دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Monday 8 July 2013

دیہات میں جمعہ قائم کرنے کا شرعی حکم

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ دیہات میں جمعہ قائم کرنا جائز ہے یانہیں؟ہمارے ہاں آبادیاں چک نمبر کے حساب سے تقسیم ہیں اور تقریباً ہر چک میں بڑی مسجد میں جمعہ قائم ہے اور ایک چک ایسا ہے وہاں کی آبادی کے کچھ لوگ چک کی مسجد سے ہٹ کر اپنے چندگھر وں پر مشتمل آباد ی کے لئے اپنی مسجد میں جمعہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو کیا ایسا کرنا ان کے لئے جائز ہے؟


                                سائل: عبد اللہ ،چک نمبر153/TDAتحصیل وضلع لیہ
                                      بسم اللہ الرحمن الرحیم
                     الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
ایسی جگہ جو نہ شہر ہو اور نہ فنائے شہر ہوبلکہ خالص دیہات ہووہاں ظاہر الروایۃ کے مطابق جمعہ قائم کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ جمعہ وعیدین کے لئے شہر یا فنائے شہر ہونا ضروری ہے۔
ہدایہ میں ہے:’’لا تصح الجمعۃ إلا فی مصر جامع أو فی مصلی المصر ولا تجوز فی القری لقولہ علیہ الصلاۃ و السلام ( لا جمعۃ ولا تشریق ولا فطر ولا أضحی إلا فی مصر جامع ) والمصر الجامع :کل موضع لہ أمیر وقاض ینفد الأحکام ویقیم الحدود‘‘یعنی،’’جمعہ صرف جامع شہریافنائے شہرمیں جائزہے اورگاؤں دیہات میں جائزنہیں ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺکافرمان ہے:شہرجامع کے علاوہ کوئی جمعہ کی نماز،کوئی تکبیرتشریق، کوئی عید الفطرکی نماز،کوئی عید الاضحی کی نماز نہیں ہے ۔اورشہرجامع سے مرادہروہ جگہ ہے جہاں پرامیرا ورقاضی مقررہوں جواحکام کو نافذاورحدودقائم کرنے پرقادرہوں‘‘۔[الہدایۃ،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجمعۃ،ج:۱،ص:۱۷۷،مکتبہ رحمانیۃ لاہور
     امام اہلسنت امام احمدر ضاخان علیہ رحمۃ الرحمن جمعہ کے لئے مصر کی شرط کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ معھذا ہمارے ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہم نے جو اقامتِ جمعہ کے لئے مصر کی شرط لگائی اس کا ماخد حضرت مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کی حدیث صحیح ہے جسے ابو بکر بن ابی شیبہ وعبدالرزاق نے اپنی مصنفات میں روایت کیا ’’لا جمعۃ ولا تشریق ولا صلوٰۃ فطر ولا اضحی الا فی مصر جامع او مدینۃ عظیمۃ ‘‘یعنی،جمعہ ، تکبیرات تشریق ،عید الفطر اور عید الاضحی جامع شہر یا بڑے شہر میں ہو سکتے ہیں ‘‘ ....صحیح تعریف شہر کی یہ ہے کہ وہ آبادی جس میں متعدد کوچے ہوں ،دوامی بازار ہوں ،نہ وہ جسے پیٹھ کہتے ہیں ،اور وہ پرگنہ ہے کہ اس کے متعلق دیہات گنے جاتے ہوں اور اس میں کوئی حاکم مقدماتِ رعایا فیصل کرنے پر مقرر ہو جس کی حشمت وشوکت اس قابل ہو کہ مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے۔
