دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Wednesday 3 July 2013

بیع العربون یا بیعانہ ضبط کرنے کا شرعی حکم

بیع العربون یا بیعانہ کا شرعی حکم

                                                                   بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

آج کل جائیداد کے لین دین اور بہت سے تجارتی معاملات میں یہ تعامل ہے کہ مشتری اور بائع جب کسی عقد پر راضی ہو جاتے ہیں اور قیمت طے ہوجاتی ہے تو مشتری سے ایک مقدار رقم، فریقین کو عقد کا پابند کرنے کے لئےبطور بیعانہ لی جاتی ہے۔ اور قیمت کی مکمل ادائیگی اور تکمیل بیع کے لئے ایک مدت مقرر کردی جاتی ہے، مثلا تین ماہ ، اور معاہدے میں یہ طے پاتا ہے کہ اگر مشتری معاھدہ بیع سے پھر گیا تو بائع کے نقصان کا ازالہ کرنے کے لئے بیعانہ ضبط کر لیا جائیگا، کیونکہ بائع پابند ہو چکا ہے، اب ممکنہ طور پر زیادہ قیمت کی پیشکش ملنے کے باوجود وہ مبیع کو کسی مشتری ثانی کو نہیں بیچ سکتا اور بہت سے ممکنہ منافع کے مواقع اس کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ اب اگر تکمیل بیع کے موقع پر مشتری اپنے عہد سے پھر جاتا ہے تو ہمارے علماء اس کے بیعانہ کی رقم کو حنفی مذہب کے مطابق ضبط کر لینا ناجائز گردانتے ہیں جبکہ عامۃ الناس اس میں مبتلا ہیں۔

حال ہی میں ہمارے عالم عرب کےبعض معاصر حنفی اجلہ فقہاء نے حنابلہ کے حوالے سے زر بیعانہ کے ضبط کرنے کے جواز کو بیان کیا ہے ،جسے ان کے ہاں العربون سے موسوم کیا گیا ہے ہم ان کتب کے متعلقہ صفحات کی فوٹو اسٹیٹ اس استفسار کے ساتھ منسلک کررہےہیں۔ ازراہ کرم آپ حضرات اس کی بابت غور فرمائیں کہ جس طرح پر بنائے ضرورت بعض مسائل میں ہم دیگر ائمہ کے اقوال اور رخصتوں کو اختیار کرنے کا فتویٰ دیتے رہتے ہیں تاکہ مبتلا بہ لوگوں کے لئے عسر اور حرج سے نکلنے کی سبیل نکل آئے ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ آٓیا " الدین یسر" "وما جعل علیکم فی الدین من حرج" اور "الضرورۃ تبیح المحظورات" اور "یسروا ولا تعسروا بشروا ولا تنفروا" کے شرعی اصولوں کے تحت حنابلہ نمے جو بائع کو ضرر سے محفوظ رکھنے اور اسے تعطل اور انتظار سے ہونے والے نقصان کے بدل لینے کی اجازت دی ہے اوربعض معاصر حنفی فقہاء نے اسے اختیاربھی کیاہے۔ ہم اس رخصت سے استفادے کا فتویٰ دے سکتے ہیں؟ بینوا و توجروا

نوٹ:ایک مفتی صاحب نے ہمیں اس کاایک جواب مرحمت فرمایاہے، اگرآپ اس سے متفق ہوں ، تواس کی توثیق فرماسکتے ہیں اوراپنی جانب سے مزید دلائل سے اسے مبرہن بھی فرماسکتے ہیں، ورنہ بصورت اختلاف اپنا مفصل ومدلل جواب تحریر فرمائیں ، ہم آپ کے جواب کے شدت سے منتظررہیں گے۔

