دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Wednesday 19 June 2013

قسطوں پر کاروبار اورموٹر سائیکل لکی کمیٹی اسکیم کا شرعی حکم

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں لکی کمیٹی کی ایک اسکیم چل رہی ہے اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ مثلاً 2000ہزار روپے ماہانہ جمع کروانے ہوتے ہیں اور اس کے تقریباً تین سو ممبر ہوتے ہیں اور ہر ماہ قرعہ اندزی ہوتی ہے ان ممبران میں سے جس کا نام نکل آئے اس کونیا موٹر سائیکل دیتے ہیں اور اس کو بقیہ کمیٹی کی اقساط معاف ہو جاتی ہے چاہئے وہ پہلی کمیٹی پر اس کا نام نکلے یا کچھ کمیٹیاں جمع کرانے کے بعد نکلے اور اگر 30کمیٹیاں جمع کرانے تک اس کا نام نہ نکلا تو پھر کمیٹی والے اس کو نیاموٹر سائیکل دے دیتے ہیں۔اس طرح کی کئی اسکیم چل رہی ہیں اور لوگ بھی اس میں بڑی خوشی سے حصہ لے رہے ہیں ۔ہمارے پاس مختلف علماء کی رائے پہنچی ہے بعض کہتے ہیں یہ جائز ہے اور بعض کہتے ہیں جائز نہیں ۔اقساط پر خریداری اور اس خریداری میں کیا فرق ہے ۔لہذا آپ اس کے بارے میں تحریری طور پر ہمیں آگاہ فرمائیں کہ لکی کمیٹی میں حصہ لینا جائز ہے یا نہیں؟اگر جائز ہے تو برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمائیں اور اگر ناجائز ہے تو کیوں اس کی بھی وضاحت فرمائیں تاکہ ہم بھی اس کمیٹی میں حصہ لینے یا نہ لینے کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں؟
                                                                                        سائل: محمد ابوبکر،ضلع لیہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب

