دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Monday, 4 May 2015

مسٹر غامدی اورداڑھی کا وجوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخری قسط

مسٹر غامدی اورداڑھی کا وجوب
مسٹرغامدی کے دین ’’غامدیت‘‘کی رو سے داڑھی ضروری نہیں ہے ۔
مسٹر غامدی سے ایک سوال پوچھا گیا کہ ’’ میں نے کچھ عرصہ پہلے داڑھی رکھی مگر میری امی اور سب گھر والوں کو پسند نہ آئی کیونکہ بال 
ٹھیک طرح سے نہ آئے تھے ۔اب امی بار بار مجھے داڑھی کٹوانے کا کہتی ہیں ،کیا میں اسے کٹوا سکتا ہوں؟‘‘
مسٹر غامدی کی ویب سائٹ پر جواب دیا گیا ’’ عام طور پر اہل علم داڑھی رکھنا دینی لحاظ سے ضروری قراردیتے ہیں ،تاہم ہمارے نزدیک داڑھی رکھنے کا حکم دین میں کہیں بیان نہیں ہوا ،لہذا دین کی رو سے داڑھی رکھنا ضروری نہیں ہے‘‘۔
[www.urdu.understanding,islam.org]۔
مسٹر غامدی نے پہلے تو سنت کی من مانی تعریف کی اورسنت کو دین ابراہیمی کی روایات قرار دیا اور پھر سنت میں وہ چیزیں گنوائیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے فطرت میں سے قرار دیاتھا ۔لیکن کیونکہ مسٹر غامدی کے دین کا منبع اور ماوی مغرب ہے اور اہل مغرب آج کل داڑھی مونچھ دونوں سے صاف ہیں 
اس لئے مسٹر غامدی مغرب کی مخالفت کس طرح کر سکتے تھے لہذا انہوں نے فطرت کی وہ چیزیں تو لے لیں جن پر اہل مغرب کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا تھا جیسے مونچھیں تراشنا بدن کے فاضل بال دور کرنا ،ناخن کاٹنا وغیرہ لیکن حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک ہر نبی نے جس چیز (داڑھی)کو اختیار اور پسندکیااس کو مسٹر غامدی شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کر گئے ۔اور ان کی شیطانی طبیعت جوش پر آئی تو داڑھی کا دین سے ہونے کا ہی انکار کر دیا اور بیسیوں احادیث جن میں داڑھی رکھنے کا حکم دیا اور داڑھی نہ رکھنے والوں پر شدید تھدید فرمائی ان سب کو دین سے ہی خارج قرار دے دیا ۔
کثیر صحیح احادیث میں حضور نبی کریم ﷺ کا داڑھی رکھنے کا واضح فرمان موجود ہے اسی وجہ سے علماء اسلام نے داڑھی کو واجب قرار دیا ہے ۔
صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں’’عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ ،الحدیث‘‘
ترجمہ:’’دس چیزیں فطرت میں سے ہیں ۔ مونچھیں کم کرانااورداڑھی( حدشرع تک) چھوڑدینا‘‘الحدیث۔[صحیح مسلم،حدیث :۵۶،سنن ابو داؤد،حدیث: ۵۳،سنن ترمذی ،حدیث:۲۷۵۷]۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’معناہ انہا من سنن الانبیاء‘‘
ترجمہ: اس کامعنی یہ ہے کہ دس چیزیں انبیاء کی سنتوں میں سے ہیں۔[شرح صحیح مسلم، ج: ۱، ص:۱۲۹،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔
صحیح بخاری میں ہے :حضور ﷺارشادفرماتے ہیں’’خالفواالمشرکین واوفوااللحیٰ واعفوا الشوارب‘‘
ترجمہ: مشرکین کی مخالفت کرو اورداڑھیاں پوری رکھو اورمونچھیں کم کردو‘‘۔[ صحیح بخاری ،حدیث: ۵۸۹۲،صحیح مسلم،حدیث:۵۳]۔
صحیح مسلم میں ہے’’عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جزوا الشوارب وارخوا اللحیٰ خالفوا المجوس۔
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مونچھیں کٹواؤ، داڑھیاں بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔[صحیح مسلم ،ج: ۱، ص: ۲۲۲،مطبوعہ دارالحیاء بیروت]۔
امام ابن حجر عسقلانی اس کی شرح میں فرماتے ہیں :’’فی حدیث ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ عند مسلم خالفوالمجوس وھوالمراد فی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما فانہم کانوا یقصون لحاہم ومنہم من کان یحلقہا‘‘۔