                                           سائل: نصیر اللہ نقشبندی ناظم دارالعلوم نعیمیہ بلاک ۱۵۔ فیڈرل بی ایریا ۔ کراچی

                                         الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

بلاشبہ ائمہ ثلاثہ رحمۃاللہ علھیم بلکہ جمہورکے نزدیک عربون یابیعانہ ضبط کرلیناناجائزہے۔اوران کے مؤقف کے دلائل کی بنیاد سنت اورقیاس پرہے۔ امام ابن ماجہ وامام ابوداؤدرحمۃاللہ علیہما روایت کرتے ہیں کہ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع العربان []۔ جمہور کے نزدیک یہ بیع ازروئے قیاس اس لئے ناجائز ہے کہ اس میں دوشروط فاسدہ ہیں ایک تویہ کہ مشتری کے بیع فسخ کرنے کی صورت میں بیعانہ بائع کاہوجائیگا۔ دوسری شرط یہ کہ مشتری کے راضی نہ ہونے کی صورت میں بیع فسخ کردی جائیگی۔اور یہ خیارمجھول ہے[]۔ بعض علماء نے اس کے ناجائزہونے کی یہ علت بیان فرمائی کہ اس بیع میں لوگوں کامال باطل طریقے سے کھالیاجاتاہے نیز اس میں غرربھی ہے[]۔ بعض علماء نے کہ کہاکہ اس بیع میں بائع کے لئے بلاعوض بیعانہ کی شرط لگادی گئ ہے[]۔

اس کے برعکس امیرالمؤمنین حضرت عمر، عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما، مشہورتابعی بزرگ سعیدابن مسیب[]، امام ابن سِیرین، مجاہد، نافع بن عبد الحارث، زید بن أسلم، امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہم[] اور مذاہب اربعہ سے تعلق رکھنے والے ہمارے زمانے کے محقق فقہاء اسے جائزقراردیتے ہیں۔ اوریہ حضرات بھی اپنے مؤقف پرسنت اورقیاس سے استدلال کرتے ہیں۔ یہ حضرات جوازمیں مصنف عبدالرزاق اورسنن بیہقی کی درج ذیل روایات پیش کرتے ہیں :

۱۔سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن العربان فی البیع فاحلہ []۔

۲۔ نافع بن حارث سے مروی ہے کہ أنہ اشتری لعمردارالسجن من صفوان بن أمیہ، فان رضی عمر، والافلہ کذاوکذا[]۔ اسی حدیث شریف کے بارے میں علامہ علاؤالدین زعتری نے امام ابن حجر رحمہ اللہ تعالٰی کی تصنیف "تلخیص الحبیر"کے حوالے سے بیان فرمایاکہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالٰی نے اس روایت کوتعلیقا بیان فرمایاہے[]۔ ازروئے قیاس بائع کے لئے فسخ بیع کی صورت میں بیعانہ (عربون) رکھ لینااس لئے جائزہے کہ دراصل یہ مشتری کی جانب سے تعطل اوربائع کوبلاوجہ انتظارکروانے کامعاوضہ ہے۔

درج بالاسطورمیں مانعین اورمجوزین کے مؤقف کومع دلائل ذکرکردیاگیاہے۔ جہاں تک سنت سے استدلال کاتعلق ہے تومانعین اورمجوزین دونوں ہی حضرات نے اپنے مؤقف پرجواحادیث پیش کی ہیں، وہ روایتاضعیف ہیں[]۔ امام قرطبی رحمہ اللہ تعالیٰ بیع عربان کے جوازوعدم جوازسے متعلق روایات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ دونوں ہی قسم کی روایات ضعیف ہیں۔ آپ فرماتے ہیں " وكان زيد بن أسلم يقول: أجازه رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال أبو عمر: هذا لا يُعرف عن النبيّ صلى الله عليه وسلم من وجه يصحّ، وإنما ذكره عبد الرزاق عن الأسلمي عن زيد بن أسلم مُرْسَلاً؛ وهذا ومثله ليس حجة. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جدّه " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نهى عن بيع العربان» " قال أبو عمر: قد تكلم الناس في الثقة عنده في هذا الموضع، وأشبه ما قيل فيه: أنه أخذه عن ابن لَهِيعة أو عن ابن وهب عن ابن لهيعة؛ لأن ٱبن لَهِيعة سمعه من عمرو بن شعيب ورواه عنه. حدّث به عن ابن لهيعة ٱبنُ وهب وغيره، وابن لهيعة أحد العلماء إلا أنه يقال: إنه احترقت كتبه فكان إذا حدّث بعد ذلك من حفظه غَلِط. وما رواه عنه ابن المبارك وابن وهب فهو عند بعضهم صحيح. ومنهم من يضعّفَ حديثه كلّه، وكان عنده علم واسع وكان كثير الحديث، إلا أن حاله عندهم كما وصفنا."[11]