اس کمیٹی کی بنیادبیع پر ہے۔یہ اقساط پر خریداری سے بہت مختلف ہے قسطوں میں خریدارایک مقررہ قیمت پر مبیع پہلے لے لیتا ہے اور بعد میں اس کی قسطوں کی صورت میں ثمن ادا کرتا رہتا ہے اس کے بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ اگر قسطوں پرخریدوفروخت اس طرح ہوکہ بائع(بیچنے والا) ومشتری (خریدار)کے درمیان مبیع (جوچیزبیچی جارہی ہے)کی قیمت مقررہوجائے اگرچہ رائج الوقت سے زیادہ ہواوریہ بھی طے ہوجائے کہ ماہانہ اقساط کی رقم کیاہوگی اورادائیگی کتنی مدت میں ہوگی اورقسط کی تاخیرسے جرمانہ نہ ہوگا۔اورمبیع خریدارکی ملک کرکے اس کے حوالے کردی جائے ۔تویہ بیع شرعاًدرست وجائزہے۔
ارشاد باری تعالی ہے ’’ِ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ‘‘ ترجمہ کنزالایمان : مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو[النساء :۲۹] ۔کنز الدقائق میں بیع کی تعریف اس طرح سے بیا ن کی گئی ہے کہ ’’ ھو مبادلۃ المال بالمال بالتراضی‘‘ یعنی،’’ بیع وہ آپس کی رضامندی سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا ہے‘‘۔ [کنز الدقائق علی البحرالرائق :ج:۵ ،ص:۴۲۹،مکتبہ رشیدیہ
فتاوی فیض الرسول میں ہے ’’ کوئی بھی سامان اس طرح بیچنا کہ اگر نقد قیمت فوراً ادا کرے تو تین سو قیمت لے اور اگر ادھار سامان کوئی لے تو اس سے تین سو پچاس روپیہ اسی سامان کی قیمت لے ۔یہ شریعت میں جائز ہے سود نہیں ہے نقد اور ادھار کا الگ الگ بھاؤ رکھنا شریعت میں جائز ہے ۔مگر ضروری ہے کہ سامان بیچتے وقت ہی یہ طے کر دے کہ اس سامان کی قیمت نقد خرید و تو اتنی ہے اور ادھار خریدو تو اتنی ہے(تو یہ جائز ہے) ۔[فتاوی فیض الرسول ،ج:۲،ص:۳۸۰،مطبوعہ شبیر برادر لاہور]۔
لیکن اگر قسط کی تاخیر کی صورت میں سود یا جرمانہ دینا پڑے تو پھر یہ عقدسراسرناجائزوحرام ہوگا ۔مفتی جلال الدین احمد امجد ی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں ’’(قسطوں کے کاروبار میں )یہ جائز نہیں کہ تین سو روپیہ میں فروخت کر دیا اب اگر قیمت ملنے میں ہفتہ کی دیر ہو گئی تو اس سے پچیس یا پچاس زیادہ لے ایسا کرے گا تو سود ہوجائے گا‘‘۔[فتاوی فیض الرسول ،ج:۲،ص:۳۸۰،مطبوعہ شبیر برادر لاہور]۔
اور شریعت مطہرہ میں سودسے سختی کے ساتھ منع کیاگیاہے قرآن مجیدواحادیث مبارکہ میں اس پروعیدات کثیرہ موجودہیں۔چنانچہ ارشادباری تعالیٰ ہے :’’الذین یأکلون الربوالایقومون الاکمایقوم الذی یتخبطہ الشیطان من المس ذالک بانہم قالواانماالبیع مثل الربواواحل اللہ وحرم الربوا‘‘وہ جوسودکھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگرجیسے کھڑاہوتاہے وہ جسے آسیب نے چھوکرمخبوط بنادیایہ اس لئے کہ انہوں نے کہابیع بھی توسودکی مانندہے اللہ نے حلال کیابیع کواورحرام کیاسودکو‘‘۔[بقرہ:۲۷۵
ایک دوسرے مقام پرارشادباری تعالی ہے :’’یاایہاالذین آمنوااتقوااللہ وذروامابقی من الربواان کنتم مؤمنین فان لم تفعلوافاذنوابحرب من اللہ ورسولہ ‘‘اے ایمان والو!اللہ سے ڈرواورچھوڑدوجوباقی رہ گیاہے سوداگرمسلمان ہوپھراگرایسانہ کروتویقین کرلواللہ اوراس کے رسول سے لڑائی کا‘‘۔[بقرہ:۲۷۸]۔مزیدارشادباری تعالیٰ ہے :’’یمحق اللہ الربواویربی الصد قٰت واللہ لایحب کل کفاراثیم ‘‘یعنی ،’’اللہ تعالیٰ ہلاک کرتاہے سودکواوربڑھاتاہے خیرات کواوراللہ تعالیٰ کوپسندنہیںآتاکوئی ناشکرابڑاگنہگار‘‘۔[بقرہ:۲۷۶
احادیث مبارکہ میںآتاہے کہ سودزناسے بھی بدترہے ۔چنانچہ حدیث شریف میںآتاہے :’’درہم الربوایأکلہ الرجل وہویعلم اشدستۃ وثلثین زنیۃ ........وزاد،قال من نبت لحمہ من السحت فالناراولیٰ بہ ‘‘سودکاایک درہم کہ آدمی دانستہ کھائے توچھتیس بارزناکرنے سے بھی بدترہے‘‘ اوردوسری روایت میں ہے جس کوگوشت حرام سے پلابڑھاہے وہ نارجہنم کے زیادہ مستحق ہے‘‘۔[مشکوٰۃ:۲۵۷،رحمانیہ،لاہور]۔دوسری حدیث مبارکہ میں ہے:’’ لعن رسول اللہ آکل الربوا ومؤکلہ وکاتبہ ‘‘رسول اللہ ﷺنے سودکھانے والے ،کھلانے والے اوراس کے لکھنے والے پرلعنت فرمائی ہے ‘‘۔ [مشکوۃ:۲۵۷،رحمانیہ،لاہور

        مندرجہ بالاآیات واحادیث پاک سے معلوم ہواکہ سودلینا،دینامطلقاً حرام وگناہ ہے ۔ماہانہ اقساط کے ساتھ سود یعنی مبیع کے ثمن (قیمت)سے زائداگربائع نہ لے تویہ عقدجائزہے اوراگرسود دیناپڑتاہوتو پھر اس طرح قسطوں پر کوئی چیز بیچنا یا خریدنا ناجائز ہو گا جس کاحکم اوپربیان ہوچکاہے۔


