دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Sunday 28 July 2013

کیاانبیاء کرام علیہم السلام پر فلم سازی کی جاسکتی ہے؟(۲)کیا فلم میں نبی علیہ السلام کا کردار ادا کیا جاسکتا ہے؟

کیافرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام دین مسئلہ کہ(۱)کیاانبیاء کرام علیہم السلام پر فلم سازی کی جاسکتی ہے؟(۲)کیا فلم میں نبی علیہ السلام کا کردار ادا کیا جاسکتا ہے؟(۳)کیا انبیاء علیہم السلام کی حیات مبارکہ پر فلمیں بنانا اور ادا کروں /عام انسانوں کا فلموں میں انبیاء علیہم السلام کا کردار ادا کرنا،انہی کے زمانوں کے لباس اور ماحول کو اجاگر کرنا ،انبیاء علیہم السلام کے کلمات وواقعات کو عام انسان کا نبی علیہ السلام کے کرداردیاجاسکتا ہے؟کیا یہ فقط ایک گناہ ہے یا نعوذ باللہ توہین رسالت ،اہانت انبیاء علیہم السلام اور تحقیر وتضحیک انبیاء علیہم السلام کے زمرے میں آتا ہے؟ازراہ کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں دلائل کے ساتھ رہنمائی فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
المستفتی :راؤ عبد الرحیم ایڈووکیٹ چیئر مین ناموس رسالت لائرز فورم پاکستان ،اسلام آباد
                              بسم اللہ الرحمن الرحیم
             الجواب بعون الوھا ب اللھم ھدایۃ الحق الصواب
آپ کے پیغام پروڈکشن کے بھیجے گئے انٹر نیٹ کے ایڈریس کے ذریعے جانچ پڑتال کی تو بات واضح ہوئی کہ مذکورہ ادارے نے انبیاء علیہم السلام کی زندگی پر فلمائی گئی فلموں کا اردو زبان میں ترجمہ کرنے کے بعد مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے اپنے نیٹ ورک پر نشر کررہے ہیں ۔جو کچھ ان فلموں میں ہے اس میں سے کچھ کا مختصر خلاصہ یہ ہے
(۱)ان فلموں میں حضرت آدم علیہ السلام ،حضرت یوسف علیہ السلام ،حضرت سلیمان علیہ السلام ،حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام ،حضرت مریم علیہا السلام کے فرضی کردار پیش کئے گئے ہیں۔
(۲)ان فلموں میں کئی مقامات پر نبی کا فرضی کردار کرنے والے کو اے نبی(علیہ السلام) ،اے یوسف (علیہ السلام)،اے ابراہیم(علیہ السلام) ،اے پیغمبر(علیہ السلام) کہہ کر پکارا گیا ہے۔
(۳)اسی طرح یہ فرضی کرداربھی کئی مقامات پر اپنے ڈائیلاگ سے خود کو اللہ کا پیغمبر کہتے ہیں۔
(۴)ان فلموں میں انبیاء علیہم السلام کے ناموں سے جن کرداروں کو دکھایا گیا ہے ان کو بار بار اس طرح پکارا جاتا ہے جیسے کسی عام آدمی کو پکاراجاتا ہے ۔کہہم وہ کرتے ہیں جو محمد(ﷺ) ہمیں کہتے ہیں ۔محمد(ﷺ) نے ہمیں بتایا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو۔
(۵)ایک انسان کو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے نام سے کردار دیا گیا ہے جو کئی بار وحی لاتا دکھائی دیتا ہے ۔
(۶)اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے نام سے بنائے گئے کرداروں پر ٹھٹھہ، پاگل،مجنون کہنا وغیرہ بھی فلمایا گیاہے۔
(۷)فلم ٹین کمانڈزمیں توحدہی کردی گئی اللہ تعالی کے معصوم نبی حضرت موسی کلیم اللہ علی نبیناوعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی کھلی توہین کی گئی ہے اوران کاحضرت آسیہ کے ساتھ جوتعلق فلمایاگیاوہ نہ صرف اسلامی تاریخ کے صریح خلاف بلکہ انتہائی شرمناک ہے۔اورپھراسی فلم میں معاذاللہ وحی کے نزول کودکھایاگیا۔
(۸)اسی طرح اس فلم میں بعض صحابیات مثل ہندہ رضی اللہ تعالی عنہاکے کردارکوبے پردہ وبے حجاب دکھایاگیا۔
(۹)تمثیل حیات طیبہ نامی فلم میں حضورنبی کریم ﷺکی والدہ ماجدہ سیدتناآمنہ رضی اللہ تعالی عنہاکے کردارکاچہرہ دکھایاگیا۔
(۱۰)اسی طرح حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنھاجورسول کریم ﷺکی رضاعی والدہ ماجدہ ہیں ان کے کردارمیں بھی چہرہ اوربال دکھائے گئے ہیں۔
(۱۱)ایسی ہی کئی توہین پر مبنی مثالیں ان فلموں میں حد سے زیادہ موجود ہیں۔رقص و موسیقی اوردیگرخرافات اس پرمزیدبرآں ہیں ۔
بہرحال پیغام پروڈکشن اور دیگرکے نیٹ ورک پر موجود انبیاء علیہم السلام کی مقدس زندگیوں پر بنائی گئی فلموں میں انبیاء علیہم السلام کی سخت توہین اور بے ادبی کا پہلو نکلتا ہے اور انبیاء علیہم السلام کی ادنیٰ سے ادنیٰ توہین کرنا بھی کفر ہے۔اوراسلام میں اس بات کی قطعاً گنجائش نہیں کہ انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں پر فلمیں تیار کی جائیں فلہذا حضرات انبیاء علیہم السلام کی مبارک زندگیوں پر فلم بنانااشد حرام اور موجب کفر ہے اورفلم بنانے والے اور ترجمہ کرنے والے اگرمسلمان ہیں تواس فعل کی وجہ سے ان پرکفرلازم آتاہے۔ان پر توبہ و استغفار اور تجدید ایمان و نکاح لازم ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں پر فلمیں بنانا بھی موجب کفرو گناہ ہے کیونکہ کسی غیر صحابی کو صحابی کہنا یا کسی کا اپنے آپ کو صحابی کہنا گویا اجراء نبوت کا قول کرنا ہے۔
ان فلموں میں مسلمان کا اپنے آپ کو نبی کہناکفرہے ۔فتاوی عالمگیری میں ہے: لوقال:أنارسول اللّٰہ،أوقال بالفارسیۃ:من پیغمبرم یرید بہمن پیغام می برم یکفر‘‘یعنی،’’اگر کوئی کہے میں اللہ کا رسول ہوں یا فارسی (یاکسی زبان)میں کہا میں پیغمبر ہوں اورمیرے پاس وحی آتی ہے تویہ کفر ہے ‘‘۔[کتاب السیر، الباب التاسع فی أحکام المرتدین، منھا مایتعلق بالأنبیاء علیھم السلام:،ج:۲،ص:۲۸۵،مطبوعہ،قدیمی کتب خانہ کراچی]۔
کسی دوسرے کو نبی بنانابھی کفر ہے ۔ان پر توبہ و استغفار اور تجدید ایمان و نکاح لازم ہے، اور جو شخص اپنے آپ کو صحابی یا دوسرے کو صحابی کہتا ہے وہ بھی فاسق و فاجر اور مرتکب کفر ہے کیونکہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استہزاء کیا ہے کہ غیر نبی کو نبی کہہ کر اپنے آپ کو صحابی کہا یا دوسرے کو صحابی بنایا۔اس پر بھی توبہ و استغفار کے ساتھ تجدید ایمان و نکاح لازم ہے۔
اس عمل کے ناجائزہونے کی بے شما روجوہات ہیں۔ان میں کچھ درجہ ذیل ہیں:

(۱)انبیاء کرام علیہم السلام کے نفوسِ قدسیہ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ذواتِ مطہرہ جس تکریم اورعظمت وجلال کی حامل ہیں،اس کاتقاضایہ ہے کہ ان مبارک شخصیات کی زندگی کے حالات کوپورے ادب واحترام کے ساتھ پڑھا،سنااورعملی طورپراپنایاجائے۔

اس کے برعکس ان فلموں میں پیشہ ورعام گنہگار انسانوں اوربہروپیوں کو ان مقدس شخصیات کی شکل میں پیش کرکے ان سے مصنوعی نقالی کرائی جاتی ہے۔ حالانکہ انبیاء کرام کی نقالی کفر جبکہ صحابہ کرام کی نقالی فسق ہے۔
 

(۲)ان مقدس شخصیات کا روپ دھارنے والے بہروپیوں کوعامیانہ لہجے میں پکارنا۔(۳)ان کے مخالفین کا کرداراداکرنے والے ایکٹروں کی طرف سے ان پردشنام طرازی کرنا۔(۴)انہیں مجنون۔(۵)شاعر(۶)ساحر(۷)کاہن اور(۸)قصہ گو وغیرہ کے الفاظ سے مخاطب کرنا۔(۹)فلمی ایکٹرز کی شکل وصورت بھی توہین آمیز ہوتی ہے مثلاً:خشخشی داڑھی اور(10)کلین شیو اور(11) بعض ایکٹرزکے سر کے بال اتنے بڑے جیسے عورتوں کے بال ہوتے ہیں وغیرہ تو یہ تمام تر امور ان مقدس شخصیات کی تنقیص وتوہین کے ساتھ ساتھ ان کی پیغمبرانہ،صحابیانہ اور بزرگانہ قدروقیمت کے منافی امور ہیں،غیرت اور حمیتِ ایمانی کے خلاف ہے،کفر کی ترجمانی ہے اوربالآخرنتیجہ کفر ہی نکلتا ہے۔ 

  اور اس فلم کے ناجائز اور حرام ہونے کے لئے ایک بات بھی کافی تھی لیکن مذکورہ فلموں میں تو بے شمار لغویات اور کفریات پائے جاتے ہیں۔
انبیاء کرام علیھم السلام کی پاک طیب طاہر مبارک مقدس زندگی پر فلم سازی کرنا اور فلم میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام یا دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی نقل اتارناانبیاء کرام کا منہ چِڑاناہے اور یہ منصب نبوت ورسالت کی توہین اوراس میں کئی وجوہ سے کفر ہے۔
رسول پاک ﷺ ودیگر انبیاء علیہم السلام واہل بیت اطہار اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی مبارک اور پاکیزہ زندگیوں پر مبنی ایسا شرمناک اور ناقابل قبول مواد شائع کیا جس میں ان مبارک ہستیوں کی تصویریں شائع کی گئیں اور مختلف خبیث الفطرت لوگوں اور کفار کو ان مبارک ہستیوں کے کردار کے طور پر پیش کیاگیاجو سخت گستاخی اور بیباکی اور کفر ہے۔
کتب سیروفقہ میں ہے کہ کسی عالم دین کی نقل بھی بوجہ استھزاء کفر ہے تو انبیاء علیھم السلام اور صحابہ کرام علیھم الرضوان کی نقلیں اتارنا اور ان کی طرح ایکٹنگ کرناگویا ان کا منہ چِڑانا ہے اگرچہ کوئی یہ بھی دعوی کرے کہ میری نیت اچھی ہے تب بھی ناجائز وحرام ہے۔اور اگر نیت میں کہیں بھی ذرا سی بھی تحقیر یا استھزا ء ہوا تو یقینی کفر ہے اور فلم بنانے میں مقصود مال بناناہوتاہے اوراس دوران ہنسی مذاق اور ٹھٹھے و قہقھے ،انجوائے کے نام پر کیسے کسی کی نیت محمود رہ سکتی ہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے’’ وَلَءِن سَأَلْتَہُمْ لَیَقُولُنَّ إِنَّمَا کُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللّہِ وَآیَاتِہِ وَرَسُولِہِ کُنتُمْ تَسْتَہْزِءُونَ‘‘ترجمہ کنز الایمان:اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو ‘‘۔۔[سورۃ التوبہ،آیت:۶۵]۔اس 

آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسر قرآن مفتی نعیم الدین مراد آباد علیہ الرحمہ خزائن العرفان میں لکھتے ہیں’’غزوہ تبوک میں جاتے ہوئے منافقین کے تین نفروں میں سے دو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت تمسخراً کہتے تھے کہ ان کا خیال ہے کہ یہ روم پر غالب آجائیں گے ،کتنا بعید خیال ہے اور ایک نفر بولتا تو نہ تھا مگر ان باتوں کو سن کر ہنستا تھا ۔حضور ﷺ نے ان کو طلب فرماکر ارشاد فرمایا کہ تم ایسا ایسا کہہ رہے تھے انہوں نے کہا ہم راستہ کے لئے ہنسی کھیل کے طور پر دل لگی کی باتیں کر رہے تھے ۔اس پر آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور ان کا یہ عذر وحیلہ قبول نہ کیا گیا اور ان کے لئے یہ فرمایا گیا جو آگے ارشاد ہوتا ہے ‘‘۔[سورۃ التوبہ، آیت:۶۵]۔

ارشاد باری تعالی ہے’’لا تَعْتَذِرُواْ قَدْ کَفَرْتُم بَعْدَ إِیْمَانِکُمْ‘‘ترجمہ کنز الایمان‘‘بہانے نہ بناؤ تم کافر ہو چکے مسلمان ہو کر‘‘اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے:اس آیت سے ثابت ہوا کہ رسولِ کرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کُفر ہے جس طرح بھی ہو اس میں عذر قبول نہیں‘‘۔[سورۃ التوبہ،آیت:۶۶]۔
 

 قرآن مجید فرقان حمید میں ایک اور مقام پر ارشاد رب العزت ہے’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُواْ وَلِلکَافِرِیْنَ عَذَابٌ أَلِیْمٌ ‘‘ترجمہ :اے ایمان والو !راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے درد ناک عذا ب ہے‘‘۔ [البقرۃ،آیت:۱۰۴]۔
 

 مذکورہ آیت کریمہ میں’’َلِلکَافِرِیْنَ‘‘ کی تفسیر میں ہے کہ’’لِلکَافِرِیْنَ‘‘میں اشارہ ہے کہ انبیاء علہھم السلام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے‘‘۔
 

 ذرا غور کیجئے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے بہتر اور شاندار نیت کس کی ہو سکتی ہے جو حضور جان عالم ﷺ کے اشارہ ابروپر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے ہر وقت حاضر رہتے تھے ان سے بڑھ کر کس کی نیت محمود ہو سکتی ہے مگر یہ لفظ سرکار دوعالم ﷺ کے شایان شان نہیں اس لئے حرام قرار دیا گیااور اگر اسی نیتِ یہود پر کہے تو یہ کفر ہے ۔
 