لہذاان روایات سے کسی چیز کی حرمت ثابت نہیں کیجاسکتی۔ البتہ ازروئے قیاس بیع عربون پرجواعتراضات واردہوتے ہیں ان کا ایک جواب تو یہ ہے کہ عصرحاضرمیں بیع عربون یامشتری کے بیع فسخ کرنے کی صورت میں بیعانہ ضبط کرلیاجاناعرف اورتعامل کی صورت اختیارکرچکاہے اورہمارے زمانے کے باخبرافرادسے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے۔ بہت ہی کم ایسے افرادہونگے جوبیعانہ ضبط نہ کریں۔اسی طرح بین الاقوامی تجارتی منڈیوں میں اکثرسودے اسی بنیادپرکئے جاتے ہیں، چنانچہ فقہ اسلامی کے معروف قاعدہ “العرف قاض علی القیاس” کے تحت بیع عربون کاجوازواضح ہے،بلکہ راقم الحروف موقع کی مناسبت سے عرف کی تاثیراوراسکی کچھ مثالیں نقل کرنامناسب سمجھتاہے، ان میں سے اکثرمثالیں امام اہل سنت اعلیٰحضرت رحمہ اللہ نے فتاوی رضویہ شریف قدیم کی جلد۸ میں منی آرڈر کی بحث میں نقل فرمائی ہیں۔

1) علماء حنفیہ نے تعامل اورعرف کی وجہ سے موجودہ پھلوں کے ساتھ ان پھلوں کی بیع کے بھی جوازکافتوی دیاجوابھی ظاہر نہ ہوئے حالانکہ بیع معدوم باطل ہے۔

2) ہمارے فقہاء نے دخول حمام کے جوازکافتوی دیا حالانکہ اس میں کئی باتیں مجھول ہوتی ہیں مثلاکتنی دیراندرٹھہرے گا، کتناپانی استعمال کریگا۔

3) بیع استصناع کوتعامل اورحاجت کی وجہ سے جائزقراردیا حالانکہ یہ بھی معدوم کی بیع ہے۔

4) تعامل کی وجہ سے بیع تعاطی کوجائزقراردیاحالانکہ تراضی کے ساتھ ایجاب وقبول ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے، "إلا أن تكون تجارةً عن تراض منكم۔" النساء 4/ 29۔ اسی کی مثل ہوٹل میں چائے یاکھانے کے لئے بیٹھناہے۔

5) اسی طرح حنفی علماء نےضرورت وحاجت کی وجہ سے بیع وفاءکے جوازکافتوی دیاحالانکہ یہ سودسے بچنے کاحیلہ ہے اوراس میں مشتری کے لئے ایسی شرط نافع ہے کہ جس کاتقاضاعقدنہیں کرتا، وہ ردثمن پربیع کوفسخ کرناہے۔