اور باقی رہا مسئلہ لکی کمیٹی کا تو اس کا طریقہ قسطوں کے کاربار سے مختلف ہے جیسا کہ سائل نے بھی اس کی وضاحت کی ہے ۔سائل کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق لکی کمیٹی میں موٹر سائیکل کی بیع ،بیع فاسد ہوتی ہے جوکہ ناجائزوگناہ ہے ۔کمیٹی مالکان یاکسی بھی ممبر کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ فلاں ممبر کانام کتنی قسطوں کے بعد نکلے گا کیونکہ سب ممبروں کی ممبر شب مجہول طریقے سے کی جاتی ہے یعنی اگر یہ ہوا تو، یہ ہو جائے گا۔ اور وہ ہوا تو، یوں ہو جائے گا وغیرہ ۔کوئی موٹر سائیکل کی قیمت مقرر نہیں کرتے اس طرح موٹر سائیکل کی بیع فاسد ہوگی کہ معلوم نہیں موٹر سائیکل کا کتنے ثمن پر سودہ ہو رہا ہے ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے ’’ ان یکون المبیع معلوماً والثمن معلوماً علماً یمنع من المنازعۃ فبیع المجہول جھالۃ تفضی الیھا غیر صحیح ‘‘یعنی ،’’ بیع کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ مبیع معلوم ہوا اور ا س کے ثمن معلوم اور مقرر ہوں تاکہ جھگڑے سے بچا جا سکے ۔اسی وجہ سے مجہول چیز کی بیع جو جھگڑ ا کی طرف لے جائے درست نہیں‘‘۔[فتاوی عالمگیری ،ج:۳،ص:۴،مکتبہ ،قدیمی کراچی] ۔
فقہی حنفی کی معتبر و معروف کتاب الھدایہ میں ہے ’’(والاثمان المطلقۃ لا تصح) الا ان تکون معروفۃ القدر والصفۃ ،لان التسلیم والتسلم واجب بالعقد ،وھذہ الجھالۃ مفضیۃ الی المنازعۃ فیمتنع التسلیم والتسلم ،وکل جھالۃ ھذہ صفتھا تمنع الجواز ،ھذا ھوالاصل ‘‘یعنی،’’ ثمن مطلقہ کے ساتھ بیع درست نہیں مگر یہ کہ اس کی قدر اور صفت معلوم ہو جائے ۔کیونکہ عقد ہو نے پر مبیع کا وصول کرنا اور ثمن ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔اور یہ جہلالت جھگڑے کی طرف لے جانے والی ہے پس تسلیم اور تسلم سے مانع ہو گی ۔اور ہر جہلالت جو اس طرح کی ہو وہ جواز کے مانع ہے۔اس کایہی ضابطہ کلیہ ہے ‘‘۔[الھدایۃ علی فتح القدیر ،ج:۶،ص:۲۴۰،کتاب البیوع ،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ
اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کمیٹی میں معدوم کی بیع ہوتی ہے وہ اس طرح کہ ممبر شپ کے وقت ہر ہر ممبر کے لئے الگ سے موٹر سائیکل کمیٹی مالکان کی ملک نہیں ہوتی کیونکہ وہ ہر ماہ ایک موٹرسائیکل خرید تے ہیں ۔اوراگر ایک بھی لے کر کھڑاکردیں تب بھی جائز نہیں کیونکہ سائل کے بیان کے مطابق ممبروں کی تعداد تین سو ہے اور انہوں نے ہر ممبر کو موٹر سائیکل ضرور دینی ہے تو پھر مسئلہ یہ بھی ہو گاکہ موٹر سائیکل ایک ہے اور لینے والے تین سو ہیں تو یہ کس کو ملے گا۔ لہذا اس طرح بھی لکی کمیٹی میں حصہ لینا ناجائزہوا۔
درمختار میں ہے ’’ بطل بیع مالیس فی ملکہ لبطلان بیع المدوم ومالہ خطرا لعدم الابطربق السلم لانہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نھی عن بیع مالیس عند الانسان ورخص فی السلم ‘‘یعنی،’’ غیر مملوک کی بیع باطل ہے اس کا باطل ہو نے کا سبب مبیع کا معدوم ہونا یا اس کے معدوم ہو نے کا خطرہ ہو مگر بطور سلم اس کی بیع باطل نہیں۔اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس چیز کی بیع سے منع فرمایا جو آدمی کے پاس نہ ہو اور بیع سلم میں رخصت ہے‘‘۔[درمختار ،کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد ،ج:۲،ص:۲۴،مکتبہ مجتبائی
ردالمحتار میں ہے ’’ لم ینعقد بیع المعدوم .....لا بیع ما لیس مملوکالہ وان ملکہ بعدہ الا السلم‘‘ملخصاًیعنی،’’ معدوم کی بیع منعقد نہیں ہوتی .....اور نہ اس چیز کی جو بائع کے ملک میں نہ ہو اگرچہ بعد میں اس کا مالک بن جائے سوائے بیع سلم کے‘‘۔[ردالمحتار،کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد
مذکورہ بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ لکی کمیٹی میں سائل کے بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق حصہ لینا جائز نہیں ہے اور جو حصہ لے چکے ہیں وہ فوراً اس سے الگ ہو جائیں ۔واللہ تعالی اعلم

ابوالجمیل غلام مرتضی مظہری نے اس کو تحریر کیا اوررئیس دارالافتاء فیضان شریعت ابوالحسینین مفتی محمد وسیم اختر المدنی نے اس کی تصدیق فرمائی

No comments:

Post a Comment