Sunday, 23 June 2013
امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن کا عوام اہلسنت سنت کے نام شب برأت کے متعلق خط
شب برات قریب ہے اس
رات تمام بندوں کےاعمال پیش حضرت عزت ہوتےہیں
عورت کی امامت کا شرعی حکم
کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورت کا امامت کرانا کیسا ؟تفصیل کے ساتھ جواب دیں شکریہ
سائل: مولانا مصباح الدین ،تحصیل کھاریاں ضلع گجرات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
عورت کا دیگر عورتوں کی امامت کرانا خواہ پنجگانہ نمازیں یا جمعہ ہو یا
عیدین ہوں خواہ نماز تراویح ہو یا عظمت والی راتوں (لیلۃ القدر ،شب برأت
،شب معراج وغیرہ )کے نوافل کی ہو مکروہ تحریمی ہے۔
۔حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے ’’ (وکرہ جماعۃ النساء) تحریم للزوم احد المحظورین ،قیام الامام فی الصف الاول وھو مکروہ ،او تقدم الامام وھو ایضاً مکروہ ‘‘یعنی،’’ عورتوں کی جماعت مکروہ تحریمی ہے کیونکہ اس سے دو ممنو ع چیزوں میں سے ایک ضرورصادر ہو گی ایک امام عورت کا پہلی صف میں ہونا یا امام عورت کا آگے امام کی جگہ پر کھڑا ہونا بھی مکروہ تحریمی ہے ‘‘ ۔[حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،ص:۳۰۴،مطبوعہ قدیمی کراچی]۔
الجوھرۃ النیرہ میں ہے ’’ (یکرہ للنساء ان یصلین وحدھن جماعۃ )یعنی بغیر رجال ،وسواء فی ذلک الفرائض والنوافل والتراویح‘‘یعنی،’’ اکیلے عورتوں کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے فرائض ،نوافل اور تراویح سب کا ایک حکم ہے ‘‘۔[الجوھرۃ النیرۃ،ج:۱،ص:۱۶۲،مکتبہ رحمانیہ ،لاہور]۔
فتح القدیر میں ہے ’’ (یکرہ للنساء ان یصلین جماعۃ لانھن فی ذلک لا یخلون عن ارتکاب محرم )ای مکروہ لان امامتھن اما ان تتقدم علی القوم او تقف وسطھن ،وفی الاول زیادۃ الکشف وھی مکروھۃ ،وفی الثانی ترک الامام مقامہ وھو مکروہ والجماعۃسنۃ وترک ماھو سنۃ اولی من ارتکاب مکروہ ‘‘یعنی،’’ اکیلی عورتوں کی جماعت حرام(کراہت تحریمی) کے ارتکاب سے خالی نہیں ہوگی کیونکہ امام عورت تما م نماز پڑھنے والیوں کے آگے ہوگی یا صف کے درمیان میں کھڑی ہو گی ۔پہلی میں تو بے پردگی ہے اور وہ مکروہ ہے اور دوسری میں امام کی جگہ کو چھوڑ دینا ہے وہ بھی مکروہ تحریمی ہے ۔ جماعت سنت ہے اور مکروہ تحریمی کے ارتکاب کے وقت سنت کو چھوڑ دینا افضل ہے ‘‘۔[فتح القدیر ،ج:۱،ص:۳۶۲،مکتبہ،رشیدیہ ،کوئٹہ]۔
لیکن عورت کے امام بننے سے مراد مرد کی امامت کرانا ہے تو وہ کسی صورت میں بھی مرد کی امام نہیں بن سکتی کیونکہ امام بننا مرد کا کام ہے عورت کا نہیں فتاوی عالمگیری میں ہے ’’ لایجوز اقتداء رجل بامرأۃ ھکذا فی الھدایۃ‘‘یعنی،’’ مرد کسی عورت کی اقتدء نہیں کر سکتا اسی طرح ھدایہ میں ہے ‘‘۔[فتاوی عالمگیری ،ج:۱،ص:۹۴،مکتبہ قدیمی ،کراچی ]۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عورت کاصرف عورتوں کی امامت کرانا مکروہ تحریمی ہے اور مردوں کی امامت اصلاً کرہی نہیں سکتی ۔واللہ تعالی اعلم
ابوالجمیل غلام مرتضی مظہری نے لکھا اور رئیس دارالافتاء ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اخترا لمدنی نے تصدیق فرمائی۔
Friday, 21 June 2013
شب برأت کو قبرستان جانا کیسا
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شب برأت میں قبرستان جانے کاکیاحکم ہے؟
سائل:محمداشتیاق احمدقادری،کریم آبادکراچی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
شب برأت اپنے عزیزواقارب یابزرگان دین کی قبروں کی زیارت کے لئے جاناجائزومستحب ہے۔
حدیث پاک میں ہے:’’عن عائشۃ :قالت فقدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم
لیلۃ فخرجت فإذا ہو بالبقیع فقال أکنت تخافین أن یحیف اللہ علیک ورسولہ ؟
قلت یا رسول اللہ إنی ظننت أنک أتیت بعض نساء ک فقال إن اللہ عز و جل ینزل
لیلۃ النصف من شعبان إلی السماء الدنیا فیفغر لأکثر من عدد شعر غنم
کلب‘‘یعنی،’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں میں نے ایک رات رسول اللہ
ﷺکوگم پایا،دیکھاکہ آپ ﷺجنت البقیع میں تھے توآپ نے فرمایاکیاتم اس سے
خوف کرتی تھیں کہ تم پراللہ عزوجل ورسول ﷺ ظلم کریں گے،میں نے عرض
کیایارسول اللہ ﷺ!مجھے خیال ہواکہ آپ کسی اوربیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں
توفرمایااللہ تعالی (کی رحمت)پندرہویں شعبان کی رات آسمان دنیاکی طرف نزول
فرماتاہے توقبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ کوبخش
دیتاہے‘‘۔[جامع الترمذی،أبواب الصوم،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان،
ج:۱،ص:۲۷۵،مکتبہ رحمانیہ لاہور]۔
حکیم الامت مفتی احمدیارخان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’اسی سے معلوم
ہواکہ شب برأت میں عبادات کرناقبرستان جاناسنت ہے‘‘۔[مرأۃ المناجیح، کتاب
الصوم،باب قیام شہررمضان،الفصل الثانی،ج:۲،ص:۲۸۲،قادری پبلشرزلاہور]۔
مزیدآپ علیہ الرحمہ اسلامی زندگی میں لکھتے ہیں:’’شعبان، شب برأت:اس مہینہ
کی پندرھویں رات جس کو شبِ برأت کہتے ہیں بہت مبارک رات ہے ۔ اس رات میں
قبر ستان جانا ، وہاں فاتحہ پڑھنا سنت ہے ، اسی طر ح بزرگان دین کے مزارات
پر حاضر ہونا بھی ثواب ہے‘‘۔[اسلامی زندگی، ص:۱۳۳، مکتبۃ المدینۃ
کراچی]۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم
مزید شرعی مسائل کے حل کے لئے رابطہ فرمائیں۔00923022576336غلام مرتضی مظہری
Thursday, 20 June 2013
شعبان المعظم میں عرفہ کی نیاز کا شرعی حکم
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ سے متعلق کہ عرفہ کی نیاز ، فاتحہ ،
یعنی اگر کسی کے گھر کسی عزیز کا انتقال ہوجائے تو سارے رشتہ دار میت کے
گھر میں تیرہ 13 شعبان کو جمع ہوجاتے ہیںاوراس نیاز کے ذریعے گزرےشعبان المعظم کےبعد فوت ہونے والے مردے کی روح کو پرانوں کی روحوں کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔اور بعض یہ کہتے ہیں کہ عرفہ کی نیاز کے بعد پہلے والی روحیں اس روح کو عالم برزخ میں لے کر جائیں گی اس سے پہلے وہ روح ادھر ادھر بھٹکتی رہتی ہے وغیرہ باتیں سننے کو ملتی ہیں اس
کے متعلق شرعی حکم بیان فرمائیں؟
سائل : محمد نذر اقبال ، لانڈھی :6،کراچی
بسم اللہ الر حمن الر حیم
الجواب بعون الوھاب اللھم ھداےۃ الحق والصواب
سال کے کسی بھی دن مسلمان میت کوایصال ثواب کرنااوراس کے لئے صدقہ کرناایک مستحسن اوربہت اچھاکام ہے ،لیکن یہ عقیدہ رکھناکہ عرفہ کی نیازتک روحیں الگ الگ رہتی ہیں اورنیازدلانے سے ایک دوسرے کیساتھ مل جاتی ہیں یانیاز دلانے سے پہلے والی روحیں بزرخ میں لے جاتی ہیںیا کپڑاڈال کرنیازدلاتے ہیںیہ سب جہالت کی باتیں ہیں شرع میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ موت اور قیامت کے درمیانی وقت کوبرزخ کہا جاتا ہے لہذااس طرح کہنا کہ نیاز کے بعد وہ روح عالم برزخ میں جاتی ہے درست نہیں ان جہالت کی باتوں سے بچیں اورجتناہوسکے اپنے مسلمان مرحومین کے لئے ایصال ثواب کریں۔
یہ ایصال ثواب کرنا ہمیں ہمارے صحابہ کرام علیھم الرضوان نے ہی سکھایا ہے بلکہ خود حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کو تعلیم دی ۔ امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ’’عن عائشہ ان رجلا قال للنبی ﷺ ان امی افتلبت نفسھا واظنھا لو تکلمت تصدقت فھل لھا اجرا ن تصدقت عنھا قال نعم‘‘ یعنی،’’ امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں کہ ایک شخص (سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ) نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ میر ی ماں اچانک فوت ہو گئیں اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کچھ بات کر سکتیں تو صدقہ( ایصال ثواب) کرتیں اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ( ایصال ثواب ) کردوں تو کیا ان کو اجر ملے گا ؟آپ ﷺ نے فرمایا ہاں‘‘۔[صحیح البخاری،ج:۱،ص: ۱۸۶،مکتبہ نورمحمد کراچی ]۔
امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث رضی اللہ تعالی عنہ روایت فرماتے ہیں کہ’’عن سعد بن عبادۃ انہ قال یا رسول اللہ ان ام سعد ماتت فای الصدقۃ افضل قال الماء فحفربیرا وقال ھذہ لام سعد یعنی ،’’حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا یارسول اللہ ﷺ سعد کی والدہ فوت ہوگئیں پس کس چیز کا صدقہ(ایصال ثواب ) کرنا افضل ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا پانی کا ، انہوں نے کنواں کھودا اورکہا یہ سعد کی ماں کے لیے ہے ‘‘۔[سنن ابو داؤد،ج:۱،ص: ۲۳۶، مکتبہ مجتبائی پاکستان]۔
شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعید ی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:’’ اس سے معلوم ہو اکہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی ماں کی طرف سے باغ بھی صدقہ کیا اور کنواں بھی صدقہ کردیا‘‘۔ [ شرح صحیح مسلم ،ج: ۴، ص: ۵۰۰، مکتبہ فرید بک سٹال]۔اس صحابی رسول ﷺکے عمل سے معلوم ہواکہ صدقہ وخیرات کوبطور ایصال ثواب کرنا جائز ہے۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم
Wednesday, 19 June 2013
قسطوں پر کاروبار اورموٹر سائیکل لکی کمیٹی اسکیم کا شرعی حکم
کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں لکی کمیٹی کی
ایک اسکیم چل رہی ہے اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ مثلاً 2000ہزار روپے ماہانہ
جمع کروانے ہوتے ہیں اور اس کے تقریباً تین سو ممبر ہوتے ہیں اور ہر ماہ
قرعہ اندزی ہوتی ہے ان ممبران میں سے جس کا نام نکل آئے اس کونیا موٹر
سائیکل دیتے ہیں اور اس کو بقیہ کمیٹی کی اقساط معاف ہو جاتی ہے چاہئے وہ
پہلی کمیٹی پر اس کا نام نکلے یا کچھ کمیٹیاں جمع کرانے کے بعد نکلے اور
اگر 30کمیٹیاں جمع کرانے تک اس کا نام نہ نکلا تو پھر کمیٹی والے اس کو
نیاموٹر سائیکل دے دیتے ہیں۔اس طرح کی کئی اسکیم چل رہی ہیں اور لوگ بھی اس
میں بڑی خوشی سے حصہ لے رہے ہیں ۔ہمارے پاس مختلف علماء کی رائے پہنچی ہے
بعض کہتے ہیں یہ جائز ہے اور بعض کہتے ہیں جائز نہیں ۔اقساط پر خریداری اور
اس خریداری میں کیا فرق ہے ۔لہذا آپ اس کے بارے میں تحریری طور پر ہمیں
آگاہ فرمائیں کہ لکی کمیٹی میں حصہ لینا جائز ہے یا نہیں؟اگر جائز ہے تو
برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمائیں اور اگر ناجائز ہے تو کیوں اس کی بھی
وضاحت فرمائیں تاکہ ہم بھی اس کمیٹی میں حصہ لینے یا نہ لینے کے بارے میں
کوئی فیصلہ کریں؟
سائل: محمد ابوبکر،ضلع لیہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
اس کمیٹی کی بنیادبیع پر ہے۔یہ اقساط پر خریداری سے بہت مختلف ہے قسطوں
میں خریدارایک مقررہ قیمت پر مبیع پہلے لے لیتا ہے اور بعد میں اس کی قسطوں
کی صورت میں ثمن ادا کرتا رہتا ہے اس کے بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ اگر
قسطوں پرخریدوفروخت اس طرح ہوکہ بائع(بیچنے والا) ومشتری (خریدار)کے درمیان
مبیع (جوچیزبیچی جارہی ہے)کی قیمت مقررہوجائے اگرچہ رائج الوقت سے زیادہ
ہواوریہ بھی طے ہوجائے کہ ماہانہ اقساط کی رقم کیاہوگی اورادائیگی کتنی مدت
میں ہوگی اورقسط کی تاخیرسے جرمانہ نہ ہوگا۔اورمبیع خریدارکی ملک کرکے اس
کے حوالے کردی جائے ۔تویہ بیع شرعاًدرست وجائزہے۔
ارشاد باری تعالی ہے ’’ِ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ
مِّنکُمْ‘‘ ترجمہ کنزالایمان : مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی
کا ہو[النساء :۲۹] ۔کنز الدقائق میں بیع کی تعریف اس طرح سے بیا ن کی گئی
ہے کہ ’’ ھو مبادلۃ المال بالمال بالتراضی‘‘ یعنی،’’ بیع وہ آپس کی رضامندی
سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا ہے‘‘۔ [کنز الدقائق علی البحرالرائق
:ج:۵ ،ص:۴۲۹،مکتبہ رشیدیہ]۔
فتاوی فیض الرسول میں ہے ’’ کوئی بھی سامان اس طرح بیچنا کہ اگر نقد قیمت
فوراً ادا کرے تو تین سو قیمت لے اور اگر ادھار سامان کوئی لے تو اس سے تین
سو پچاس روپیہ اسی سامان کی قیمت لے ۔یہ شریعت میں جائز ہے سود نہیں ہے
نقد اور ادھار کا الگ الگ بھاؤ رکھنا شریعت میں جائز ہے ۔مگر ضروری ہے کہ
سامان بیچتے وقت ہی یہ طے کر دے کہ اس سامان کی قیمت نقد خرید و تو اتنی ہے
اور ادھار خریدو تو اتنی ہے(تو یہ جائز ہے) ۔[فتاوی فیض الرسول
،ج:۲،ص:۳۸۰،مطبوعہ شبیر برادر لاہور]۔
لیکن اگر قسط کی تاخیر کی صورت میں سود یا جرمانہ دینا پڑے تو پھر یہ
عقدسراسرناجائزوحرام ہوگا ۔مفتی جلال الدین احمد امجد ی علیہ الرحمہ لکھتے
ہیں ’’(قسطوں کے کاروبار میں )یہ جائز نہیں کہ تین سو روپیہ میں فروخت کر
دیا اب اگر قیمت ملنے میں ہفتہ کی دیر ہو گئی تو اس سے پچیس یا پچاس زیادہ
لے ایسا کرے گا تو سود ہوجائے گا‘‘۔[فتاوی فیض الرسول ،ج:۲،ص:۳۸۰،مطبوعہ
شبیر برادر لاہور]۔
اور شریعت مطہرہ میں سودسے سختی کے ساتھ منع کیاگیاہے قرآن مجیدواحادیث
مبارکہ میں اس پروعیدات کثیرہ موجودہیں۔چنانچہ ارشادباری تعالیٰ ہے
:’’الذین یأکلون الربوالایقومون الاکمایقوم الذی یتخبطہ الشیطان من المس
ذالک بانہم قالواانماالبیع مثل الربواواحل اللہ وحرم الربوا‘‘وہ جوسودکھاتے
ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگرجیسے کھڑاہوتاہے وہ جسے آسیب نے
چھوکرمخبوط بنادیایہ اس لئے کہ انہوں نے کہابیع بھی توسودکی مانندہے اللہ
نے حلال کیابیع کواورحرام کیاسودکو‘‘۔[بقرہ:۲۷۵]۔
ایک دوسرے مقام پرارشادباری تعالی ہے :’’یاایہاالذین آمنوااتقوااللہ
وذروامابقی من الربواان کنتم مؤمنین فان لم تفعلوافاذنوابحرب من اللہ
ورسولہ ‘‘اے ایمان والو!اللہ سے ڈرواورچھوڑدوجوباقی رہ گیاہے سوداگرمسلمان
ہوپھراگرایسانہ کروتویقین کرلواللہ اوراس کے رسول سے لڑائی
کا‘‘۔[بقرہ:۲۷۸]۔مزیدارشادباری تعالیٰ ہے :’’یمحق اللہ الربواویربی الصد
قٰت واللہ لایحب کل کفاراثیم ‘‘یعنی ،’’اللہ تعالیٰ ہلاک کرتاہے
سودکواوربڑھاتاہے خیرات کواوراللہ تعالیٰ کوپسندنہیںآتاکوئی
ناشکرابڑاگنہگار‘‘۔[بقرہ:۲۷۶]۔
احادیث مبارکہ میںآتاہے کہ سودزناسے بھی بدترہے ۔چنانچہ حدیث شریف
میںآتاہے :’’درہم الربوایأکلہ الرجل وہویعلم اشدستۃ وثلثین زنیۃ
........وزاد،قال من نبت لحمہ من السحت فالناراولیٰ بہ ‘‘سودکاایک درہم کہ
آدمی دانستہ کھائے توچھتیس بارزناکرنے سے بھی بدترہے‘‘ اوردوسری روایت میں
ہے جس کوگوشت حرام سے پلابڑھاہے وہ نارجہنم کے زیادہ مستحق
ہے‘‘۔[مشکوٰۃ:۲۵۷،رحمانیہ،لاہور]۔دوسری حدیث مبارکہ میں ہے:’’ لعن رسول
اللہ آکل الربوا ومؤکلہ وکاتبہ ‘‘رسول اللہ ﷺنے سودکھانے والے ،کھلانے والے
اوراس کے لکھنے والے پرلعنت فرمائی ہے ‘‘۔
[مشکوۃ:۲۵۷،رحمانیہ،لاہور]۔
مندرجہ بالاآیات واحادیث پاک سے معلوم ہواکہ سودلینا،دینامطلقاً حرام وگناہ ہے ۔ماہانہ اقساط کے ساتھ سود یعنی مبیع کے ثمن (قیمت)سے زائداگربائع نہ لے تویہ عقدجائزہے اوراگرسود دیناپڑتاہوتو پھر اس طرح قسطوں پر کوئی چیز بیچنا یا خریدنا ناجائز ہو گا جس کاحکم اوپربیان ہوچکاہے۔
اور باقی رہا مسئلہ لکی کمیٹی کا تو اس کا طریقہ قسطوں کے کاربار سے مختلف
ہے جیسا کہ سائل نے بھی اس کی وضاحت کی ہے ۔سائل کی بیان کردہ تفصیل کے
مطابق لکی کمیٹی میں موٹر سائیکل کی بیع ،بیع فاسد ہوتی ہے جوکہ
ناجائزوگناہ ہے ۔کمیٹی مالکان یاکسی بھی ممبر کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ
فلاں ممبر کانام کتنی قسطوں کے بعد نکلے گا کیونکہ سب ممبروں کی ممبر شب
مجہول طریقے سے کی جاتی ہے یعنی اگر یہ ہوا تو، یہ ہو جائے گا۔ اور وہ ہوا
تو، یوں ہو جائے گا وغیرہ ۔کوئی موٹر سائیکل کی قیمت مقرر نہیں کرتے اس طرح
موٹر سائیکل کی بیع فاسد ہوگی کہ معلوم نہیں موٹر سائیکل کا کتنے ثمن پر
سودہ ہو رہا ہے ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے ’’ ان یکون المبیع معلوماً والثمن معلوماً علماً
یمنع من المنازعۃ فبیع المجہول جھالۃ تفضی الیھا غیر صحیح ‘‘یعنی ،’’ بیع
کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ مبیع معلوم ہوا اور ا س کے ثمن معلوم اور
مقرر ہوں تاکہ جھگڑے سے بچا جا سکے ۔اسی وجہ سے مجہول چیز کی بیع جو جھگڑ ا
کی طرف لے جائے درست نہیں‘‘۔[فتاوی عالمگیری ،ج:۳،ص:۴،مکتبہ ،قدیمی کراچی]
۔
فقہی حنفی کی معتبر و معروف کتاب الھدایہ میں ہے ’’(والاثمان المطلقۃ لا
تصح) الا ان تکون معروفۃ القدر والصفۃ ،لان التسلیم والتسلم واجب بالعقد
،وھذہ الجھالۃ مفضیۃ الی المنازعۃ فیمتنع التسلیم والتسلم ،وکل جھالۃ ھذہ
صفتھا تمنع الجواز ،ھذا ھوالاصل ‘‘یعنی،’’ ثمن مطلقہ کے ساتھ بیع درست نہیں
مگر یہ کہ اس کی قدر اور صفت معلوم ہو جائے ۔کیونکہ عقد ہو نے پر مبیع کا
وصول کرنا اور ثمن ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔اور یہ جہلالت جھگڑے کی طرف لے
جانے والی ہے پس تسلیم اور تسلم سے مانع ہو گی ۔اور ہر جہلالت جو اس طرح
کی ہو وہ جواز کے مانع ہے۔اس کایہی ضابطہ کلیہ ہے ‘‘۔[الھدایۃ علی فتح
القدیر ،ج:۶،ص:۲۴۰،کتاب البیوع ،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ]۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کمیٹی میں معدوم کی بیع ہوتی ہے وہ اس طرح کہ
ممبر شپ کے وقت ہر ہر ممبر کے لئے الگ سے موٹر سائیکل کمیٹی مالکان کی ملک
نہیں ہوتی کیونکہ وہ ہر ماہ ایک موٹرسائیکل خرید تے ہیں ۔اوراگر ایک بھی لے
کر کھڑاکردیں تب بھی جائز نہیں کیونکہ سائل کے بیان کے مطابق ممبروں کی
تعداد تین سو ہے اور انہوں نے ہر ممبر کو موٹر سائیکل ضرور دینی ہے تو پھر
مسئلہ یہ بھی ہو گاکہ موٹر سائیکل ایک ہے اور لینے والے تین سو ہیں تو
یہ کس کو ملے گا۔ لہذا اس طرح بھی لکی کمیٹی میں حصہ لینا ناجائزہوا۔
درمختار میں ہے ’’ بطل بیع مالیس فی ملکہ لبطلان بیع المدوم ومالہ خطرا
لعدم الابطربق السلم لانہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نھی عن بیع مالیس عند
الانسان ورخص فی السلم ‘‘یعنی،’’ غیر مملوک کی بیع باطل ہے اس کا باطل ہو