6) اسی طرح سیاسی ، سماجی اورمعاشی معاملات میں مصالح کی وجہ سے ہرایسے متعارف مصالح پرجوازکافتوی دیاجاتاہے، جوکسی نص شرعی سے متعارض نہ ہو مثلا:گھڑیوں اورالیکٹرونک کے سامان کی مدت مخصوص میں خراب ہونے کی صورت میں مرمت یاواپسی کی ضمانت، حالانکہ ظاہرایہ عرف حدیث شریف کے خلاف ہے۔ حدیث میں واردہواکہ ""نھی عن بیع وشرط" مگردرحقیقت یہ عرف حدیث کے خلاف نہیں کیونکہ فقہاء فرماتے ہیں کہ یہ حدیث معلول بعلت ہے۔ یعنی ایسی شرط جائزنہیں جومنازعت اورجھگڑے کاباعث ہو۔ اورکسی بات پرعرف قائم ہوجانااس بات کی دلیل ہے کہ اس میں منازعت نہیں ہے۔

7) اسی طرح اورکئ ایسی شروط ہیں جوکہ حنفیہ کے نزدیک شروط فاسدہ میں سے ہیں مگرلوگوں میں متعارف ہونے اورحاجت کی وجہ سے جائزقراردی گئ ہیں مثلاکسی سے گندم اس شرط پرخریدناکہ وہ پیس کربھی دیگا، کپڑا اس شرط پر خریدناکہ وہی سی کربھی دیگا، کسی سے گندم اس شرط پرخریدناکہ وہ ایک ماہ تک بائع ہی کے پاس رہے گی، بائع کااس شرط پرمکان بیچناکہ وہ ایک ماہ بعدخالی کریگایاکسی کوزمین اس شرط پربیچناکہ بائع اسے ایک سال مزیدکاشت کرنے کے بعدحوالے کریگا۔ یہ تمام معاملات ان تمام شروط کے باوجوددرست قراردیئے گئے ہیں۔ اس کی تائیدمسلم شریف کی اس حدیث شریف سے ہوتی کہ جس میں ذکرآیاکہ ""ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اشتری من جابرجملاواستثنی جابرحملانہ علیہ الی أھلہ۔"

8) اسی طرح متاخرین حنفی فقہاء نے ضرورت کی وجہ سے تعلیم قرآن، آذان اورامامت کی اجرت پرجوازکافتوی دیا حالانکہ اصل مذہب میں منع ہے۔

9) علماء کی کثیرتعدادکے نزدیک ایسی بیع جائزہے کہ جس میں ثمن کی ادائیگی مقررکرنے کے بجائے عرف پرچھوڑدی گئ ہو ،مثلانوکری پیشہ حضرات عموماسارے ماہ پرچون کی دکان سے سودالیتے رہتے ہیں اوراس کی قیمت مہینے کے آخرمیں اداکرتے ہیں، اوربعض اشیاء میں قیمت معروف ہونے کی وجہ سے ثمن بھی طے نہیں کرتے ۔

