعت سے دور پڑتے ہیں خبردار ومحکم گیر(یعنی اس مشورے کو مضبوطی سے تھام لے) یہ چند سطروں میں علمِ غزیر(وافر علم) وباللّٰہِ التوفیق والیہِ المصیر (یہ سب اللہ تعالٰی کی توفیق سے ہے ،اور اسی کی طرف رجوع کرنا ہے
[فتاوی رضویہ ،ج:۴،ص: ۵۲۸،رضافاؤنڈیشن لاہور
جہاں تک قرآن پاک کے الفاظ پر اِعراب کی بات ہے ،تو مصحف عثمانی میں الفاظ پر اعراب نہیں لگائے گئے تھے ۔بعد میں جب اسلام غیر عربی اقوام تک پہنچا اور ان کو قرآن پاک کی صحیح قراء ت میں دشواری پیش آنے لگی تو حجاج بن یوسف کے حکم پر قرآن پاک کے الفاظ پر اعراب لگائے گئے ۔ابتداء میں اس کے لئے نقطوں کا سہارا لیا گیا لیکن بعد میں آج کل مروَّجہ اعراب یعنی زبر کے لئے لفظ کے اوپر اور زیر کے لئے لفظ کے نیچے ایک ترچھی لکیر لگائی گئی علٰی ھٰذا القیاس ۔الفاظ پر اعراب لگانے کو ضبط وشکل  کہتے ہیں،آج کل  اعراب کو تحریر کرنے کا اندازعرب ممالک میں برصغیر پاک وہند میں مروَّج مصاحف سے کچھ مختلف ہے،مثلاً :ہمارے یہاں  رائج مصاحف میں جس حرف پر کھڑی زبر ہو، اس کے ساتھ کوئی اور حرکت نہیں لگائی جاتی ،جیسے لفظ: مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِ۔جبکہ عرب ممالک میں کھڑی زبر کے ساتھ فتح کی حرکت بھی لگائی جاتی ہے، یعنی یوں لکھا جاتا ہے:مَٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِ۔اعراب کا مقصد قرآن پاک کو صحیح اور درست پڑھنا ہے اس لئے ہر خطے میں رائج ضبط وشکل کے انداز سے اس خطے کے مسلمانوں کے لئے قرآن پاک کو درست پڑھنا نسبتاً     آسان ہوتا ہے، اس لئے عوام میں رائج انداز پرہی  قرآن پاک پر اعراب لگانے چاہیں کیونکہ غیر مانوس اور اجنبی انداز سے لوگ درست قرآن پڑھنے سے محروم ہو جائیں گے ۔جو لوگ حرمین طیبین گئے ہیں، انہوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ برصغیر پاک وہند کے لوگ مسجد حرام اور مسجد نبوی شریف میں نیلی جلد والے قرآن پاک کی تلاش میں رہتے ہیں، کیونکہ سبز جلد والے قرآن پاک  میں عربی انداز میں اعراب لگے ہوتے ہیں اور ان کو اس قرآن پاک سے تلاوت کرنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے، جبکہ نیلی جلد والے قرآن پاک سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے پاک وہندکے حاجیوں کی آسانی کے لئے انہی کے انداز پر چھپوائے جاتے ہیں ،اس لئے اس خطے کے لوگ اُن سے بآسانی تلاوت کر لیتے ہیں ۔جب سعودی عرب نے بھی پاک  وہند کے لوگوں کی رعایت کی ہے، تو ہمارے یہاں کے ارباب اقتدار کو اپنی رعایا کی سہولت کا ان سے بھی بڑھ کراحساس ہونا چاہیے اور لوگوں کی آسانی کے لئے مروجہ انداز میں ضبط وشکل والے مصاحف کی نشرواشاعت کی اجازت دینی چاہیے اور اس کے علاوہ مصاحف کی نشرواشاعت پر پابندی عائد کر دینی چاہیے ۔