 اس طرح کی فلمیں بنانایہودونصاری کی پیروی کرناہے جنھوں نے اپنے دین کوکھیل کوددبنالیاہے ان کے یہاں انبیاء کرام علیہم السلام اوران کے اصحاب وحواریوں کی تعظیم کاوہ تصورنہیں جوالحمدللہ اسلام نے دیاہے اسی لئے یہ یہودونصاری اپنے انبیاء کرام کی کھلی توہین کرنے کوبھی معیوب نہیں سمجھتے بلکہ فخرسے اسے نام نہادآزادی اظہاررائے کہتے ہیں، اپنے انبیاء کرا م علیہم السلام کی زندگی پرمبنی فلمیں ان لوگوں نے بنائیں جس میں انہوں نے ان انبیاء کی شخصیت کوانتہائی مسخ کرکے پیش کیاجیساکہ یوسف پیمبر،ٹین کمانڈزاوردیگرفلمیں اس کی واضح دلیل ہیں گویاانھوں نے اپنے دین اوردینی رہنماؤں کوبھی تفریح کاذریعہ بنالیا،اورایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی ارشادفرماتاہے :’’الَّذِیْنَ اتَّخَذُواْ دِیْنَہُمْ لَہْواً وَلَعِباً وَغَرَّتْہُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا فَالْیَوْمَ نَنسَاہُمْ کَمَا نَسُواْ لِقَاء یَوْمِہِمْ ہَذَا وَمَا کَانُواْ بِآیَاتِنَا یَجْحَدُونَ‘‘جنھوں نے اپنے دین کوکھیل تماشابنالیااوردنیاکی زندگی نے انھیں فریب دیاتوہم انھیں چھوڑدیں گے جیساکہ انھوں نے اس دن کے ملنے کاخیال چھوڑاتھااورجیساہماری آیتوں کاانکارکرتے تھے‘‘۔[سورۃ الاعراف:۵۱]۔
 

 امام المحدثین قاضی عیاض بن موسی مالکی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ﷺ‘‘ کی تقسیم رابع کے باب اول کی فصل خامس میں امت محمد یہ کا متفقہ مذہب بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :’’پانچویں قسم یہ ہے کہ: قائل کانہ توانبیاء کرام علیہم السلام پرنقص لگانے کاارادہ ہواورنہ ہی ان پرعیب لگانے یاان کوبراکہنے کامقصدہولیکن اس کے کلام میں حضور نبی کریم ﷺکے کسی وصف کاذکرہویاحضور ﷺکے کسی ایسے احوال کابیان ہوجودنیاوی حکم کے مطابق آپ کے لئے جائزہواوراس کایہ ذکرکرناضرب المثل کے طورپرہویااپنے یاکسی دوسرے کوصحیح ثابت کرنے کے لئے بطوردلیل ہویااپنے کسی قول وفعل کوآپ ﷺسے تشبیہ دینے کے لئے ہویااس ظلم ورسوائی کوجواس کوپہنچے انبیاء کرام علیہم السلام کیساتھ روا رکھے گئے ظلم وآزمائش کیساتھ تشبیہ دے اوراس کے اس کلام کامقصدنبی کریم ﷺکی اطاعت نہ ہواورنہ ہی تحقیق کرنامقصودہوبلکہ اس کامقصدیہ ہوکہ اپنے یاکسی دوسرے کے لئے سربلندی حاصل ہو،یاتمثیل دینے میں اپنی فوقیت ظاہرکرنامقصودہواورنبی کریم ﷺکی تعظیم وتوقیرمقصودنہ ہویایہ کلام ہنسی مذاق کے طورہو۔مثلاًکوئی یہ کہے کہ’’ اگرمجھ میں برائی کہی جاتی ہے تویہ بات نبی کریم ﷺمیں بھی کہی گئی ہے‘‘ ۔یایہ کہے ’’ا گرمجھے جھٹلایاگیاہے توکیاہواانبیاء کرام علیہم السلام بھی توجھٹلائے گئے ہیں‘‘۔ یایہ کہے کہ’’ میں لوگوں کی زبانوں سے کیابچوں گا،اس سے توانبیاء ورسل علیہم السلام بھی محفوظ نہ رہے‘‘ ۔
آگے مزیدقاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ کچھ شعراء کی بیباکیاں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فَرّمن الخلد واستجار بنا فصبر اللہ قلب رضوان‘‘
ترجمہ :وہ شخص جنت سے بھاگ کرہماری پناہ میں آگیا پس اللہ رضوان(داروغہ جنت) کے دل کو صبر دے۔
اور جیسے حسان مصیصی کا شعر ہے جو اس نے محمد بن عبادجومعتمدکے نام کیساتھ مشہورہے اور اس کے وزیر ابو بکر بن زیدون کی مدح سرائی میں مبالغہ کرتے ہوئے کہا: ’’کأن ابابکر ابوبکر الرضا.....وحسّان حسّان وانت محمد۔
ترجمہ:گویاکہ تیرا وزیر ابوبکر (بن زیدون)ابوبکر صدیق جوپیکررضاتھے ان کی طرح ہے۔۔۔۔اور(میں شاعر) حسان مصیصی حسان(بن ثابت) کی طرح ہوں جونبی کریم ﷺکی نعت کہاکرتے تھے اورتویعنی محمدبن عباد محمد ﷺکی طرح ہے۔

قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ آگے مزیدتحریر فرماتے ہیں :ہماری اس فصل میں کلام کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جومثالیں ہم نے بیان کی لوگ ان سے بچیں کیونکہ اس طرح کے کلام اگرچہ انبیاء وملائکہ علیہم السلام کی سب وشتم (گالی) پرمشتمل نہیں ہیں لیکن اس طرح کے کلام میں ملائکہ اورانبیاء کرام علیہم السلام کی طرف یک گونہ نقصان ضرورمنسوب کیاگیاہے ۔اس طرح کے کلام میں نہ تومنصب نبوت کی توقیرہے اورنہ ہی مقام رسالت کی تعظیم ہے اس میں نہ تواللہ تعالی کے منتخب کردہ ہستیوں کی حر مت کاخیال رکھاگیاہے اورنہ ہی ان کے بلندمرتبہ شرف کوپیش نظررکھاگیاہے ،دنیاوی مال کے حصول کے لئے ممدوح کوجن کیساتھ چاہا(خواہ وہ نبی ہوں یافرشتے ان کیساتھ )تشبیہ دیدی اوراپنے اوپرآنے والے الزام وعیب کوانبیاء کرام علیہم السلام پرالزام لگانے کیساتھ دورکرنے کی کوشش کی اورایسی تمثیل دیدی جس سے اس کی مجلس خوش ہوجائے یاممدوح کی تعریف میں اس لئے مبالغہ کیاکہ اپناکلام عمدہ ہوجائے اورتمثیل بھی ایسی ہستی کیساتھ دی جن کا اللہ تعالی نے مرتبہ بڑھایاہے اوران کے مقام ومرتبہ کواللہ تعالی نے عزت بخشی اوران کی تعظیم وتوقیراوران کیساتھ اچھاسلوک کرنے کوفرض قراردیااوران کے سامنے اونچابولنے اورآوازبلندکرنے کوحرام قراردیا۔
پس اس طرح کاکلام کرنے والاشخص اگرچہ مستحق قتل نہیں لیکن اس کواس طرح کاکلام کرنے پرسزاضروردی جائے اورقیدمیں رکھاجائے اوردیکھاجائے کہ اس کے کلام کی برائی کتنی ہے اوروہ ایسے کلام کاعادی ہے یاکبھی کبھی بکتاہے اوراس کے کلام کاقرینہ(سیاق وسباق) کیاہے اوراپنے کہے پرنادم ہوتاہے یانہیں ،پس ان تمام باتوں کی روشنی میں اس کے حسب حال اس کوسخت سزادی جائے ‘‘۔[الشفا بتعریف حقوق المصطفی، ج:۲،ص:۱۴۶،مکتبہ روضۃ القرآن پشاور]۔
 

 بعینہ یہ تمام صورتحال مذکورہ مسئلہ میں ہے جس میں ایسے ٹیلی ویژن نیٹ ورک کاواضح مقصدمال کمانا اورسستی شہرت کا حصول ہے ،اوریہ فلمیں دکھاناانبیاء علیھم السلام وصحابہ کرام واہلبیت اطہار علیہم الرضوان کی شان میں نقصان اور ان کی وہ عظمتیں اور عزتیں جن کا ہمیں شریعت مطہرہ نے پاس رکھنے کا ہمیشہ حکم دے کر انہیں جان ایمان قرار دیا ۔ان عظیم ہستیوں کی شان ومحبت کو مسلمانان عالم کے دلوں سے نکال باہر کرنے کی خطرناک سازش ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگراس چیز پر روک نہ لگائی گئی تو معاذ اللہ اگلامرحلہ یہ ہوگاکہ ان عظیم ہستیوں کی تصاویر عید کارڈوں پر چھپنے لگیں گی ،اوران مقدس ہستیوں کی اینی میٹیڈ(کارٹون)فلمیں بھی بننے لگیں گی ۔
ایسے ٹی وی چینل کی انتظامیہ پرفرض ہے کہ اس طرح کی فلمیں جس سے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے دکھانابندکرے اوراعلانیہ طورپراس کی معافی بھی مانگے اوراللہ تعالی کی بارگاہ میں سچی توبہ بھی کرے اور اپنے قبلہ کو درست کر لیں اور اپنے مذموم افعال واقوال وکردارسے باز آجائیں بصورت دیگر تمام عالم اسلام پر لازم کہ ان کے خلاف ہرممکن قانونی چارہ جوئی کی جائے اوراس نیٹ ورک اور اس مذموم سازش میں شریک لوگوں کو قرار واقعی سزادی جائے ۔

ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمان اس بات پر شاہد ہیں اور ان کے دل یہ گواہی دے رہے ہیں کہ فلم دی میسج ،ٹین کمانڈزاور ڈرامہ تمثیل حیات طیبہ ضرور بالضرور ان عظیم ہستیوں کی شان میں نقصان اور منصب نبوت ورسالت کی توہین اور خود انبیاء کرام علیھم السلام کی سخت گستاخی اور کفر ہے۔ اور لوگ ان بیہود ہ لوگوں کو ان مقدس ہستیوں کے روپ میں دیکھ کر دو حال سے خالی نہیں ہوں گے سمجھ دار اور علم والے لوگ یقیناًبیزار ہونگے اور سادہ لوح لوگ ان اداکاروں کو مقدس یا نبی یا صحابی سمجھیں گے جو خودایک بہت بڑے فتنے میں ڈالنا ہے کہ غیر نبی کو نبی سمجھناکفر ہے الامان والحفیظ :اللہ عزوجل عقل سلیم عطاء فرمائے اگر انہیں عقل آئے اور توفیقِ توبہ ہو تو ٹھیک ورنہ مسلمان اپنی اپنی بساط کے مطابق ان کے خلاف ہرممکن قانونی واخلاقی اوراحتجاجی جدوجہد شروع کریں اور ایسوں کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔ھذا ماعندی واللہ اعلم

Tuesday 23 July 2013

روزہ میں ٹوتھ پیسٹ کرنے کا شرعی حکم

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ روزہ کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کرناکیساہے؟

 سائل:شاہدنواز،تخصص فی الفقہ الاسلامی سال اول،جامعہ نعیمیہ کراچی

                              بسم اللہ الرحمن الرحیم

            الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

روزہ کی حالت میں کسی طرح کا ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا اگرچہ اس کا کوئی ذرہ حلق میں نہ جائے مکروہ ہے کہ روزے کی حالت میں بلاعذرکوئی چیزمنہ میں رکھنامکروہ ہے۔ہاں اگر اس کاکوئی ذرہ حلق میں چلا گیااور اس کا ذائقہ بھی حلق میں پایا گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

 مفتی جلال الدین احمد امجدی فرماتے ہیں’’حالت روزہ میں کسی طرح کا منجن یا کول گیٹ وغیرہ کا استعمال بلاضرورت صحیحہ مکروہ ہے ...اگر اس کا کچھ حصہ حلق میں چلاگیا اور حلق میں اس کا مزہ محسوس ہوا تو روزہ جاتارہا مگر اس صورت میں صرف قضا واجب ہو گی کفارہ نہیں ۔

 رد المحتار جلد دوم ص ۹۸میں ہے ’’اکل مثل سمسمۃ من خارج یفطر الا مضغ بحیث تلا شت فی فمہ الا ان یجد الطعم فی حلقہ‘‘ حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ’’ غلطی سے پانی وغیرہ کو ئی چیز حلق میں چلی گئی تو صرف قضا واجب ہو گی ‘‘۔[فتاوٰی فیض الرسو ل، ج:۳ ،ص: ۳۱۴،مطبوعہ: شبیر برادرزلاہور]۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم

Friday 19 July 2013

جس کے ذمہ قضاء نمازیں ہوں وہ نوافل پڑھ سکتا ہے؟

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ سنا ہے کہ جب قضاء نمازیں ذمے میں ہوں تو نفل نماز قبول نہیں ہوتی ۔کیا نماز اوابین ،چاشت، اشراق و توبہ وغیرہ کی جگہ قضاء عمری ادا کریںیا نوافل ادا کریں؟
                                  سائل:اللہ بخش مظہری،جامعۃ المصطفیٰ ،کراچی
                                   بسم اللہ الرحمن الرحیم
                    الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب

ایسا مضمون ایک حدیث مبارک میں وارد ہے لیکن اس حدیث کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ 

چنانچہ ملا علی قاری علیہ رحمۃ الباری فرماتے ہیں ، ’’ واما خبر لا تقبل نافلۃ المصلی حتی یؤدی الفریضۃ فضعیف ‘‘ [ مرقاۃ المفاتیح ج۳ ص ۴۲۲ ] ترجمہ، ’’ یہ روایت کہ نمازی کے نفل قبول نہیں ہوتے یہانتک کہ وہ اپنے فرائض ادا کرے‘ ضعیف ہے ‘‘۔

 صحیح حدیث میں وارد ہے جسے امام ترمذی نے اپنی جامع میں ج۱ ص ۵۵ اور امام ابو داؤد نے اپنی سنن ج۱ ص ۲۷۱ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم رؤف رحیم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ بندے کا وہ عمل جس کا قیامت کے دن سب سے پہلے حساب ہوگا وہ اسکی نماز ہے اگر نماز ٹھیک ہوگی تو وہ بندہ کامیاب ہوگیا اور نجات پاگیا اور اگر نماز بگڑگئی تو محروم رہ گیا اور نقصان پاگیا اگر بندے کے فرض میں کمی ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، ’’ دیکھو کیا میرے بندے کے پاس کچھ نفل ہیں ان سے فرض کی کمی پوری کردی جائے گی ‘‘ پھر بقیہ اعمال اسی طرح ہوں گے اورایک روایت میں ہے کہ پھر زکوٰۃ اسی طرح ہے پھر دوسرے اعمال اسی طرح کئے جائیں گے ‘‘۔ ( مشکوٰۃ ص ۱۱۷ )۔