نیزاہل فہم سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ عصرحاضرمعاشیات کازمانہ (Economical age) ہے۔ اورافراط زر (Inflation)کی وجہ سے پیسے کی قیمت (Value)روزبروزگرتی چلی جاتی ہے، لہذاافراط زرکی وجہ سے ہونےوالے نقصان کاازالہ صرف عربون ہی کی صورت میں ہوسکتاہے۔ اس کے علاوہ دیانتداری اس زمانے میں مفقودہے، بہت کم افراد ایسےملیں گے جواپنے نقصان کی صورت میں بھی دیانتداری سے کام لیں۔ عموماتجارتی منڈیوں میں یہ ہوتاہے کہ ایک تاجرکسی دوسرے تاجرسے کوئی سوداکرلیتاہے اوروہ بیعانہ بھی اداکردیتاہے۔ اوربعض اوقات سامان کے سپردکرنے کی تاریخ تک اس مبیع کی قیمت اتنی کم ہوچکی ہوتی ہے کہ اگربائع اس چیزکی بقیہ قیمت اداکرکے سامان لے لیگا تواسے بہت زیادہ نقصان ہوجائیگا، لہذاوہ اس بڑے نقصان سے بچنے کے لئے بیعانہ چھوڑدیناپسند کرتاہے۔مثلا زیدکسی شخص سے دس لاکھ روپے میں کچھ جاپانی الیکٹرونک سامان کاسوداکرتاہےاوراسے دس ہزار روپےبطوربیعانہ یاعربون سپردکردیتاہے، بقیہ رقم کے لئے بیس کی دن کی مہلت طلب کرتاہے۔ اسی مدت کے دوران بازارمیں چین کاالیکٹرونک سامان پہنچ جاتاہے جوکہ جاپانی الیکٹرونک کے مقابلے میں نہایت سستاہوتاہے اوراس کااثریہ مرتب ہوتاہے کہ جاپانی سامان کی قیمت اتنی زیادہ گرجاتی ہے کہ زیداگراس سامان کو بازارمیں بیچے تواسے پچاس ہزارکاخسارہ یقینی ہے، چنانچہ زیداس بڑے نقصان سے بچنے کے لئے چھوٹانقصان برداشت کرلیناگواراکرلیتاہے یعنی سودافسخ کرکے بیعانہ کی رقم بائع کے لئے چھوڑدیتاہے حالانکہ ازروئےقوانین شرع مبیع کی قیمت گرجاناسودے کے فسخ کرنے کے اعذارمیں سے نہیں، اورازروئے دیانت بھی ایساکرنادرست نہیں کیونکہ اگریہ مشتری بیعانہ دے کرروکے نہ رکھتاتوممکن تھاکہ بائع یہ سوداکسی اورکوفروخت کردیتا، نتیجۃ بائع کوبھی خسارے کاسامناکرناپڑتاہے۔ لہذابیعانہ ضبط کرلینے کی صورت ہی میں بائع کے خسارے کاکسی حدتک ازالہ کیاجاسکتاہے۔

بعض علماء نےبیع عربون کو لوگوں کامال باطل طریقے سے کھانے کاذریعہ قراردیاہے ۔ بعض علماء نے کہ کہاکہ اس بیع میں بائع کے لئے بلاعوض بیعانہ کی شرط لگادی گئ ہے۔ راقم الحروف کے خیال میں ان دونوں اعتراضات کامفادیہی ہے کہ عربون یابیعانہ کوروک لینابلاعوض ہے اس لئے ناجائزہے۔ یہ اعتراض گذشتہ زمانے کے اعتبارسے توایک حدتک درست تھاکہ جب ثمن خلقی یعنی سونے چاندی یاان کے ڈھلے ہوئے سکوں کے بدلے میں بیع ہواکرتی تھی۔ اوراس زمانے میں سوناچاندی ہی معیارتھا، لہذاگذشتہ زمانے میں ثمن کی قیمت گرنے (Devalue) کامسئلہ نہیں تھا۔ اوراس زمانے میں تجارت بھی اتنی تیزنہیں تھی کہ راتوں رات مال کی قیمت گرجائے۔ لہذاتجارکواپنامال فروخت کرنے کے لئے ٹائم مل جاتاتھا۔ نیزلوگوں میں دیانتداری اورزبان کی پاسداری کاعنصرپایاجاتاتھا،جس کی وجہ سے بلاوجہ سودافسخ کرنے کامعاملہ کم ہی ہوتاتھا۔ لیکن فی زمانہ سوداتام نہ ہونے کی صورت میں بیعانہ ضبط کرلینابلاعوض نہیں ہے کیونکہ بیعانہ عوض ہے اس نقصان کاجوبائع کوانتظاراورتعطل کی وجہ سے ہوا،مثلا:سامان کی قیمت گرجانایادکان یاگودام کاکرایہ زیادہ ہونے کی صورت میں اتنے عرصہ کا کرایہ۔ اس قسم کےعوض لینے کی مثال حدیث مبارک میں بیع مصراۃ کی ہے۔ بعض علماء نے کہاکہ اس میں غررہے اوربعض نے کہااس بیع کی تکمیل مشتری کی رضامندی پرہے، اورمشتری کے راضی ہونے کاکوئی پتہ نہیں کہ وہ کب راضی ہو۔ راقم الحروف کے خیال میں ان دونوں اعتراضات کامفادایک ہی ہے یعنی مشتری کی رضامندی مجھول ہے اوریہ ناجائزہے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ فی زمانہ یہ اعتراض واردنہیں ہوتاکیونکہ بیعانہ دیتے وقت مشتری اوربائع کے درمیان وقت مقررکرلیاجاتاہے۔