قرآن پاک میں آیات کے درمیان وقف اور وصل کی علامات بھی لگائی جاتی ہیں، مصحف عثمانی اس سے بھی خالی تھا۔ کیونکہ عربی زبان سے واقف شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ کلام کی انتہاکہاں ہو رہی ہے کہ وہاں رک جائیں اور کس مقام پرکلام ابھی جاری ہے  تاکہ وہاں نہ رکیں۔غیر عربی اقوام کی آسانی کے لئے قرآن پاک کی آیات کے درمیان وقف ووصل کی علامات علماء کے اتفاق اور اجتہاد سے لگائی گئی ہیں ۔بعض جگہ پر وقف اور وصل کے اعتبار سے علماء میں اختلاف بھی ہو جاتا ہے،چنانچہ  برصغیر پاک وہند اور عالم عرب میں رائج مصاحف کے مابین ان علامتوں میں اختلاف  کایہی سبب  ہے ۔اس بارے میں علمِ قراء  ت کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ،جو پاک وہند میں چھپنے والے قرآن پاک میں تحریر کردہ وصل اور وقف کی علامات پر نظر ثانی کریں اور تمام مصاحف میں ایک ہی طرح کی علامات تحریر کی جائیں تاکہ عوام صحیح طورپر قرآن پاک پڑھ سکیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ برصغیر پاک وہند میں مروج رسم اور ضبط والے قرآن پاک بالکل درست ہیں اور حکومت پر لازم ہے کہ قرآن کی خدمت کے نام پر کوئی نیا فتنہ کھڑا کرنے کی بجائےقرآن کےرسم الخط اور طباعت کے حوالے سےصدیوں سے رائج ،نافذ العمل اور قبول عام شِعار کواختیار کرے ۔سعودی عرب نے" مجمع الفہد لطباعۃ المصحف الشریف "کے لئے اپنے ثقہ علماء اور مستند قراء کرام کا باقاعدہ ایک بورڈ قائم کیا اور ان کی نگرانی میں برصغیر پاک وہند ،بنگلہ دیش ،ملحق ممالک اور اکثر غیر عربی ممالک کے لئے ان خطوں میں جاری شِعارکے مطابق قرآن کریم طبع کیے ،حجاج ،مُعتَمرین میں تقسیم کیے اور آج بھی حرمین طیبین میں ان کی تلاوت کے لئے دستیاب ہیں،لہذا اسی انداز میں قرآن پاک کی نشرواشاعت  کومملکت پاکستان قانونی قرار دے اور اس کے علاوہ دیگر رسم وضبط والے قرآن پاک کی اشاعت کو ممنوع قرار دے ۔واللہ تعالی اعلم
  الجواب صحيح                                  کتبــــه

 مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن                                      ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اختر المدنی

11اپریل،2015،۲۱جمادی الاخری۱۴۳۶ھ                            11اپریل،2015،۲۱جمادی الاخری۱۴۳۶ھ 

Monday, 4 May 2015

مسٹر غامدی اورداڑھی کا وجوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخری قسط

مسٹر غامدی اورداڑھی کا وجوب
مسٹرغامدی کے دین ’’غامدیت‘‘کی رو سے داڑھی ضروری نہیں ہے ۔
مسٹر غامدی سے ایک سوال پوچھا گیا کہ ’’ میں نے کچھ عرصہ پہلے داڑھی رکھی مگر میری امی اور سب گھر والوں کو پسند نہ آئی کیونکہ بال 
ٹھیک طرح سے نہ آئے تھے ۔اب امی بار بار مجھے داڑھی کٹوانے کا کہتی ہیں ،کیا میں اسے کٹوا سکتا ہوں؟‘‘
مسٹر غامدی کی ویب سائٹ پر جواب دیا گیا ’’ عام طور پر اہل علم داڑھی رکھنا دینی لحاظ سے ضروری قراردیتے ہیں ،تاہم ہمارے نزدیک داڑھی رکھنے کا حکم دین میں کہیں بیان نہیں ہوا ،لہذا دین کی رو سے داڑھی رکھنا ضروری نہیں ہے‘‘۔
[www.urdu.understanding,islam.org]۔
مسٹر غامدی نے پہلے تو سنت کی من مانی تعریف کی اورسنت کو دین ابراہیمی کی روایات قرار دیا اور پھر سنت میں وہ چیزیں گنوائیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے فطرت میں سے قرار دیاتھا ۔لیکن کیونکہ مسٹر غامدی کے دین کا منبع اور ماوی مغرب ہے اور اہل مغرب آج کل داڑھی مونچھ دونوں سے صاف ہیں 
