دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Sunday 10 May 2015

ہندو پاک میں رائج ومتعارف قرآن کریم کا رسم وضبط اور رسم عثمانی

دارالافتاء فیضان شریعت
جامع مسجد فیضان شریعت اقبال کالونی مارٹن روڈ تین ہٹی کراچی
E-mail:faizaneshariat@gmail.comفون نمبر:0300-2415263
تاریخ:2015-04-11                                                                       حوالہ:7879
محترم مفتی صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
دینی لحاظ سے ایک نہایت حساس اور اہم مسئلے کے بارے میں آپ کی رہنمائی مطلوب ہے ۔آپ اپنے متعلقہ شعبہ سے مشاورت کے بعد اپنے موقر ادارے کے باضابطہ موقف سے آگاہ فرمائیں۔
موضو ع : ہندو پاک میں رائج ومتعارف قرآن کریم کا رسم وضبط
واضح رہے کہ ہندو پاک میں قرآن کریم کا جورسم بطور عثمانی متعارف ہے، اس کا مرکزومحور  اِس فن کے امام ابو عمر والدانی (متوفی۴۴۴ھ)کی نصوص وترجیحات ہیں ،جبکہ عرب دنیا میں متعارف رسم ان کے شاگرد امام ابوداود بن نجاح رحمۃ اللہ علیہ کی ترجیحات کے مطابق ہے۔جبکہ نُقَط ،وقف اوراعراب(     َ   ِ  ُ    ٗ    ً      ّ     ۡ    ٓ  ) کے لیے وضع کردہ علامات اجتہادی ہیں، جن میں عرب وعجم کے علماء نے اپنی علاقائی ضروریات کو پیش نطر رکھا اور تاحال اسی پر عمل ہورہا ہے ۔اب ایک مخصوص طبعے نے آواز اٹھائی ہےکہ اس کو بدل کر عربوں میں رائج رسم وضبط کو ہندوپاک میں بھی رائج کرنا چاہیے ۔اس تناظر میں ہم آپ سے علمی رہنمائی چاہتے ہیں کہ :
۱۔ عام طور پر تاج کمپنی والا رسم وضبط جو ہندو پاک میں رائج ومتعارف ہے، وہ صحیح ہے یا غلط ؟۔
۲۔کیاہندو پاک میں عرب ممالک کے (علامات واعراب)کو رائج کرنا ضروری ہے ؟۔
۳۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسی تبدیلی امت میں ایک نئے اختلاف کو جنم دے گی؟۔
المستفتی :محمد حفیظ البرکات شاہ،ضیاء القرآن پبلی کیشنز ،لاہور
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
رسول اللہ ﷺ پر اللہ تبارک وتعالی نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کو تئیس سال کے عرصے میں تھوڑ اتھوڑا کر کے نازل فرمایا ۔رسول اللہ ﷺ
پرجوبھی وحی نازل ہوتی، آپ ﷺ صحابہ کرام علیھم الرضوان  کو اس کی تعلیم فرمایا کرتے اورجو صحابہ کرام لکھنا جانتے تھے،   ان کے ذریعے اس وحی ِالہی کو
تحریر  ی صورت میں بھی محفوظ کر لیا جاتا تھا،اور یہ سب کام حکم خداوندی کے مطابق انجام پاتاتھا۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:" لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ اِنَّ عَلَیۡنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰنَہٗ  فَاِذَا قَرَاۡنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ ۔ ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا بَیَانَہٗ ۔"
ترجمہ :"(قرآن کو یاد کرنے کے لئے )اپنی زبان کو جلدی حرکت نہ دیا کیجیئے،بے شک اس کا (آپ کے ذہن میں )محفوظ کرنا اور آپ کو اس کا پڑھانا ہماری ذمہ داری ہے۔جب ہم(یعنی جبرائیل امین) پڑھ چکیں تو آپ اُس پڑھے ہوئے کی اتباع کریں ،پھر اس(کے معانی)کا بیان (بھی)ہمارے ذمے ہے" ۔[القییٰمۃ،آیت: ۱۶ تا ۱۹]۔
صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین نے حفظ اور تحریر دونوں ذرائع سے قرآنِ کریم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا۔
رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعدجب ایک معرکہ میں کئی حفاظ صحابہ کرام شہید ہو گئے تو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورے پر خلیفہ اول حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ نےجمع قرآن  کے لئے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی سربراہی میں اکابر اور جلیل القدر صحابہ کرام کی ایک مجلس بنائی ،جس نے کڑی شرائط کے تحت جمع قرآن کا فريضہ انجام دیا ،اس مرتّب ومدوّن  مصحف مقدس کو "مصحف ِ صدیقی"  کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کی اساس اس عہد کے قراء قرآن کی یاد داشت اور صحابہ کرام کے پا س متفرق طورپر مکتوب آیا ت وسُوَر ِ قرآنی تھیں۔ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کے جمع کردہ قرآنِ کریم کی صحت پر تمام صحابہ کرام  وامت مسلمہ کا اجماع واتفاق ہے ۔
          پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نےاپنے دور خلافت میں شاذ اور غیر متواتر قراء ات کے فتنے سے امت کو بچانے کے لئے   مہاجرین و انصار میں سے اکابر قراء صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کی سرپرستی  میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے اسی مصحف میں سے قرآنِ کریم کے متعددمصاحف نقل کروائے۔یہ وہ قراء صحابہ کرام تھے جنہوں نے ذات رسالت مآب ﷺ سے براہ راست قرآن کریم کو سنا اور پڑھا اور جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خصوصی مجلس ِ جمع قرآن میں شامل رہے تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے پوری امت کو انہی مصاحف پر جمع فرمایااور تمام شاذ اور غیر متواتر قراءات پر پابندی لگا دی ۔ بعض صحابہ کرام علیھم الرضوان ،جنہوں نے اپنے ذاتی مصاحف میں کچھ ایسی باتیں بھی تحریر کر رکھیں تھی جو رسول اللہ ﷺ نے بطور تفسیر بیان فرمائیں تھیں،آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان تمام پربھی پابندی عائد کردی تاکہ ناواقف ان تفسیری باتوں کو قرآن کا حصہ نہ سمجھ لیں ۔
چنانچہ قرآنِ کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حفظ و کتابت دونوں طرح بذریعہ تواتر ہم تک پہنچا ہے۔ پھر لاکھوں لوگوں نے  کسی ادنیٰٰ کمی و بیشی اور تغیُّر و تبدُّل کے بغیر اسے لاکھوں لوگوں کی طرف آگے نقل کیا اور یقیناً روزِ قیامت تک  یہ بذریعہ تواتر ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہے گا۔
اس وقت روئے زمین پروحی الہٰی میں سے  قرآنِ کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو اَب تک اُسی طرح محفوظ ہے، جس طرح اس کا نزول ہوا تھا، کیونکہ اسے قیامت تک  تمام انسانیت کے لئے ہدایت کا چراغ اور پوری نوعِ انسانی کے لئے حجت بننا تھا۔ چنانچہ حفاظت ِقرآن کے اس ربانی وعدہ نے پوری دنیا پر یہ مہر تصدیق ثبت کردی ہے:
" اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ "
ترجمہ:بیشک ہم ہی نے یہ قرآن نازل کیا اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں"۔[الحجر،آیت:۹]۔
 صحابہ کرام سے لیکر آج تک سوائے چند افراد کے پوری امت اس بات پر متفق ہے کہ قرآن پاک کی کتابت اسی طرز تحریر میں ہونا ضروری ہے، جس کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کی تائید اور اتفاق کے ساتھ اختیار فرمایا اور اسی طرز تحریر میں صحابہ کرام علیھم الرضوان نے رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کی روشنی میں آپ کی حیات طیبہ میں قرآن پاک کو تحریر کیا ۔اس طرز تحریر کو رسم عثمانی کہا جاتا ہے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے جو مصاحف تحریر کیے تھے ان کی تعداد اکثر علماء کے نزدیک  چھ بیان کی جاتی ہے ۔ان مصاحف میں الفاظ کے لکھنے میں بعض جگہ پر اختلاف بھی تھا مثلاً : یلتقیان الف کے ساتھ اور یلتقیٰن الف کے بغیر دونوں طرح لکھا جاسکتا ہے اگرچہ قراءت  اور معنی میں دونوں ایک ہی ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی فرق صرف رسم میں ہوگا۔اُن مصاحف میں دونوں طرز تحریر کو اختیار کیا گیا ہے تاکہ یہ دونوں طریقے محفوظ ہو جائیں۔ بعض مصاحف میں تثنیہ کے الفاظ الف کے ساتھ اور بعض میں بغیر الف کے تحریر کیے گئے اسی طرح  بعض دیگر الفاظ کے رسم اور طرز تحریرمیں فرق تھا۔
 ہر وہ مُصحف رسم عثمانی کے مطابق قرار پائے گا، جس کے الفاظ کی تحریر کا انداز اُن مصاحف میں سے کسی ایک کے مطابق ہو ۔اسی لئے ہر دور کے علماء کرام اپنی سہولت ،آسانی اور اس علاقے میں رائج مصحف عثمانی سے مطابقت رکھنے والے طرز تحریر میں قرآن پاک کی کتابت کرتے رہے اور کبھی کسی عالم نے رسم عثمانی سے مطابقت کرنے والے طرز تحریر کو غلط نہیں کہا ۔
قرآن مجید کی طرز تحریر کے بارے میں دو علماء کرام کی تحقیقات بہت مشہور ہیں۔ ان میں ایک امام ابو عمرو الدانی متوفّٰی۴۴۴ھ اور دوسرے اُن کے شاگرد ابو داؤد بن نجاح متوفّٰی ۴۹۶ھ ہیں ۔امام ابو عمر الدانی نے اپنی مشہور کتاب" المُقنِّع فی معرفۃِ مرسومِ مَصاحفِ اھلِ الاَمصار"میں رسم عثمانی کے مطابق قرآنی کلمات کے طرز تحریر کو ضبط کیا ہے اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے مَصاحِف میں کلمات کے طرز تحریر میں جوبعض جگہ پر اختلافات تھے ،ان کو بھی بیان کیا ہے اور ان اختلافی جگہوں میں ان کے نزدیک جو زیادہ پسندیدہ صورت تھی، اس کو بھی بیان کیا ہے۔ان کے شاگرد امام ابو داؤد بن نجاح نے اپنی کتاب "مُختَصرُ التَّبیِین لِھجاءِالتَّنزیل "میں بعض جگہوں پر اپنے استاد کے مختار قول سے اختلاف کیا ہے اور دوسرے قول کو اپنا پسندیدہ قرار دیا ،مثلاً :تثنیہ کے تمام کلمات ،چاہے وہ اَفعال میں سے ہوں یا اَسماء میں سے ،ان کو کلمے کے وسط میں واقع الف کے بغیر لکھتے ہیں الا یہ کہ وہ کلمے کے آخر میں واقع ہو۔