ترجمہ : امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے جو روایت نقل فرمائی ہے اس میں خالفوالمشرکین کی بجائے خالفوالمجوس کے الفاظ ہیں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں بھی یہی مراد ہے کیونکہ مجوسیوں کی عادت تھی کہ وہ اپنی داڑھیاں کاٹتے تھے اور ان میں سے بعض لوگ اپنی داڑھیوں کو مونڈتے تھے ‘‘۔[فتح الباری ج۱۰، ص۳۴۹،مطبوعہ دارالمعرفۃ،بیروت]۔
نیز امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فحصل خمس روایات، اعفوا، واوفوا، وارخوا، وارجو، ووفروا ومعناہا کلہا ترکہا علی حالھا ہذا ھوالظاہرمن الحدیث الذی یقتضیہ الفاظہ و ھوالذی قالہ جماعۃ من اصحابنا وغیرہم من العلماء ۔
ترجمہ:احادیث میں داڑھی بڑھانے کے متعلق پانچ قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں ۔
(۱) اعفوا۔ داڑھیاں چھوڑ و
(۲) واوفوا۔ داڑھیوں پوری رکھو
(۳) وارخوا۔ ڈاڑھیاں بڑھاؤ
(۴) وارجو ۔ داڑھیاں چھوڑ ے رکھو
(۵) وفروا۔ داڑھیاں بڑھاؤ
ان تمام الفاظ کے معنی داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑ دیناہے اوریہی ان احادیث کے الفاظ کا ظاہر ہے اور یہی وہ معنی ہیں جن کو ہمارے اصحاب اوردیگر علماء نے بیان کیا ہے‘‘۔[شرح صحیح مسلم، ج: ۱، ص:۱۲۹،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔
البدایۃ والنھایۃ میں ہے’’عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعث بکتابہ مع رجل الیٰ کسریٰ 133133ودخلا علیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد حلقا لحاھما و اعفیا شواربھما فکرہ النظر الیہما وقال ویلکما من امرکما بہذا؟ قالا امرنا ربنا یعنیان کسریٰ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولکن ربی امرنی باعفاء لحیتی وقص شاربی‘‘۔
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک قاصد کو شاہ ایران کی طرف اسلام کا پیغام دے کر بھیجا133133133133133 شاہ ایران کے دو قاصدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی داڑھیاں منڈی ہوئی اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف نظر کرنا بھی پسند نہ کیا اور فرمایا تمہاری ہلاکت ہو تمہیں ایسی شکل بنانے کا حکم کس نے دیاہے ؟ وہ بولے یہ ہمارے رب یعنی شاہ ایران کا حکم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میرے رب نے تو مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم فرمایاہے‘‘ ۔[البدایۃ والنہایۃ: ج۴ ص۳۰۷،مطبوعہ دارالحیاء بیروت]۔
رسول اللہ ﷺ تو داڑھی رکھنے کا حکم رب تعالی کی طرف منسوب فرمائیں لیکن مسٹر غامدی کا دین تو مغرب سے درآمدشدہ ہے اس لئے ان کے نزدیک داڑھی کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
داڑھی کے بارے میں احادیث پاک میں وارد ہونے الفاظ امر کے صیغے ہیں اگرداڑھی رکھنا محض عادتاً تھا اور دین کا حکم نہیں تھا تو امت کورسول اللہ ﷺ نے اتنی تاکید کے ساتھ یہ حکم کیوں ارشاد فرمایا؟۔اور وہ افراد جوابھی مسلمان بھی نہیں ہوئے اور غیر مسلم بادشاہ کی طرف سے سفیر بن کر آئے تھے ان پر رسول اللہ ﷺشدید اظہار کراہیت فرمایا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسٹرغامدی کے نظریات اور اس کے دین(غامدیت) کا اسلامی شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔وہ اپنے ذاتی نظریات کو اورمغربی سامراجی ایجنڈے کو اسلام کے نام پر پیش کر کے مسلمانوں کو دھوکہ دے رہا ہے ۔ ایسے نظریات کا حامل شخص بدترین مخلوق معتزلہ ،خوارج ،منکر حدیث ،قرآن میں معنوی تحریف کرنے والا،قرآن کی تفسیر بالرائے کرنا والا،خواہش پرست ،گمراہ بددین ،مسلمانوں کے لئے آستین کا سانپ ہے مسلمانوں پر لازم ہے کہ مسٹر غامدی اور اس کے نظریات کو ماننے والے لوگوں کا سماجی بائیکاٹ کریں اور اس کے نظریات پر مبنی کتابوں اور لٹریچر سے کوسوں دور رہیں اور اس کے کسی بھی قسم کے پروگرام کو ہرگزنہ سنیں۔اور ٹی وی مالکان اور ان کی انتظامیہ پر لازم ہے کہ ایسے گمراہ نظریات رکھنے والے شخص کو اپنے ٹی وی چینل پر ہرگز موقعہ نہ دیں اور مغربی سامراج کے ایجنڈے کا ساتھی بننے کے بجائے اسلام اور پاکستان کا ساتھ دیں ۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے :
’’وَإِمَّا یُنسِیَنَّکَ الشَّیْْطَانُ فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرَی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ‘‘
ترجمہ کنز الایمان :’’ جو کہیں تجھے شیطان بھلادے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ ‘‘۔[الانعام،آیت ۶۸]۔
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے :
’’ وَلاَ تَرْکَنُواْ إِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ‘‘
ترجمہ کنز الایمان :’’ ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آگ چھوئے گی ‘‘۔[ھود ،آیت :۱۱۳]۔
سنن ابن ماجہ میں ہے: ’’ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا ’’ان مرضوا فلا تعود و ھم وان ماتو ا فلا تشھد وھم وان لقیتموھم فلا تسلموا علیھم‘‘۔
ترجمہ:’’بد مذہب اگر بیمار پڑجائیں تو پوچھنے مت جاؤ اور اگر وہ مرجائیں توان کے جنازے میں حاضر نہ ہو اور جب ان سے ملو تو سلام نہ کرو‘‘ ۔[سنن ابن ماجہ،ج:۱،ص:۶۹،مطبوعہ دار احیاء الکتب العربیہ ،بیروت]۔
صحیح مسلم کی حد یث پاک میں ہے ’’ایاکم وایاھم لا یضلونکم ولایفتنو نکم ‘‘ یعنی ،’’گمراہوں سے دور بھا گو انھیں اپنے سے دور کرو کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں کہیں وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں ‘‘۔[صحیح مسلم،ج:۱،ص:۱۲،داراحیاء بیروت] ۔
سنن دارمی میں ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ لاتجلسوا اھل الاھواء ولا تجادلوا ھم فانی لا اٰمن ان یغمسوا فی ضلالتھم او یلبسوا علیکم ماکنتم تعرفون ‘‘
ترجمہ:’’ خواہش نفس کے پیچھے چلنے والوں کے پاس نہ بیٹھو نہ ان سے بحث کرو کیونکہ مجھے یہ خد شہ ہے کہ وہ اپنی گمراہی میں تم کو مبتلاء کردیں گے یا تمہارے عقائد کو تم پر مشتبہ کر دیں گے ‘‘۔[سنن دارمی،ج:۱،ص:۳۸۷،دارالمغنی ،مطبوعہ مکۃ المکرمہ]۔
مسلمانوں پر لازم ہے ایسے گمراہ ،مغرب زدہ اور خواہش نفس پر چلنے والے شخص کے نظریات پر توجہ نہ دیں۔ بلکہ صحابہ کرام وتابعین عظام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین اورمجتہدینِ اسلام و فقہاءِ کرام اور علماء وبزرگان دین کی تعلیمات اور نظریات پر یقین رکھیں اوراسی کو اپنے لئے راہ نجات سمجھیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:’’وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّی یَأْتِیَکَ الْیَقِیْنُ‘‘ترجمہ کنزالایمان:مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں رہو‘‘۔[الحجر،۹۹]۔واللہ تعالی اعلم


مسٹر غامدی کے نظریات کا رد غلام مرتضیٰ مظہر ی نے ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اختر المدنی کی رہنمائی میں لکھا ۔

No comments:

Post a Comment