نے کا سبب مبیع کا معدوم ہونا یا اس کے معدوم ہو نے کا خطرہ ہو مگر بطور
سلم اس کی بیع باطل نہیں۔اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس چیز کی بیع سے منع
فرمایا جو آدمی کے پاس نہ ہو اور بیع سلم میں رخصت ہے‘‘۔[درمختار ،کتاب
البیوع ،باب البیع الفاسد ،ج:۲،ص:۲۴،مکتبہ مجتبائی ]۔
ردالمحتار میں ہے ’’ لم ینعقد بیع المعدوم .....لا بیع ما لیس مملوکالہ
وان ملکہ بعدہ الا السلم‘‘ملخصاًیعنی،’’ معدوم کی بیع منعقد نہیں ہوتی
.....اور نہ اس چیز کی جو بائع کے ملک میں نہ ہو اگرچہ بعد میں اس کا مالک
بن جائے سوائے بیع سلم کے‘‘۔[ردالمحتار،کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد]۔
مذکورہ بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ لکی کمیٹی میں سائل کے بیان کردہ
طریقہ کار کے مطابق حصہ لینا جائز نہیں ہے اور جو حصہ لے چکے ہیں وہ فوراً
اس سے الگ ہو جائیں ۔واللہ تعالی اعلم
ابوالجمیل غلام مرتضی مظہری نے اس کو تحریر کیا اوررئیس دارالافتاء فیضان شریعت ابوالحسینین مفتی محمد وسیم اختر المدنی نے اس کی تصدیق فرمائی
Tuesday, 18 June 2013
شیخ امین ملتانی کے اقتبسات کا شرعی حکم
کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ بی بلا ک شاہ رکن عالم کالونی ملتان میں عرصہ بارہ ،تیرہ سال سے ایک شخص آیا ہے جس کانام شیخ امین عبد الرحمن ہے ،پیری ،مریدی کا سلسلہ جاری کئے ہوئے ہے ۔احباب کا ایک حلقہ رکھتا ہے ،عقائد اور نظریات کے حوالے سے مبہم ہے ،آج تک موثق اور باعتماد ذرائع کے ساتھ جو باتیں سامنے آئی ہیں وہ درج ذیل ہیں
:(۱)اس کے بال خلاف سنت پیٹ تک ہیں ۔
(۲)کہتا ہے کہ میں براہِ راست رسول پاک علیہ السلام سے فیض حاصل کرتا ہوں ،اللہ تعالی نے سب کچھ سرکار علیہ السلام کودے رکھا ہے ،میں ان سے لے کر مخلوق کو دیتا ہوں ،اس لئے مجھے صحابیت کا شرف حاصل ہے ۔
(۳)کبھی یہ بھی کہتا ہے کہ بعض صحابہ کامل ہیں اور بعض صحابہ ناقص ہیں ....(نعوذباللہ من ذالک )۔
(۴)کبھی یہ کہتاہے کہ ساتویں صدی میں ادریس نامی بزرگ گزرے ہیں ،میں اس سے فیض لے کر مخلوق کو پہنچاتا ہوں ،اس لئے اپنے آپ کو ادریسیہ سلسلہ کی طرف منسوب کرتا ہے ۔
(۵)رمضان شریف میں دس رکعت تراویح پڑھتا ہے ،یہ دس رکعت بھی صرف سورۂ طارق اور سورۂ اعلیٰ میں دو ،دو ،تین ،تین آیات کر کے پوری کرتا ہے ۔
(۶)رمضان میں وتر جماعت سے نہیں پڑھتا ۔
(۷)سنن اور نوافل کے شیخ اور اس کے مریدین تارک ہیں (نیا آنے والا کوئی پڑھ لیتا ہے )بعض احباب (مثلاً مولانا عبد الماجد صاحب جو شاہ رکن عالم کالونی کے رہائشی ہیں ،ایک سال تک شیخ امین کی مجلس میں حاضر رہے ہیں )نے جب یہ سوال کیا کہ شیخ امین اور اس کے مریدین سنن اور نوافل کیوں نہیں پڑھتے ،تو اس کے مرید خاص احتشام صاحب نے جواب دیا کہ اللہ جل شانہ نے ان کو معاف کردی ہیں ،مولانا نے کہا: کہ شریعت نے یہ چیز تو کسی کو معاف نہیں کی ،حتی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ تک کو یہ چیز معاف نہ ہوئی ،آپ کو کیسے معاف ہوگئی ،تو احتشام صاحب نے کہا :کہ شریعت اور چیز ہے اور طریقت اور چیز ،اللہ جل شانہ نے شیخ کو الہام کیا ہے اور ان کو یہ سب چیز معاف کر دی ہیں ۔
(۸)اس کے اخص الخواص مریدین رمضان میں فجر کی اذان کے بعد بھی کھاتے پیتے رہتے ہیں ۔
(۹)اپنی تقاریر میں علماء سے متنفر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دین علماء اور کتابوں سے نہیں آئے گا ،بلکہ میری صحبت میں بیٹھنے سے آئے گا ۔
(۱۰)کبھی کہتا ہے کہ سارے فرقے حق ہیں ،شیعہ ،سنی ،بھائی بھائی ہیں ،اور کبھی سب کو گالیاں دیتا ہے اور کہتا ہے کہ دیوبندی ،بریلوی ،اہلِ حدیث یہ بڑے خبیث ہیں ،ان سے بچ کر رہنا ،کبھی کہتا ہے کہ فلمیں دیکھو ،گانے سنو،جو کچھ بھی کرتے ہو،کرتے رہو،سب جنتی نہیں،کسی کو کچھ نہ کہاکرو۔
(۱۱) نعت خوانی کے دوران کبھی کھڑے ہو کر جھومتا ہے اور تالیاں بجاتاہے ،اور نعت خوانی کے دوران نعت خواں ’’صلی اللہ علیکم یا رسول اللہ وسلم علیکم یا حبیب اللہ ‘‘پڑھتے ہیں۔
(۱۲)لوگوں کی کوشش کے باوجود عقائد اور سلسلہ تصوف کے بارے میں وضاحت نہیں کرتا اور نہ ہی یہ بتاتا ہے کہ کس کا مرید ہے۔
(۱۳)سب سے بڑی کرامت یہ بتلاتا ہے کہ جو مجھ سے تعلق جوڑے گا اس کا کاروبار چمکے گا۔
(۱۴)کبھی مغرب کی نماز اتنی لیٹ کر دیتا ہے کہ عشاء کے وقت میں پڑھتا ہے اور کبھی عشاء کی نماز مغرب کے وقت ہی پڑھ لیتا ہے ،ایک مرتبہ عشاء کی نماز مغرب کے وقت میں ادا کی اور تین رکعت ادا کی ،بعض احباب نے ایک مرید سے سوال کیا کہ یہ تو عشاء کی نماز تھی ،تین رکعت کیوں ادا کی ؟تو مرید صاحب کہنے لگے کہ ہم سب سے تو غلطی ہو سکتی ہے ،لیکن شیخ صاحب سے غلطی نہیں ہو سکتی ، اس لئے انہوں نے چارہی پڑھائی ہیں اگرچہ ہمیں تین کا پتہ چلا ۔
(۱۵)نماز جماعت سے پڑھنے کا اہتمام نہیں کرتا،ایک مرتبہ ایک صاحب ان کے مرید کے ساتھ شیخ امین کی مجلس میں گئے ،عصر کا وقت تھا ،سب مریدین شیخ کے آنے کا انتظار کرتے رہے ،جب آخر وقت تک نہ آئے تو مریدین نے اپنی اپنی نماز پڑھ لی ،مغرب کے وقت میں اعلان ہوا کہ عصر کی نماز شیخ مدینہ منورہ میں پڑھانے گئے تھے ،اب واپس تشریف لے آئے ہیں ۔لہذا مغرب کی نماز خود پڑھائیں گے ۔
(۱۶)گذشتہ دنوں کچھ عرصہ پہلے گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے یہودی کے جل کر مرجانے کی خوشی میں شیخ نے تین دن کے جشن کا اعلان کیا ،اور مریدین کو شرکت کی دعوت دی ،یہ جشن محلے کے پلاٹ میں منعقد ہوا۔جس میں ڈھول ڈھمکا،جھانجر،آتش بازی ،نمائش کے لئے پنجرے میں شیر ،ناچنے کے لئے گھوڑے منگوائے گئے ۔مریدین نے اس جشن میں تین دن ڈانس کر کے (حتی کہ بعض مریدین نے تو گھونگرو بھی پہن رکھے تھے)خوب خوشی کا اظہار کیا ۔(۱۷)چوتھے دن شیخ نے ایک دن کی مزید اجازت دی ،جس میں مریدین کو شیخ امین صاحب کے کتے بن کر بھونکنے کے لئے کہا گیا ،چنانچہ چوتھے دن شیخ امین کے مریدین نے مائیک ہاتھ میں لے کر صرف یہی کہتے رہے ،شیخ امین کے کتے بھاؤں ،بھاؤں (یعنی کتے کی آواز)۔
(۱۸)یہ بھی ذہن میں رہے کہ شیخ امین ایک عرصہ مدینہ منورہ میں رہے ہیں ،بعض بدعات کی بناء پر حکومت نے ان کا خروج کر دیا ۔یہ وہ معلومات ہیں جو ان علماء سے لی گئی ہیں ،جو معلومات حاصل کرنے کے لئے شیخ امین کی مجلس میں حاضر ہوتے رہے ،عوامی باتوں پر اعتماد نہیں کیا گیا ،یہ سب احوال گزارش کرنے کے بعد حضرات علماء سے دریافت یہ کرنا ہے کہ :
(۱)شیخ کی صفات کیا ہیں کہ شیخ کیسا ہونا چاہئے ؟(۲)کیا مذکورہ احوال کی روشنی میں امین عبد الرحمن میں شیخ بننے کی اہلیت ہے۔(۳)شیخ امین عبد الرحمن کی بیعت کرنے کا کیا حکم ہے ؟ازروئے شرع وضاحت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں؟
المستفتی :گل صمد حسن زئی ،مصر ی خان ،شاہ نواز عمر فاروق کالونی ،بلاک’’P‘‘نارتھ ناظم آباد ،کراچی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃالحق والصواب
برتقدیر صدق سوال ،سوال میں مذکور تقریبا تمام افعال غیر شرعی اور من گھرٹ نفس پروری اور شیطان پرستی پر مشتمل ہیں اور ان میں بعض اقوال وافعال عقائدگمراہیہ و کفریہ پر مشتمل ہیں ۔ایسے افعال و اقوال کا حامل شخص ہرگز ہرگزپیر بننے کے قابل نہیں ہے ۔اس لئے کہ پیر بننے کے لئے شریعت مطہرہ کی چند شرائط ہیں اگر وہ شرائط پائی جائیں تو شرعاً اس کا پیر بننااور اس سے بیعت ہو نا جائز اگرچہ کوئی کرامت ظاہر نہ ہوئی ہو کہ کرامت سے استقامت بہتر ہے اور اگر ان شرائط میں سے ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو پھر ان سے بیعت ہوناجائز نہیں اگرچہ کئی کرامات ظاہر ہو چکی ہوں کہ درحقیقت وہ کرامات نہیں بلکہ استدراج یعنی دھوکا ہے ۔
ان شرائط کے بارے میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن
فرماتے ہیں کہ’’ پیر چار شرطوں کا جامع ہو(۱) سنی صحیح العقیدہ (۲)صاحب
سلسلہ( اس پیر صاحب کا سلسلہ خلافت حضور ﷺ تک پہنچتا ہو)۔ (۳) غیر فاسق
معلن(شریعت کے فرائض وواجبات کا پابند ہو اور حرام اور مکروہ تحریمی سے
بچتا ہو )۔(۴) اتنا علم دین رکھنے والا کہ اپنی ضروریات کا حکم کتاب سے
نکال سکے ۔ جہا ں ان شرطوں میں سے کوئی شرط کم ہو بیعت جائز نہیں‘‘۔ [فتاوی
رضویہ ،ج:۲۶. ص: ۵۶۶، رضافاؤنڈیشن لاہور ]۔
صدرالشریعہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے
ہیں ’’ پیر ی کے لئے چار شرطیں ہیں قبل از بیعت ان کا لحاظ فرض ہے اول سنی
صحیح العقیدہ ہو، دوم اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضرورت کے مسائل کتابوں سے
نکال سکے، سوم فاسق معلن نہ ہو، چہارم اس کا سلسلہ نبی ﷺ تک متصل ہو ‘‘۔ [
بہارشریعت ،حصہ: اول ،ص: ۷۹ مکتبہ رضویہ ]۔
اگر مذکورہ شرائط کی روشنی میں شیخ امین کے سوال میں مذکور افعال واقوال
کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہو جا تا ہے کہ یہ واقع میں پیر بننے کے قابل
نہیں ۔مثلاً : سوال میں مذکور پہلی بات ہی شریعت کے خلاف ہے کہ ’’اس کے بال