جبکہ امام ابود اؤدبن نجاح تثنیہ کے تمام کلمات میں  الف کے اثبات کے  راوی اور قائل ہیں،اس کی مثال افعال میں"تکذبان"اور"تجریان"کا الف ہے ،اور اَسماء میں"طائفتان"اور "الجمعان"کا الف ہے۔تثنیہ کا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آرہا ہو،تو تحریر میں  اس  کے اثبات پر سب کا اتفاق ہے،جیسےلفظ"قالا"کا الف بالاتفاق ثابت ہے ،کیونکہ وہ کلمے کے آخر میں ہےوسط میں نہیں ہے ۔اسی طرح امام إبراهيم بن موسى بن محمد اللخمي الغرناطي الشهير بالشاطبي(المتوفّٰى: ۷۹۰)نے امام دانی کی کتاب "المقنع "کو اپنی نظم "عقیلۃُ اَتراب القصائد "میں بطور اشعار تحریر کیا ہے اوربعض الفاظ میں انہوں نےبھی امام دانی کے برخلاف دوسرے طرز تحریر کو اپنا پسندیدہ قرار دیا ہے ۔
 اختلافی کلمات جن کا طرز تحریر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے مصاحف میں مختلف فیہ صرف چند سو ہیں ۔عالم اسلام میں ان کلمات کو تحریر کرنے کے طرز میں تین طرح کے مصحف عام طورپر پائے جاتے ہیں۔
(۱)مصر،سعودی عرب ،شام ،عراق اور دیگر عربی ممالک میں اِن اختلافی کلمات کے تحریر کرنے میں اکثر طور پر امام ابوداؤد بن نجاح کی ترجیحات پر عمل کیا جاتاہے ۔
(۲) مغربی ممالک مراکش ،الجزائر ،تیونس وغیرہ میں روایت قالون اور روایت وَرش میں قرآن پاک تحریر کیے جاتے ہیں اور اختلافی کلمات میں عرب
ممالک کی طرح اکثر وبیشتر امام ابوداؤد بن نجاح کی ترجیحات ہی پر عمل کیاجاتا ہے، سوائے چند کلمات کے جہاں امام ابوداؤد نے اپنی کتاب میں سکوت اختیار کیا
ہے یہ ممالک امام ابوالحسن البلنسی متوفّٰی۵۶۷ھ کی ترجیحات کو اختیار کرتے ہیں۔
(۳)برصغیر پاک وہند میں مروَّجہ مَصاحف بالکل درست اور رسم  عثمانی کے مطابق ہیں، کیونکہ ان کا رسم الخط امام ابو عمرو دانی کی تحقیق اور مختار قول کے مطابق ہے اور بعض الفاظ میں امام شاطبى کے مختار قول کو بھی اختیار کیا گیا ہے۔مثلاً:سورہ شوری ٰ 220میں "روضات الجنات"کے دونوں لفظ  جمع مؤنَث سالم کے صیغے ہیں ،اورجمع مؤنث سالم کے قاعدے کی رو سے ان دونوں میں الف محذوف ہونا چاہیے، مگر چونکہ امام ابو عمرو دانی اور امام ابوداؤدبن نجاح نے ان دونوں الفاظ کو عام قاعدے سے مستثنیٰ کرتے ہوئے ان میں اثبات ِالف نقل کیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ عرب ممالک میں چھپنے والے تمام مصاحف میں مذکورہ دونوں الفاظ میں اثبات ِ الف ہی کو اختیار کیا گیا ہے ،لیکن  امامشاطبى نے اپنی کتاب "العقیلۃ "میں ان دونوں الفاظ کو عام قاعدے سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ان کے نزدیک ان دونوں الفاظ کا الف بھی دیگر جمع مونث سالم کےالفاظ کی مانند محذوف ہی رہے گا ۔ برصغیر کے تمام مصاحف میں ان دونوں الفاظ میں امام شاطبى کے قول  کو اختیار کرتے ہوئےالف کومحذوف کرکے دونوں پر کھڑی زبر ڈالی گئی  ہے۔