مذکورہ بالابحث سے ظاہرہواکہ بیع عربون کی ممانعت میں واردحدیث ضعیف ہے، اس لئے اس روایت سے اس کی حرمت پراستدلال نہیں کیاجاسکتا۔ نیزبیع عربون پرعرف جاری ہوچکاہے اورفی زمانہ قیاس بھی اس کے جوازکاتقاضاکرتاہے۔ یہی وجہ ہےکہ مجمع الفقہ الاسلامی نے اس کے جوازکافتوی دیا۔ اہل علم پرروشن ہوگاکہ مجمع الفقہ الاسلامی میں مذاہب اربعہ کے ممتازاسکالرزاورفقہاء شامل ہیں۔ مجمع الفقہ الاسلامی نے اس بابت جوفتوی دیاوہ درج ذیل ہے۔

یجوزبیع العربون اذاقیدت فترۃ الانتظاربزمن محدود، وتحتسب العربون جزءا من الثمن اذاتم الشراء ، ویکون من حق البائع اذا عدل المشتری عن الشراء۔ [12]

وفی الجمع بین القولین : یعمل بقول جمھورالفقھاء عند عدم وجودالضررعلی البائع أو المشتری ویعمل بقول فقھاء الحنابلۃ عند وجودضررلأحدالمتعاقدین۔ [13]

اسی طرح بحرین کی Accounting and Auditing کی بین الاقوامی تنظیم نے بھی بیع عربون کے جوازکافتوی دیا۔ خیال رہے کہ یہ وہ تنظیم ہے کہ جس کے مرتب کردہ قوانین ساری دنیاکے اسلامی بینکوں میں رائج ہیں۔ اس کی عبارت درج ذیل ہے۔

It is permissible for the institution to take Urboon after concluding the Murabaha sale with the customer.[14]

ترجمہ: ادارے کے لئے جائزہے کہ وہ بیع مرابحہ کرنے کے بعدگاہک سے عربون وصول کرے۔

ھذاماظھرلی والحق عنداللہ۔ واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: محمدابوبکرصدیق

رئیس دارالافتاء Qtv

[] سنن ابوداؤد حدیث ۳۵۰۲ ج ۳ ص ۲۸۳، سنن ابن ماجہ ۲۱۹۲ ج۲ ص ۷۳۸

[] مغنی المحتاج ج۲ ص ۳۹ ، نیل الأوطار ج۵ ص ۲۵۱

[] حاشیۃ الدسوقی ج۳ ص۳۶

[] المغنی ج۴ ص۱۶۰

[] فتاوى اللجنة الدائمة (13/133)

[] [] الجامع لاحکام القران المعروف بتفسیرالقرطبی سورۃ: النساء الایۃ:۲۹

[] الفقہ الاسلامی وادلتہ ج ۵ ص ۳۴۳۵

[] مصنف عبدالرزاق حدیث ۹۲۱۳ ج۶ ص ۵۱۳ ، سنن البیہقی الکبری حدیث ۱۰۹۶۲ ج۶ ص ۳۴

[] فقہ المعاملات المالیۃ المقارن ص ۹۴

[] الفقہ الاسلامی وادلتہ ج ۵ ص ۳۴۳۵

[11] الجامع لاحکام القران المعروف بتفسیرالقرطبی سورۃ: النساء الایۃ: ۲۹

[12] فقہ الماملات المالیۃ المقارن ص ۹۵

[13] ایضا

[14] Shari’a Standards Page 117

 

‏من جهاز الـ iPad الخاص بي

 منجانب : ابوالجمیل غلام مرتضی مظہری

No comments:

Post a Comment