خلاف سنت پیٹ تک ہیں‘‘۔حالانکہ شریعت مطہرہ نے زلفیں رکھنے کا استحبابی
حکم فرمایا ہے اور اس کی حد بھی مقرر فرمائی ہے کہ بال اتنے بڑے ہوں کہ
کانوں کی لو تک پہنچ جائیں اگر اس سے بڑے ہوں تو گردن تک لٹکے ہوں اور اگر
اس سے بھی بڑے ہوں تو اتنے ہوں کہ کندھوں کو چھو جائیں اگر اس سے بڑے ہوئے
جس طرح عورتوں کے بال ہوتے ہیں تو یہ حرام ہے ۔
امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن بڑے بال رکھنے والے کے
بارے میں فرماتے ہیں ’’(بال) نصف کان سے کندھوں تک بڑھانا شرعاً جائز اور
اس سے زیادہ بڑھانا مرد کو حرام ہے ،خواہ فقرا ہوں خواہ دنیادار احکامِ
شرع سب پر یکساں ہیں ،زیادہ میں عورتوں سے تشبہ ہے اور صحیح حدیث میں لعنت
فرمائی ہے اس مرد پر جو عورت کی وضع بنائے اور اس عورت پر جو مرد کی وضع
بنائے اگرچہ وضع بنانا ایک ہی بات میں ہو ،جو لوگ چوٹی گندھواتے ہیں جوڑا
باندھتے یا کمر یا سینہ کے قریب تک بال بڑھاتے ہیں وہ شرعاً فاسق معلن ہیں
اور فاسق معلن کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے یعنی پھیرنا واجب اگرچہ پڑھے
ہوئے دس برس گزر گئے ہوں اور یہ خیال کہ باطن صاحب ہونا چاہئے ظاہر کیسا ہی
ہو محض باطل ہے ، حدیث میں فرمایااس کا دل ٹھیک ہوتا تو ظاہر آپ ٹھیک ہو
جاتا ‘‘۔[فتاوی رضویہ ،ج:۲۲،ص:۶۰۵،رضافاؤنڈیشن لاہور]۔
شیخ امین کا یہ کہنا کہ’’ مجھے صحابیت کا شرف حاصل ہے ‘‘محض باطل اس لئے
کہ محدثین وفقہاء کرام نے صحابی کی تعریف یہ فرمائی ہے کہ ’’جس نے حضور
اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا زمانہ پایا اور آپ ﷺ کی مجلس میں ایمان
کی حالت میں جسمانی طور پر حاضر ہوا وہ صحابی ہے‘‘۔چنانچہ شرح نخبۃا لفکر
میں ہے ’’ھو من لقی النبی علیہ الصلاۃ والسلام ،مؤمناً بہ ومات علی الاسلام
‘‘یعنی،’’ صحابی وہ ہے جس نے ایمان کی حالت میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام
سے ملاقات کی ہو۔اوراس کا خاتمہ بھی اسلام پر ہوا ہو ‘‘۔[شرح نخبۃ الفکر
علی شرح شرح نخبۃ الفکر ،تعریف الصحابی ،ص:۵۷۵،مکتبہ قدیمی کراچی]۔
اور آج حضور اکرم ﷺ کو اس دنیا سے پردہ فرمائے ہوئے چودہ سو سے زائد سال
گزرگئے ہیں ۔فقہاء کرام نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شخص حضور ﷺکی وفات کے
سو سال بعد دعوی کرتا ہے کہ میں صحابی ہوں تو اس کا دعوی قبول نہیں کیا
جائے گا اس لئے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جوآج روئے زمین پر ہے ایک سو سال
بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا اور اسی سال آپ کا وصال ہوا ۔
شرح نخبۃا لفکر کی شرح میں ہے ’’ لو ادعا ہ بعد مضی مءۃ سنۃ من حین وفاتہ
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ،فانہ لایقبل ......لقولہ ﷺ فی الحدیث الصحیح
:’’ أرأیتکم لیلتکم ھذہ ؟ فانہ علی رأس مءۃ سنۃ لایبقی احد ممن علی ظہر
الارض ‘‘یرید انخرام ذلک القرن قال ذلک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فی سنۃ
وفاتہ ۔قالوا وھوواضح جلی‘‘یعنی،’’اگر کوئی شخص حضور ﷺ کی وفات سے ایک سو
سال کے بعد اپنے صحابی ہونے کا دعوی کرتا ہے تو اس کا یہ دعوی قبول نہیں
کیا جائے گا ....اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حدیث
صحیح میں ہے (جو کہ بخاری شریف میں ہے) ’’کیا تم دیکھتے ہو اپنی اس رات میں
جو کچھ موجود ہے؟بے شک ایک سو سال بعدان میں سے روئے زمین پر کوئی ایک بھی
باقی نہیں رہے گا ‘‘۔اس سے آپ کی مراد اس قرن (صدی) کا ختم ہونا ہے ۔یہ
اسی سال آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا جس سال آپ نے وفات
پائی ۔علماء نے فرمایا یہ واضح اور ظاہر ہے ‘‘۔[شرح نخبۃ الفکر علی شرح شرح
نخبۃ الفکر ،تعریف الصحابی ، ص:۵۹۲، مکتبہ قدیمی کراچی]۔
ہمارایہ عقیدہ ہے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنی قبر انور میں زندہ
ہیں اس کے باوجود بھی اگر آپ ﷺ کسی کو زیارت کا شرف بخشیں اگرچہ بحالت
بیداری ہی ہوتو بھی وہ صحابی نہیں ہو سکتا ۔
اور شیخ امین کا بعض صحابہ کو ناقص کہنا اس کے اپنے ایمان کے ناقص ہونے کی
دلیل ہے اس لئے کہ اللہ تعالی نے صحابہ کرام کے لئے فرمایا’’رَضِیَ
اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ ‘‘یعنی ،’’اللہ تعالی صحابہ سے راضی ہے
اور صحابہ اللہ تعالی سے راضی ہیں‘‘۔[البینہ ،آیت: ۸]۔جس سے اللہ تعالی
راضی ہو اس کو ناقص کہناصحابہ کرام کے ساتھ عدوات اور دشمنی ہے اور ایسا
شخص زندیق ہے ۔
فتح المغیث میں امام ابوزرعہ رازی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ’’
اذارایت الرجل ینقص احد امن اصحاب رسول اللہ ﷺ فاعلم انہ زندیق ،وذلک ان
الرسول حق ،والقرآن حق ،وماجاء بہ حق ،انما ادی الینا ذلک کلہ الصحابۃ
،وھؤلاء یریدون ان یجرحواشھودنا لیبطلوا لکتاب والسنۃ والجرح بھم اولیٰ وھم
زنادقۃ‘‘۔یعنی،’’جب تو کسی مرد کودیکھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے
کسی ایک کے عیب بیان کرتا ہے پس جان لے وہ زندیق ہے اور یہ اس لئے ہے کہ
رسول ﷺ حق ہیں اور قرآن حق ہے اور جو کچھ حضور اکر م ﷺ لے کر آئے ہیں وہ
بھی حق ہے یہ تمام باتیں ہم تک صحابہ نے پہنچائی ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ
گواہوں میں عیب ڈھونڈیں تاکہ قرآن وحدیث باطل ہو جائیں،صحابہ کو عیب دار
کرنا بہت بڑا گناہ ہے اورایساکہنے والے زندیق ہیں ‘‘۔[معرفۃ الصحابہ
،ج:۴،ص:۹۴،مکتبہ دار الامام الطبری]۔
شیخ امین کا رمضان المبارک میں دس رکعت تراویح پڑھنا اور وہ بھی سورۂ طارق
اور سورۂ اعلیٰ میں دو ،دو ،تین ،تین آیات کر کے پوری کرنا ۔اس کی نفس
پروری اور گمراہیت کی دلیل ہے اس لئے کہ دس تروایح کا کوئی بھی قائل نہیں
اور کچھ لوگ ہیں بھی تو وہ آٹھ کے قائل ہیں ان کے پاس بھی قرآن وحدیث سے
کوئی دلیل موجود نہیں وہ بھی اپنے من کو راضی کرنے کے لئے آٹھ تراویح
کاواویلا کرتے ہیں جب چاہتے ہیں اپنے پاس سے دلیل گھڑ لیتے ہیں اس طرح وہ
ایک سنت مؤکدہ کے تارک ہو جاتے ہیں اس لئے کہ سنت مؤکدہ بیس تروایح ہیں اس
سے کم پڑھنے والے سنت کے تارک اور گناہ گار ہیں ۔
شیخ امین اور اس کے مریدین کا سنن مؤکدہ کوہمیشہ چھوڑ دینااور سوال کرنے
پر مریدین کا یہ کہنا کہ اللہ جل شانہ نے ان کو معاف کر دئے ہیں ۔انتہائی
جہالت اور اندھی عقیدت ہے اور یہ شیخ اور اس کے مریدین شیطان کے بندے ہو
چکے ہیں ان کو شیطان ہی نے الہام کیا کہ آپ کوسنن مؤکدہ معاف ہیں اس لئے کہ
ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ’’ اللہ تعالی تو فرمایاہے:( فرائض کی ادائیگی
کے بعد)بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتی میں وہ میرے
قریب ہو جاتا ہے تو میں اس سے محبت کرتا ہوں حتی کہ جب وہ کثرت نوافل سے
میرا قرب حاصل کر لیتا ہے تو میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا
ہے اور میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کے پاؤں
بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔اللہ تعالی اپنا قرب حاصل کرنے والوں کو حکم
دے کہ تم نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرو اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سنن
مؤکدہ اور نوافل کے بارے میں اللہ تعالی نے شیخ امین کو الہام کیا ہو کہ یہ
تمہیں اور تمہارے مریدوں کو معاف ہیں جب یہ نہیں تو یقیناًیہ الہام رحمانی
نہیں بلکہ یہ الہام شیطانی ہے اور شیطان ہی نے اپنا قرب دلانے کے لئے اس
کو الہا م کیا ہوگا ۔
شیخ امین کے خاص مریدکا یہ کہنا کہ’’ شریعت اور چیز ہے اور طریقت اور چیز
ہے ‘‘ یہ ان کی بدزبانی اور گمراہی اور اس کا پاگل پن ہے ۔ الفتاوی
الحدیثہ میں ہے ’’ الطریقۃ مشتملۃ علی منازل السالکین وتسمی مقامات الیقین
،والحقیقۃ موافقۃ للشریعۃ فی جمیع علمھا وعملھا ،اصولھاوفروعھا وفرضھا
ومندوبھا ،لیس بینھا مخالفۃ اصلاً‘‘یعنی،’’ طریقت سالکین کی منازل پر مشتمل
ہے اس کانام یقین کا مقام ہے اورحقیقت تمام چیزوں میں شریعت کے موافق ہے
،علم میں ،عمل میں اصل اور فرع میں اور فرض ومستحب میں اور ان دونوں کے
درمیان اصلاً کوئی اختلاف نہیں ‘‘۔[الفتاوی الحدیثیۃ،مطلب :فی الفرق بین
الحقیقۃ والشریعۃ،ص:۴۰۹،مکتبہ قدیمی کراچی]۔
امام اہلسنت اما م احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن اس سے ملتے جلتے سوال کے
جواب میں فرماتے ہیں’’شریعت ،طریقت ،حقیقت ،معرفت میں باہم اصلاً کوئی
تخالف نہیں اس کا مدعی اگر بے سمجھے کہے تو نرا جاہل ہے اور سمجھ کر کہے تو
گمراہ بددین ‘‘۔[فتاوی رضویہ ،ج:۲۱،ص:۴۶۰،رضافاؤنڈیشن لاہور]۔مزید فرماتے
ہیں ’’ شریعت کے سواسب راہوں کو قرآن مجید باطل و مردود فرماچکا ۔لاجرم
ضرور ہوا کہ طریقت ہی شریعت ہے کہ اسی راہ روشن کا ٹکڑا ہے اس کا اس سے جدا
ہونا محال وناسزا ہے جو اسے شریعت سے جدا جانتا ہے اسے راہِ خدا سے توڑ کر
راہ ابلیس مانتا ہے مگر حاشاطریقت حقہ راہِ ابلیس نہیں، قطعاً راہِ خدا ہے
تو یقیناًوہ شریعتِ مطہرہ ہی کا ٹکڑا ہے ‘‘۔[فتاوی رضویہ