اسلامی ممالک میں چھپنے والے تمام مصاحف صحیح اور درست ہیں کیونکہ ان میں سےہر ایک مصحف کا رسم اور طرز تحریر مَصاحف عثمانی میں موجود رسم سے مطابقت رکھتا ہے،ان میں سےکسی بھی مصحف کے انداز تحریریا رسم کو غلط کہنا پرلے درجے کی جہالت اور مسلمانو ں کو فتنے میں ڈالنا ہے۔ہر خطے کے لو گ اپنے یہاں مروج مصاحف کے طرز تحریر ہی  سےمانوس ہوتے ہیں اور ان کے لئے ان مصاحف  ہی سے قرا ءت کرنا آسان ہوتا ہے،اس لئے ہر خطے کے ارباب اقتدار پر لازم ہے کہ ان کے یہاں جو مصاحف کا طرز تحریر رائج ہے، اسی کےمطابق قرآن پاک کی اشاعت  کا اہتمام کریں، ورنہ  بے علم لوگ  اس طرح کےاختلافات کے سامنے آنے سے پریشان ہو کر کسی شیطانی وسوسے کا شکار ہو سکتے ہیں ان کی رعایت کرنا اور لوگوں کو فتنے سے بچانا لازم ہے۔
اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشادفرماتا ہے: "وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ"
ترجمہ:"فتنہ (اپنے مابعد نتائج کے اعتبار سے)قتل  سے بھی سخت ہے "[البقرۃ ،آیت:۱۹۱]۔
علامہ جلال الدین السیوطی رحمۃ اللہ علیہ" الجامع الصغیر "میں حدیث پاک لکھتے ہیں:
"الفِتۡنَۃُ نائِمۃٌ لعنَ اللہُ مَن اَیقَظَھا۔" (الرافعی عن انس (ض)۔
ترجمہ:فتنہ سو رہا ہے، جو اس کو جگائے  اس پراللہ کی لعنت ہو"۔[الجامع الصغیر،رقم الحدیث:5979]۔
یہ حدیث اگرچہ سنداً ضعیف ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے صحیح ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: «يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا»
ترجمہ : (دین میں)آسانی پیدا کرو اور دشواری پیدا نہ کرو اور(دین کے بارے میں) خوش خبری سناؤ اور(لوگوں کو دین سے)متنفر نہ کرو"
[ صحيح البخاري :رقم الحدیث:69
مقاصد شریعت میں سد ذرائع بھی ہے، یعنی امکانی طور پردر آنے والی خرابیوں کا راستہ روکنا ۔رسول پاک ﷺ نے بھی اسی دینی حکمت کے تحت اپنے بعض پسندیدہ امور کو ترک فرمایا ہے۔مثال کے طور پر آپ ﷺ کی خواہش تھی کہ بنائے قریش پر بنی ہوئی کعبۃ اللہ کی عمارت کو شہید کر دیں اور پھر اس میں حطیم کو شامل کر کے بنائے ابراہیم پر تعمیر کریں ،اسلام کو حجاز میں غلبہ حاصل ہو چکا تھا اور آپ کے پاس مالی وسائل بھی تھے ،لیکن آپ ﷺ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے فرمایا:
«لَوْلَا حَدَاثَةُ عَهْدِ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، وَلَجَعَلْتُهَا عَلَى أَسَاسِ إِبْرَاهِيمَ، فَإِنَّ قُرَيْشًا حِينَ بَنَتِ الْبَيْتَ
اسْتَقْصَرَتْ، وَلَجَعَلْتُ لَهَا خَلْفًا»
ترجمہ:اگر تمہاری قوم نے نیا نیا کفر نہ چھوڑاہوتا تو میں بیت اللہ کی عمارت کو منہدم کر دیتا اور اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قائم کی ہوئی بنیادوں پر قائم کرتا ،کیونکہ جب قریش نے اس کو بنایا تھا تو (وسائل کی کمی کے سبب ایک جانب سے)اُس کو چھوٹا کر دیا تھا اور میں اس کی پچھلی جانب بھی ایک دروازہ
بناتا۔[صحیح مسلم ، رقم الحدیث:1333]۔
