دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Thursday 15 August 2013

سنُی ،بریلوی ،دیوبندی،وہابی ،اہل حدیث ،شیعہ ،حنفی ،شافعی ،مالکی اور حنبلی تمام فرقے کہاں سے آگئے ہیں کیا ہم صرف مسلمان(مسلم)نہیں کہلا سکتے



کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ قرآن مجید اوراسوئہ محمد ؐ کو پڑھ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم سب کی پہچان ماسوائے ایک مسلمان (مسلم)کے اور کوئی دوسری پہچان ہی نہیں ہے ۔کہیں سنُی ،بریلوی ،دیوبندی،وہابی ،اہل حدیث ،شیعہ ،حنفی ،شافعی ،مالکی اور حنبلی فرقوں کا ذکرہی نہیں ہے ۔اگر فرقہ کا کہیں ذکر ہے تو رد کرنے کے انداز میں ۔ایک گناہ کی صورت میں،ایک تنبیہ کی حیثیت سے ،ایک گمراہی کے طور پر ،جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک مسلم تھے ،جیسے اللہ نے اپنے دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کی پہچان یہی رکھی جیسے رسول پاک ؐ کو بھی مسلمان پیدا کیا ویسے ہی اللہ نے ہمیں بھی صرف اور صرف ایک مسلم پیدا کیا اور ہم کو بھی یہی ایک واحد شناخت دی ۔اللہ تعالی نے باربار قرآن مجید میں فرمایا کہ میری اور نبی ؐ کے پیروی کرو ،حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے آخری خطبہ میں حضرت محمد ؐ نے فرمایا کہ آج دین مکمل ہو چکا اور یہ آپ ؐ پوری انسانیت کی رہنمائی کے لئے اللہ کی کتاب اور اپنی سنت چھوڑے جارہے ہیںاور جو کوئی ان دونوں کو پکڑے رکھے گا کبھی گمراہ نہ ہوگا۔مگر ان واضح احکامات کے باوجود ہم آج مسلمان کے علاوہ سب کچھ ہیں،ہم فرقوں میں اس بُرے طریقہ سے بٹ گئے ہیں کہ ہماری اصل شناخت ہی گم ہو گئی ہے ۔اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو ہم میں سے ہر شخص اپنے علاوہ ہر دوسرے کو کافر ہی کہنے اور سمجھنے لگے گا۔قرآن مجید تو ہمیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے اور آپس میں تفرقہ بازی سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔قرآن تو ہمیں تنبیہہ کرتا ہے ''اور تم ان لوگوں جیسے ہرگز نہ ہوجان جو مختلف ٹکڑوں میں بٹ گئے اور انہو ں نے روشن نشانیاں آجانے کے بعد اختلاف کیا ۔پس وہ لوگ ہیں ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہوگا''مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں بندہ کا آپ سے سوال ہے کہ مذکورہ تمام فرقے کہاں سے آگئے ہیں اور کیا مذکورہ فرقوں میں ہم سب کا ہونا ضروری ہے ؟کیا ہم صرف مسلمان(مسلم)نہیں کہلا سکتے ؟سچا مسلمان(مسلم)بننے کے لئے ہم سب کو کونسے اعمال کرنے چاہیں تاکہ فرقہ پرستی کا خاتمہ ہو۔
        سائل: سید محبوب علی شاہ گیلانی ،مکان نمبر467/468-
Bتاج پورہ ہاؤسنگ سیکم (ایل ڈ ی اے)لاہور کینٹ۔54850
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃالحق والصواب