 علامہ حافظ ابن العربی المالکی علیہ الرحمۃ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں ، ’’ یحتمل ان یکون یکمل لہ ما نقص من فرض الصلوٰۃ و اعدادھا بفضل التطوع و یحتمل اما نقصہ من الخضوع والاول عندی اظہر لقولہ ﷺ ثم الزکاۃ کذالک و سائر الاعمال و لیس فی الزکاۃ الا فرض او فضل ، فکما یکمل فرض الزکوٰۃ بفضلھا کذالک الصلاۃ ‘‘ ( عارضۃ الاحوذی ج۱ ص ۴۲۱ ) (ترجمہ ) ’’ اس میں یہ احتمال ہے کہ مکمل کیا جائے گا جو فرض نماز اور اسکی تعداد میں کمی ہوگی نوافل کے ساتھ اور یہ بھی احتمال ہے کہ جو کچھ خشوع میں کمی ہو وہ پوری کی جائے گی اور پہلی بات میرے نزدیک زیادہ ظاہر ہے سرکار ﷺ کے فرمانے کی وجہ سے کہ پھر زکوٰۃ اسی طرح پھر بقیہ اعمال اور زکاۃ یا تو فرض ہے یا نفلی ( صدقہ ) پس جیسے فرض زکوٰۃ نفلی صدقہ سے پوری کی جائے گی ایسے ہی نماز کا بھی معاملہ ہے ‘‘۔

 اسی قسم کا قول ترمذی کے حاشیے ص ۶۶ پر شیخ عزالدین بن عبد السلام ملک العلماء سے بھی نقل کیا گیا ۔ علامہ عراقی شرح الترمذی میں فرماتے ہیں ، ’’ ھذاالذی و رد من اکمال ما ینتقص العبد من الفریضۃ بما لہ من التطوع یحتمل ان یراد بہ ما انتقص من السنن و الھیئات المشروعۃ المرغب فیھا من الخشوع والاذکار و الادعیۃ و انہ یحصل لہ ثواب ذالک فی الفریضۃ و ان لم یفعلہ فی الفریضۃ و انما فعلہ فی التطوع ، و یحتمل ان یراد ما ترک من الفرائض رأسا فلم یصلہ فیعوض عنہ من التطوع ، واﷲ تعالیٰ یقبل من التطوعات الصحیحۃ عوضا عن الصلاۃ المفروضۃ واﷲسبحانہ یفعل ما شاء فلہ الفضل والمن بل لہ ان یسامح وان لم یصل شیئا لا فریضۃ ولا نفلاً ( عون المعبود ج۳ ص ۸۸ ) خلاصہ گذرچکا ۔

ترمذی کے حاشیے ص ۵۵ پر یہ روایت منقول ہے کہ سات سو نفل ایک فرض کے برابر ہوں گے ۔ یہ تو بات نفل کے قبول ہونے کی تھی لیکن جس کے ذمے قضاء نمازیں ہوں اسے نوافل ، تہجد ، اوابین ، چاشت اشراق وغیرہ میں قضاء عمری پڑھنی چاہئیں کہ فرض نماز کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا نوافل کے بارے میں نہیں اور قضاء عمری ان نوافل کی جگہ پڑھتے ہوئے ا گر اسکی نیت یہ ہو کہ اگر یہ قضا نمازیں نہ ہوتیں تو میں نوافل پڑھتا تو ان شاء اللہ عزوجل اُسے نوافل کا بھی ثواب ملے گا کہ انما الاعمال بالنیات ولکل امری مانوی ۔اور حدیث پاک میں ہے نیۃ المومن خیر من عملہ کہ مومن کی نیت اسکے عمل سے بہتر ہے ۔ امام اہلسنت اعلٰحضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں ، ’’ خالی نفلوں کی جگہ بھی قضائے عمری پڑھے ‘‘ ( فتاوی رضویہ ج۳ ص ۶۲۲ )۔

صدقہ فطرہ کس کس پر لازم ہے .....

کیا فر ماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ درمیانے طبقے کے لوگوں پر کم از کم کتنا صدقہ فطر واجب ہے ؟
                                                           سائل : انیس امین ،کراچی

                                      بسم اللہ الرحمن الرحیم
                  الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃالحق والصواب
صدقہ فطر ہر مسلمان ،آزاد اورمالک نصاب پراپنی اوراپنی نابالغ اولادکی طرف سے واجب ہے ۔ حدیث پاک میں ہے’’ عن ابن عباس قا ل فرض رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زکوۃ الفطر طہر الصیام من اللغووالرفث وطعمۃللمساکین‘‘ یعنی،’’حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہے کہ حضور سیددو عالم ﷺنے صدقہ فطرکوواجب فرمایاروزوں کو بیہودگی اور فحش سے پا ک کرنے اور مسکینوں کو کھانا دینے کیلئے‘‘۔[مشکوۃالمصابیح،کتاب الزکوۃ،باب صدقۃالفطر،فصل الثانی،ص۱۶۲]۔

اس حدیث پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں ’’فطرہ واجب کرنے کی دوحکمتیں ہیں ایک روزہ دار کے روزوں کی کوتاہیوں کی معافی اکثر روزے میں غصہ بڑھ جاتا ہے تو بلاوجہ لڑپڑ تا کبھی جھوٹ غیبت وغیرہ بھی ہوجاتے ہیں رب تعالی اس فطرہ کی برکت سے وہ کوتاہیاں معاف کردیگا کہ نیکیوں سے گناہ معاف ہوتے ہیں ،دوسرے کہ مسکین کی روزی کا انتظام ‘‘۔[مرآۃالمناجیح شرح کتاب المصابیح،ج۳،کتاب الزکوۃ ،باب صدقہ فطر ،فصل ۲،ص ۵۷]۔
صدقہ فطر فی آدمی نصف صاع یعنی دو کلو گندم یا آٹایا ان کی قیمت سے ادا کر نا واجب ہے ۔تنویر الابصار میں ہے ’’نصف صاع من بر او دقیقہ او سویقہ ‘‘یعنی ،’’ نصف صاع (دوکلو )گندم یا آٹایا گند م کا ستو(یا اس کی قیمت ) کے حساب سے (ادا کر نا واجب ہے )‘‘۔[تنویرالابصار ،کتاب الزکوٰۃ، باب صدقۃ الفطر ،ج۳، ص ۳۱۸،مطبو عہ مکتبہ امدادیہ ملتان ]۔

 صدقہ فطر عید کے دن صبح صادق ہوتے ہی امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللہ تعالی علیہ کے نزدیک واجب ہوجاتاہے کہ عالمگیری میں ہے ’’ووقت الوجوب بعد طلوع الفجر الثانی من یوم الفطر ‘‘یعنی ،عید کے دن صبح صادق ہونے کے بعد واجب ہوتاہے [الفتاوی العالمگیریہ ،کتاب الزکوۃ ،باب صدقۃالفطر،ج۱،ص۲۱۱،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔
اوراداکرنے کا مستحب وقت طلوع فجر کے بعد سے لے کر نماز عید ادا کر نے کیلئے جانے تک ہے’’ والمستحب للناس ان یخرجو ا الفطرۃ بعد طلوع الفجریو م الفطر قبل الخروج الی المصلی کذا فی الجوہرۃالنیرۃ‘‘یعنی ،جوہر نیرہ کے حوالہ سے عالمگیر ی میں ہے’’مستحب ہے لوگوں کیلئے کہ عید کے دن طلوع فجر بعد نماز عید کے لئے جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کریں ۔ [الفتاوی العالمگیریہ ،کتاب الزکوۃ ،باب صدقۃالفطر،ج۱،ص۲۱۱،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم

Monday 15 July 2013

روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینا

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ روزے کی حالت میں بیوی سے بوس وکنار کس حد تک جائز ہے ؟ اگر بغیر دخول کے انزال ہو جائے تو اس سے روزے کی صحت پر کیا اثر پڑے گا ؟برائے مہربانی تفصیل سے جواب عنائت فرمائیں۔

                                              سائل : محمد عقیل ،کراچی
                                 بسم اللہ الرحمن الرحیم
                   الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
 

 جس شخص کو اپنے نفس پر مکمل بھروسہ ہو کہ حالت روزہ میں اپنی بیوی سے بوس وکنارکرنے یا گلے سے ملنے کے سبب انزال یاجماع(ہمبستری )میں مُبتلا نہیں ہوگا اس کے لیے روزے کے دوران ایسا کرنا جائز ہے اور جسے اس بات کا خطرہ ہو کہ ایسا کرنے سے جماع میں مبتلا ہو جائے گا اس کے لیے یہ افعال کرنا مکروہ تحریمی ہے اگرجماع میں مبتلا ہونے کایقین ہو توپھر یہ افعال کرنا حرام ہے ۔اور اگر بغیر دخول کے محض بوسہ لینے سے انزال ہو گیا تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس روزے کی قضا ء لازم ہوجائیگی نیز اس گناہ کے سبب توبہ کرنی بھی لازم ہوگی۔ 

ھدایۃ شرح بدایۃ المبتدی میں ہے ’’ولابأس بالقبلۃ اذا امن علی نفسہ ای الجماع اوالانزال ویکرہ اذا لم یأمن لان عینہ لیس بمفطر وربما یصیر فطرا بعاقبتہ فان امن یعتبر عینہ وابیح لہ ،وان لم یأمن تعتبر عاقبتہ وکرہ لہ ‘‘یعنی ’’روزے دار کو جب اپنے نفس پراعتماد ہو کہ وہ جماع (ہمبستری)یاانزال میں مبتلانہیں ہوگا تو تو بوس وکنار میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگراس کو خود پر اعتماد نہ ہو تو پھر یہ افعال مکروہ ہیں کیونکہ محض بوس وکنار روزے کو توڑنے کے اسباب میں سے نہیں ہیں لیکن بسااوقات اپنے انجام(ہمبستری یا انزال)کی وجہ سے روزہ توڑنے کا سبب ضرور بن جاتے ہیں تو اگر کسی کو ایسے انجام سے امن ہو تو اصل حکم کا اعتبار ہوگا اور اس کے لیے بوس وکنارجائز ہوگا اور اگر امن نہ ہو تو پھر ممکنہ خراب انجام کا اعتبار کرتے ہوئے مکروہ کا حکم لگے گا ‘‘۔[ھدایہ علی ھامش فتح القدیر،ج:۲ ص:۳۳۵،مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ ]۔
 

 اورحالت روزہ میں اِنزال کے بارے میں امام برھان الدین علی بن ابی بکرالمرغینانی فرماتے ہیں:’’وان انزل بقبلۃ أو لمس فعلیہ القضاء دون الکفارۃلوجود معنی الجماع ووجودالمنافی صورۃ او معنی یکفی لایجاب القضاء احتیاطا‘‘یعنی’’اگرروزے دار نے شہوت سے کسی کا بوسہ لیا یا چھُواور اس کو انزال ہو گیاتواُس پر اِس روزے کی قضاء لازم ہے کفارہ نہیں (اور قضاء لازم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ )جماع کا معنیٰ (شہوت کو پورا کرنا )پایا گیا ہے اور(روزے کا) منافی(یعنی جماع) کاپایا جا نا صورۃَ(باقاعدہ ہمبستری کرنے کے طور پر ہو )َہو یا معنیََ(انزال کے ذریعے شہوت کو پورا کرنے کے طورپر ہو ) روزے کی قضاء کو واجب کرنے کے لیے کافی ہے ‘‘۔[المرجع السابق]۔واللہ تعالی اعلم

ایک رمضان کی کئی روزے توڑ دیئے تو ایک کفارہ کافی ہے؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک روزہ توڑا یا ایک سے زائد روزے توڑے تو کیا ایک کفارہ دینا کفایت کرجائے گا یا ہر روزے کا الگ کفارہ دینا ہوگا اور اگر متعدد قسمیں توڑی ہیں تو اس کا بھی وہی حکم ہے ؟

                                                                سائل:عبداللہ ،کریم آباد کراچی
                                  بسم اللہ الرحمن الرحیم
                  الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
 

 اگر ایک سے زائد روزے اس طرح توڑے کہ ان میں کفارہ بھی واجب ہوا ہے تو اگر وہ ایک ہی رمضان کے روزے ہیں اور انکا ابھی تک کفارہ بھی اد ا نہیں کیا ہے جب تو ایک ہی کفارہ دینا کافی ہوگا اور اگر یہ روزے دو الگ رمضان کے ہیں تو ہر رمضان کے روزوں کا الگ کفارہ دینا ہوگا۔

البحر الرائق میں ہے ’’ لو جامع مرارا فی ایام من رمضان واحد لم یکفرکان علیہ کفارۃواحدۃ لانھا شرعت للزجر وھو یحصل بواحدۃ فلو جامع و کفر ثم جامع مرۃ اخری فعلیہ کفارۃ اخری فی ظاھر الروایۃللعلم بان الزجرلم یحصل بالاول ولو جامع فی رمضانین فعلیہ کفارتان وان لم یکفر للاولی فی ظاھر الروایۃ وھوالصحیح ‘‘یعنی اگر کسی نے ایک رمضان میں کئی دن جماع کیا اور اس نے کفارہ ادا نہیں کیا ہے تو اس پر ایک کفارہ ہے کیونکہ کفارہ زجر وتوبیخ کے لئے رکھا گیا ہے اور یہ ایک کفارہ سے حاصل ہوجائے گا اوراگر کسی نے جماع کیا اور کفارہ دیا پھر اس نے دوسری مرتبہ جماع کیا تو اس پرایک اور کفارہ ہے کیونکہ یہ یقین ہو گیا ہے کہ پہلے کفارے سے زجر حاصل نہیں ہوا ہے اور اگر اس نے دو رمضانوں میں جماع کیا تو اس پر دو کفارے ہیں اگر چہ اس نے پہلے کا کفارہ ادا نہ کیا ہو یہی ظاہر الروایہ اور صحیح قول ہے ‘‘[البحر الرائق جلد ۲ صفحہ۴۸۴مکتبہ رشیدیہ ]اور ایسا ہی ردالمحتارجلد ۳ صفحہ ۳۹۱مکتبہ امدادیہ اور بہار شریعت جلد اول صفحہ۳۸۴مکتبہ رضویہ کراچی پر موجود ہے ۔۔۔
 

 اگر ایک سے زائد قسم توڑی تو ہر قسم کا الگ کفارہ دینا ہوگا ۔ بہار شریعت میں ہے کہ’’ اگر کسی کام کی چند قسمیں کھائیں اور اس کے خلاف کیا تو جتنی قسمیں ہیں اتنے ہی کفارے لازم ہونگے‘‘[ بہار شریعت جلد اول صفحہ۶۲۸مکتبہ رضویہ کراچی] ۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم

Friday 12 July 2013

کیاانجکشن یا ڈرپ لگوانے سے روذہ ٹوٹ جاتا ہے؟

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ حالت روزہ میں انجکشن یا ڈرپ لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں۔؟
                                  سائل:غلام مرتضیٰ ،جامع مسجد، جنیجوٹاؤن کراچی
                                     بسم اللہ الرحمن الرحیم
                     الجواب بعون الوھا ب اللھم ھدایۃ الحق الصواب