،ج:۲۱،ص:۵۲۴،رضافاؤنڈیشن لاہور]۔
اور رمضان المبارک کے ایام میں سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد روزہ رکھنے
والے شیخ امین کے خاص مریدوں کا کھاتے پیتے رہنا بھی جائز نہیں اور اس طرح
وہ تارک الصوم ہوئے ۔ شریعت مطہرہ کا حکم سب مسلمانوں کے لئے ایک ہی ہے
چاہئے وہ کسی شیخ کے خاص مرید ہوں یا عام مرید ہوں اور ایسی باتیں شیخ امین
اور اس کے مریدوں سے کوئی بعید نہیں جو دس رکعت تراویح اپنے نفس کو راضی
کرنے اور شیطان کا قرب حاصل کرنے کے لئے نکال کر سکتے ہیں اور سنن مؤکدہ
شیطانی الہام کے ذریعے معافی کا بھی اعلان کر سکتے ہیں وہ روزے کا وقت اپنا
مقرر کریں تو ان پر تعجب کرنا خود عجیب ہے ۔
شیخ امین کا اپنی تقاریر میں علماء دین سے متنفر کرنا اور اپنی صحبت میں
بیٹھنے کے لئے کہنا کہ دین علماء اور کتابوں سے نہیں آئے گا بلکہ میری صحبت
میں بیٹھنے سے آئے گا ۔اس کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لئے کہ عالم
دین سنی صحیح العقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائے وہ
حضور اکرم ﷺ کا نائب ہے اس سے متنفر کرنا اللہ تعالی اور اس کے رسول سے
متنفر کرنا ہے اور یہ حرام ہے۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا’’ قُلْ ہَلْ
یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُون‘‘ترجمہ کنز
الایمان:’’ پس تم فرماؤکیا برابر ہیں جاننے والے(علماء) اور انجان
(جاہل)‘‘۔[سورۃ الزمر ،آیت:۳۹]۔ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے ۔’’
سَلَامٌ عَلَیْْکُمْ لَا نَبْتَغِیْ الْجَاہِلِیْن‘‘ترجمہ کنزالایمان،’’ بس
تم پر سلام ہم جاہلوں کے غرضی(چاہنے والے )نہیں‘‘۔[سورۃ القصص،آیت:۵۵]۔
حدیث پاک میں حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ثلثۃ لایستخف بحقھم الامنافق
بین النفاق ذوالشیبۃ فی الاسلام وذوالعلم والامام المقسط ‘‘یعنی،’’ تین
شخصو ں کے حق کو ہلکانہ جانے کا مگر کھلا منافق (۱)وہ جسے اسلام میں بڑھاپا
آیا ،(۲)صاحب علم یعنی عالم دین ،(۳)بادشاہ اسلام عادل ‘‘۔ [کنزالعمال
بحوالہ ابی الشیخ فی التوبیخ حدیث: ۴۳۸۱۱،مطبوعہ بیرورت]۔
مذکورہ آیات میں تو اللہ تعالی عام اعلان فرمارہا ہے کہ علماء اور جہلا
برابر نہیں ہوسکتے اور دوسری آیت میں تو بالکل واضح فرمادیا کہ ہم جاہلوں
کے چاہنے والے نہیں ۔اور شیخ امین لوگوں کو علماء سے متنفر کر کے اپنے گرد
لوگوں کا جمگھٹالگانا چاہتا ہے خدا نہ کرے خدانہ کرے اگر یہ چندلوگوں کو
بھی علماء سے متنفر کرنے میں کامیاب ہو گیا تو ان کو بھی اپنی شیطانی شریعت
کی تعلیم دے گا جس پر وہ خود عمل کرتا ہے۔جس کے ذکر کرنے کی حاجت نہیں وہ
سوال سے ظاہر ہے۔
اور شیخ امین کا کبھی یہ کہنا سب فرقے حق ہیں جو مرضی کریں سب جنتی ہیں
کسی کو کچھ نہ کہواور کبھی سب کو گالیاں دینا کہ یہ بڑے خبیث ہیں ۔ ایسا
کہنے والا گمراہ بے دین ہے ۔
حضور ﷺ نے فرمایا ’’وان بنی اسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملۃ وتفترق
امتی علی ثلث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا من ھی یارسول
اﷲقال ما انا علیہ واصحابی رواہ الترمذی وفی روایۃ احمد و ابی داوٗد عن
معاویۃ ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ ‘‘۔یعنی،’’ بے
شک بنی اسرائیل کے بہتر۷۲ فرقے ہوئے اور میری امت میں تہتر فرقے ہوجا ئیں
گے ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی ہیں صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض
کی یارسول اللہ ﷺ وہ ناجی فرقہ کون ہے ،ارشاد فرمایا وہ جس پر میں اور
میرے صحابہ ہیں یعنی سنت کے پیرو‘‘۔ [مشکوٰۃ المصابیح،ص:۳۰، قدیمی کتب
خانہ]۔
دوسری روایت میں فرمایا وہ جماعت ہے یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ جسے سواد
اعظم فرمایا ا ورفرمایا جواس سے الگ ہوا جہنم میں الگ ہوا ، الفاظ حدیث یوں
ہیں:’’اتبعواالسوادالاعظم فانہ من شذ شذ فی النار‘‘ رواہ ابن ماجہ‘‘۔[
مشکوٰۃ المصابیح،ص:۳۰، قدیمی کتب خانہ]۔
شیخ امین کا سب فرقوں کو ایک لائن
میں رکھنا اور شیطان کو راضی کرنے کے لئے سب کو جنتی کہنا درست نہیں بلکہ
حضور اکر م صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف ہے ۔کہ تمام فرقے
جنتی نہیں صرف اور صرف ایک فرقہ اہل سنت وجماعت ہی حق پرہے اور یہی ایک
جماعت جنتی ہے ۔
اور شیخ امین کا لوگوں کو فلمیں دیکھنے اور گانے سننے کی ترغیب دلانا حرام
اور منافقین کا طریقہ ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان عالی شان ہے
’’الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُہُم مِّن بَعْضٍ یَأْمُرُونَ
بِالْمُنکَرِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَیَقْبِضُونَ أَیْْدِیَہُمْ
نَسُواْ اللّہَ فَنَسِیَہُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ ہُمُ الْفَاسِقُون‘‘
ترجمہ کنز الایمان :’’منافق مرد اور منافق عورتیں ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں
برائی کا حکم دیں اور بھلائی سے منع کریں اور اپنی مٹھی بندرکھیں وہ اللہ
کو چھوڑ بیٹھے تو اللہ نے انہیں چھوڑدیا بے شک منافق وہی پکے بے حکم
ہیں‘‘۔[التوبہ ،آیت :۶۷]۔ایک اورمقام پر اللہ تعالی کا فرمان عالی شان
ہے’’وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَن
سَبِیْلِ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَیَتَّخِذَہَا ہُزُواً أُولَءِکَ
لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ ‘‘ترجمہ کنز الایمان :اورکچھ لوگ کھیل کی باتیں
خریدتے ہیں کہ اللہ کی راہ سے بہکادیں اوراسے ہنسی بنالیں ان کے لئے ذلت
کاعذاب ہے‘‘۔[لقمان:۶]۔
شیخ امین کا نعت خوانی کے دوران تالیاں بجانانعت خوانی کے آداب کے خلاف ہے ۔
شیخ امین کااپنی سب سے بڑی کرامت یہ بتانا کہ جو مجھ سے تعلق جوڑے گا اس
کا کاروبار چمکے گاباطل محض ہے۔اصل کرامت تو دین پر استقامت ہے جو شخص دین
متین پر عمل نہیں کرتا وہ فاسق معلن ہے یعنی اعلانیہ گناہ کرتا ہے جس کا
ذکر پیچھے گزر چکا ہے اس سے کرامت کا ظہور کیا ہوگا بلکہ حقیقت میں یہ
کرامت نہیں استدراج یعنی اللہ تعالی کی طر ف ڈھیل ہے ۔اب دنیا میں گہری نظر
ڈالیں تو سب سے زیاد ہ مال ان لوگوں کے پاس ہے جو اللہ تعالی کے نافرمان
ہیں مثلاً یہودی عیسائی کہ یہودی پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں لانے کے خواب
دیکھ رہے ہیں تو معلوم ہوا شیخ امین سے تعلق جوڑنے سے کاروبار کا چمکنا کو
ئی کرامت نہیں ہے ۔کرامت تو یہ ہوتی ہے جوغوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے
فرمایا:جو میرا مرید ہوجائے اس کو کوئی خوف نہیں ۔اور میرا کوئی مرید دنیا
سے توبہ کیے بغیر نہیں مرے گا ،وغیرہ یہ ہیں کرامات ۔
شیخ امین کا بلاعذر شرعی مغرب کی نماز کو اتنا لیٹ کردینا کہ عشاء کا وقت
ہو جائے یعنی مغر ب کی نمازقضاء کردیناحرام ہے کیونکہ اللہ تعالی نے
مؤمنین کو ایک مقررہ وقت میں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے ’’ ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتباًموقوتا‘‘ترجمہ
کنز الایمان : بے شک نماز مسلمان پر وقت باندھا ہوا فرض ہے‘‘۔ [النساء؛آیت
۱۰۳] ۔ اور بلا وجہ شرعی وقت گزار کرنماز پڑھنے کی قرآن کریم میں سخت وعید
آئی ہے۔ چنانچہ فرمانِ الہی ہے ’’ فویل للمصلین الذین ھم عن صلا تھم
ساھون‘‘ ترجمہ کنزالایمان :تو ان نمازیوں کی خرابی ہے جو اپنی نماز بھولے
بیٹھے ہیں ‘‘۔[الماعون؛آیت۴ -۵]۔امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ
الرحمن فرماتے ہیں ’’جو ایک وقت کی نماز بھی قصداً بلاعذر شرعی دیدہ ودانسۃ
قضا کرے‘ فاسق ومرتکبِ کبیرہ و مستحقِ جہنم ہے ‘‘۔[فتاوی رضویہ :ج:۵،
ص:۱۱۰، رضافاؤنڈیشن لاہور]۔
اور رہی دوسری بات کبھی عشاء کی نماز کو مغرب کے وقت میں پڑھنا کسی طرح
بھی جائز نہیں چلو مغرب کی نماز قضاء سہی پھر پڑھ لینے کی وجہ سے ادا تو ہو
گئی اگرچہ ایسا کرنا حرام ہے ۔اور عشاء کی نماز مغرب میں پڑھنا اور وہ بھی
تین رکعت اور پھر مریدوں کا یہ کہنا کہ’’ ہم سے غلطی ہو سکتی ہے شیخ امین
سے نہیں انہوں نے چار ہی پڑھائی ہیں اگرچہ ہمیں تین کا پتہ ہے‘‘یہ ان کا
اندھا اعتقادہے اور اس طرح شیخ امین کے مرید گمراہی کے گڑھے میں پڑچکے ہیں
مغرب کے وقت میں عشاء پڑھنے سے فرض بھی ادا نہیں ہو گا وہ سر پر باقی رہے
گا ۔کیونکہ پیچھے گزرا کہ اللہ تعالی نے نماز کا وقت مقرر فرمایا ہے ابھی
عشاء کا وقت آیا ہی نہیں تو وہ کس طرح ادا ہو گی ۔
شیخ امین نے عصر کی نماز چھوڑدی اور مریدوں کا یہ دعوی کہ مدینہ منورہ
نماز پڑھانے گئے تھے ۔جھوٹا اور من گھڑت اور لوگوں کو بیوقوف بنانے کے
علاوہ کچھ نہیں یہ نماز تو مدینہ میں پڑھنے کا دعوی کرتے ہیں اور جب کھانے
کا وقت آتا ہے تو اپنے شہر کے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں کیا مدینہ
منورہ کے کھانے سے بڑھ کر کہیں کا کھانا ہو سکتا ہے ۔پھر کیوں نہیں وہیں کا