جہاں یہ تعریف صادق ہو وہی شہر ہے اور وہیں جمعہ جائز ہے ۔ہمارے ائمہ ثلثہ رضی اللہ تعالی عنھم سے یہی ظاہر الروایہ ہے ۔’’کمافی الھدایۃ والخانیۃ والظھیریۃ والخلاصۃ والعنایۃ والدرالمختار والھندیۃ وغیرھا‘‘یعنی،جیسا کہ ہدایہ ،خانیہ ،ظہیریہ ،خلاصہ ،عنایہ ،حلیہ ،غنیہ ،درمختار، اور فتاوی ہندیہ وغیرہ میں ہے۔اور یہی مذہب ہمارے امام اعظم کے استاذاور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما کے شاگرد خاص حضرت امام عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا ہے،’’کما فی مصنف عبد الرزاق حدثنا ابن جریج عن عطاء بن ابی رباح قال اذا کنت فی قریۃ جامعۃ فنودی بالصلوۃ من یوم الجمعۃ فحق علیک ان تشھد ھا سمعت النداء او لم تسمعہ قال قلت لعطاء ماالقریۃ الجامعۃ قال ذات الجماعۃ والامیروالقاضی والدور المجتمعۃ غیر المفترقۃ الاخذ بعضھا بعض مثل جدۃ‘‘یعنی،’’جیسا کہ مصنف عبد الرزاق میں ہے کہ ہمیں ابن جریج نے حضرت عطاء بن ابی رباح سے بیان کیا کہ جب تم کسی جامع قریہ میں ہوں تو وہاں جمعہ کے لئے اذان ہو تو تم پر جمعہ کے لئے جانا فرض ہے خواہ اذان سنی ہو یا نہ سنی ہو،کہتے ہیں میں نے عطاء سے پوچھا کہ جامعہ قریہ کون سا ہو تا ہے ؟انہوں نے فرمایا :جس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہو اور وہاں امیر،قاضی بھی ہو اور متعدد کُوچے اس میں باہم ملے ہوئے ہوں جس طرح جدہ شہرہے‘‘
اور یہی قول امام ابو القاسم صفار تلمیذ التلمیذ امام محمد کا مختار ہے کما فی الغنیۃ (جیسا کہ غنیہ میں ہے )اسی کو امام کرخی نے اختیار فرمایا کما فی الھدایۃ (جیسا کہ ہدایہ میں ہے ) اسی پر امام قدروی نے اعتماد کیا کما فی مجمع الانھر (جیسا کہ مجمع الانہر میں ہے )اسی کو امام شمس الائمہ سرخسی نے ظاہر المذھب عند نا (ہمارے نزدیک ظاہر مذہب یہی ہے )فرمایا کما فی الخلاصۃ (جیسا کہ خلاصہ میں ہے ) اسی پر امام علاؤ الدین سمر قندی نے تحفۃ الفقہاء اور ان کے تلمیذ امام ملک العلماء ابو بکر نے بدائع شرح تحفۃ میں فتوی دیا کما فی الحلیۃ (جیسا کہ حلیہ میں ہے)اسی پر امام فقیہ النفس قاضی خاں نے جزم واقتصار کیا کما فی فتاواہ (جیسا کہ ان کے فتاوی میں ہے)اور اسی کو شرح جامع صغیر میں قول معتمد فرمایا کما فی الحلیۃ والغنیۃ (جیسا کہ حلیہ اور غنیہ میں ہے ) اسی کو امام شیخ الا سلام برہان الدین علی فرغانی نے مرجح رکھا کمافی شرح المنیۃ (جیسا کہ شرح منیہ میں ہے)اسی کو مضمرات میں اصح ٹھہرایا کما فی جامع الرموز (جیسا کہ جامع الرموز میں ہے)ایسا ہی جواہر الاخلاطی میں لکھ کر ھذا اقرب الاقاویل الی الصواب (اقوال میں سے یہ قول صواب کے زیادہ قریب ہے)کہا کمارأیتہ فیھا (جیسا کہ اس میں مروی دیکھا ہے)ایسا ہی غیاثیہ میں لکھا کما فی الغنیۃ (جیسا کہ غنیہ میں ہے)اسی کو تاتارخانیہ میں علیہ الاعتماد (اسی پر اعتماد ہے)فرمایاکمافی الھندیۃ (جیسا کہ ہندیہ میں ہے )۔