 روزہ کی حالت میں انجکشن یاڈرپ لگوانے سے جمہور علماء کے نزدیک روزہ نہیں ٹوٹتا ہے مگر بلا ضرورت انجکشن اور ڈرپ لگوانے سے احتراز کیا جائے اس بارے میں ضابطہ کلیہ یہ ہے کہ جماع اور اسکے ملحقات کے علاوہ روزہ کو توڑنے والی صرف وہ دوا اور غذا ہے جو مسامات اور رگوں کے علاوہ کسی منفذ سے دماغ یا پیٹ تک پہنچے ۔

 درمختار میں ہے والضابط وصول ما فیہ صلاح بدنہ بجوفہ (درمختار مع ردالمحتار ج ۳ ص ۱۶ )

 ردالمحتار میں ہے ’’ المفطر انما ھو الداخل من المنافذ یعنی روز ہ اس چیز سے ٹوٹے گا جو منفذ سے داخل کی جائے‘‘۔ [رد المحتار،کتاب الصوم،باب مایفسد الصوم ومالا یفسد ج ۳ ص۷ ۳۶مکتبہ امدادیہ ملتان ]۔
 

 لہذا نجکشن یا ڈرپ کے ذریعے جو دوا پہنچائی جاتی ہے وہ منفذ سے نہیں بلکہ رگوں سے پہنچائی جا تی ہے اس لئے اس سے روزہ نہیں جاتا۔واللہ تعالی اعلم

 

Thursday 11 July 2013

رمضان المبارک کے تینوں عشروں کی دُعا

پہلے عشرے کی دعا۔

: رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ۔
 

ترجمہ :اے میرے رب مجھے بخشش دے مجھ پر رحم فرما،توسب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔
 

دوسرے عشرے کی دعا۔

:اَسْتَغفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہ۔ِ
 

ترجمہ:میں اللہ سے تما م گناہوں کی بخشش مانگتا/مانگتی ہوں جو میرا رب ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا /کرتی ہوں۔
 

تیسرے عشرے کی دعا۔

:اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوُّٗا تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْفُ عَنَّا۔
 

ترجمہ:اے اللہ بے شک تو معاف کرنے والاہے معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس ہمیں معاف فرمادے۔
 

اس کے ساتھ کثرت سے لاالہ الا اللہ کا ذکر کریں کہ یہ افضل الذکر ہے ۔۔اورالحمد اللہ کہ یہ افضل الدعا ہے اور اول آخر بے شمار درود پاک پڑھیں ۔

 طالب دعا:غلام مرتضیٰ مظہری,خصوصی دُعاوں کی درخواست ہے۔

Wednesday 10 July 2013

سانس /دمہ کے مریض کاروزہ کی حالت میں انہیلراور آکسیجن لینے کا شرعی حکم

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ سانس کی مریضہ ہوں میں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق دن میں تین دفعہ انہیلر استعمال کرتی ہوں جب کبھی کبھار طبیعت زیادہ خراب ہونے لگتی ہے توآرٹیفشل آکسیجن لینی پڑتی ہے ۔میں رمضان کے روزے رکھنا چاہتی ہوں ڈاکٹر سے پوچھا تو انہوں نے آپ روزے رکھ سکتی ہیں اگر ضرورت پڑے تو آکسیجن اور انہیلر لے سکتی ہیں ۔آپ سے اس بارے میں پوچھنا تھا کہ میری شرعی رہنمائی فرمائیں روزے کے دوران آکسیجن اور انہیلر کا استعمال جائز ہے یانہیں؟
                                     سائلہ: زوجہ طارق انوار،سوسائٹی آفس کراچی
                            بسم اللہ الرحمن الرحیم
             الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
صورت مسؤلہ میں روزہ کی حالت میںآکسیجن کے استعمال سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ وہ وہی کچھ ہے جو انسان اپنے پھپھڑوں کی مدد سے فضاسے اندر لے جاتا ہے اور پھپھڑوں کی کمزوری کی وجہ سے آکسیجن کا استعمال کرنا پڑتا ہے ۔اور روزہ کی حالت میں انہیلر کا استعمال کرنا پڑے تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ کیونکہ انہیلر میں دوائی کے ذرات ہوتے ہیں جس کے ذریعے مریض کے پھیپھڑوں کے اندروہ دوا پہنچائی جا تی ہے جس کی وجہ سے وہ مریض آسانی سے سانس لینا شروع کردیتا ہے ۔
طحطاوی علی المراقی میں ہے ’’أودخل حلقہ غبار،ا لتعقید بالدخول الاحتراز عن الادخال ولھذاصرّحوا بانّ الاحتواء علی المبخرۃمفسد‘‘یعنی،’’ہواداخل ہوئی اس کے حلق میں ،داخل ہو نے کی قید لگائی احترا ز ہے داخل کرنے سے اسی لئے فقہائے کرام نے اس کی تصریح کی ہے کہ خوشبو داربھاپ کواندر لے جاناروزے کو توڑدیتا ہے ‘‘۔[حاشیہ طحطاوی علی المراقی،کتا ب الصوم ، باب فی بیان ما لایفسد الصوم،ص: ۶۶۱،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ]۔
اورجب مریض کا مرض اس قدر بڑھ جائے کہ وہ ایک پورے روزے کا وقت انہیلراستعمال کئے بغیر نہیں گزار سکتا تو وہ معذور شرعی ہے اس پر عذر کی وجہ سے روزہ نہیں بلکہ وہ اپنے روزے کا فدیہ ادا کریگا۔
مفتی اعظم پاکستا ن مفتی محمد منیب الرحمٰن صاحب مدظلہ العالی لکھتے ہیں ’’ڈاکٹر صاحبا ن سے ہم نے ا س سلسلے میں جو معلومات حاصل کی ہے ان کے مطابق سانس کے مریض کے پھیپھڑے سکڑجاتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں سانس لینے میں تکلیف اور دشواری محسوس ہوتی ہے انہیلرکے ذریعے ایسے کیمیکلزگیس یا ما ئع بوندوں کی شکل میں ان کے پھیپھڑے میں پہنچتے ہیں جن کی بنا پر ان کے پھیپھڑے کھل جاتے ہیں اور وہ دوبا رہ آسانی سے سانس لینے لگتاہے تو چونکہ مریض کے بدن کے اندرایک مادی چیز جاتی ہے لہذا اس کا روزہ ٹوٹ جا تا ہے اور اگر مرض اس درجے کا ہے کہ پورے روزے کا وقت انہیلر کے استعمال کے بغیر مریض کے لئے گزارنا مشکل ہے تو پھر وہ معذور ہے بربنا ء عذرو بیماری روزہ نہ رکھے اور فدیہ ادا کرے‘‘۔[تفہیم المسائل، ج۲،ص۱۹۰،مطبوعہ ضیا ء القرآن ] ۔
اگرآپ دن میں انہیلر استعمال کیے بغیرنہیں رہ سکتی اور آئندہ بھی صحتیابی کی کوئی امید نہیں ہے تو آپ معذور شرعی ہیں آپ کوروزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور ہر روزہ کے بدلے میں صدقہ فطر(دوکلوآٹایااس کی قیمت) کی مقدار فدیہ دینا لازم ہے۔
اور اگر فدیہ دینے کے بعد اللہ تعالی نے صحت عطاء فرمائی کہ روزہ رکھنے کے قابل ہوگئیں تو آپ کا دیا ہوا فدیہ نفل ہو جائے گا اور آپ کو روزے رکھنا ہوں گے۔ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں ’’اگر فدیہ دینے کے بعد اتنی طاقت آگئی کہ روزہ رکھ سکے تو فدیہ صدقہ نفل ہو کررہ گیا ان روزوں کی قضا رکھے ‘‘۔ [بہار شریعت ،ج۱،حصہ ۵، ص۳۸۸، مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی]۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آکسیجن کے استعمال سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا جبکہ انہیلرکے استعمال کرنے سے روز ٹوٹ جاتا ہے اگر آپ کی حالت ایسی ہو کہ کوئی دن انہیلر کے استعمال کے بغیر نہیں گزرتا تو آپ کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور ہر روزہ کے بدلے میں صدقہ فطر کی مقدار(دوکلوآٹایااس کی قیمت) فدیہ دے دیں۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم 

طالب دُعا: غلام مرتضی مظہری

Monday 8 July 2013

رمضان المبارک کے دنوں میں بے روزہ مزدورں کودن میں کھانا دینا

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اِس مسئلہ کے بارے میں کہ بیکری میں کام کرنے والے کاریگرکام کی شدت کی بناء پر روزہ نہیں رکھتے یا نہیں رکھ سکتے جسکی وجہ سے دوپہر میں اپنے معمول کی رُوٹین کے مطابق کھاناکھاتے ہیں معلوم یہ کرنا ہے کہ بیکری کے مالک کے لیے ان کو طبعی ضرورت کی بناء پر کھانا فراہم کرناجائز ہے یانہیں ؟

                                                             سائل : نعمان Geo tvکراچی۔
                                بسم اللہ الرحمن الرحیم
               الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
بیکری کے مالک کا اپنے یہاں کام کرنے والے کاریگروں کوروزہ نہ رکھنے کی بناء پر رمضان کے دنوں میں کھلاناپلانا گناہ پر تعاون ہونے کی وجہ سے ناجائزہے۔کیونکہ کا ریگروں کے لیے فقط اِ س عذ ر کی بناء پر’’ کہ کام بہت سخت ہے جس کی وجہ سے روزہ رکھا نہیں جاسکتا ‘‘روزہ چھوڑناہر گز جائز نہیں ہے.

 بالغ مسلمانوں کے لیے روزہ چھوڑنے کے اعذا ر جو قرآن نے بیان کیے ہیں وہ تین ہیں ۔ ۱؂ مریض ہونا ۲؂ مسافرہونا ۳؂ شیخ فانی ہونا۔ ان میں سے شیخ فانی کو تو روزہ ترک کرنے کی مستقل اجازت ہوتی ہے کہ اگر مال ہے تو روزے کی بجائے فدیہ ادا کردے اگر وہ بھی نہیں تو استغفار کرے جبکہ مریض اور مسافر کو وقتی طور پر رخصت ملتی ہے بعد میں روزے کی قضاء کرناان کے لیے بھی فرض ہے اِن اعذارکے علاوہ کسی حالت میں روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے.

 اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالیشان ہے : فَمَن کَانَ مِنکُم مَّرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَیْْراً فَہُوَ خَیْْرٌ لَّہُ وَأَن تَصُومُواْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ ۔ ترجمہ کنزالایمان ’’تو تم میں کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھاناپھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اُس کے لیے زیادہ بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو‘‘۔[سورۃالبقرۃ آیت :۱۸۴ پ:۲ ].

 ان کے علاوہ وُہ لوگ کہ جنہیں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے مثلاََحاملہ ، مُرضِعہ(بچے کو دودھ پلانے والی) ،حائضہ ،نفساء یہ سب مرض والے عذر کے تحت داخل ہیں کہ حائضہ اور نفساء تواس دوران روزہ رکھنے کی اہل ہی نہیں ہیں لہٰذا بعد میں رکھیں گی جبکہ حاملہ اور مرضعہ(بچے کو دودھ پلانے والی) کو اپنی یا بچے کی جان پر خطرہ ہو نے کی وجہ سے وقتی طور پر رخصت ملتی ہے لیکن بعد میں روزے کی قضاء کرناان کے لیے بھی فرض ہے جبکہ مستقل پاگل ،نابالغ اور مجذوب پر تو روزہ فرض ہی نہیں ہے کیونکہ وہ مکلف ہی نہیں ہیں۔
 

خلاصہ کلام یہ کہ بیکری کے کاریگروں ،حلوائیوں ،فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں ،روڈ پر چلچلاتی گرمی میں کام کرنے والوں وامثالھممیں سے کسی کے لیے بھی اپنے کام کی شدت کی بناء پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے اور اگر ان میں سے کسی نے بھی صرف اِس عذر کی بناء پر روزہ ترک کیا تو اُس نے فعلِ حرام کا ارتکاب کیا ۔

فتاوٰی عالمگیری میں ہے’’ المحترف المحتاج الی نفقتہ علم انہ لو اشتغل بحرفتہ یلحقہ ضرر مبیح للفطریحرم علیہ الفطرقبل ان یمرض کذا فی القنیۃ ‘ ‘محنت ومزدوری کرنے والا جو اپنے لیے نفقہ کا محتاج ہو اس نے جانا کہ اگر وہ پیشے میں مشغول ہوا تو اُسے ایسا ضرر (نقصان دینے والی چیز )لاحق ہو جائے گا جس کی وجہ سے روزہ چھوڑناجائز ہوجائے گا ،تو مرض میں مبتلا ہونے سے پہلے اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے اسی طرح ’ قنیہ‘میں ہے۔ [فتاوی عالمگیری :ج،۱ ص:۲۲۹ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔

نیز یہ بھی یاد رہے کہ جس طرح رمضان کے مہینے میں دن کے اوقات میں صحتمنداور مقیم مسلمان کے لیے روزہ رکھنا فرض ہے اسی طرح ماہ رمضان میں دن کے اوقات میں اِن کے لیے ان ایّام کی حُرمت کے پیشِ نظر کھاناپینا بھی حرام ہے چاہے روزہ ہو یا نہ ہو۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ چھوڑدے تواُس کے لیے روزہ خور ہونے کے سبب کھانا پینا جائز نہیں ہوجاتا بلکہ وقت کی حُرمت کے پیشِ نظر حرام ہی رہتا ہے کیونکہ رمضان کا روزہ نفلی روزے کی مثل اختیاری نہیں کہ جو چاہے رکھے اور جو چاہے نہ رکھے بلکہ یہ تو اِجباری (لازمی)ہے کہ شرعی عذر کے بغیر رمضان کے دنوں میں کھانا پینا کسی کے لیے بھی جائز نہیں حتّیٰ کے وہ لوگ جنہیں شریعتِ مطہرہ نے شرعی اعذار یا اہلیّت کے نہ ہونے کے سبب روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے ان کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ اگر دن کے اوقات میں اُن کے اعذار ختم ہو جائیں یااُن میں روزہ رکھنے کی اہلیّت پیدا ہوجائے تو ان پر بھی لازم ہے کہ انعدامِ عذر کے بعد کھانا پینا قطعََا چھوڑ دیں اور روزہ دار نہ ہونے کے باوجودحُرمتِ رمضان کی وجہ سے بقیہ وقت روزہ داروں کی طرح گزاریں ۔
ھدایۃ شرح بدایۃالمبتدی میں ہے’’ واذا بلغ الصبی أو اسلم الکافر فی رمضان أمسکا بقیّۃ یومھما قضاءََ لحق ا لوقت بالتشبہ‘‘یعنی’’اور جب بچہ ماہِ رمضان میں( دن کے وقت) بالغ ہو جائے یا کافر مسلمان ہو جائے توروزے داروں کے ساتھ تشبیہ کے ذریعے حقِ وقت کی ادائیگی کے لیے بقیہ دن کھانے پینے اور جماع سے رُکے رہیں گے ‘‘۔[ھدایۃ علیٰ ھامش فتح القدیر ج:۲ ص:۳۶۸ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ]
اورفرمایا’’واذا قدم المسافر أوطھرت الحائض فی بعض النھار أمسکا بقیّۃیومھما۔۔۔۔انہ وجب قضاءََ لحق الوقت۔۔۔لانہ وقت معظم ‘‘ یعنی’’(ماہِ رمضان میں )مسافر جب دن کے دوران آجائے (مقیم ہوجائے )یا حائضہ عورت پاک ہوجائے تودن کا بقیہ حصہ رُکے رہیں گے ،یہ رُکناحقِ وقت کی ادائیگی کے لیے واجب ہے ،کیونکہ یہ تعظیم والا وقت ہے ‘‘۔[ھدایۃ علیٰ ھامش فتح القدیر ج:۲ ص:۳۷۵ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ]
نورالایضاح میں ہے : یجب الامساک بقیّۃ الیوم علی من فسد صومہ ،وعلی الحائض ونفساء طھرتا بعد طلوع الفجر وعلی صبی بلغ وکافراسلم۔یعنی ’’جس کا روزہ ٹوٹ جائے اُس پر دن کے بقیہ حصے میں اِمساک واجب ہے اور طلوعِ فجرکے بعد پاک ہونے والی حائضہ اور نفاس والی اور بالغ ہونے والے بچے اور مسلمان ہوجانے والے سابقہ کافر پر بھی اِمساک واجب ہے ‘‘۔[ نورالایضاح علی ھامش حاشیۃ الطحطاوی ج:۲ ص :۳۴۵ مطبوعہ مکتبہ غوثیہ کراچی] ۔
جب ان سابقہ شرعی اعذار والوں کے لیے بھی حقِ وقت کی وجہ سے امساک لازم ہے تو پھر اُس شخص کو کھانے پینے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے جو جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے کی وجہ سے شرعی مُجرم ہولہٰذا اُس کے لیے کھاناپینا ہرگز جائز نہیں ہو سکتا اور بیکری کے مالک کے لیے ان کو کھاناکھلانا کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔

  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ۔ترجمہ کنزالایمان’’اور نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پرباہم مدد نہ دو،اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ کاعذاب سخت ہے ‘‘۔ [سورۃ المائدۃ آیت :۲ پ:۶]۔

 اگر اُسنے اِن سے ہمدردی کرنی ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں دن کے اوقات میں اُن سے ڈیوٹی کم لے تاکہ وہ باآسانی روزے رکھ سکیں اور فرض کی ادائیگی میں اُن سے کوتاہی نہ ہو۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم


دیہات میں جمعہ قائم کرنے کا شرعی حکم

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ دیہات میں جمعہ قائم کرنا جائز ہے یانہیں؟ہمارے ہاں آبادیاں چک نمبر کے حساب سے تقسیم ہیں اور تقریباً ہر چک میں بڑی مسجد میں جمعہ قائم ہے اور ایک چک ایسا ہے وہاں کی آبادی کے کچھ لوگ چک کی مسجد سے ہٹ کر اپنے چندگھر وں پر مشتمل آباد ی کے لئے اپنی مسجد میں جمعہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو کیا ایسا کرنا ان کے لئے جائز ہے؟


                                سائل: عبد اللہ ،چک نمبر153/TDAتحصیل وضلع لیہ
                                      بسم اللہ الرحمن الرحیم
                     الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
ایسی جگہ جو نہ شہر ہو اور نہ فنائے شہر ہوبلکہ خالص دیہات ہووہاں ظاہر الروایۃ کے مطابق جمعہ قائم کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ جمعہ وعیدین کے لئے شہر یا فنائے شہر ہونا ضروری ہے۔
ہدایہ میں ہے:’’لا تصح الجمعۃ إلا فی مصر جامع أو فی مصلی المصر ولا تجوز فی القری لقولہ علیہ الصلاۃ و السلام ( لا جمعۃ ولا تشریق ولا فطر ولا أضحی إلا فی مصر جامع ) والمصر الجامع :کل موضع لہ أمیر وقاض ینفد الأحکام ویقیم الحدود‘‘یعنی،’’جمعہ صرف جامع شہریافنائے شہرمیں جائزہے اورگاؤں دیہات میں جائزنہیں ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺکافرمان ہے:شہرجامع کے علاوہ کوئی جمعہ کی نماز،کوئی تکبیرتشریق، کوئی عید الفطرکی نماز،کوئی عید الاضحی کی نماز نہیں ہے ۔اورشہرجامع سے مرادہروہ جگہ ہے جہاں پرامیرا ورقاضی مقررہوں جواحکام کو نافذاورحدودقائم کرنے پرقادرہوں‘‘۔[الہدایۃ،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجمعۃ،ج:۱،ص:۱۷۷،مکتبہ رحمانیۃ لاہور
     امام اہلسنت امام احمدر ضاخان علیہ رحمۃ الرحمن جمعہ کے لئے مصر کی شرط کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ معھذا ہمارے ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہم نے جو اقامتِ جمعہ کے لئے مصر کی شرط لگائی اس کا ماخد حضرت مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کی حدیث صحیح ہے جسے ابو بکر بن ابی شیبہ وعبدالرزاق نے اپنی مصنفات میں روایت کیا ’’لا جمعۃ ولا تشریق ولا صلوٰۃ فطر ولا اضحی الا فی مصر جامع او مدینۃ عظیمۃ ‘‘یعنی،جمعہ ، تکبیرات تشریق ،عید الفطر اور عید الاضحی جامع شہر یا بڑے شہر میں ہو سکتے ہیں ‘‘ ....صحیح تعریف شہر کی یہ ہے کہ وہ آبادی جس میں متعدد کوچے ہوں ،دوامی بازار ہوں ،نہ وہ جسے پیٹھ کہتے ہیں ،اور وہ پرگنہ ہے کہ اس کے متعلق دیہات گنے جاتے ہوں اور اس میں کوئی حاکم مقدماتِ رعایا فیصل کرنے پر مقرر ہو جس کی حشمت وشوکت اس قابل ہو کہ مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے۔
جہاں یہ تعریف صادق ہو وہی شہر ہے اور وہیں جمعہ جائز ہے ۔ہمارے ائمہ ثلثہ رضی اللہ تعالی عنھم سے یہی ظاہر الروایہ ہے ۔’’کمافی الھدایۃ والخانیۃ والظھیریۃ والخلاصۃ والعنایۃ والدرالمختار والھندیۃ وغیرھا‘‘یعنی،جیسا کہ ہدایہ ،خانیہ ،ظہیریہ ،خلاصہ ،عنایہ ،حلیہ ،غنیہ ،درمختار، اور فتاوی ہندیہ وغیرہ میں ہے۔اور یہی مذہب ہمارے امام اعظم کے استاذاور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما کے شاگرد خاص حضرت امام عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا ہے،’’کما فی مصنف عبد الرزاق حدثنا ابن جریج عن عطاء بن ابی رباح قال اذا کنت فی قریۃ جامعۃ فنودی بالصلوۃ من یوم الجمعۃ فحق علیک ان تشھد ھا سمعت النداء او لم تسمعہ قال قلت لعطاء ماالقریۃ الجامعۃ قال ذات الجماعۃ والامیروالقاضی والدور المجتمعۃ غیر المفترقۃ الاخذ بعضھا بعض مثل جدۃ‘‘یعنی،’’جیسا کہ مصنف عبد الرزاق میں ہے کہ ہمیں ابن جریج نے حضرت عطاء بن ابی رباح سے بیان کیا کہ جب تم کسی جامع قریہ میں ہوں تو وہاں جمعہ کے لئے اذان ہو تو تم پر جمعہ کے لئے جانا فرض ہے خواہ اذان سنی ہو یا نہ سنی ہو،کہتے ہیں میں نے عطاء سے پوچھا کہ جامعہ قریہ کون سا ہو تا ہے ؟انہوں نے فرمایا :جس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہو اور وہاں امیر،قاضی بھی ہو اور متعدد کُوچے اس میں باہم ملے ہوئے ہوں جس طرح جدہ شہرہے‘‘
اور یہی قول امام ابو القاسم صفار تلمیذ التلمیذ امام محمد کا مختار ہے کما فی الغنیۃ (جیسا کہ غنیہ میں ہے )اسی کو امام کرخی نے اختیار فرمایا کما فی الھدایۃ (جیسا کہ ہدایہ میں ہے ) اسی پر امام قدروی نے اعتماد کیا کما فی مجمع الانھر (جیسا کہ مجمع الانہر میں ہے )اسی کو امام شمس الائمہ سرخسی نے ظاہر المذھب عند نا (ہمارے نزدیک ظاہر مذہب یہی ہے )فرمایا کما فی الخلاصۃ (جیسا کہ خلاصہ میں ہے ) اسی پر امام علاؤ الدین سمر قندی نے تحفۃ الفقہاء اور ان کے تلمیذ امام ملک العلماء ابو بکر نے بدائع شرح تحفۃ میں فتوی دیا کما فی الحلیۃ (جیسا کہ حلیہ میں ہے)اسی پر امام فقیہ النفس قاضی خاں نے جزم واقتصار کیا کما فی فتاواہ (جیسا کہ ان کے فتاوی میں ہے)اور اسی کو شرح جامع صغیر میں قول معتمد فرمایا کما فی الحلیۃ والغنیۃ (جیسا کہ حلیہ اور غنیہ میں ہے ) اسی کو امام شیخ الا سلام برہان الدین علی فرغانی نے مرجح رکھا کمافی شرح المنیۃ (جیسا کہ شرح منیہ میں ہے)اسی کو مضمرات میں اصح ٹھہرایا کما فی جامع الرموز (جیسا کہ جامع الرموز میں ہے)ایسا ہی جواہر الاخلاطی میں لکھ کر ھذا اقرب الاقاویل الی الصواب (اقوال میں سے یہ قول صواب کے زیادہ قریب ہے)کہا کمارأیتہ فیھا (جیسا کہ اس میں مروی دیکھا ہے)ایسا ہی غیاثیہ میں لکھا کما فی الغنیۃ (جیسا کہ غنیہ میں ہے)اسی کو تاتارخانیہ میں علیہ الاعتماد (اسی پر اعتماد ہے)فرمایاکمافی الھندیۃ (جیسا کہ ہندیہ میں ہے )۔
اسی کو غایہ شرح ہدایہ وغنیہ شرح منیہ ومجمع الانہر شرح ملتقی الابحر وجواہر وشرح نقایہ قہستانی میں صحیح کہا اخیر میں ہے یہی قول معول علیہ ہے اسی کو ملتقی الابہر میں مقدم وماخوذ بہ ٹھہرایا اسی پر کنز الدقائق وکافی شرح وافی ونور الایضاح وعالمگیریہ میں جزم واقتصار کیا قولِ دیگر کا نام بھی نہ لیا اسی کو عنایہ شرح ھدایہ میں علیہ اکثر الفقہا ء(اکثر فقہا ء اسی پر ہیں)فرمایا کمافی حاشیۃالمراقی للعلامۃ الطحطاوی (جیسا کہ علامہ طحطاوی کی مراقی الفلاح کے حاشیہ میں ہے)اسی کو علامہ حسن شرنبلالی نے شرح نورا لایضاح میں اصح وعلیہ الاعتماد (اسی پر اعتماد ہے )فرمایا ،اسی پر علامہ سید احمد مصری نے حاشیہ شرنبلالیہ میں اعتماد اور قول آخر کا رَدِّ بلیغ کیا ،اسی پر امام ابن الہمام محمد وعلامہ اسمٰعیل نابلسی وعلامہ نو ح آفندی وعلامہ سید احمد حموی وغیرھم کبرائے اعلام نے بنائے کلام فرمائی شرح کل ذلک یطول (ہر ایک کی شرح طویل ہے) ۔[فتاوی رضویہ ،باب الجمعۃ ،ج:۸،ص:۲۷۵،رضافاؤنڈیشن لاہور]۔
امام اہلسنت کی یہ وضاحت کم وبیش تیس(۳۰)فقہاء کرام اور کتب کے حوالے پر مشتمل ہے جس میں مکمل طور پر اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ نماز جمعہ صرف شہر یا فنائے شہر میں قائم کرنا جائز ہے اسی پر امام اہل سنت نے دلائل قائم کئے ہیں جس میں شک کی گنجائش نہیں ہے ۔
خلا صہ کلام یہ ہے کہ ظاہرا لروایہ کے مطابق گاؤں دیہاتوں میں جمعہ کا قیام جائز نہیں ہے۔ لیکن بعض علماء کرام نے موجودہ حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور عوام و خواص کے ابتلائے عام کا شکار ہونے اور دیہاتوں اور گاؤں میں جمعہ قائم ہونے کا تعامل جاری ہونے اور اپنے ہی مذہب میں روایت مل جانے کی وجہ سے اگرچہ وہ روایت نادرہ ہے اس پر عمل کرنے میں حرج نہ ہونے کا فتوی دیا اور اس روایت کی بنیاد پر جو شہر کی اس تعریف پر پورا اترے وہاں جمعہ وعیدین کے جواز کا فتوی دیا ۔
امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن اس روایت کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ ہاں ایک روایت نادرہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے یہ آئی ہے کہ جس آبادی میں اتنے مسلمان مرد عاقل بالغ ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہو سکے آباد ہوں کہ اگر وہ وہاں کی بڑی سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سماسکیں یہاں تک کہ انہیں جمعہ کے لئے مسجد جامع بنانی پڑے وہ صحتِ جمعہ کے لئے شہر سمجھی جائے گی ۔امام اکمل الدین بابرتی عنایہ شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں ’’( وعنہ ) ای عن ابی یوسف (انھم اذااجتمعوا )ای اجتمع من تجب علیھم الجمعۃ لا کل من یسکن فی ذلک الموضع من الصبیان والنساء والعبید لان من تجب علیھم مجتمون فیہ عاد ۃ قال ابن شجاع احسن ما قیل فیہ اذا کان اھلھا ، بحیث لواجتمعوا(فی اکبر مساجدھم لم یسعھم)ذلک احتاجوا الی بناء مسجد اٰخر للجمعۃ ‘‘یعنی،’’ (اور ان سے) یعنی امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے ہے ( جب وہ جمع ہوں )یعنی وہ لوگ جن پر جمعہ لازم ہے نہ کہ تمام وہ لوگ جو وہاں سکونت پذیر ہیں مثلاً بچے ،خواتین،اور غلام۔ابن شجاع نے کہا کہ اس بارے میں سب سے بہتر قول یہ ہے کہ جمعہ کے اہل وہاں جمع ہوں (سب سے بڑی مسجد میں،اوراس میں ان کی گنجائش نہ ہو)حتی کہ وہ جمعہ کے لئے ایک اور مسجد بنانے پر مجبور ہوں ‘‘۔ترجمہ ختم ہوا۔جس گاؤں میں یہ حالت پائی جائے اس میں اس روایت نوادر کی بنا پر جمعہ وعیدین ہو سکتے ہیں اگرچہ اصل مذہب کے خلاف ہے مگر اسے بھی ایک جما عتِ متاخرین نے اختیار فرمایا اور جہاں یہ بھی نہیں وہاں ہرگز جمعہ خواہ عید مذہب حنفی میں جائز نہیں ہو سکتا بلکہ گناہ ہے ‘‘۔[فتاوی رضویہ،ج:۸،ص:۳۴۷، رضا فاؤنڈ یشن ،لاہور]۔
لہذاوہ بستیاں جن میں روایت نادر ہ کے مطابق بھی جمعہ قائم کرنے کی صلاحیت نہیں اگر وہاں جمعہ جاری ہو چکا ہے اور بند کر دیا جائے تو فساد کا اندیشہ ہو توان کے لئے حکم شرعی یہ ہے کہ وہاں جمعہ بند نہ کیا جائے لیکن جمعہ کی نماز پڑھ لینے کے بعد ظہر کی نماز بھی ادا کریں ۔
مفتی محمد جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’أَرَأَیْْتَ الَّذِیْ یَنْہَی 0 عَبْداً إِذَا صَلَّی ‘‘سے خوف کرتے ہوئے مسلمانوں کو مطلقاً نماز جمعہ سے روکا نہ جائے لیکن مسئلہ شرعیہ سے ضرور آگاہ کیا جائے کہ دیہات میں جمعہ ادا نہیں ہوتا ظہر پڑھنا ضروری ہے ۔جیسا کہ شامی میں قہستانی سے ہے ’’لوصلو ا فی القریٰ لزمھم اداء الظھر ‘‘یعنی،مسلمانوں نے اگر دیہات میں جمعہ پڑھ لی تو انہیں ظہر پڑھ لینا ضروری اور فرض ہے ‘‘۔[فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۴۰۳، شبیر برادرزلاہور]۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگریہ بستی نادرالروایۃ( جس آبادی میں اتنے مسلمان مرد عاقل بالغ ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہو سکے آباد ہوں کہ اگر وہ وہاں کی بڑی سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سماسکیں یہاں تک کہ انہیں جمعہ کے لئے مسجد جامع بنانی پڑے وہ صحتِ جمعہ کے لئے شہر سمجھی جائے گی ) کے معیار پر پوری اترتی ہے اور اس بستی پر شہر کا اطلاق کیا جا سکتا ہے تووہاں نمازِجمعہ کااہتمام کرنا جائز ہوگا لیکن احتیاطی ظہر بھی ساتھ پڑھناہوگی، اور اگر اس معیار پہ بھی پورا نہیں اترتی تو پھر ظہر کی نماز ان پر ادا کرنا لازم ہے ۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم

کتبہ : غلام مرتضی مظہری یصدقہ رئیس دارالافتاء ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اختر المدنی

Friday 5 July 2013

Oral sexیعنی اگر عورت مرد کی سپاری منہ میں ڈال لے تو اس کا کیا حکم ہے

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر عورت مرد کی سپاری منہ میں ڈال لے تو اس کا کیا حکم ہے؟
                                                                     سائلہ:شازیہ ،فرانس
                                       بسم اللہ الرحمن الرحیم
                       الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃالحق والصواب
اگر آلہ کی سپاری جماع کے بعدمیں منہ میں لی تو یہ حرام ہے کہ اس وقت عضوپرنجاست کے اثرات موجودہوتے ہیں۔اوراگرجماع سے پہلے ہواورعضوتناسل میں تندی ہوتوپھرسپاری کو منہ میں لینا مکروہ تحریمی ہے کہ اکثرشہوت کے وقت مذی کااخراج ہوتاہے ۔اور اگر معتدل حالت میں منہ میں لینا بھی مکروہ ہی ہے کیونکہ اسی منہ سے قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے ۔


المحیط البرھانی میں ہے’’ اذا دخل الرجل ذکرہ فی فم امراتہ یکرہ ،لانہ موضع قراء ۃ القرآن ،فلا یلیق بہ ادخال الذکر فیہ ،وفیہ قیل بخلافہ ایضاً‘‘یعنی،’’اگر مرد نے اپنا ذکر عورت کے منہ میں داخل کر ے تو یہ مکروہ ہے اس لئے کہ یہ قرآن پڑھنے کی جگہ ہے ،پس ذکر منہ میں داخل کرنے کے لائق نہیں ہے۔اور بعض نے اس کے خلاف قول کیا ہے ‘‘۔[المحیط البرھانی ،کتاب الکرھیۃ والاستحسان ،الفصل۳۲،فی المتفرقات،ج:۸،ص:۱۳۴،مطبوعہ،مکتبۃ الرشید ،الریاض ،السعودیہ

اسی طرح المحیط البرھانی ،کتاب الکرھیۃ والاستحسان ،الفصل۳۲،فی المتفرقات،ج:۶،ص:۱۶۳،مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ]۔میں ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں فتاویٰ نوازل کے حوالے سے منقول ہے کہ :’’فی النوازل، ’’اذاادخل الرجل ذکرہ فی فم المرأۃ، قدقیل یکرہ وقدقیل بخلافہٖ‘‘ کذافی الذخیرۃ‘‘یعنی ،’’اگرمرداپنے عضوتناسل کوزوجہ کے منہ میں داخل کرے ،توکہاگیاہے کہ یہ مکروہ ہے اوربعض نے اس کے خلاف کاقول کیاہے؛ اسی طرح ذخیرہ میں ہے ‘‘۔[فتاویٰ عالمگیری ،ج۴،ص:۴۵۳، قدیمی کتب خانہ ،کراچی
 

 اوراگرمردکی ایسی حالت ہے کہ جب تک زوجہ اس کے ذکرکوہاتھ نہ لگائے اس کوشہوت ہی نہیںآتی، توایسی حالت میں مس کرنا تو جائز ہے اورفقہاء کرام نے ایسی حالت میں اگرنیت اچھی ہوتومس کرنے پرثواب کابھی قول کیاہے ۔

چنانچہ البحرالرائق میں ہے :’’عن ابی یوسف’’ سألت الامام عن الرجل یمس فرج امتہٖ اوہی تمس فرجہ لیحرک آلتہ الیس بذلک بأس ؟قال:ارجوان یعظم الاجر‘‘یعنی،’’امام ابویوسف علیہ الرحمۃ نے امام اعظم رضی اللہ عنہ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیاجواپنی لونڈی کی شرمگاہ کوچھُوتاہے یاوہ لونڈی اس مردکے آلے کوچھوتی ہے تاکہ آلے میں حرکت پیداہو،توکیااس میں کوئی گناہ ہے ؟آپ نے ارشادفرمایا:’’میں اس کے متعلق بہت بڑے اجرعظیم کی امیدکرتاہوں‘‘۔ [البحرالرائق،ج:۸،ص: ۳۵۴،مکتبہ رشیدیہ ،کوئٹہ
 

 خلاصہ کلام یہ ہے مرد کے آلہ کی سپاری جماع کے بعد منہ میں لینا حرام ہے اور اگر جماع سے پہلے ہوتو یہ مکروہ ہے ۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم

کتبہ: ابوالجمیل غلام مرتضی مظہری۔

Wednesday 3 July 2013

علامہ محمد اشرف سیالوی رحمۃ اللہ علیہ

علم و فضل کی درخشاں تاریخ کا ایک تابندہ باب بند ہوا

حکیم الامت‘ اِمامِ اہل سنت

شیخ الحدیث علامہ محمد اشرف سیالوی رحمۃ اللہ علیہ

(۱۳۵۹ھ/ ۲۰۱۳ء ۔۔۔ ۱۴۳۴ھ/ ۲۰۱۳ء)


از قلم: محمد رضاء الحسن قادری



حکیم الامت اشرف العلما شیخ الحدیث حضرت علامہ ابو الحسنات محمد اشرف سیالوی رحمۃ اللہ علیہ دبنگ عالم‘ ثقہ مدرّس‘ صائب الراے نقاد‘ دیدہ ور محقق‘ مُنْصِف مُصَنّف‘ زیرک فقیہ‘ جید مفتی‘ نکتہ دان خطیب‘ سکہ بند مناظر‘ معقولات و منقولات کے اِمامِ جلیل‘ متکلم و فلسفی‘ ادیبِاریب‘ صوفی صافی تھے۔

آپ ۱۳۵۹ھ/ ۱۹۴۰ء کو گاؤں غوثے والا ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے۔ والد محترم کا نام فتح محمد ہے۔ قصبہ بڑانہ میں مڈل تک تعلیم حاصل کی، اس کے بعد کلی طور پر دینی تعلیم کے حصول کی طرف متوجہ ہوگئے۔ درسِ نظامی کے دوران جامعہ محمدی (جھنگ) میں مولانا حافظ محمد شفیق، سیال شریف (سرگودھا) میں مولانا صوفی حامد علی (متوفی ۱۳۹۶ھ/ ۱۹۷۶ء) اور مولانا محمد عبد اللہ جھنگوی (متوفی ۱۳۹۳ھ/ ۱۹۷۴ء)، پپلاں (میاں والی) میں مولانا سیّد احمد اور مولانا محمد حسین شوقؔ (متوفی ۱۴۰۶ھ/ ۱۹۸۵ء)، مرولہ شریف (سرگودھا) میں حضرت خواجہ غلامِ سدید الدین معظم آبادی (متوفی ۱۴۰۹ھ/ ۱۹۸۹ء)، چھپڑ شریف (سرگودھا) میں حضرت مولانا سلطانِ اعظم قادری (متوفی ۱۳۸۷ھ/ ۱۹۶۷ء)، گولڑہ شریف اور دار العلوم مظہریہ اِمدادیہ بندیال (خوشاب) میں ملک المدرّسین علامہ عطا محمد بندیالوی (متوفی ۱۴۱۹ھ/ ۱۹۹۹ء) آپ کے اساتذہ رہے۔ ۱۹۶۱ء میں شیخ القرآن علامہ ابو الحقائق عبد الغفور ہزاروی (متوفی ۱۳۹۰ھ/ ۱۹۷۰ء) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دورۂ قرآن کیا۔ اسی سال جامعہ رضویہ (فیصل آباد) میں محدثِ اعظم پاکستان مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد قادری (متوفی ۱۳۸۲ھ/ ۱۹۶۲ء) سے دورۂ حدیث کیا اور ۱۹۶۲ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ آپ کے ہم درسوں یا اُستاد بھائیوں میں شیخ الحدیث علامہ غلامِ رسول رضوی، مولانا اللہ بخش واں بھچروی، علامہ سیّد محمود احمد رضوی، حضرت پیر سیّد عبد الحق گولڑوی، حضرت خواجہ محمد حمید الدین سیالوی، صاحب زادہ علامہ محمد عبد الحق بندیالوی، علامہ غلامِ رسول سعیدی، علامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری، علامہ علی احمد سندھیلوی، علامہ محمد رشید نقش بندی، علامہ مقصود احمد قادری، مولانا گل احمد عتیقی، قاضی محمد مظفر اِقبال مصطفوی، ڈاکٹر محمد اشرف آصفؔ جلالی، سیّد شاہ حسین گردیزی وغیرہم شامل ہیں۔

شیخ الاسلام و المسلمین حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالوی (متوفی ۱۴۰۱ھ/ ۱۹۸۱ء) کے دست مبارک پر سلسلۂ چشتیہ میں بیعت کا شرف حاصل کیا۔ حضرت خواجہ صاحب قبلہ نے وصیت فرمائی کہ اُن کے بعد مشیر حضرت اشرف سیالوی ہوں گے۔

۱۹۶۲ء سے وصال تک پورے پچاس سال ملک کے عظیم الشان مدارس مثلاً دار العلوم ضیاے شمس الاسلام سیال شریف، جامعہ نعیمیہ لاہور، جامعہ نظامیہ لاہور، جامعہ رکن الاسلام حیدر آباد، جامعہ غوثیہ مہریہ منیر الاسلام سرگودھا، دار العلوم شمسیہ رضویہ سلاں والی وغیرہ میں علومِ دینیہ کی تدریس کی۔ آپ کے چشمۂ علم سے ہزاروں تشنگان سیراب ہوئے جن میں شرفِ ملت علامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری، شیخ الحدیث قاضی عبد الرزّاق بھترالوی، محقق العصر مفتی محمد خان قادری، اُستاذ المجوّدین قاری محمد یوسف سیالوی، صاحب زادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر نقش بندی، مناظر اِسلام علامہ سعید احمد اسد، علامہ مفتی محمد رفیق حسنی، ڈاکٹر خالق دادملک (صدرِ شعبۂ عربی پنجاب یونی ورسٹی)، ڈاکٹر محمد شریف سیالوی، پروفیسر دوست محمد شاکر، ڈاکٹر خورشید حسین خاور (گورڈن کالج راول پنڈی)، مولانا نذیر احمد سیالوی، علامہ محمد اکرم الازہری، علامہ سہیل احمد سیالوی، علامہ حافظ فریاد علی قادری وغیرہ بڑے فضلا شامل ہیں۔ حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری اور ڈاکٹر محمد طاہر القادری بھی آپ سے علمی اِستفادہ کرتے تھے۔ تین بیٹے بھی آپ کے علمی وارث ہیں؛ صاحب زادہ غلامِ نصیر الدین سیالوی، صاحب زادہ بشیر الدین سیالوی، صاحب زادہ فرید الدین سیالوی۔

درجن سے زائد آپ نے کتابیں تصنیف کیں جن میں ’’کوثر الخیرات لسید السادات‘‘ (تفسیر سورۂ کوثر)، ’’تحفۂ حسینیہ‘‘، ’’متعہ اور اِسلام‘‘، ’’جلاء الصدور فی سماع اہل القبور‘‘، ’’گلشن توحید و رسالت‘‘، ’’ہدایۃ المتذبذب الحیران‘‘، ’’اِزالۃ الریب‘‘، ’’تحقیقات‘‘، ’’تنویر الابصار بنور نبی المختار‘‘، ’’انبیاے سابقین اور بشاراتِ سیّد المرسلین‘‘، ’’دی ہولی بائبل اور شانِ انبیا میں گستاخیاں‘‘ مشہور ہیں۔ بلاشک آپ کی تصانیف میں علوم و عرفان اور تحقیقات و اِجتہادات کے دریا بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تراجم میں ’’مجموعہ صلوات الرسول‘‘ (خواجہ عبد الرحمن چھوہروی)، ’’الوفا‘‘ (ابن جوزی)، ’’شواہد الحق‘‘ (علامہ نبہانی)، ’’سیرتِ حلبیہ‘‘ (علی حلبی) ہیں۔

۲۷؍ اگست ۱۹۷۹ء کے ’’مناظرۂ جھنگ‘‘ میں مولانا حق نواز جھنگوی سے سات گھنٹے کی طویل ترین بحث کے بعد علامہ اشرف سیالوی کی فتح آپ کے تاریخی و تجدیدی کارناموں میں سے ہے۔ اِس مناظرہ میں طرفین سے صدور مولانا منظور احمد چنیوٹی اور علامہ محمد عبد الرشید جھنگوی تھے، جب کہ منصفین پروفیسر تقی الدین انجم، محمد منظور خان ایڈووکیٹ اور ماسٹر غلام باری تھے جنھوں نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد بالاتفاق علامہ سیالوی کے دلائل کو وزنی قرار دے کر ان کے حق میں فیصلہ جاری کر دیا۔