کھانا کھاتے ہیں۔
اس کے سوال میں مذکور افعال اس بات کی گواہی ہیں کہ یہ کوئی ولی اللہ
نہیں بلکہ یہ ولی الشیطان ہے جو اپنی من کوراضی کرنے کے لئے نمازوں کے
اوقات میں تبدیلی کرتا اور نماز معاف کراتا رہتا ہے اورمدینہ منورہ میں
نماز کا ڈھونگ کرنالوگوں کواپنی گمراہی کے جال میں پھنسانے کا طریقہ ہے کہ
لوگوں میں واہ واہ ہو ۔لہذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایسے آدمی سے دور رہیں
اور اس کو اپنے سے دور رکھیں۔
گستاخ رسول کی موت پر خوش ہونا مسلمان کے لئے ایک فطری بات ہے لیکن خوشی
کا اظہار اس انداز میں کرنا جس میں اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکی صریح
نافرمانی ہومثلاً ڈھول ڈھمکا ،جھانجر ،آتش بازی ،نمائش کے لئے پنجرے میں
شیر ،ناچنے کے لئے گھوڑے منگوائے گئے اور شیخ امین کے مریدوں کا گھونگرو
پہن کرڈانس کرناحرام در حرام اورسر اسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور دنیا
کے سامنے اسلام کا چہر ہ بگاڑکر پیش کرنا ہے ۔گویا شیخ امین نے گستاخ رسول
کے مرنے کی خوشی میں محرمات کا میلہ لگایا جو کسی طرح بھی جائز نہیں۔
اور اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات یعنی اپنی تمام مخلوق سے افضل
واعلی اور صاحب عزت وشرف والا پیدا فرمایا ہے ۔اور کتا ذلیل جانور ہے پھر
انسان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ جانوروں کی حرکات اور آوازیں اپنائے ۔ اس
میں انسانیت کی توہین ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شیخ امین کانماز ،روزہ اور دیگر فرائض شرعیہ کو ادا
نہ کرنا یا ان کی ادائیگی میں سستی کرنا اور صحابہ کرام کی (نعوذ
باللہ)تنقیص کرنااوراپنے مریدوں کو فلمیں دیکھنے ، ناچ گانے سننے اور دیگر
فواحش کی اجازت دینا اور ان کا خود بھی مرتکب ہونا اس طرح کے تمام افعال
حرام بلکہ اشد حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں اور یہ فاسق معلن ،
بے دین ،گمراہ اور گمراہی پھیلانے والا ہرگز ہرگز پیر بننے کے قابل نہیں
اور اس سے بیعت ہونا حرام لوگوں پر لازم ہے کہ فوراً فوراً اس سے دور
ہوجائیں اور جتنے لوگ اس سے بیعت ہو چکے ہیں ان پر لازم ہے کہ فوراً اپنے
آپ کو اس کی گمراہی سے بچائیں اور مقتدر شخصیات پر لازم ہے کہ اس فتنہ کا
سد باب کریں تاکہ لوگ اس فتنہ سے بچ سکیں ۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم
غلام مرتضی مظہری نے اس کو لکھا ہے اور رئیس دارالافتاء ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اختر المدنی نے اس کی تصدیق فرمائی۔
Monday, 17 June 2013
کرسی پر نماز اور شریعت کی توہین کا شرعی حکم
کرسی پر نماز اور شریعت کی توہین کا شرعی
حکم
کیافرماتے ہیں علماء
دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسجد میں کرسی پر بیٹھ کر صف کے درمیان نماز ادا کرنے
کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟مندرجہ بالا مسئلہ کے متعلق چند مشاہدات ہیں جس کا ذکر
کرناضروری سمجھتا ہوں اور وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) اکثر اوقات کرسی
پربیٹھاہوانماز ی صف کے اندر ہوتا ہے حتیٰ کہ امام کے پیچھے بھی کرسی پر بیٹھ کر
نماز پڑھتے دیکھا گیا ہے۔
(۲) کچھ لوگ جو کرسی پر
بیٹھ کر نماز پڑھنے کے عادی ہیں ان کو اپنے کاروباری معاملات اور دیگر معمولات میں
بہت چست دوڑ لگاتے دیکھا گیا ہے مگر مسجد میں آتے ہی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں اور
اپنی اسی عادت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
(۳) بعض اوقات صف میں پڑی
کرسی کے پیچھے کھڑے نمازی کو سجدہ کرنے میں دقت ہوتی ہے بلکہ اکثر کرسی کے پائے سے
سرٹکرا جاتا ہے۔
(۴) ایک مشاہدے میں ایسا
بھی ہوا کہ نمازی صف میں امام کے تقریباً پیچھے نمازیوں کے قدم دیکھ کر کرسی کو
رکھتا ہے اور تکبیر اولیٰ کے وقت وہ کرسی کے آگے کھڑا ہو جاتا ہے جو کہ صف سے
تقریباً ایک یا ڈیڑھ فٹ آگے کھڑے ہو کر قیام کرتا ہے رکوع اور سجدہ کے وقت کرسی پر
بیٹھ جاتا ہے پھر قیام کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے۔
(۵) امام صاحب اور مسجد
کمیٹی سے اس موضوع پر بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ اس طرح تو شریعت اجازت نہیں
دیتی ۔ان سے کہا گیا کہ آپ مسجد سے کرسیوں کو اٹھا دیں تو انہوں نے کہا کہ اس طرح
لو گ مسجد میں آنا چھوڑ دیں گے۔
(۶) ایک نمازی سے کہا گیا
کہ آپ صف کے درمیان میں کرسی رکھتے ہیں اس سے صف ٹوٹ جاتی ہے اور شریعت اس عمل کی
اجازت نہیں دیتی اگر بہت مجبوری ہے تو آپ صف کے آخر پر کرسی رکھ کر نماز ادا کر
لو۔جواباً اس نے غصے میں کہا میں شریعت کو نہیں مانتا(العیاذ باللہ)ایسے شخص کے
متعلق کیا حکم ہے؟
(۷) روز بروز کرسیوں کی
تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے ،بعض کرسیوں پر یہ بھی لکھا ہوا دیکھا گیا ہے
’’برائے ایصالِ ثواب فلاں بن فلاں‘‘کیا اس طرح سے بھی ایصالِ ثواب ہو سکتا ہے
؟مندرجہ بالا مشاہدات کو مد نظر رکھتے ہوئے شریعت مطہرہ کی روشنی میں رہنمائی
فرمائیں اور یہ بھی ارشادفرمائیں کہ امام مسجد ،مسجد کمیٹی اور جو لوگ اس مسئلہ کو
سمجھتے ہیں ان کی کیا ذمہ داری بنتی ہے ۔اور جو امام سمجھتے ہوئے بھی کسی کو
سمجھانے کی کوشش نہ کرے اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
المستفتی :شوکت علی انصاری ،محمد بلال امین ؔ سیالکوٹ
بسم اللہ
الرحمن الرحیم
الجواب
بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
صورت مسؤلہ
میں حکم شرعی یہ ہے کہ جو لوگ زمین پر شرعاً سجدہ کیے بغیر کرسی پر بیٹھ کر نماز
پڑھتے ہیں ان کی نماز اشارے والی نمازہے اگرچہ وہ کرسی کے آگے لگے ہوئے تختے پر
سجدہ کریں یا فقط سر جھکائیں۔لہذا اگر انہیں شریعت کی طرف سے اشارے والی نماز
پڑھنے کی اجازت ہے تو ان کی نماز ہو جائے گی اور ان کا تختے پر سجدہ کرنا بھی درست
ہو گا اور اگر انہیں شریعت کی طرف سے اشارے والی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے تو
ان کی نماز ہرگز ادا نہیں ہوتی۔اس حکم کی تفصیل جاننے کے لئے نماز میں قیام اور
سجدہ کے حکم شرعی کے بارے میں تفصیلی مقدمہ ملاحظہ کریں۔
یاد رکھیئے۔
نماز میں قیام فرض ہے
۔اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے ’’َقُومُواْ لِلّہِ قَانِتِیْنَ ‘‘ترجمہ
کنزالایمان:’’کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے‘‘اس کے تحت مفسر قرآن مفتی نعیم الدین
مرادآبادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں’’اس سے نماز کے اندر قیام کا فرض ہونا ثابت
ہوا‘‘۔[البقرۃ،آیت:۲۳۸]۔
امدادالفتاح شرح
نورالایضاح میں ہے’’یفترض(القیام)فی کل صلاۃ مفروضۃ او
واجبۃ ،لان الواجب بمنزلۃ الفرض فیہ للقادر علیہ وعلی الرکوع والسجود‘‘یعنی،’’
ہر فرض نماز میں قیام فرض ہے اور واجب نماز میں بھی کیونکہ واجب بھی فرض کے قائم
مقام ہے ایسے شخص پر(قیام فرض ہے جوزمین پر) رکوع اور سجدہ کرنے کی طاقت رکھتا ہو ‘‘۔[امداد الفتاح شرح نورالایضاح ،ص:۲۴۲،مطبوعہ
صدیقی پبلشرز،کراچی]۔
حلبی الکبیر میں ہے
’’والثانیۃ من الفرائض القیام ولو صلی الفریضۃ قاعداً
مع القدرۃ علی القیام لا یجوز صلوتہ بخلاف النافلۃ ‘‘یعنی،’’نماز کے
فرائض میں دوسرا فرض قیام ہے اور اگر قیام پر قادر ہونے کے باوجودفرض نماز بیٹھ کر
پڑھی تو اس کی نماز جائز نہیں جبکہ نوافل بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے ‘‘۔[غنیۃ المستملی فی
شرح منیۃ المصلی المعروف حلبی الکبیری،ص:۲۲۹،مطبوعہ
مکتبہ نعمانیہ کوئٹہ]۔
جو شخص
مکمل طور پر قیام نہیں کرسکتا لیکن کچھ وقت یہانتک کہ تکبیر تحریمہ کے لئے کھڑا ہو
سکتا ہے تو اس کے لئے اپنی قدرت کے مطابق اتنی دیر کے لئے کھڑا ہونا لازمی ہے۔
تنویرالابصارمع
الدرالمختارمیں ہے:’’وان قدرعلی بعض القیام
ولومتکئاعلی عصاأوحائط قام لزوماً بقدرمایقدرولوقدرآیۃ أوتکبیرۃ علی المذہب،لأن
البعض معتبربالکل‘‘یعنی، ’’اگرکچھ دیرقیام پرقادرہے اگرچہ لکڑی یادیوار
کے سہارے سے توجتنی دیرکھڑاہوسکتاہے اتنی دیراس پرقیام کرنالازم ہے اگرچہ وہ قیام
ایک آیت یاتکبیرتحریمہ کہنے کی مقدارکے برابرہو(صحیح)مذہب پر،اس لئے کہ بعض قیام
کوکل کیساتھ تعبیرکیاجائے گا‘‘۔ [تنویرالابصارمع
الدرالمختار،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض،ج:۲،ص:۵۶۷، مکتبہ
امدادیہ ملتان]۔
مفتی محمد امجد علی
اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں’’آج کل عموماً یہ بات
دیکھی جاتی ہے کہ جہاں ذرا بخار آیا یا خفیف سی تکلیف ہوئی بیٹھ کر نماز شروع کردی
،حالانکہ وہی لوگ اسی حالت میں دس دس پندرہ پندرہ منٹ بلکہ زیادہ کھڑے ہو کر اِدھر
اُدھر کی باتیں کر لیا کرتے ہیں ،ان کو چاہیے کہ ان مسائل سے متنبہ ہوں اور جتنی
نمازیں باوجود قدرت قیام بیٹھ کر پڑھی ہوں ان کا اعادہ فرض ہے ۔یوہیں اگر ویسے