برصغیر پاک وہند کے عظیم فقیہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:" پس ان امور میں ضابطہء کلیّہ واجبۃ ُالحفظ (یعنی ایسا ضابطہ وقانون ِ شرعی جسے لازماً یاد رکھنا چاہے) کہ فعلِ فرائض وترک ِمحُرَّمات (یعنی فرائض کو ادا کرنےاور حرام کا موں کے چھوڑنے)کو ارضائے خلق (لوگوں کی خوشنودی)پر مقدَّم رکھے اور ان اُمور میں کسی کی مُطلقاً پروانہ کرے اور اِتیانِ مستحب(مستحب کو ادا کرنے) وترک ِغیر اَولٰی(غیر افضل کاموں کو چھوڑنے) پر مُداراتِ خَلق ومُراعات ِقلوب (مخلوق کی دلداری)کو اہم جانے اور فتنہ ونفرت وایذا ووحشت کا باعث ہونے سے بہت بچے۔ اسی طرح جو عادات ورسوم خَلق میں جاری ہوں اور شرع ِمُطہَّر سے اُن کی حُرمت وشَناعت  ثابت نہ ہو، اُن میں اپنے تَرفُّع(بڑائی) وتنُّزہ(دعوائے پارسائی) کے لئے خلاف وجُدائی نہ کرے کہ یہ سب امور ایِتلاف وموانَست (لوگوں کے دلوں کو جوڑنے اور دین کی طرف مائل کرنے)کے مُعارِض (خلاف)اور مُراد ومحبوب شارع کے منُاقِض (خلاف)ہیں، ہاں ہاں! ہوشیار وگوش دار (کان لگا کرسن)کہ یہ وہ نکتہ جمیلہ وحکمتِ جلیلہ (عظیم حکمت)وکُوچہ سلامت وجادَہ کرامت ہے، جس سے بہت زاہدانِ خشک واہلِ تکشُّف غافل وجاہل ہوتے ہیں وہ اپنے زَعم میں ُمحتاط ودین پرور بنتے ہیں اور فی الواقع مغزِحکمت ومقصودِ شریعت سے دور پڑتے ہیں خبردار ومحکم گیر(یعنی اس مشورے کو مضبوطی سے تھام لے) یہ چند سطروں میں علمِ غزیر(وافر علم) وباللّٰہِ التوفیق والیہِ المصیر (یہ سب اللہ تعالٰی کی توفیق سے ہے ،اور اسی کی طرف رجوع کرنا ہے
[فتاوی رضویہ ،ج:۴،ص: ۵۲۸،رضافاؤنڈیشن لاہور
جہاں تک قرآن پاک کے الفاظ پر اِعراب کی بات ہے ،تو مصحف عثمانی میں الفاظ پر اعراب نہیں لگائے گئے تھے ۔بعد میں جب اسلام غیر عربی اقوام تک پہنچا اور ان کو قرآن پاک کی صحیح قراء ت میں دشواری پیش آنے لگی تو حجاج بن یوسف کے حکم پر قرآن پاک کے الفاظ پر اعراب لگائے گئے ۔ابتداء میں اس کے لئے نقطوں کا سہارا لیا گیا لیکن بعد میں آج کل مروَّجہ اعراب یعنی زبر کے لئے لفظ کے اوپر اور زیر کے لئے لفظ کے نیچے ایک ترچھی لکیر لگائی گئی علٰی ھٰذا القیاس ۔الفاظ پر اعراب لگانے کو ضبط وشکل  کہتے ہیں،آج کل  اعراب کو تحریر کرنے کا اندازعرب ممالک میں برصغیر پاک وہند میں مروَّج مصاحف سے کچھ مختلف ہے،مثلاً :ہمارے یہاں  رائج مصاحف میں جس حرف پر کھڑی زبر ہو، اس کے ساتھ کوئی اور حرکت نہیں لگائی جاتی ،جیسے لفظ: مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِ۔جبکہ عرب ممالک میں کھڑی زبر کے ساتھ فتح کی حرکت بھی لگائی جاتی ہے، یعنی یوں لکھا جاتا ہے:مَٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِ۔اعراب کا مقصد قرآن پاک کو صحیح اور درست پڑھنا ہے اس لئے ہر خطے میں رائج ضبط وشکل کے انداز سے اس خطے کے مسلمانوں کے لئے قرآن پاک کو درست پڑھنا نسبتاً     آسان ہوتا ہے، اس لئے عوام میں رائج انداز پرہی  قرآن پاک پر اعراب لگانے چاہیں کیونکہ غیر مانوس اور اجنبی انداز سے لوگ درست قرآن پڑھنے سے محروم ہو جائیں گے ۔