آپ نے تحصیل سلاں والی ضلع سرگودھا میں تین مدارس قائم کیے۔ نصف صدی مسند تدریس پر آپ کی شاہی رہی جس کی بہ دولت بیسیوں نام ور مدرّس اور سینکڑوں علماء و فضلا تیار ہوئے۔ آپ نے ہزاروں جلسوں، کانفرنسوں، محافل اور تقریبات میں خطابات کیے جن سے لاکھوں کروڑوں سامعین معارف و حقائق کے خزانے سمیٹتے رہے۔

شیخ الحدیث علامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ اُن کے وجود باجود کو اِن خصوصیات کا جامع دیکھتے تھے۔ لکھتے ہیں:

’’وہ موجودہ دور میں اُمتِ مسلمہ کے لیے قدرتِ ربانی کا عظیم عطیہ ہیں۔ وہ بہ یک وقت متعدد اوصافِ جمیلہ کے حامل ہیں؛ وہ عالم ربانی بھی ہیں اور عبقری محقق بھی، مد مقابل پر چھا جانے والے مناظر بھی ہیں اور دلائل کی فراوانی سے سامعین کے دل و دماغ کو متاثر کرنے والے خطیب بھی، وہ کتبِ درسیہ کا گہرا اِدراک رکھنے والے مدرّس بھی ہیں اور کثیر التصانیف مصنف بھی، وہ جس موضوع پر لکھتے ہیں ان کا قلم سیال کہیں رُکنے کا نام ہی نہیں لیتا، زبانِ عربی پر اِس قدر عبور رکھتے ہیں کہ اُردو سے زیادہ روانی کے ساتھ عربی میں لکھتے ہیں۔‘‘ (عظمتوں کے پاسبان ص ۲۵۰)

۷۵ سال عمر پاکر چند دن کی بیماری کے بعد ۱۲ رجب ۱۴۳۴ھ/ ۲۳ مئی ۲۰۱۳ء جمعرات کو صبح ساڑھے سات بجے وصال فرماگئے۔ نمازِ جنازہ بعد العصر سلاں والی اسٹیشن کے بالمقابل پارک میں ادا کی گئی۔ حسبِ وصیت علامہ مقصود احمد قادری (سابق خطیب مسجد داتا دربار لاہور) نے اِمامت کرائی۔ شرکا میں سینکڑوں علما اور ہزاروں عوام تھے۔ صاحب زادہ پیر امین الحسنات شاہ، صاحب زادہ محمد معظم الحق محمودی، علامہ محمد شریف رضوی، مولانا سعید احمد اسد، حضرت مولانا محمد اِبراہیم سیالوی، قاضی محمد مظفر اقبال مصطفوی، مولانا پیر محمد چشتی، مولانا رحمت اللہ سیالوی، مولانا محمد احمد بصیر پوری، صاحب زادہ محمد محب اللہ نوری، صاحب زادہ ابو الحسن شاہ، مولانا حافظ محمد خان نوری، پیر سائیں غلامِ رسول قاسمی، مفتی محمد فضل رسول سیالوی، مفتی محمد اِقبال مصطفوی، مولانا غلام نصیر الدین چشتی، مفتی غلامِ حسن قادری، ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی، جناب صبغت اللہ قادری، مولانا جان محمد مصطفائی اور دعوتِ اِسلامی کی کابینہ کے ارکان نے بھی شرکت کی۔

قل خوانی کی تقریب ۱۴ رجب/ ۲۵ مئی کو سلاں والی میں منعقد ہوئی۔ علاوہ کثیر علما کے مفتی سعید قمر صاحب، شیخ الحدیث مولانا سیّد محمد اِقبال شاہ گیلانی، مفتی شیر خان اور سیال شریف کے صاحب زادگان نے شرکت کی اور سوگ واران سے تعزیت کی۔

ہمارے عزیز دوست مولانا احمد رضا عطاری (شیخوپورہ) نے اِظہارِ جذبات کا یہ انداز اپنایا:

’’روزانہ شام سے پہلے ایک سورج غروب ہوتا دیکھا جاتا ہے، لیکن ۲۳ مئی کو سلاں والی میں دو سورج غروب ہوئے؛ ایک آسمانِ دُنیا کا سورج، دوسرا آسمانِ علم کا سورج.... جھکی ہوئی گردن، نیچی نظریں، لباس اور گفت گو سے ٹپکتی ہوئی سادگی و عاجزی؛ میری نظروں میں اُن کا مقدس سراپا اُترا جارہا ہے اور یقین نہیں آتا کہ اُس دن ہم ایسی باکمال شخصیت کے جنازے کی نیت باندھے کھڑے تھے۔ اُنھوں نے مظلومیت کی زندگی بسر کی اور مَیں نے دیکھا کہ وہ وقتِ رُخصت بھی اپنوں کے ہاتھوں مظلوم گئے کہ اُن کے مخالفوں کے دلوں میں اُن کی وفات پر بھی کوئی نرمی نہیں آئی۔‘‘

اگر مَیں اپنے اِحساسات کو الفاظ کا پہناوا دوں تو وہ میرے خیالات کی غمازی کرتے یوں دکھائی پڑیں گے کہ..... شیخ الحدیث علامہ اشرف سیالوی کا دنیا سے چلے جانا اہل سنت کے لیے اُستاذ الکل علامہ عطا محمد بندیالوی کے وصال کے بعد بڑا سانحہ ہے۔ مناظرہ کے میدان میں مناظر اعظم مولانا محمد عمر اچھروی کے بعد ان کا نمبر تھا۔ ان کی تحریر میں صدر الافاضل سیّد نعیم الدین مرادآبادی کی علمیت۔۔۔ قلم میں شاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی کی گرفت۔۔۔ شخصیت میں سیّد سلیمان اشرف بہاری کی وجاہت۔۔۔ گفت گو میں غزالی زماں سیّد احمد سعید شاہ کاظمی کی مٹھاس۔۔۔ طبیعت میں حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی کی طراوت۔۔۔ فراست میں حکیم محمد موسیٰ امرت سری کی فرزانگی۔۔۔ بصیرت میں قائد ملت اِسلامیہ مولانا شاہ احمد نورانی کی جھلک۔۔۔ عزم میں مجاہدِ ملت مولانا عبد الستار خان نیازی کی صلابت تھی۔ اُن کی پارسائی سراجِ اہل تقویٰ سیّد ابو البرکات احمد قادری کی مثل اور ذکاوت و فطانت علامۃ الوریٰ شیخ عبد العزیز پرہاروی کا عکس تھی۔ وہ حقیقی معنوں میں دورِ آخر کے مرحوم علما کی زندہ یادگار تھے اور صحیح طور پر اِمامِ اہل سنت کہلانے کے حق دار تھے۔

خادم العلماء: غلام مرتضٰی مظہری۔00923022576336 


بیع العربون یا بیعانہ ضبط کرنے کا شرعی حکم

بیع العربون یا بیعانہ کا شرعی حکم

                                                                   بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

آج کل جائیداد کے لین دین اور بہت سے تجارتی معاملات میں یہ تعامل ہے کہ مشتری اور بائع جب کسی عقد پر راضی ہو جاتے ہیں اور قیمت طے ہوجاتی ہے تو مشتری سے ایک مقدار رقم، فریقین کو عقد کا پابند کرنے کے لئےبطور بیعانہ لی جاتی ہے۔ اور قیمت کی مکمل ادائیگی اور تکمیل بیع کے لئے ایک مدت مقرر کردی جاتی ہے، مثلا تین ماہ ، اور معاہدے میں یہ طے پاتا ہے کہ اگر مشتری معاھدہ بیع سے پھر گیا تو بائع کے نقصان کا ازالہ کرنے کے لئے بیعانہ ضبط کر لیا جائیگا، کیونکہ بائع پابند ہو چکا ہے، اب ممکنہ طور پر زیادہ قیمت کی پیشکش ملنے کے باوجود وہ مبیع کو کسی مشتری ثانی کو نہیں بیچ سکتا اور بہت سے ممکنہ منافع کے مواقع اس کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ اب اگر تکمیل بیع کے موقع پر مشتری اپنے عہد سے پھر جاتا ہے تو ہمارے علماء اس کے بیعانہ کی رقم کو حنفی مذہب کے مطابق ضبط کر لینا ناجائز گردانتے ہیں جبکہ عامۃ الناس اس میں مبتلا ہیں۔

حال ہی میں ہمارے عالم عرب کےبعض معاصر حنفی اجلہ فقہاء نے حنابلہ کے حوالے سے زر بیعانہ کے ضبط کرنے کے جواز کو بیان کیا ہے ،جسے ان کے ہاں العربون سے موسوم کیا گیا ہے ہم ان کتب کے متعلقہ صفحات کی فوٹو اسٹیٹ اس استفسار کے ساتھ منسلک کررہےہیں۔ ازراہ کرم آپ حضرات اس کی بابت غور فرمائیں کہ جس طرح پر بنائے ضرورت بعض مسائل میں ہم دیگر ائمہ کے اقوال اور رخصتوں کو اختیار کرنے کا فتویٰ دیتے رہتے ہیں تاکہ مبتلا بہ لوگوں کے لئے عسر اور حرج سے نکلنے کی سبیل نکل آئے ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ آٓیا " الدین یسر" "وما جعل علیکم فی الدین من حرج" اور "الضرورۃ تبیح المحظورات" اور "یسروا ولا تعسروا بشروا ولا تنفروا" کے شرعی اصولوں کے تحت حنابلہ نمے جو بائع کو ضرر سے محفوظ رکھنے اور اسے تعطل اور انتظار سے ہونے والے نقصان کے بدل لینے کی اجازت دی ہے اوربعض معاصر حنفی فقہاء نے اسے اختیاربھی کیاہے۔ ہم اس رخصت سے استفادے کا فتویٰ دے سکتے ہیں؟ بینوا و توجروا

نوٹ:ایک مفتی صاحب نے ہمیں اس کاایک جواب مرحمت فرمایاہے، اگرآپ اس سے متفق ہوں ، تواس کی توثیق فرماسکتے ہیں اوراپنی جانب سے مزید دلائل سے اسے مبرہن بھی فرماسکتے ہیں، ورنہ بصورت اختلاف اپنا مفصل ومدلل جواب تحریر فرمائیں ، ہم آپ کے جواب کے شدت سے منتظررہیں گے۔

                                           سائل: نصیر اللہ نقشبندی ناظم دارالعلوم نعیمیہ بلاک ۱۵۔ فیڈرل بی ایریا ۔ کراچی

                                         الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

بلاشبہ ائمہ ثلاثہ رحمۃاللہ علھیم بلکہ جمہورکے نزدیک عربون یابیعانہ ضبط کرلیناناجائزہے۔اوران کے مؤقف کے دلائل کی بنیاد سنت اورقیاس پرہے۔ امام ابن ماجہ وامام ابوداؤدرحمۃاللہ علیہما روایت کرتے ہیں کہ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع العربان []۔ جمہور کے نزدیک یہ بیع ازروئے قیاس اس لئے ناجائز ہے کہ اس میں دوشروط فاسدہ ہیں ایک تویہ کہ مشتری کے بیع فسخ کرنے کی صورت میں بیعانہ بائع کاہوجائیگا۔ دوسری شرط یہ کہ مشتری کے راضی نہ ہونے کی صورت میں بیع فسخ کردی جائیگی۔اور یہ خیارمجھول ہے[]۔ بعض علماء نے اس کے ناجائزہونے کی یہ علت بیان فرمائی کہ اس بیع میں لوگوں کامال باطل طریقے سے کھالیاجاتاہے نیز اس میں غرربھی ہے[]۔ بعض علماء نے کہ کہاکہ اس بیع میں بائع کے لئے بلاعوض بیعانہ کی شرط لگادی گئ ہے[]۔

اس کے برعکس امیرالمؤمنین حضرت عمر، عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما، مشہورتابعی بزرگ سعیدابن مسیب[]، امام ابن سِیرین، مجاہد، نافع بن عبد الحارث، زید بن أسلم، امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہم[] اور مذاہب اربعہ سے تعلق رکھنے والے ہمارے زمانے کے محقق فقہاء اسے جائزقراردیتے ہیں۔ اوریہ حضرات بھی اپنے مؤقف پرسنت اورقیاس سے استدلال کرتے ہیں۔ یہ حضرات جوازمیں مصنف عبدالرزاق اورسنن بیہقی کی درج ذیل روایات پیش کرتے ہیں :

۱۔سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن العربان فی البیع فاحلہ []۔

۲۔ نافع بن حارث سے مروی ہے کہ أنہ اشتری لعمردارالسجن من صفوان بن أمیہ، فان رضی عمر، والافلہ کذاوکذا[]۔ اسی حدیث شریف کے بارے میں علامہ علاؤالدین زعتری نے امام ابن حجر رحمہ اللہ تعالٰی کی تصنیف "تلخیص الحبیر"کے حوالے سے بیان فرمایاکہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالٰی نے اس روایت کوتعلیقا بیان فرمایاہے[]۔ ازروئے قیاس بائع کے لئے فسخ بیع کی صورت میں بیعانہ (عربون) رکھ لینااس لئے جائزہے کہ دراصل یہ مشتری کی جانب سے تعطل اوربائع کوبلاوجہ انتظارکروانے کامعاوضہ ہے۔

درج بالاسطورمیں مانعین اورمجوزین کے مؤقف کومع دلائل ذکرکردیاگیاہے۔ جہاں تک سنت سے استدلال کاتعلق ہے تومانعین اورمجوزین دونوں ہی حضرات نے اپنے مؤقف پرجواحادیث پیش کی ہیں، وہ روایتاضعیف ہیں[]۔ امام قرطبی رحمہ اللہ تعالیٰ بیع عربان کے جوازوعدم جوازسے متعلق روایات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ دونوں ہی قسم کی روایات ضعیف ہیں۔ آپ فرماتے ہیں " وكان زيد بن أسلم يقول: أجازه رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال أبو عمر: هذا لا يُعرف عن النبيّ صلى الله عليه وسلم من وجه يصحّ، وإنما ذكره عبد الرزاق عن الأسلمي عن زيد بن أسلم مُرْسَلاً؛ وهذا ومثله ليس حجة. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جدّه " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نهى عن بيع العربان» " قال أبو عمر: قد تكلم الناس في الثقة عنده في هذا الموضع، وأشبه ما قيل فيه: أنه أخذه عن ابن لَهِيعة أو عن ابن وهب عن ابن لهيعة؛ لأن ٱبن لَهِيعة سمعه من عمرو بن شعيب ورواه عنه. حدّث به عن ابن لهيعة ٱبنُ وهب وغيره، وابن لهيعة أحد العلماء إلا أنه يقال: إنه احترقت كتبه فكان إذا حدّث بعد ذلك من حفظه غَلِط. وما رواه عنه ابن المبارك وابن وهب فهو عند بعضهم صحيح. ومنهم من يضعّفَ حديثه كلّه، وكان عنده علم واسع وكان كثير الحديث، إلا أن حاله عندهم كما وصفنا."[11]