اس لئے مسٹر غامدی مغرب کی مخالفت کس طرح کر سکتے تھے لہذا انہوں نے فطرت کی وہ چیزیں تو لے لیں جن پر اہل مغرب کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا تھا جیسے مونچھیں تراشنا بدن کے فاضل بال دور کرنا ،ناخن کاٹنا وغیرہ لیکن حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک ہر نبی نے جس چیز (داڑھی)کو اختیار اور پسندکیااس کو مسٹر غامدی شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کر گئے ۔اور ان کی شیطانی طبیعت جوش پر آئی تو داڑھی کا دین سے ہونے کا ہی انکار کر دیا اور بیسیوں احادیث جن میں داڑھی رکھنے کا حکم دیا اور داڑھی نہ رکھنے والوں پر شدید تھدید فرمائی ان سب کو دین سے ہی خارج قرار دے دیا ۔
کثیر صحیح احادیث میں حضور نبی کریم ﷺ کا داڑھی رکھنے کا واضح فرمان موجود ہے اسی وجہ سے علماء اسلام نے داڑھی کو واجب قرار دیا ہے ۔
صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں’’عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ ،الحدیث‘‘
ترجمہ:’’دس چیزیں فطرت میں سے ہیں ۔ مونچھیں کم کرانااورداڑھی( حدشرع تک) چھوڑدینا‘‘الحدیث۔[صحیح مسلم،حدیث :۵۶،سنن ابو داؤد،حدیث: ۵۳،سنن ترمذی ،حدیث:۲۷۵۷]۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’معناہ انہا من سنن الانبیاء‘‘
ترجمہ: اس کامعنی یہ ہے کہ دس چیزیں انبیاء کی سنتوں میں سے ہیں۔[شرح صحیح مسلم، ج: ۱، ص:۱۲۹،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔
صحیح بخاری میں ہے :حضور ﷺارشادفرماتے ہیں’’خالفواالمشرکین واوفوااللحیٰ واعفوا الشوارب‘‘
ترجمہ: مشرکین کی مخالفت کرو اورداڑھیاں پوری رکھو اورمونچھیں کم کردو‘‘۔[ صحیح بخاری ،حدیث: ۵۸۹۲،صحیح مسلم،حدیث:۵۳]۔
صحیح مسلم میں ہے’’عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جزوا الشوارب وارخوا اللحیٰ خالفوا المجوس۔
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مونچھیں کٹواؤ، داڑھیاں بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔[صحیح مسلم ،ج: ۱، ص: ۲۲۲،مطبوعہ دارالحیاء بیروت]۔
امام ابن حجر عسقلانی اس کی شرح میں فرماتے ہیں :’’فی حدیث ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ عند مسلم خالفوالمجوس وھوالمراد فی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما فانہم کانوا یقصون لحاہم ومنہم من کان یحلقہا‘‘۔
ترجمہ : امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے جو روایت نقل فرمائی ہے اس میں خالفوالمشرکین کی بجائے خالفوالمجوس کے الفاظ ہیں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں بھی یہی مراد ہے کیونکہ مجوسیوں کی عادت تھی کہ وہ اپنی داڑھیاں کاٹتے تھے اور ان میں سے بعض لوگ اپنی داڑھیوں کو مونڈتے تھے ‘‘۔[فتح الباری ج۱۰، ص۳۴۹،مطبوعہ دارالمعرفۃ،بیروت]۔
نیز امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فحصل خمس روایات، اعفوا، واوفوا، وارخوا، وارجو، ووفروا ومعناہا کلہا ترکہا علی حالھا ہذا ھوالظاہرمن الحدیث الذی یقتضیہ الفاظہ و ھوالذی قالہ جماعۃ من اصحابنا وغیرہم من العلماء ۔