    حنفی ،شافعی ،مالکی اور حنبلی اوربریلوی، چشتی ،قادری ،سہروردی ،مجددی ،نقشبندی فرقوں کے نام نہیں بلکہ یہ سب مسلمان اور اہل سنت وجماعت سے ہیںکہ ان تمام کے عقائدایسے ہی ہیں جیسے صحابہ کرام کے تھے یہ لوگ اللہ تعالی کی رسی کو حضور اکرم
ؐ کے فرمان کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر فارق رضی اللہ تعالی عنہ کے دامن کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیںبلکہ اہل سنت وجماعت شیخین کے علاوہ بھی حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حضور اکرم ؐ اورصحابہ کرام کے طریقے پر عمل کرتے ہیںحضور اکرم ؐ کا فرمان ہے کہ نجات اس کو ملے گی جو ما انا علیہ واصحابی جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہو گا۔
    اور حضور اکرم
ؐنے صحابہ کرام علیھم الرضوان کی پیروی کو اللہ تعالی کی رسی کو پکڑنا قرار دیا چنانچہ ارشاد نبوی ؐ ہے''عن ابی الدرداء ان رسول اللہ ؐ قال:اقتدو بالذین من بعد ابی بکر وعمر،فانھما جبل اللہ الممدود من تمسک بھما فقد تمسک بالعروۃ الوثقی التی لا انفصام لھا''یعنی،''حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :بے شک رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا:میرے بعد ان لوگوں یعنی ابوبکر وعمررضی اللہ تعالی عنھما کی پیروی کرنا،یہ دونوں اللہ کی لٹکتی ہوئی رسی ہیں ۔جس نے ان دونوں (کادامن)تھام لیا تویقینااس نے (اللہ کی طرف)نہ ٹوٹنے والی مضبوط رسی کو تھام لیا''۔[مجمع الذاوائد 53/9۔ابن عساکر229/30کنزالعمال:رقم الحدیث:32649]۔
     اب حضور اکرم
ؐ کے صحابہ جیسے عقائد رکھنے والا چاہیے حنفی ہو، شافعی ہو،مالکی ہو،یا حنبلی ہواپنے آپ کوبریلوی کہلوائیں، چشتی ،قادری ،سہروردی ،مجددی ،نقشبندی میں سے جو بھی کہلوائےں وہ اہلسنت ہی رہےں گے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں اورمؤمن مسلمان ہیں ۔ انہی لوگوں کواللہ تعالی نے ارشاد فرمایا تم اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھو اور تم میں کوئی شخص جماعت سے الگ ہو کر تفرقہ مت ڈالے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے۔ ''وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ''ترجمہ کنزالایمان: اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لواور تفرقہ مت ڈالو ''
    اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن سید نعیم الدین مراد آبادی فرماتے ہیں کہ حبل کی تفسیر میں مفسرین کے چند اقوال ہیں بعض کہتے ہیں کہ اس سے قرآن مراد ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حبل سے جماعت مرادہے اور فرمایا کہ تم جماعت کو لازم پکڑ لوکہ وہ حبل اللہ ہے جس کو مضبوط تھامنے کا حکم دیا گیا ہے جیسے کہ یھود و نصاری متفرق ہوگئے اس آیت میں ان افعال وحرکات کی ممانعت کی گئی ہے جو مسلمانوں میں تفرق کا سبب ہو طریق مسلمین مذھب اھلسنت ہے اس کے علاوہ کوئی راہ اختیار کرنا تفریق اور ممنوع ہے '' ۔[اٰل عمران:١٠٣]۔
    مزید اسی سورئہ ال عمران میں ارشاد باری تعالی ہے''وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَـئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ''ترجمہ کنزالایمان:''ان جیسے نہ ہونا جو آپس میں پھٹ گئے اور ان میں پھوٹ پڑ گئی بعد اس کے کہ روشن نشانیاں انہیں آچکی تھیں اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے''۔[ال عمران،آیت:١٠٥]۔
     ان آیات سے معلوم ہوا کہ اسلام میں فرقہ پرستی منع ہے اورجس نے اہلسنت وجماعت کے عقائدسے اختلاف کیا گویا اس نے صحابہ کرام کے عقائد سے اختلاف کرتے ہوئے الگ ہو گیا وہ جہنم میں گیااس لئے کہ حضور اکرم
ؐ نے جماعت مسلمین کو لازم پکڑے کا حکم ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جوجماعت الگ ہوا جہنم میں الگ ہوا ۔ حدیث یہ ہے:اتبعواالسوادالاعظم فانہ من شذ شذ فی النار رواہ ابن ماجہ''۔یعنی،''سوداعظم کی اتباع کرو پس جو اس سے الگ ہوا وہ جہنم میں الگ ہوا۔اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ''[ مشکوٰۃ المصابیح،ص:٣٠، قدیمی کتب خانہ]۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار احادیث اس بات پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے ،حضور اکرم ؐ اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طریق پر چلتے ہوئے جماعت کو لازم پکڑنے کے ارشادات موجود ہیں۔اور اسی احادیث پاک کے ذخیرے میں یہ بات بھی موجود ہے کہ اس امت کے 73فرقے ہوں گے ۔