اسی کو غایہ شرح ہدایہ وغنیہ شرح منیہ ومجمع الانہر شرح ملتقی الابحر وجواہر وشرح نقایہ قہستانی میں صحیح کہا اخیر میں ہے یہی قول معول علیہ ہے اسی کو ملتقی الابہر میں مقدم وماخوذ بہ ٹھہرایا اسی پر کنز الدقائق وکافی شرح وافی ونور الایضاح وعالمگیریہ میں جزم واقتصار کیا قولِ دیگر کا نام بھی نہ لیا اسی کو عنایہ شرح ھدایہ میں علیہ اکثر الفقہا ء(اکثر فقہا ء اسی پر ہیں)فرمایا کمافی حاشیۃالمراقی للعلامۃ الطحطاوی (جیسا کہ علامہ طحطاوی کی مراقی الفلاح کے حاشیہ میں ہے)اسی کو علامہ حسن شرنبلالی نے شرح نورا لایضاح میں اصح وعلیہ الاعتماد (اسی پر اعتماد ہے )فرمایا ،اسی پر علامہ سید احمد مصری نے حاشیہ شرنبلالیہ میں اعتماد اور قول آخر کا رَدِّ بلیغ کیا ،اسی پر امام ابن الہمام محمد وعلامہ اسمٰعیل نابلسی وعلامہ نو ح آفندی وعلامہ سید احمد حموی وغیرھم کبرائے اعلام نے بنائے کلام فرمائی شرح کل ذلک یطول (ہر ایک کی شرح طویل ہے) ۔[فتاوی رضویہ ،باب الجمعۃ ،ج:۸،ص:۲۷۵،رضافاؤنڈیشن لاہور]۔
امام اہلسنت کی یہ وضاحت کم وبیش تیس(۳۰)فقہاء کرام اور کتب کے حوالے پر مشتمل ہے جس میں مکمل طور پر اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ نماز جمعہ صرف شہر یا فنائے شہر میں قائم کرنا جائز ہے اسی پر امام اہل سنت نے دلائل قائم کئے ہیں جس میں شک کی گنجائش نہیں ہے ۔
خلا صہ کلام یہ ہے کہ ظاہرا لروایہ کے مطابق گاؤں دیہاتوں میں جمعہ کا قیام جائز نہیں ہے۔ لیکن بعض علماء کرام نے موجودہ حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور عوام و خواص کے ابتلائے عام کا شکار ہونے اور دیہاتوں اور گاؤں میں جمعہ قائم ہونے کا تعامل جاری ہونے اور اپنے ہی مذہب میں روایت مل جانے کی وجہ سے اگرچہ وہ روایت نادرہ ہے اس پر عمل کرنے میں حرج نہ ہونے کا فتوی دیا اور اس روایت کی بنیاد پر جو شہر کی اس تعریف پر پورا اترے وہاں جمعہ وعیدین کے جواز کا فتوی دیا ۔
امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن اس روایت کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ ہاں ایک روایت نادرہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے یہ آئی ہے کہ جس آبادی میں اتنے مسلمان مرد عاقل بالغ ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہو سکے آباد ہوں کہ اگر وہ وہاں کی بڑی سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سماسکیں یہاں تک کہ انہیں جمعہ کے لئے مسجد جامع بنانی پڑے وہ صحتِ جمعہ کے لئے شہر سمجھی جائے گی ۔امام اکمل الدین بابرتی عنایہ شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں ’’( وعنہ ) ای عن ابی یوسف (انھم اذااجتمعوا )ای اجتمع من تجب علیھم الجمعۃ لا کل من یسکن فی ذلک الموضع من الصبیان والنساء والعبید لان من تجب علیھم مجتمون فیہ عاد ۃ قال ابن شجاع احسن ما قیل فیہ اذا کان اھلھا ، بحیث لواجتمعوا(فی اکبر مساجدھم لم یسعھم)ذلک احتاجوا الی بناء مسجد اٰخر للجمعۃ ‘‘یعنی،’’ (اور ان سے) یعنی امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے ہے ( جب وہ جمع ہوں )یعنی وہ لوگ جن پر جمعہ لازم ہے نہ کہ تمام وہ لوگ جو وہاں سکونت پذیر ہیں مثلاً بچے ،خواتین،اور غلام۔ابن شجاع نے کہا کہ اس بارے میں سب سے بہتر قول یہ ہے کہ جمعہ کے اہل وہاں جمع ہوں (سب سے بڑی مسجد میں،اوراس میں ان کی گنجائش نہ ہو)حتی کہ وہ جمعہ کے لئے ایک اور مسجد بنانے پر مجبور ہوں ‘‘۔ترجمہ ختم ہوا۔جس گاؤں میں یہ حالت پائی جائے اس میں اس روایت نوادر کی بنا پر جمعہ وعیدین ہو سکتے ہیں اگرچہ اصل مذہب کے خلاف ہے مگر اسے بھی ایک جما عتِ متاخرین نے اختیار فرمایا اور جہاں یہ بھی نہیں وہاں ہرگز جمعہ خواہ عید مذہب حنفی میں جائز نہیں ہو سکتا بلکہ گناہ ہے ‘‘۔[فتاوی رضویہ،ج:۸،ص:۳۴۷، رضا فاؤنڈ یشن ،لاہور]۔
لہذاوہ بستیاں جن میں روایت نادر ہ کے مطابق بھی جمعہ قائم کرنے کی صلاحیت نہیں اگر وہاں جمعہ جاری ہو چکا ہے اور بند کر دیا جائے تو فساد کا اندیشہ ہو توان کے لئے حکم شرعی یہ ہے کہ وہاں جمعہ بند نہ کیا جائے لیکن جمعہ کی نماز پڑھ لینے کے بعد ظہر کی نماز بھی ادا کریں ۔
مفتی محمد جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’أَرَأَیْْتَ الَّذِیْ یَنْہَی 0 عَبْداً إِذَا صَلَّی ‘‘سے خوف کرتے ہوئے مسلمانوں کو مطلقاً نماز جمعہ سے روکا نہ جائے لیکن مسئلہ شرعیہ سے ضرور آگاہ کیا جائے کہ دیہات میں جمعہ ادا نہیں ہوتا ظہر پڑھنا ضروری ہے ۔جیسا کہ شامی میں قہستانی سے ہے ’’لوصلو ا فی القریٰ لزمھم اداء الظھر ‘‘یعنی،مسلمانوں نے اگر دیہات میں جمعہ پڑھ لی تو انہیں ظہر پڑھ لینا ضروری اور فرض ہے ‘‘۔[فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۴۰۳، شبیر برادرزلاہور]۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگریہ بستی نادرالروایۃ( جس آبادی میں اتنے مسلمان مرد عاقل بالغ ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہو سکے آباد ہوں کہ اگر وہ وہاں کی بڑی سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سماسکیں یہاں تک کہ انہیں جمعہ کے لئے مسجد جامع بنانی پڑے وہ صحتِ جمعہ کے لئے شہر سمجھی جائے گی ) کے معیار پر پوری اترتی ہے اور اس بستی پر شہر کا اطلاق کیا جا سکتا ہے تووہاں نمازِجمعہ کااہتمام کرنا جائز ہوگا لیکن احتیاطی ظہر بھی ساتھ پڑھناہوگی، اور اگر اس معیار پہ بھی پورا نہیں اترتی تو پھر ظہر کی نماز ان پر ادا کرنا لازم ہے ۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم

کتبہ : غلام مرتضی مظہری یصدقہ رئیس دارالافتاء ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اختر المدنی

No comments:

Post a Comment