کھڑا نہ ہو سکتا تھا مگر عصایا دیوار یا آدمی کے سہارے کھڑا ہونا ممکن تھا تو وہ
نمازیں بھی نہ ہوئیں،ان کا پھیرنا فرض ۔اللہ تعالی توفیق عطاء فرمائے‘‘۔[بہارشریعت،ج:۱، ص:۵۱۱،مطبوعہ
مکتبہ المدینۃ کراچی]۔
مفتی محمد امجد علی
اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں’’کھڑے ہونے سے محض کچھ
تکلیف ہونا عذر نہیں بلکہ قیام اس وقت ساقط ہو گا کہ کھڑا نہ ہو سکے یا سجد ہ نہ
کر سکے یا کھڑے ہونے یا سجدہ کرنے میں زخم بہتا ہے یا کھڑے ہونے میں قطرہ آتا ہے
یا چوتھائی سترکھولتا ہے یا قرا ء ت سے مجبور محض ہو جاتا ہے یوہیں کھڑا تو ہو
سکتا ہے مگر اس سے مرض میں زیادتی ہوتی ہے یا دیر میں اچھا ہو گا یا ناقابلِ
برداشت تکلیف ہو گی تو(قیام ساقط ہو گاورنہ نہیں)‘‘۔[بہارشریعت،ج:۱،ص:۵۱۱،مطبوعہ
مکتبہ المدینۃ کراچی]۔
کنزالدقائق میں ہے’’ تعذر علیہ القیام او خاف زیادۃ المرض صلی قاعداً یرکع ویسجد
‘‘یعنی،’’ اگر نمازی پر قیام کرنا متعذر ہو یا مرض زیادہ ہونے کا خوف ہو تو بیٹھ
کر رکوع اور سجدہ سے نماز پڑھے ‘‘۔[کنز الدقائق علی
البحرالرائق ،ج:۲،ص:۱۹۷،مطبوعہ قدیمی کراچی]۔
اور
جوشخص قیام کر سکتا ہے لیکن کمر میں شدید درد یا تکلیف یا زخم یاآنکھوں کے آپریشن
کی وجہ سے ڈاکٹر نے کچھ عرصہ کے لئے سر جھکانے سے منع کیا جس کی وجہ سے رکوع نہیں
کر سکتا یا گھٹنوں میں درد یا تکلیف کی وجہ سے یا بڑھاپے اور کمزوری اور ضعیفی کی
وجہ سے اٹھنا بیٹھنا مشکل یا ناممکن یا کم از کم بیماری کے دیر سے صحتیاب ہونے کا
گمان غالب ہے لیکن ایسا شخص زمین پر بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کرسکتا ہے یا کوئی ایسی
چیز زمین پر رکھے(جس پر سجدہ اپنے تمام شرائط کے ساتھ درست ہو جائے کہ وہ سخت چیز
ہو جس پر پیشانی جم جائے مزید دبانے سے نہ دبے اور وہ چیزپتھر وغیرہ )جوزمین سے نو
انچ سے زیادہ اونچی نہ ہو تو اس پرفرض و لازم ہے کہ وہ زمین پر بیٹھ رکوع اور سجدہ
ہی کرے اس کے لئے بیٹھ کر سجدہ کا اشارہ کافی نہیں۔لہذا ایسا آدمی جس نے بلا عذر
شرعی بیٹھ کر نماز پڑھنے کی عادت بنالی ہے یا تھوڑی بہت تکلیف یا کمر میں ہلکی
تکلیف کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے اس پر فرض ہے کہ اپنی عادت کو شریعت کے
تابع کرے اور بلاعذر بیٹھ کر پڑھی گئی نمازوں کی قضاء کرے۔
سجدہ نماز میں فرض ہے
۔اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ
آمَنُوا ارْکَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْْرَ
لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ‘‘ترجمہ کنز الایمان:’’اے ایمان والو:رکوع اور سجدہ
کر واور اپنے رب کی بندگی کرو اور بھلے کا م کرو اس امید پر کہ تمہیں چھٹکارا
ہو‘‘۔[سورۃ الحج ،آیت:۷۷]۔
حدیث پاک میں اس کی
ادئیگی کا طریقہ اس طرح بیان فرمایا کہ ’’عن ابن عباس
قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اُمرت ان اسجد علی سبعۃ اعظم علی
الجبھۃ والید ین والرکبتین واطراف القدمَین ولانَکْفِتَ الثیاب والشعر‘‘۔متفق علیہ۔یعنی،’’حضرت
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سات
ہڈیوں پر سجدہ کروں ۔پیشانی،دو نوں ہاتھ ،دونوں گھٹنے ،دونوں قدموں کے کنارے اور
یہ کہ کپڑے او ربال جمع نہ کریں ‘‘۔[مشکوٰۃ
المصابیح،کتاب الصلاۃ ،ص:۸۴،مکتبہ
رحمانیہ لاہور]۔
امد ادلفتاح شرح نور
الایضاح میں ہے’’ یفترض(السجود)لقولہ تعالی (واسجدوا)ولامر النبی ﷺ بہ وللاجماع علی فرضیتہ ،والسجدۃانما تتحقق بوضع الجبھۃ
لا لأنف ،مع وضع احدی الیدین واحدی الرکبتین وشیء من اطراف اصابع احدی القدمین علی
طاہر من الارض ،فان لم یوجد وضع ھذہ الاعضاء لا تتحقق السجدۃ ‘‘یعنی،’’ نماز میں
سجدہ فرض ہے اللہ تعالی کے اس قول کی وجہ سے ’’اور سجدہ کرو‘‘ اور حضور نبی کریم ﷺ نے بھی اس کا حکم دیا ۔اور اس کی فرضیت پر اجماع بھی
ہے۔اور سجدہ ‘یہ ہے کہ صرف ناک نہیں بلکہ پیشانی زمین پر جم جائے اور دونوں ہاتھوں
میں سے ایک ہاتھ اور دونوں گھٹنوں میں سے ایک گھٹنااور دونوں پاؤں میں سے ایک پاؤں
کے کنارے پاک زمین پر رکھے جائیں۔پس اگر ان مذکورہ اعضاء کا زمین پر رکھنا نہ پایا
گیا تو سجدہ متحقق نہیں ہو گا‘۔[امداد الفتاح شرح
نورالایضاح ،ص:۲۵۴،مطبوعہ صدیقی پبلشرز،کراچی]۔
مفتی محمد امجد علی
اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں’’ جو شخص زمین پر سجد ہ
نہیں کر سکتامگر شرائط مذکورہ(سجدہ کے درست ہونے کی شرائط کہ سخت چیزہو جس پر
پیشانی جم جائے مزید دبانے سے نہ دبے اور ان شرائط)کے ساتھ کوئی(سخت) چیز زمین
پر رکھ کر سجدہ کر سکتا ہے ،اس پر فرض ہے کہ اسی طرح سجدہ کرے اشارہ جائز نہیں ‘‘۔[بہارشریعت،ج:۱،ص:۷۲۲،مطبوعہ
مکتبہ المدینۃ کراچی]۔
علامہ ابن عابدین
المعروف شامی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں’’ بل یظھر لی انہ
لو کان قادراً علی وضع شیء علی الارض ممایصح السجود علیہ انہ یلزمہ ذلک لانہ قادر
علی الرکوع والسجود حقیقۃ ‘‘یعنی،’’بلکہ میرے لیے یہ ظاہر ہوا ہے کہ بے
شک اگر کوئی زمین پر رکھی ہوئی چیز پر سجدہ کرنے پر قادر ہے جس پر صحیح طریقے سے
سجدہ ہو سکتا ہو(یعنی وہ چیز سخت ہو جس پرناک اور پیشانی اچھے طریقے سے جم جائے
جیسے زمین پر سجدہ کرنے میں ہوتا ہے اوروہ نوانچ سے کم اونچی ہو ) تو اس(رکھی ہوئی
چیز پر سجدہ کرنا )لازم ہے کیونکہ وہ حقیقت میں رکوع اور سجدہ کرنے پر قادر ہے‘‘۔[ردالمحتار ،کتاب الصلاۃ ،باب صلاۃ المریض،ج:۲،ص:۵۶۹،مطبوعہ
مکتبہ امدادیہ ملتان]۔
اگر
قیام مشکل ہو جائے تو پھر حکم یہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کے ساتھ
نماز پڑھے ۔جو شخص زمین پر سجدہ نہیں کر سکتا لیکن کوئی ایسی چیز ہے مثلاً پتھر
وغیرہ جس پر سجدہ اپنی شرائط کے ساتھ ادا ہو سکتا ہے تو اس پر لازم ہے وہ مذکورہ
طریقہ سے سجدہ ہی کرے حتی کہ فقہاء کرام نے یہاں تک لکھا کہ اگر پیشانی میںزخم یا
پھوڑا وغیرہ ہے جس کی وجہ سے پیشانی زمین پر نہیں رکھ سکتا تو اس پر لازم ہے ناک
پر سجدہ کرے ورنہ نماز نہیں ہو گی۔
فتاوی عالمگیری میں
ہے ’’ وان کان بجبھتہ جرح لایستطیع السجودعلیہ لم یجزۂ
الایماء وعلیہ ان یسجد علی انفہ وان لم یسجد علی انفہ واوما لم تجز صلاتہ کذا فی
الذخیرۃ‘‘یعنی،’’ اگر پیشانی میں زخم ہو اور وہ اس پر سجدہ نہ کر سکتا
ہو تو اس کے لئے اشارہ کرنا جائز نہیں اور اس پر لازم ہے کہ ناک پر سجدہ کرے اور
اگر ناک پر سجد ہ نہ کیا اور سجدہ کا اشارہ کیا تو اس کی نماز نہیں ہو گی اسی طرح
ذخیرہ میں ہے ‘‘۔[فتاوی عالمگیری،کتاب الصلاۃ ،باب صلاۃ
المریض ،ج:۱،ص:۱۵۱،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔
مفتی محمد امجد علی
اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں’’پیشانی میں زخم ہے کہ
سجدہ کے لئے ماتھا نہیں لگاسکتا تو ناک پر سجدہ کرے اور ایسا نہ کیا بلکہ اشارہ
کیا تو نماز نہ ہوئی‘‘۔[بہارشریعت،ج:۱،ص:۷۲۲،مطبوعہ
مکتبہ المدینۃ کراچی]۔
اس بحث سے معلوم ہوا
کہ نماز میں قیام فرض ہے اور سجدہ بھی فرض ہے ۔لہذا اگرکوئی شخص قیام کیساتھ ساتھ
رکوع وسجودپربھی قادرہونے کے باوجود بیٹھ کرنمازپڑھتاہے تواس کی نمازاصلاً ادانہ
ہوگی کیونکہ قیام فرض ہے اور فرض کے ترک سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔لہذازمین پر یا
اوپر مذکور متبادل چیز پرسجدہ پرقادرہوتے ہوئے کرسی پربیٹھ کرسجد ہ کا اشارہ کیا
تو نمازاصلاً ادا نہ ہوگی اس طرح پڑھی گئی سب نمازوں کا اعادہ کرنا فرض ہے ورنہ
فرض سر پر رہے گا۔
اور اگر
کوئی شخص واقع میں ایسا ہے جو کھڑا تو ہو سکتا ہے لیکن گھٹنوں یاکمر میں کسی بھی
بیماری کی وجہ سے رکوع اورزمین پر سجدہ کر ہی نہیں سکتا یا وہ قیام تو کرسکتا ہے
اور رکوع بھی کر سکتا ہے لیکن پیشانی یا حلق وغیرہ میں زخم ہے جو سجدہ کرنے سے
بہتا ہے جس کی وجہ سے زمین پر سجدہ نہیں کرسکتا تو اس کے لئے حکم یہ ہے کہ اشارے
سے نماز پڑھے اور بہتریہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے اور رکوع اورسجدہ کے لئے
اشارہ کرے اور سجدہ کا اشارہ رکوع کے اشارے سے زیادہ کرے ۔
تنویرالابصارمع
الدرالمختارمیں ہے:’’وان تعذرا۔۔۔بل تعذرالسجودکاف
لاالقیام أوماقاعداً وہوأفضل من الایماء قائماًلقربہ من الأرض ویجعل سجودہ أخفض من
رکوعہ لزوماً‘‘یعنی،’’اوراگردونوں(رکوع وسجود)کرنامشکل ہوبلکہ صرف سجدے
کامتعذر(ناممکن)ہوناکافی ہے ،قیام متعذر(ناممکن)نہ ہوتوبیٹھ کراشارے سے نمازپڑھے
اورکھڑے ہونے سے بیٹھ کراشارے سے نمازپڑھناافضل ہے زمین کے قریب ہونے کیوجہ
سے،اورسجدے کے لئے رکوع سے زیادہ جھکنالازم ہے‘‘۔ [تنویرالابصارمع
الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المریض،ج:۲،ص:۵۶۷، ۵۶۸، مکتبہ
امدادیہ ملتان]۔
صدرالشریعہ مفتی
محمدامجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :’’ کھڑا ہو
سکتا ہے مگر رکوع وسجودنہیں کر سکتا یا صرف سجدہ نہیں کر سکتامثلاً حلق وغیرہ میں
پھوڑا ہے کہ سجدہ کرنے سے بہے گا تو بھی بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھ سکتاہے ،بلکہ