    چنانچہ ارشادی نبوی ہے ''وان بنی اسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملۃ وتفترق امتی علی ثلث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا من ھی یارسول اﷲقال ما انا علیہ واصحابی رواہ الترمذی وفی روایۃ احمد و ابی داو،د عن معاویۃ ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ ''یعنی،'' بے شک بنی اسرائیل کے بہتر٧٢ فرقے ہوئے اور میری امت میں تہتر فرقے ہوجا ئیںگے ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی ہیںصحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی وہ ناجی فرقہ کون ہے یارسول اللہ
ؐ ، ارشاد فرمایا وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں یعنی سنت کے پیرو۔ دوسری روایت میں فرمایا وہ جماعت ہے یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ جسے سواد اعظم فرمایا''۔[مشکوٰۃ المصابیح،ص:٣٠، قدیمی کتب خانہ]۔
    اس حدیث پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد ی
ار خان نعیمی علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں'' نبی اسرائیل کے سارے 72فرقے گمراہ ہو گئے تھے مگر مسلمانوں میں 72فرقے گمراہ ہوں گے اور ایک ہدایت پر ۔خیال رہے کہ جیسے بعض بنی اسرائیل نبیوں کے دشمن ہیںایسے ہی مسلمانوں میں بعض فرقے دشمن سید الانبیاء ہیں اور جیسے بعض بنی اسرائیل انبیاء کو خدا کا بیٹا مان بیٹھے۔مسلمانوں میں بھی بعض جاہل فقیر نبی ؐ کو عین خدا جزوخدا مانتے ہیں غرض اس حدیث کا ظہوریوں پوری طرح ہو رہا ہے ۔'( ما انا علیہ واصحابی)کے تحت لکھتے ہیں ۔یعنی میں اور میرے صحابہ ایمان کی کسوٹی ہیں جس کا ایمان ان کا ساہو وہ مومن ماسوائے بے دین ۔رب فرماتا ہے:فان آمنو بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اھتدوا(173/2) پھر اگر وہ بھی یوں ہی ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پا گئے ۔
    خیال رہے کہ ماسے مراد عقیدے اور اصول اعمال ہیں نہ کہ فروعی افعال یعنی جن کے عقائد صحابہ کے سے ہوں اور ان کے اعمال کی اصل عہد صحابہ میں موجود ہو وہ جنتی ورنہ فروع اعمال آج لاکھوں ایسے ہیں جو زمانہ صحابہ میں نہ تھے ان کے کرنے والے دوزخی نہیں صحابہ کرام حنفی ،شافعی یا قادری نہ تھے ہم ہیں ۔انہوں نے بخاری مسلم نہیں لکھی تھی ،مدرسہ اسلامی نہ بنائے تھے ،ہوائی جہازوں اور راکٹوںسے جہاد نہ کئے تھے ۔ہم یہ سب کچھ کرتے ہیں لہذا یہ حدیث وہابیوں کی دلیل نہیں بن سکتی کہ عقائد وہی صحابہ والے ہیں اور ان سارے اعمال کی اصل وہاں موجود ہے غرضیکہ درخت اسلام عہد نبوی میں لگاعہد صحابہ میں پھلا پھولا قیامت تک پھل آتے رہیں گے کھاتے رہو۔بشرطیکہ اسی درخت کے پھل ہوں ۔
    حکیم الامت(ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ)کے تحت مزید لکھتے ہیں:اس میں بتایا گیا ہے کہ جنتی ہونے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے ۔سنت کی پیروی اور جماعت مسلمین کے ساتھ رہنا اسی لئے ہمارے مذہب کا نام اہل سنت وجماعت ہے ۔جماعت سے مراد مسلمانوں کا بڑا گروہ ہے جس میں فقہاء ،علماء ،صوفیاء اور اولیاء اللہ ہیں الحمد للہ یہ شرف بھی اہلسنت ہی کو حاصل ہے ۔سوا اس فرقہ کے اولیاء اللہ کسی فرقہ میں نہیں،خیال رہے کہ یہ73کا عدد اصولی فرقوں کا ہے کہ اصولی فرقہ ایک جنتی اور 72جہنمی چنانچہ اہل سنت میں حنفی، شافعی،مالکی،حنبلی،چشتی،قادری ،نقشبندی ،سہروردی ،ایسے ہی اشاعرہ ماتریدیہ سب داخل ہیں کہ عقائد سب کے ایک ہی ہیں اور ان سب کا شمار ایک ہی فرقہ میں ہے ایسے ہی بہترناری فرقوں کا حال ہے کہ ان میں ایک ایک فرقے کے بہت ٹولے ہیں مثلاً ایک فرقہ روافض کے بہت ٹولے ہیں بارہ امامئے ،چھ امامئے ،تین امامئے ایسے ہیں دیگر فرقوں کا حال ہے لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ اسلامی فرقے کئی سو ہیں ''۔[مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح،ج:١،ص:١٦٧،مطبوعہ قادری پبلشرزاردو بازار لاہور]۔
    یہ موضوع تو بہت تفصیلی ہے چونکہ یہ رسالہ نہیں بلکہ فتوی کی صورت میں جواب دیا جارہا ہے لہذا اسی پر اختصار کرتے ہیں اور مذکورہ تحریر کاخلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ کے سوال میں بیان کیے گئے خدشات درست نہیں ہیں الحمد للہ ہم مسلم بھی ہیں مؤمن بھی ہیںناجی بھی کیونکہ ہمارے عقائد صحابہ کرام علیھم الرضوان جیسے عقائد ہیں اور ہم ہی اہلسنت وجماعت ا ورنجات پانے والے ہیں ۔لیکن جب بدمذہب اور گمراہ لوگ پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر ان سے امتیاز اور شناخت اور اپنی الگ حیثیت ثابت کرنے کے لئے یا اپنے پیرومرشد سے نسبت جوڑکر چشتی ،قادری ،نقشبندی،سہرودی ،مجددی کہلاتا ہے کوئی اپنے علاقے کی طرف نسبت کر کے بریلوی،ملتانی کہلاتا ہے تواس میں کوئی حرج نہیں جبکہ ان کے عقائدصحابہ کرام علیھم الرضوان جیسے ہیں تو نام جو بھی ہو وہ اہلسنت وجماعت ہے ۔ان کے علاوہ بدمذہب گمراہ حدیث پاک کے مطابق دیگر فرقے میں شامل ہیں۔اللہ تعالی سمجھ اور عقل سلیم عطاء فرمائے۔آمین ثم آمین۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم


Monday 12 August 2013

شوال المکرم میں چھ روزے رکھنے کا ثواب ایک سال کے روزوں کے برابر ہے

رمضان المبارک کے فرض روزوں کی مکمل ادائیگی کے بعدشوال المکرم میں چھ روزے رکھنے کا ثواب ایک سال کے روزوں کے برابر ہے۔

احادیث پاک میں ان روزوں کے فضائل کے بارے میں حضور اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا:'' جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر ان کے بعد چھ دن شوال میں رکھنے تو ایسا ہے جیسے دہر کا روزہ رکھا''۔[صحیح مسلم وابوداود وترمذی شریف]۔دوسری حدیث میں ہے:'' جس نے عید الفطر کے بعد چھ روزے رکھ لیے تو اس نے پورے سال کا روزہ رکھا''[نسائی وابن ماجہ ]۔
    رمضان المبارک کے قضاء شدہ روزے اور شوال کے روزے ان کا سبب الگ الگ ہے ایک روزے میں قضاء رمضان اور شوال کے روزے کی نیت نہیں کر سکتے ۔اگر رمضان کے قضاء روزے اور شوال کے روزے کی اکٹھے نیت کی تو رمضان کے قضاء روزہ کی طرف سے نیت ہو گی ۔
    امدادالفتاح شرح نورالایضاح میں ہے'' لو جمع لیلاً بین نیۃ القضاء والتطوع یقع قضائ''یعنی،'' اگر رات کو روزے کی نیت کرتے ہوئے قضاء اور نفل کی اکٹھے نیت کی تو قضاء کی طرف سے نیت ہو گی''۔[امدادالفتاح شر ح نور الایضاح،ص:٦٦١،مطبوعہ،صدیقی پبلشر،کراچی
    اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قضاء رمضان اور شوال المکرم کے نفلی روزے کی اکٹھے نیت نہیں کر سکتے ۔ہاں صدق دل سے یہ نیت کی کہ اگر مجھ پر قضاء روزے نہ ہوتے تو میں شوال کے روزے ضرور رکھتا تو وہ قضاء کے روزے رکھے اور اللہ تعالی سے امید ہے کہ اس کو شوال کے روزوں کی نیت کا ثواب عطاء فرمائے گا۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم

شوال کے روزے عید کے دوسرے دن رکھنا ضروری ہوتے ہیں یا کچھ دنوں کے بعد بھی رکھ سکتے ہیں؟