ترجمہ:احادیث میں داڑھی بڑھانے کے متعلق پانچ قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں ۔
(۱) اعفوا۔ داڑھیاں چھوڑ و
(۲) واوفوا۔ داڑھیوں پوری رکھو
(۳) وارخوا۔ ڈاڑھیاں بڑھاؤ
(۴) وارجو ۔ داڑھیاں چھوڑ ے رکھو
(۵) وفروا۔ داڑھیاں بڑھاؤ
ان تمام الفاظ کے معنی داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑ دیناہے اوریہی ان احادیث کے الفاظ کا ظاہر ہے اور یہی وہ معنی ہیں جن کو ہمارے اصحاب اوردیگر علماء نے بیان کیا ہے‘‘۔[شرح صحیح مسلم، ج: ۱، ص:۱۲۹،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔
البدایۃ والنھایۃ میں ہے’’عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعث بکتابہ مع رجل الیٰ کسریٰ 133133ودخلا علیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد حلقا لحاھما و اعفیا شواربھما فکرہ النظر الیہما وقال ویلکما من امرکما بہذا؟ قالا امرنا ربنا یعنیان کسریٰ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولکن ربی امرنی باعفاء لحیتی وقص شاربی‘‘۔
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک قاصد کو شاہ ایران کی طرف اسلام کا پیغام دے کر بھیجا133133133133133 شاہ ایران کے دو قاصدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی داڑھیاں منڈی ہوئی اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف نظر کرنا بھی پسند نہ کیا اور فرمایا تمہاری ہلاکت ہو تمہیں ایسی شکل بنانے کا حکم کس نے دیاہے ؟ وہ بولے یہ ہمارے رب یعنی شاہ ایران کا حکم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میرے رب نے تو مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم فرمایاہے‘‘ ۔[البدایۃ والنہایۃ: ج۴ ص۳۰۷،مطبوعہ دارالحیاء بیروت]۔
رسول اللہ ﷺ تو داڑھی رکھنے کا حکم رب تعالی کی طرف منسوب فرمائیں لیکن مسٹر غامدی کا دین تو مغرب سے درآمدشدہ ہے اس لئے ان کے نزدیک داڑھی کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
داڑھی کے بارے میں احادیث پاک میں وارد ہونے الفاظ امر کے صیغے ہیں اگرداڑھی رکھنا محض عادتاً تھا اور دین کا حکم نہیں تھا تو امت کورسول اللہ ﷺ نے اتنی تاکید کے ساتھ یہ حکم کیوں ارشاد فرمایا؟۔اور وہ افراد جوابھی مسلمان بھی نہیں ہوئے اور غیر مسلم بادشاہ کی طرف سے سفیر بن کر آئے تھے ان پر رسول اللہ ﷺشدید اظہار کراہیت فرمایا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسٹرغامدی کے نظریات اور اس کے دین(غامدیت) کا اسلامی شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔وہ اپنے ذاتی نظریات کو اورمغربی سامراجی ایجنڈے کو اسلام کے نام پر پیش کر کے مسلمانوں کو دھوکہ دے رہا ہے ۔ ایسے نظریات کا حامل شخص بدترین مخلوق معتزلہ ،خوارج ،منکر حدیث ،قرآن میں معنوی تحریف کرنے والا،قرآن کی تفسیر بالرائے کرنا والا،خواہش پرست ،گمراہ بددین ،مسلمانوں کے لئے آستین کا سانپ ہے مسلمانوں پر لازم ہے کہ مسٹر غامدی اور اس کے نظریات کو ماننے والے لوگوں کا سماجی بائیکاٹ کریں اور اس کے نظریات پر مبنی کتابوں اور لٹریچر سے کوسوں دور رہیں اور اس کے کسی بھی قسم کے پروگرام کو ہرگزنہ سنیں۔اور ٹی وی مالکان اور ان کی انتظامیہ پر لازم ہے کہ ایسے گمراہ نظریات رکھنے والے شخص کو اپنے ٹی وی چینل پر ہرگز موقعہ نہ دیں اور مغربی سامراج کے ایجنڈے کا ساتھی بننے کے بجائے اسلام اور پاکستان کا ساتھ دیں ۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے :
’’وَإِمَّا یُنسِیَنَّکَ الشَّیْْطَانُ فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرَی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ‘‘
ترجمہ کنز الایمان :’’ جو کہیں تجھے شیطان بھلادے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ ‘‘۔[الانعام،آیت ۶۸]۔
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے :
’’ وَلاَ تَرْکَنُواْ إِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ‘‘
ترجمہ کنز الایمان :’’ ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آگ چھوئے گی ‘‘۔[ھود ،آیت :۱۱۳]۔
سنن ابن ماجہ میں ہے: ’’ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا ’’ان مرضوا فلا تعود و ھم وان ماتو ا فلا تشھد وھم وان لقیتموھم فلا تسلموا علیھم‘‘۔
ترجمہ:’’بد مذہب اگر بیمار پڑجائیں تو پوچھنے مت جاؤ اور اگر وہ مرجائیں توان کے جنازے میں حاضر نہ ہو اور جب ان سے ملو تو سلام نہ کرو‘‘ ۔[سنن ابن ماجہ،ج:۱،ص:۶۹،مطبوعہ دار احیاء الکتب العربیہ ،بیروت]۔
صحیح مسلم کی حد یث پاک میں ہے ’’ایاکم وایاھم لا یضلونکم ولایفتنو نکم ‘‘ یعنی ،’’گمراہوں سے دور بھا گو انھیں اپنے سے دور کرو کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں کہیں وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں ‘‘۔[صحیح مسلم،ج:۱،ص:۱۲،داراحیاء بیروت] ۔
سنن دارمی میں ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ لاتجلسوا اھل الاھواء ولا تجادلوا ھم فانی لا اٰمن ان یغمسوا فی ضلالتھم او یلبسوا علیکم ماکنتم تعرفون ‘‘
ترجمہ:’’ خواہش نفس کے پیچھے چلنے والوں کے پاس نہ بیٹھو نہ ان سے بحث کرو کیونکہ مجھے یہ خد شہ ہے کہ وہ اپنی گمراہی میں تم کو مبتلاء کردیں گے یا تمہارے عقائد کو تم پر مشتبہ کر دیں گے ‘‘۔[سنن دارمی،ج:۱،ص:۳۸۷،دارالمغنی ،مطبوعہ مکۃ المکرمہ]۔
مسلمانوں پر لازم ہے ایسے گمراہ ،مغرب زدہ اور خواہش نفس پر چلنے والے شخص کے نظریات پر توجہ نہ دیں۔ بلکہ صحابہ کرام وتابعین عظام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین اورمجتہدینِ اسلام و فقہاءِ کرام اور علماء وبزرگان دین کی تعلیمات اور نظریات پر یقین رکھیں اوراسی کو اپنے لئے راہ نجات سمجھیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:’’وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّی یَأْتِیَکَ الْیَقِیْنُ‘‘ترجمہ کنزالایمان:مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں رہو‘‘۔[الحجر،۹۹]۔واللہ تعالی اعلم


مسٹر غامدی کے نظریات کا رد غلام مرتضیٰ مظہر ی نے ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اختر المدنی کی رہنمائی میں لکھا ۔