یہی بہتر ہے ‘‘۔[ بہار شریعت ،ج: اول ،ص:۲۶۴، مکتبہ
،رضویہ ،کراچی]۔
اس سے معلوم ہوااگر
کوئی شخص قیام پر قادر ہے رکوع وسجدہ پر قادر نہیں یاکسی بھی طریقہ سجد ہ پر قادر
نہیں تو ایسے شخص کو شرعاً اشارے سے نماز پڑھنے کی اجازت ہے خواہ وہ زمین پر بیٹھ
کر یا کرسی پر بیٹھ کراشارے سے نماز پڑھے ۔
اور بعض
مساجد میں ایسی کرسیاں رکھی ہوتی ہیں جن کی اگلی جانب تختہ لگا ہوتا ہے اس پرسجدہ
کرنے سے حقیقۃً سجدہ ادا نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی سجدے کا اشارہ ہی ہے۔
علامہ ابن عابدین
علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ’’فان کانت الوسادۃ موضوعۃ
علی الارض وکان یسجدعلیہاجازت صلاتہ،فقدصح ان ام سلمۃ کانت تسجدعلی مرفقۃ موضوعۃ
بین یدیہالعلۃ کانت بہاولم یمنعہارسول اللہ ﷺمن ذٰلک فان مفاد ھذہ المقابلۃ
والاستدلال عدم الکراہۃفی الموضوع علی الارض المرتفع ،ثم رأیت القہستانی صرح بذلک ‘‘ یعنی ،’’ اگرتکیہ
زمین
پررکھاہواہواوراس پرسجدہ کیاتواس کی نمازجائزہوگی ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے
یہ بات صحیح طورپرثابت ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہا بیمار تھیں ان کے آگے چھوٹا تکیہ
رکھا ہوا تھااورآپ ا س پر سجدہ کرتیں اور رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع نہیں
فرمایا۔اس تقابل اور استدلال کا مفاد یہ ہے کہ زمین پر رکھی ہوئی اونچی چیزپر(
سجدہ کااشارہ کرنے میں) کراہت نہیں ہے ۔پھر میں نے قہستانی میں دیکھا تو اس میں اس
جواز کی صراحت کی گئی تھی ‘‘[ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،باب
صلاۃ المریض،ج:۲،ص:۵۶۸،مکتبۃ امدادیہ ملتان]۔
منحۃ الخالقمیں علامہ
شامی علیہ الرحمہ مذکورہ عبارت نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں کہ’’ثم رأیت القہستانی قال بعد قولہ(ولایرفع الی وجہہ شئ
یسجدعلیہ)فیہ اشارۃ الی انہ لوسجدعلی شئ مرفوع موضوع علی الارض لم یکرہ‘‘یعنی،’’پھرمیں
نے قہستانی میں دیکھاکہ اس قول کے بعدفرماتے ہیں کہ (اورچہرے کی طرف کوئی چیزنہ اٹھائے کہ اس
پرسجدہ کرے)اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگرکوئی اونچی چیززمین پررکھی ہوئی
ہواوراس پرسجدہ کیاتویہ مکروہ نہیں ہے‘‘۔[منحۃ الخالق
علی البحرالرائق،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المریض،ج:۲،ص:۲۰۰،مکتبۃ
رشیدیہ کوئٹہ]۔
اس سے
معلوم ہواکہ جس کو شریعت مطہرہ کی طرف سے زمین پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھنے کی
اجازت ہے وہ کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کر سکتا ہے اور اگر ایسی کرسی پر بیٹھ کر
نماز پڑھی جس کے آگے تختہ لگا ہو تو اس پر سجدہ کرنے سے سجدہ کا اشارہ ہی ہوگا اور
اگر زمین پر بیٹھ کر یا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھی اور سجدہ کے لئے کو ئی چیز اٹھا
کر پیشانی پر لگائی اورسر بالکل نہیں جھکایا تو سجد ہ ادا نہیں ہوگا اور اگرسجدہ
کے لئے کوئی چیز اٹھائی او راس کے لئے سر بھی جھکایا تو ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے
لیکن سجدہ ادا ہو جائے گا۔اس کے علاوہ کوئی شخص بھی کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھے گا
نماز ادا نہیں ہو گی بلکہ فرض اس کے ذمہ باقی رہے گا ایسے حضرات پر لازم ہے کہ
شریعت پر عمل کریں اور بلاضرورت کرسی پر نماز نہ پڑھیں۔
باقی رہا مسئلہ صف کے
درمیان کرسی رکھنے کا تو اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ جن افراد کو شرعاً کرسی پر
بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے ان کو چاہیے کہ اپنی کرسی صف کے ایک طرف رکھیں او
رصف کو برابر رکھنے کی کوشش کرے تاکہ خومخواہ لوگوں کو باتیں کرنے کا موقعہ نہ ملے
اور اگر درمیان صف میں بھی مذکورہ شخص نے کرسی رکھ دی توبھی اس سے قطع صف لازم
نہیں آتی کیونکہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والا نماز ہی میں ہوتا ہے اور اگرکوئی یہ
سمجھے کہ اوپر نیچے ہونے کی وجہ سے صف خراب ہو گئی ہے لہذا صف میں سب نمازیوں کے
قد برابر ہونا ضروری ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے کیونکہ ایسا ہونا کسی طرح بھی
ممکن نہیں اس لئے کہ کوئی چھوٹے قد کا او رکوئی بڑے قد کا ہوتا ہے۔
امام اہل سنت سیدی
اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں،’’صف میں کچھ مقتدی کھڑے ،کچھ بیٹھے ہوں تو اس سے امر اول یعنی
تسویہ صف پر کچھ اثر نہیں پڑتاکہ قائم وقاعدبھی خط واحد مستقیم میں ہوسکتے ہیں
تسویہ میں ارتقاع کی برابر ملحوظ نہیں نہ وہ ملحوظ ہونے کے قابل کہ ایک پیمائش کے
قد کہاں سے آئیں گے ۔‘‘[فتاوی رضویہ جدید،ج:۷،ص:۲۲۳،رضافاؤنڈیشن
لاہور]۔
ہاں
مذکورہ تفصیل کے مطابق جس کو شرعاً کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں یعنی
جو زمین پر بیٹھ کر زمین پر سجدہ کر سکتا ہے اگر وہ کرسی پر بیٹھ کر اشارے سے نماز
پڑھے گاتو اس کی نماز تو ہو گی ہی نہیں (جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے) لہذا ایسا
شخص جب صف کے درمیان میں کرسی رکھے گا تو اس سے ضرور قطع صف لازم آئے گی اور یہ
گناہ بھی ہے جو نمازی اس پر راضی ہوں وہ بھی گنہگار ہیں لہذاامام مسجد ، کمیٹی
مسجداور دیگر نمازیوں پر فرض ہے کہ اپنی قدرت اور طاقت کے مطابق ایسے شخص کو
درمیان صف میں کرسی نہ رکھنے دیں۔
امام اہلسنت امام
احمد رضاخان علیہ الرحمۃ الرحمن لکھتے ہیں’’ ہاں جبکہ
بیٹھنے والے محض کسل وکاہلی(سستی) کے سبب بے معذوری شرعی بیٹھیں گے تو فرائض وواجبات
مثل عیدین و وتر میں امر دوم وسوم کا خلاف لازم آئے گاکہ جب بلاعذر بیٹھے تو ان کی
نماز نہ ہوئی اور قطع صف لازم آیا کہ نمازیوں میں غیر نماز ی دخیل ہیں ،ان بیٹھنے
والوں کوخود فسادِ نماز ہی کا گناہ کیا کم تھا مگر انہیں یہاں جگہ دینا اور اگر
قدرت ہو تو صف سے نکال نہ دینا یہ باقی نمازیوں کا گناہ ہو گا کہ وہ خود اپنی صف
کی قطع پر راضی ہوئے اور جو صف قطع کرے اللہ اُسے قطع (اپنی رحمت سے دور)کردے،ان
پر لازم تھا کہ انہیں کھڑے ہونے پر مجبور کریں اور اگر نہ مانیں تو صفوں سے نکال
کر دورکریں ہاں نمازی اس پر قادر نہ ہوں تو معذور ہیں اور اس قطع صف کے وبال عظیم
میںیہی بیٹھنے والے ماخوذ ہیں یہ حکم فرائض و واجبات کا تھا‘‘۔[فتاوی رضویہ جدید،ج:۷،ص:۲۲۳،
رضافاؤنڈیشن لاہور]۔
خلاصہ
کلام یہ ہے کہ اوپر بیان کی تفصیل کے مطابق ایسا شخص جو زمین پر بیٹھ کر بھی زمین
یا نو انچ کی متبادل سخت چیزپر سجدہ نہیں کر سکتااس کے لئے کرسی پر بیٹھ کرنماز
پڑھنا جائز ہے ایسے لوگ اگر صف کے درمیان میں کرسی رکھ دیں تو قطع صف لازم نہیں
آئے گی اور اس کے علاوہ کسی کے لئے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں جو
لوگ بلاعذر شرعی کرسی پر بیٹھ کرنماز پڑھتے ہیں ان پر فرض ولازم ہے کہ اپنی عادت
بدلیں اوراپنے آپ کو شریعت مطہرہ کے تابع کریں ایسا شخص اگر صف کے درمیان میں کرسی
رکھ کر جماعت میں شامل ہو تو قطع صف لازم ہے گی لہذا مسجد انتظامیہ اور امام مسجد
پر لازم ہے کہ چند ایک کرسیاں مسجد میں رکھیں تاکہ واقعی معذور افراد اس پربیٹھ کر
نماز پڑھ سکیں باقی سب اٹھوادیں۔
اور باقی رہا مسئلہ
سوال میں مذکورہ اس شخص جس نے شرعی مسئلہ بتانے والے کو کہا’’ میں شریعت کو نہیں
مانتا‘‘اس کا ایسا کہنا کفر ہے اس پر لازم ہے کہ فوراً توبہ تجدید ایمان اور اگر
شادی شدہ ہے تو تجدید نکاح بھی کرے۔کیونکہ اللہ تعالی اور اس کے رسول کے احکامات
شریعت ہیں اس کو نہ ماننا شریعت کی توہین اور شریعت کی توہین کفر ہے۔
شرح الفقہ الاکبرمیں
ہے:’’من أھان الشریعۃ أوالمسائل التی لابد منہاکفر‘‘یعنی،’’جس
نے شریعت کی یاان مسائل کی توہین کی جوکہ ضروری ہیں تویہ کفرہے‘‘۔[شرح الفقہ الاکبر،ص:۱۷۴،مکتبہ
حقانیۃملتان]۔
فتاوی عالمگیری ،ج:۲،ص:۲۹۲،مطبوعہ:قدیمی کتب خانہ،پھرتاتارخانیۃ میں
ہے ’’رجل عرض علیہ خصمہ فتوی علیہ
جواب الأئمۃ فردہ وقال:چہ بازنامہ فتوی آوردہ؟فقدکفرلأنہ ردحکم الشرع،وکذالولم یقل
ہذاولکن ألقی الفتوی علی الأرض وقال:این چہ شرع است؟فہذاکفر‘‘یعنی،’’کسی شخص
پراس کے مدمقابل نے فتوی پیش کیا کہ اس پرأئمہ کاجواب بھی تھااوراس شخص نے واپس
کردیا،اور(تکبرانہ اندازمیں )کہاکہ:میرے لئے توفتوی لایاہے؟تواس نے کفرکیااس لئے
کہ یہ شریعت کے حکم کوردکرناہے ،اوراسی طرح اگریہ جملہ نہیں کہا،لیکن فتوی کوزمین
پرپھینک دیااورکہاکہ:یہ کیاشریعت ہے؟تویہ بھی کفرہے‘‘۔[الفتاوی
التاتارخانیۃ‘‘،کتاب أحکام المرتدین،فصل فی العلم والعلماء۔۔۔ الخ،ج:۵،ص:۳۴۶،قدیمی
کتب خانہ کراچی]۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم
ابوالجمیل غلام مرتضی مظہری
نے اس کو لکھا ہے اور رئیس دارالافتاء فیضان شریعت ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اختر
المدنی نے اس کی تصدیق فرمائی۔
Subscribe to:
Posts (Atom)