جو لوگ حرمین طیبین گئے ہیں، انہوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ برصغیر پاک وہند کے لوگ مسجد حرام اور مسجد نبوی شریف میں نیلی جلد والے قرآن پاک کی تلاش میں رہتے ہیں، کیونکہ سبز جلد والے قرآن پاک  میں عربی انداز میں اعراب لگے ہوتے ہیں اور ان کو اس قرآن پاک سے تلاوت کرنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے، جبکہ نیلی جلد والے قرآن پاک سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے پاک وہندکے حاجیوں کی آسانی کے لئے انہی کے انداز پر چھپوائے جاتے ہیں ،اس لئے اس خطے کے لوگ اُن سے بآسانی تلاوت کر لیتے ہیں ۔جب سعودی عرب نے بھی پاک  وہند کے لوگوں کی رعایت کی ہے، تو ہمارے یہاں کے ارباب اقتدار کو اپنی رعایا کی سہولت کا ان سے بھی بڑھ کراحساس ہونا چاہیے اور لوگوں کی آسانی کے لئے مروجہ انداز میں ضبط وشکل والے مصاحف کی نشرواشاعت کی اجازت دینی چاہیے اور اس کے علاوہ مصاحف کی نشرواشاعت پر پابندی عائد کر دینی چاہیے ۔
قرآن پاک میں آیات کے درمیان وقف اور وصل کی علامات بھی لگائی جاتی ہیں، مصحف عثمانی اس سے بھی خالی تھا۔ کیونکہ عربی زبان سے واقف شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ کلام کی انتہاکہاں ہو رہی ہے کہ وہاں رک جائیں اور کس مقام پرکلام ابھی جاری ہے  تاکہ وہاں نہ رکیں۔غیر عربی اقوام کی آسانی کے لئے قرآن پاک کی آیات کے درمیان وقف ووصل کی علامات علماء کے اتفاق اور اجتہاد سے لگائی گئی ہیں ۔بعض جگہ پر وقف اور وصل کے اعتبار سے علماء میں اختلاف بھی ہو جاتا ہے،چنانچہ  برصغیر پاک وہند اور عالم عرب میں رائج مصاحف کے مابین ان علامتوں میں اختلاف  کایہی سبب  ہے ۔اس بارے میں علمِ قراء  ت کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ،جو پاک وہند میں چھپنے والے قرآن پاک میں تحریر کردہ وصل اور وقف کی علامات پر نظر ثانی کریں اور تمام مصاحف میں ایک ہی طرح کی علامات تحریر کی جائیں تاکہ عوام صحیح طورپر قرآن پاک پڑھ سکیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ برصغیر پاک وہند میں مروج رسم اور ضبط والے قرآن پاک بالکل درست ہیں اور حکومت پر لازم ہے کہ قرآن کی خدمت کے نام پر کوئی نیا فتنہ کھڑا کرنے کی بجائےقرآن کےرسم الخط اور طباعت کے حوالے سےصدیوں سے رائج ،نافذ العمل اور قبول عام شِعار کواختیار کرے ۔سعودی عرب نے" مجمع الفہد لطباعۃ المصحف الشریف "کے لئے اپنے ثقہ علماء اور مستند قراء کرام کا باقاعدہ ایک بورڈ قائم کیا اور ان کی نگرانی میں برصغیر پاک وہند ،بنگلہ دیش ،ملحق ممالک اور اکثر غیر عربی ممالک کے لئے ان خطوں میں جاری شِعارکے مطابق قرآن کریم طبع کیے ،حجاج ،مُعتَمرین میں تقسیم کیے اور آج بھی حرمین طیبین میں ان کی تلاوت کے لئے دستیاب ہیں،لہذا اسی انداز میں قرآن پاک کی نشرواشاعت  کومملکت پاکستان قانونی قرار دے اور اس کے علاوہ دیگر رسم وضبط والے قرآن پاک کی اشاعت کو ممنوع قرار دے ۔واللہ تعالی اعلم
  الجواب صحيح                                  کتبــــه

 مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن                                      ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اختر المدنی

11اپریل،2015،۲۱جمادی الاخری۱۴۳۶ھ                            11اپریل،2015،۲۱جمادی الاخری۱۴۳۶ھ 

No comments:

Post a Comment