لہذاان روایات سے کسی چیز کی حرمت ثابت نہیں کیجاسکتی۔ البتہ ازروئے قیاس بیع عربون پرجواعتراضات واردہوتے ہیں ان کا ایک جواب تو یہ ہے کہ عصرحاضرمیں بیع عربون یامشتری کے بیع فسخ کرنے کی صورت میں بیعانہ ضبط کرلیاجاناعرف اورتعامل کی صورت اختیارکرچکاہے اورہمارے زمانے کے باخبرافرادسے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے۔ بہت ہی کم ایسے افرادہونگے جوبیعانہ ضبط نہ کریں۔اسی طرح بین الاقوامی تجارتی منڈیوں میں اکثرسودے اسی بنیادپرکئے جاتے ہیں، چنانچہ فقہ اسلامی کے معروف قاعدہ “العرف قاض علی القیاس” کے تحت بیع عربون کاجوازواضح ہے،بلکہ راقم الحروف موقع کی مناسبت سے عرف کی تاثیراوراسکی کچھ مثالیں نقل کرنامناسب سمجھتاہے، ان میں سے اکثرمثالیں امام اہل سنت اعلیٰحضرت رحمہ اللہ نے فتاوی رضویہ شریف قدیم کی جلد۸ میں منی آرڈر کی بحث میں نقل فرمائی ہیں۔

1) علماء حنفیہ نے تعامل اورعرف کی وجہ سے موجودہ پھلوں کے ساتھ ان پھلوں کی بیع کے بھی جوازکافتوی دیاجوابھی ظاہر نہ ہوئے حالانکہ بیع معدوم باطل ہے۔

2) ہمارے فقہاء نے دخول حمام کے جوازکافتوی دیا حالانکہ اس میں کئی باتیں مجھول ہوتی ہیں مثلاکتنی دیراندرٹھہرے گا، کتناپانی استعمال کریگا۔

3) بیع استصناع کوتعامل اورحاجت کی وجہ سے جائزقراردیا حالانکہ یہ بھی معدوم کی بیع ہے۔

4) تعامل کی وجہ سے بیع تعاطی کوجائزقراردیاحالانکہ تراضی کے ساتھ ایجاب وقبول ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے، "إلا أن تكون تجارةً عن تراض منكم۔" النساء 4/ 29۔ اسی کی مثل ہوٹل میں چائے یاکھانے کے لئے بیٹھناہے۔

5) اسی طرح حنفی علماء نےضرورت وحاجت کی وجہ سے بیع وفاءکے جوازکافتوی دیاحالانکہ یہ سودسے بچنے کاحیلہ ہے اوراس میں مشتری کے لئے ایسی شرط نافع ہے کہ جس کاتقاضاعقدنہیں کرتا، وہ ردثمن پربیع کوفسخ کرناہے۔

6) اسی طرح سیاسی ، سماجی اورمعاشی معاملات میں مصالح کی وجہ سے ہرایسے متعارف مصالح پرجوازکافتوی دیاجاتاہے، جوکسی نص شرعی سے متعارض نہ ہو مثلا:گھڑیوں اورالیکٹرونک کے سامان کی مدت مخصوص میں خراب ہونے کی صورت میں مرمت یاواپسی کی ضمانت، حالانکہ ظاہرایہ عرف حدیث شریف کے خلاف ہے۔ حدیث میں واردہواکہ ""نھی عن بیع وشرط" مگردرحقیقت یہ عرف حدیث کے خلاف نہیں کیونکہ فقہاء فرماتے ہیں کہ یہ حدیث معلول بعلت ہے۔ یعنی ایسی شرط جائزنہیں جومنازعت اورجھگڑے کاباعث ہو۔ اورکسی بات پرعرف قائم ہوجانااس بات کی دلیل ہے کہ اس میں منازعت نہیں ہے۔

7) اسی طرح اورکئ ایسی شروط ہیں جوکہ حنفیہ کے نزدیک شروط فاسدہ میں سے ہیں مگرلوگوں میں متعارف ہونے اورحاجت کی وجہ سے جائزقراردی گئ ہیں مثلاکسی سے گندم اس شرط پرخریدناکہ وہ پیس کربھی دیگا، کپڑا اس شرط پر خریدناکہ وہی سی کربھی دیگا، کسی سے گندم اس شرط پرخریدناکہ وہ ایک ماہ تک بائع ہی کے پاس رہے گی، بائع کااس شرط پرمکان بیچناکہ وہ ایک ماہ بعدخالی کریگایاکسی کوزمین اس شرط پربیچناکہ بائع اسے ایک سال مزیدکاشت کرنے کے بعدحوالے کریگا۔ یہ تمام معاملات ان تمام شروط کے باوجوددرست قراردیئے گئے ہیں۔ اس کی تائیدمسلم شریف کی اس حدیث شریف سے ہوتی کہ جس میں ذکرآیاکہ ""ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اشتری من جابرجملاواستثنی جابرحملانہ علیہ الی أھلہ۔"

8) اسی طرح متاخرین حنفی فقہاء نے ضرورت کی وجہ سے تعلیم قرآن، آذان اورامامت کی اجرت پرجوازکافتوی دیا حالانکہ اصل مذہب میں منع ہے۔

9) علماء کی کثیرتعدادکے نزدیک ایسی بیع جائزہے کہ جس میں ثمن کی ادائیگی مقررکرنے کے بجائے عرف پرچھوڑدی گئ ہو ،مثلانوکری پیشہ حضرات عموماسارے ماہ پرچون کی دکان سے سودالیتے رہتے ہیں اوراس کی قیمت مہینے کے آخرمیں اداکرتے ہیں، اوربعض اشیاء میں قیمت معروف ہونے کی وجہ سے ثمن بھی طے نہیں کرتے ۔

نیزاہل فہم سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ عصرحاضرمعاشیات کازمانہ (Economical age) ہے۔ اورافراط زر (Inflation)کی وجہ سے پیسے کی قیمت (Value)روزبروزگرتی چلی جاتی ہے، لہذاافراط زرکی وجہ سے ہونےوالے نقصان کاازالہ صرف عربون ہی کی صورت میں ہوسکتاہے۔ اس کے علاوہ دیانتداری اس زمانے میں مفقودہے، بہت کم افراد ایسےملیں گے جواپنے نقصان کی صورت میں بھی دیانتداری سے کام لیں۔ عموماتجارتی منڈیوں میں یہ ہوتاہے کہ ایک تاجرکسی دوسرے تاجرسے کوئی سوداکرلیتاہے اوروہ بیعانہ بھی اداکردیتاہے۔ اوربعض اوقات سامان کے سپردکرنے کی تاریخ تک اس مبیع کی قیمت اتنی کم ہوچکی ہوتی ہے کہ اگربائع اس چیزکی بقیہ قیمت اداکرکے سامان لے لیگا تواسے بہت زیادہ نقصان ہوجائیگا، لہذاوہ اس بڑے نقصان سے بچنے کے لئے بیعانہ چھوڑدیناپسند کرتاہے۔مثلا زیدکسی شخص سے دس لاکھ روپے میں کچھ جاپانی الیکٹرونک سامان کاسوداکرتاہےاوراسے دس ہزار روپےبطوربیعانہ یاعربون سپردکردیتاہے، بقیہ رقم کے لئے بیس کی دن کی مہلت طلب کرتاہے۔ اسی مدت کے دوران بازارمیں چین کاالیکٹرونک سامان پہنچ جاتاہے جوکہ جاپانی الیکٹرونک کے مقابلے میں نہایت سستاہوتاہے اوراس کااثریہ مرتب ہوتاہے کہ جاپانی سامان کی قیمت اتنی زیادہ گرجاتی ہے کہ زیداگراس سامان کو بازارمیں بیچے تواسے پچاس ہزارکاخسارہ یقینی ہے، چنانچہ زیداس بڑے نقصان سے بچنے کے لئے چھوٹانقصان برداشت کرلیناگواراکرلیتاہے یعنی سودافسخ کرکے بیعانہ کی رقم بائع کے لئے چھوڑدیتاہے حالانکہ ازروئےقوانین شرع مبیع کی قیمت گرجاناسودے کے فسخ کرنے کے اعذارمیں سے نہیں، اورازروئے دیانت بھی ایساکرنادرست نہیں کیونکہ اگریہ مشتری بیعانہ دے کرروکے نہ رکھتاتوممکن تھاکہ بائع یہ سوداکسی اورکوفروخت کردیتا، نتیجۃ بائع کوبھی خسارے کاسامناکرناپڑتاہے۔ لہذابیعانہ ضبط کرلینے کی صورت ہی میں بائع کے خسارے کاکسی حدتک ازالہ کیاجاسکتاہے۔

بعض علماء نےبیع عربون کو لوگوں کامال باطل طریقے سے کھانے کاذریعہ قراردیاہے ۔ بعض علماء نے کہ کہاکہ اس بیع میں بائع کے لئے بلاعوض بیعانہ کی شرط لگادی گئ ہے۔ راقم الحروف کے خیال میں ان دونوں اعتراضات کامفادیہی ہے کہ عربون یابیعانہ کوروک لینابلاعوض ہے اس لئے ناجائزہے۔ یہ اعتراض گذشتہ زمانے کے اعتبارسے توایک حدتک درست تھاکہ جب ثمن خلقی یعنی سونے چاندی یاان کے ڈھلے ہوئے سکوں کے بدلے میں بیع ہواکرتی تھی۔ اوراس زمانے میں سوناچاندی ہی معیارتھا، لہذاگذشتہ زمانے میں ثمن کی قیمت گرنے (Devalue) کامسئلہ نہیں تھا۔ اوراس زمانے میں تجارت بھی اتنی تیزنہیں تھی کہ راتوں رات مال کی قیمت گرجائے۔ لہذاتجارکواپنامال فروخت کرنے کے لئے ٹائم مل جاتاتھا۔ نیزلوگوں میں دیانتداری اورزبان کی پاسداری کاعنصرپایاجاتاتھا،جس کی وجہ سے بلاوجہ سودافسخ کرنے کامعاملہ کم ہی ہوتاتھا۔ لیکن فی زمانہ سوداتام نہ ہونے کی صورت میں بیعانہ ضبط کرلینابلاعوض نہیں ہے کیونکہ بیعانہ عوض ہے اس نقصان کاجوبائع کوانتظاراورتعطل کی وجہ سے ہوا،مثلا:سامان کی قیمت گرجانایادکان یاگودام کاکرایہ زیادہ ہونے کی صورت میں اتنے عرصہ کا کرایہ۔ اس قسم کےعوض لینے کی مثال حدیث مبارک میں بیع مصراۃ کی ہے۔ بعض علماء نے کہاکہ اس میں غررہے اوربعض نے کہااس بیع کی تکمیل مشتری کی رضامندی پرہے، اورمشتری کے راضی ہونے کاکوئی پتہ نہیں کہ وہ کب راضی ہو۔ راقم الحروف کے خیال میں ان دونوں اعتراضات کامفادایک ہی ہے یعنی مشتری کی رضامندی مجھول ہے اوریہ ناجائزہے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ فی زمانہ یہ اعتراض واردنہیں ہوتاکیونکہ بیعانہ دیتے وقت مشتری اوربائع کے درمیان وقت مقررکرلیاجاتاہے۔

مذکورہ بالابحث سے ظاہرہواکہ بیع عربون کی ممانعت میں واردحدیث ضعیف ہے، اس لئے اس روایت سے اس کی حرمت پراستدلال نہیں کیاجاسکتا۔ نیزبیع عربون پرعرف جاری ہوچکاہے اورفی زمانہ قیاس بھی اس کے جوازکاتقاضاکرتاہے۔ یہی وجہ ہےکہ مجمع الفقہ الاسلامی نے اس کے جوازکافتوی دیا۔ اہل علم پرروشن ہوگاکہ مجمع الفقہ الاسلامی میں مذاہب اربعہ کے ممتازاسکالرزاورفقہاء شامل ہیں۔ مجمع الفقہ الاسلامی نے اس بابت جوفتوی دیاوہ درج ذیل ہے۔

یجوزبیع العربون اذاقیدت فترۃ الانتظاربزمن محدود، وتحتسب العربون جزءا من الثمن اذاتم الشراء ، ویکون من حق البائع اذا عدل المشتری عن الشراء۔ [12]

وفی الجمع بین القولین : یعمل بقول جمھورالفقھاء عند عدم وجودالضررعلی البائع أو المشتری ویعمل بقول فقھاء الحنابلۃ عند وجودضررلأحدالمتعاقدین۔ [13]

اسی طرح بحرین کی Accounting and Auditing کی بین الاقوامی تنظیم نے بھی بیع عربون کے جوازکافتوی دیا۔ خیال رہے کہ یہ وہ تنظیم ہے کہ جس کے مرتب کردہ قوانین ساری دنیاکے اسلامی بینکوں میں رائج ہیں۔ اس کی عبارت درج ذیل ہے۔

It is permissible for the institution to take Urboon after concluding the Murabaha sale with the customer.[14]

ترجمہ: ادارے کے لئے جائزہے کہ وہ بیع مرابحہ کرنے کے بعدگاہک سے عربون وصول کرے۔

ھذاماظھرلی والحق عنداللہ۔ واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: محمدابوبکرصدیق

رئیس دارالافتاء Qtv

[] سنن ابوداؤد حدیث ۳۵۰۲ ج ۳ ص ۲۸۳، سنن ابن ماجہ ۲۱۹۲ ج۲ ص ۷۳۸

[] مغنی المحتاج ج۲ ص ۳۹ ، نیل الأوطار ج۵ ص ۲۵۱

[] حاشیۃ الدسوقی ج۳ ص۳۶

[] المغنی ج۴ ص۱۶۰

[] فتاوى اللجنة الدائمة (13/133)

[] [] الجامع لاحکام القران المعروف بتفسیرالقرطبی سورۃ: النساء الایۃ:۲۹

[] الفقہ الاسلامی وادلتہ ج ۵ ص ۳۴۳۵

[] مصنف عبدالرزاق حدیث ۹۲۱۳ ج۶ ص ۵۱۳ ، سنن البیہقی الکبری حدیث ۱۰۹۶۲ ج۶ ص ۳۴

[] فقہ المعاملات المالیۃ المقارن ص ۹۴

[] الفقہ الاسلامی وادلتہ ج ۵ ص ۳۴۳۵

[11] الجامع لاحکام القران المعروف بتفسیرالقرطبی سورۃ: النساء الایۃ: ۲۹

[12] فقہ الماملات المالیۃ المقارن ص ۹۵

[13] ایضا

[14] Shari’a Standards Page 117

 

‏من جهاز الـ iPad الخاص بي

 منجانب : ابوالجمیل غلام مرتضی مظہری