کیافرماتے ہیں علماء دین ا س مسئلہ کے بارے میں کہ شوال کے جو روزے رکھتے ہیں وہ عید کے دوسرے دن رکھنا ضروری ہوتا ہے یا کچھ دنوں کے بعد بھی رکھ سکتے ہیں؟                                            سائل:مرتضیٰ ارشد ،سیالکوٹ
                                                                 بسم اللہ الرحمن الرحیم
                                          الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃالحق والصواب
    جس شخص نے رمضان المبارک کے پورے روزے رکھے ہوں اس کے لئے شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہیں چاہے وہ عید کے دوسرے دن سے رکھنا شروع کرے اور مسلسل رکھے یا وقفے وقفے سے رکھے اورافضل یہ ہے کہ عید کا دن چھوڑ کر عید کے دوسرے دن سے شوال کے روزے رکھنا شروع کر دے اور اگر کوئی مجبوری ہو جائے تو شوال کے مہینے میں کسی بھی دنوںمیںچھ روزے پورے کرسکتا ہے۔    نورالایضاح میں مستحب روزوں کے بیان میں ہے '' وصوم ستٍ من شوال۔ثم قیل :الافضل وصلھا ،وقیل تفریقھا ''یعنی،'' (مستحب روزوں میں)شوال کے چھ روزے ہیں۔پھر کیا گیا ہے کہ(عید کے بعدچھ) متصل رکھنا افضل ہے ۔اور کہا گیا ہے کہ متفرق رکھنا افضل ہے ''۔[نورالایضاح ،مع امدادالفتاح،ص:٦٥٦،مطبوعہ صدیقی پبلیشرکراچی]۔
    تنویر مع الابصار مع الدرالمختار میں ہے '' (وندب تفریق صوم الست من شوال)ولا یکرہ التتابع علی المختار خلافا للثانی''یعنی،'' شوال کے چھ روزے متفرق رکھے اور مختار مذہب پر مسلسل رکھنا بھی مکروہ نہیں ہے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ اس کے خلاف فرماتے ہیں''۔[تنویر الابصار مع درمختار،ج:٣،ص:٤٢٢،مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان
    اس کے تحت ردالمحتار میں ہے '' قال صاحب الھدایۃ فی کتابہ التجنیس :ان صوم الستۃ بعد الفطر متتابعۃ ،منھم من کرھہ ،والمختار انہ لا بأس لان الکراھۃ انما کانت لانہ لایؤمن ان یعد ذلک من رمضان فیکون تشبھاً بالنصاری ،والآ ن زال ذلک المعنی ''یعنی،'' صاحب ھدایہ نے اپنی کتاب تجنیس میں کہا ہے کہ شوال کے چھ روزے عید الفطر کے بعد مسلسل رکھے جائیں ،اور کچھ نے ایسا کرنے کو مکروہ کہا ہے۔اور مختار مذہب یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں اس لئے کہ کراہت اس وقت تھی کہ جب خوف ہو کہ یہ روزے رمضان میں شمار نہ کرے تو پس یہ نصاری کے ساتھ مشابہت ہوتی (کہ انھوںنے اپنی طرف سے فرض روزوںکی تعدادمیں اضافہ کرلیاتھا)۔اور اب یہ مشابہت والا معنی زائل ہو گیا ہے(کیونکہ درمیان میں عیدکاایک دن چھوڑدیاگیاہے لہذا عید کے بعد مسلسل چھ روزے رکھنا مکروہ بھی نہیں ہوں گے) ''۔[ردالمحتار ،ج٣،ص:٤٢١،مکتبہ امدایہ ملتان]
    خلاصہ کلام یہ ہے کہ شوال کے چھ روزے عید کے دوسرے دن مسلسل رکھنا مختار مذہب کے مطابق درست ہے اور اگر متفرق طور پر شوال کے مہینے میں چھ روزے پورے کر لیے جائیں تو بھی جائز ہے۔واللہ تعالی اعلم

Wednesday 7 August 2013

تمام عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کو عید سعید کی خوشیاں مبارک ہوں

                            تمام عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کو عید سعید کی خوشیاں مبارک ہوں

اور ایسے مسلمان بہن بھائی جو گھر سے دور وطن سے دور اور مجبور ہیں اللہ تعالی ان کی اس عید کے صدقہ سے تمام پریشانیوں کو دور فرمائے اور آئندہ عید اپنے وطن اور اپنوں میں گزارنے کا موقعہ عطاء فرمائے۔

    اور ایسے مسلمان بھائی جو اپنے پیاروں کے بچھڑ جانے کی وجہ سے غم زادہ ہیں اللہ تعالی ان کے پیارو ں کی مغفرت فرمائے اور ان کو صبر جمیل اور نعم البدل عطاء فرمائے اور ان کی غیب سے مدد فرمائے آمین







Friday 2 August 2013

کیامعتکف فنائے مسجدیعنی غسل خانہ،وضوخانہ میںبغیرضرورت شرعیہ محض ٹھنڈک حاصل کرنے لے لئے جاسکتاہے

(1)کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیامعتکف فنائے مسجدیعنی غسل خانہ،وضوخانہ میںبغیرضرورت شرعیہ محض ٹھنڈک حاصل کرنے لے لئے جاسکتاہے؟(2)کیامعتکف مسجدکے محراب میںجاسکتاہے؟
(3)کیامعتکف مسجدکے اندربارش میںنہاسکتاہے؟(4)ہمارے علاقے میںکچھ لوگ مسجدکے اندرشاپربچھاکرمعتکف حضرات کورمضان میںنہلاتے ہیں،ٹھنڈک کے لئے کیایہ جائزہے؟
       سائل:الطاف فریدی،متعلم تخصص فی الفقہ سال دوم، دارالعلوم نعیمیہ کراچی
                                بسم اللہ الرحمن الرحیم
                  الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
(1)    اگرفنائے مسجدمیںغسل خانہ اوروضوخانہ ہوںتومعتکف کاٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے نہانے جاناجائزہے۔
    صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:''فنائے مسجِدجو جگہ مسجِدسے باہَراس سے مُلحَق ضَروریاتِ مسجِدکیلئے ہے ، مَثَلًاجُوتااُتارنے کی جگہ اورغُسْل خانہ وغیرہ اِن میں جانے سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔''مزیدآگے فرماتے ہیں ،'' فِنائے مسجِداس مُعامَلے میں حُکمِ مسجِد میں ہے''۔[فتاوی امجدیہ، ج:١،ص:٣٩٩]۔
    امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں'' وہ مدارس متعلق مسجد، حدودمسجد کے اندرہیں اُن میں اور مسجد میں راستہ فاصل نہیں صرف ایک فصیل سے صحنوں کاامتیاز کردیاہے تو ان میں جانا مسجد سے باہر جاناہی نہیں یہاں تک کہ ایسی جگہ معتکف کوجاناجائز کہ وہ گویا مسجد ہی کا ایک قطعہ ہے۔وھذا ماقال الامام الطحاوی ان حجرۃ ام المؤمنین من المسجد
؎ فی ردالمحتار عن البدائع لوصعدای المعتکف المنارۃ لم یفسد بلاخلاف لانھا منہ لانہ یمنع فیھا من کل مایمنع فیہ من البول ونحوہ فاشبہ زاویۃ من زوایا المسجد؎۔یہی بات امام طحاوی نے فرمائی کہ ام المومنین کا حجرہ مسجد کاحصہ ہے۔ ردالمحتارمیںبدائع سے ہے اگر معتکف منارہ پرچڑھا توبالاتفاق اس کا اعتکاف فاسد نہ ہوگا کیونکہ منارہ مسجد کاحصہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اس میں ہر وہ عمل مثلاً بول وغیرہ منع ہے جومسجد میں منع ہے تویہ مسجد کے دیگر گوشوں کی طرح ایک گوشہ ٹھہرا''۔[فتاوی رضویہ ،ج:٧،ص:٤٥٣،رضافاؤنڈیشن لاہور]۔ واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم
(2)    محراب اصل مسجدہے مگر یہ کہ واقف نے اس کے خارج مسجد ہو نے کی نیت کی ہو بہرحال دونوں صورتوں میںمعتکف کامحراب میںجاناجائزہے۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم
(3)    معتکف مسجدوفنائے مسجدمیںبارش میںنہاسکتاہے۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم
(4)    اگرپانی کی چھینٹیںمسجدمیںنہیںگرتی کہ پانی شاپرپرہی گرتاہے تواس میںکوئی حرج نہیں،لیکن انھیںچاہئے کہ مسجدکے جوغسل خانہ فنائے مسجدمیںہوںان میںجاکرنہائیں۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم