دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Monday 17 June 2013

کرسی پر نماز اور شریعت کی توہین کا شرعی حکم


کرسی پر نماز اور شریعت کی توہین کا شرعی حکم

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسجد میں کرسی پر بیٹھ کر صف کے درمیان نماز ادا کرنے کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟مندرجہ بالا مسئلہ کے متعلق چند مشاہدات ہیں جس کا ذکر کرناضروری سمجھتا ہوں اور وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) اکثر اوقات کرسی پربیٹھاہوانماز ی صف کے اندر ہوتا ہے حتیٰ کہ امام کے پیچھے بھی کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا گیا ہے۔
(۲) کچھ لوگ جو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کے عادی ہیں ان کو اپنے کاروباری معاملات اور دیگر معمولات میں بہت چست دوڑ لگاتے دیکھا گیا ہے مگر مسجد میں آتے ہی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی اسی عادت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
(۳) بعض اوقات صف میں پڑی کرسی کے پیچھے کھڑے نمازی کو سجدہ کرنے میں دقت ہوتی ہے بلکہ اکثر کرسی کے پائے سے سرٹکرا جاتا ہے۔
(۴) ایک مشاہدے میں ایسا بھی ہوا کہ نمازی صف میں امام کے تقریباً پیچھے نمازیوں کے قدم دیکھ کر کرسی کو رکھتا ہے اور تکبیر اولیٰ کے وقت وہ کرسی کے آگے کھڑا ہو جاتا ہے جو کہ صف سے تقریباً ایک یا ڈیڑھ فٹ آگے کھڑے ہو کر قیام کرتا ہے رکوع اور سجدہ کے وقت کرسی پر بیٹھ جاتا ہے پھر قیام کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے۔
(۵) امام صاحب اور مسجد کمیٹی سے اس موضوع پر بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ اس طرح تو شریعت اجازت نہیں دیتی ۔ان سے کہا گیا کہ آپ مسجد سے کرسیوں کو اٹھا دیں تو انہوں نے کہا کہ اس طرح لو گ مسجد میں آنا چھوڑ دیں گے۔
(۶) ایک نمازی سے کہا گیا کہ آپ صف کے درمیان میں کرسی رکھتے ہیں اس سے صف ٹوٹ جاتی ہے اور شریعت اس عمل کی اجازت نہیں دیتی اگر بہت مجبوری ہے تو آپ صف کے آخر پر کرسی رکھ کر نماز ادا کر لو۔جواباً اس نے غصے میں کہا میں شریعت کو نہیں مانتا(العیاذ باللہ)ایسے شخص کے متعلق کیا حکم ہے؟
(۷) روز بروز کرسیوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے ،بعض کرسیوں پر یہ بھی لکھا ہوا دیکھا گیا ہے ’’برائے ایصالِ ثواب فلاں بن فلاں‘‘کیا اس طرح سے بھی ایصالِ ثواب ہو سکتا ہے ؟مندرجہ بالا مشاہدات کو مد نظر رکھتے ہوئے شریعت مطہرہ کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں اور یہ بھی ارشادفرمائیں کہ امام مسجد ،مسجد کمیٹی اور جو لوگ اس مسئلہ کو سمجھتے ہیں ان کی کیا ذمہ داری بنتی ہے ۔اور جو امام سمجھتے ہوئے بھی کسی کو سمجھانے کی کوشش نہ کرے اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
                                                                            المستفتی :شوکت علی انصاری ،محمد بلال امین ؔ سیالکوٹ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
صورت مسؤلہ میں حکم شرعی یہ ہے کہ جو لوگ زمین پر شرعاً سجدہ کیے بغیر کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں ان کی نماز اشارے والی نمازہے اگرچہ وہ کرسی کے آگے لگے ہوئے تختے پر سجدہ کریں یا فقط سر جھکائیں۔لہذا اگر انہیں شریعت کی طرف سے اشارے والی نماز پڑھنے کی اجازت ہے تو ان کی نماز ہو جائے گی اور ان کا تختے پر سجدہ کرنا بھی درست ہو گا اور اگر انہیں شریعت کی طرف سے اشارے والی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے تو ان کی نماز ہرگز ادا نہیں ہوتی۔اس حکم کی تفصیل جاننے کے لئے نماز میں قیام اور سجدہ کے حکم شرعی کے بارے میں تفصیلی مقدمہ ملاحظہ کریں۔
یاد رکھیئے۔
نماز میں قیام فرض ہے ۔اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے ’َقُومُواْ لِلّہِ قَانِتِیْنَ ‘‘ترجمہ کنزالایمان:’’کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے‘‘اس کے تحت مفسر قرآن مفتی نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں’’اس سے نماز کے اندر قیام کا فرض ہونا ثابت ہوا‘‘۔[البقرۃ،آیت:۲۳۸]۔
امدادالفتاح شرح نورالایضاح میں ہے’’یفترض(القیام)فی کل صلاۃ مفروضۃ او واجبۃ ،لان الواجب بمنزلۃ الفرض فیہ للقادر علیہ وعلی الرکوع والسجود‘‘یعنی،’’ ہر فرض نماز میں قیام فرض ہے اور واجب نماز میں بھی کیونکہ واجب بھی فرض کے قائم مقام ہے ایسے شخص پر(قیام فرض ہے جوزمین پر) رکوع اور سجدہ کرنے کی طاقت رکھتا ہو ‘‘۔[امداد الفتاح شرح نورالایضاح ،ص:۲۴۲،مطبوعہ صدیقی پبلشرز،کراچی
حلبی الکبیر میں ہے ’’والثانیۃ من الفرائض القیام ولو صلی الفریضۃ قاعداً مع القدرۃ علی القیام لا یجوز صلوتہ بخلاف النافلۃ ‘‘یعنی،’’نماز کے فرائض میں دوسرا فرض قیام ہے اور اگر قیام پر قادر ہونے کے باوجودفرض نماز بیٹھ کر پڑھی تو اس کی نماز جائز نہیں جبکہ نوافل بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے ‘‘۔[غنیۃ المستملی فی شرح منیۃ المصلی المعروف حلبی الکبیری،ص:۲۲۹،مطبوعہ مکتبہ نعمانیہ کوئٹہ
جو شخص مکمل طور پر قیام نہیں کرسکتا لیکن کچھ وقت یہانتک کہ تکبیر تحریمہ کے لئے کھڑا ہو سکتا ہے تو اس کے لئے اپنی قدرت کے مطابق اتنی دیر کے لئے کھڑا ہونا لازمی ہے۔
تنویرالابصارمع الدرالمختارمیں ہے:’’وان قدرعلی بعض القیام ولومتکئاعلی عصاأوحائط قام لزوماً بقدرمایقدرولوقدرآیۃ أوتکبیرۃ علی المذہب،لأن البعض معتبربالکل‘‘یعنی، ’’اگرکچھ دیرقیام پرقادرہے اگرچہ لکڑی یادیوار کے سہارے سے توجتنی دیرکھڑاہوسکتاہے اتنی دیراس پرقیام کرنالازم ہے اگرچہ وہ قیام ایک آیت یاتکبیرتحریمہ کہنے کی مقدارکے برابرہو(صحیح)مذہب پر،اس لئے کہ بعض قیام کوکل کیساتھ تعبیرکیاجائے گا‘‘۔ [تنویرالابصارمع الدرالمختار،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض،ج:۲،ص:۵۶۷، مکتبہ امدادیہ ملتان
مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں’’آج کل عموماً یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ جہاں ذرا بخار آیا یا خفیف سی تکلیف ہوئی بیٹھ کر نماز شروع کردی ،حالانکہ وہی لوگ اسی حالت میں دس دس پندرہ پندرہ منٹ بلکہ زیادہ کھڑے ہو کر اِدھر اُدھر کی باتیں کر لیا کرتے ہیں ،ان کو چاہیے کہ ان مسائل سے متنبہ ہوں اور جتنی نمازیں باوجود قدرت قیام بیٹھ کر پڑھی ہوں ان کا اعادہ فرض ہے ۔یوہیں اگر ویسے کھڑا نہ ہو سکتا تھا مگر عصایا دیوار یا آدمی کے سہارے کھڑا ہونا ممکن تھا تو وہ نمازیں بھی نہ ہوئیں،ان کا پھیرنا فرض ۔اللہ تعالی توفیق عطاء فرمائے‘‘۔[بہارشریعت،ج:۱، ص:۵۱۱،مطبوعہ مکتبہ المدینۃ کراچی
مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں’’کھڑے ہونے سے محض کچھ تکلیف ہونا عذر نہیں بلکہ قیام اس وقت ساقط ہو گا کہ کھڑا نہ ہو سکے یا سجد ہ نہ کر سکے یا کھڑے ہونے یا سجدہ کرنے میں زخم بہتا ہے یا کھڑے ہونے میں قطرہ آتا ہے یا چوتھائی سترکھولتا ہے یا قرا ء ت سے مجبور محض ہو جاتا ہے یوہیں کھڑا تو ہو سکتا ہے مگر اس سے مرض میں زیادتی ہوتی ہے یا دیر میں اچھا ہو گا یا ناقابلِ برداشت تکلیف ہو گی تو(قیام ساقط ہو گاورنہ نہیں)‘‘۔[بہارشریعت،ج:۱،ص:۵۱۱،مطبوعہ مکتبہ المدینۃ کراچی
کنزالدقائق میں ہے’’ تعذر علیہ القیام او خاف زیادۃ المرض صلی قاعداً یرکع ویسجد ‘‘یعنی،’’ اگر نمازی پر قیام کرنا متعذر ہو یا مرض زیادہ ہونے کا خوف ہو تو بیٹھ کر رکوع اور سجدہ سے نماز پڑھے ‘‘۔[کنز الدقائق علی البحرالرائق ،ج:۲،ص:۱۹۷،مطبوعہ قدیمی کراچی
اور جوشخص قیام کر سکتا ہے لیکن کمر میں شدید درد یا تکلیف یا زخم یاآنکھوں کے آپریشن کی وجہ سے ڈاکٹر نے کچھ عرصہ کے لئے سر جھکانے سے منع کیا جس کی وجہ سے رکوع نہیں کر سکتا یا گھٹنوں میں درد یا تکلیف کی وجہ سے یا بڑھاپے اور کمزوری اور ضعیفی کی وجہ سے اٹھنا بیٹھنا مشکل یا ناممکن یا کم از کم بیماری کے دیر سے صحتیاب ہونے کا گمان غالب ہے لیکن ایسا شخص زمین پر بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کرسکتا ہے یا کوئی ایسی چیز زمین پر رکھے(جس پر سجدہ اپنے تمام شرائط کے ساتھ درست ہو جائے کہ وہ سخت چیز ہو جس پر پیشانی جم جائے مزید دبانے سے نہ دبے اور وہ چیزپتھر وغیرہ )جوزمین سے نو انچ سے زیادہ اونچی نہ ہو تو اس پرفرض و لازم ہے کہ وہ زمین پر بیٹھ رکوع اور سجدہ ہی کرے اس کے لئے بیٹھ کر سجدہ کا اشارہ کافی نہیں۔لہذا ایسا آدمی جس نے بلا عذر شرعی بیٹھ کر نماز پڑھنے کی عادت بنالی ہے یا تھوڑی بہت تکلیف یا کمر میں ہلکی تکلیف کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے اس پر فرض ہے کہ اپنی عادت کو شریعت کے تابع کرے اور بلاعذر بیٹھ کر پڑھی گئی نمازوں کی قضاء کرے۔
سجدہ نماز میں فرض ہے ۔اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا ارْکَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ‘‘ترجمہ کنز الایمان:’’اے ایمان والو:رکوع اور سجدہ کر واور اپنے رب کی بندگی کرو اور بھلے کا م کرو اس امید پر کہ تمہیں چھٹکارا ہو‘‘۔[سورۃ الحج ،آیت:۷۷]۔
حدیث پاک میں اس کی ادئیگی کا طریقہ اس طرح بیان فرمایا کہ ’’عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اُمرت ان اسجد علی سبعۃ اعظم علی الجبھۃ والید ین والرکبتین واطراف القدمَین ولانَکْفِتَ الثیاب والشعر‘‘۔متفق علیہ۔یعنی،’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا:’’ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کروں ۔پیشانی،دو نوں ہاتھ ،دونوں گھٹنے ،دونوں قدموں کے کنارے اور یہ کہ کپڑے او ربال جمع نہ کریں ‘‘۔[مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الصلاۃ ،ص:۸۴،مکتبہ رحمانیہ لاہور
امد ادلفتاح شرح نور الایضاح میں ہے’’ یفترض(السجود)لقولہ تعالی (واسجدوا)ولامر النبی بہ وللاجماع علی فرضیتہ ،والسجدۃانما تتحقق بوضع الجبھۃ لا لأنف ،مع وضع احدی الیدین واحدی الرکبتین وشیء من اطراف اصابع احدی القدمین علی طاہر من الارض ،فان لم یوجد وضع ھذہ الاعضاء لا تتحقق السجدۃ ‘‘یعنی،’’ نماز میں سجدہ فرض ہے اللہ تعالی کے اس قول کی وجہ سے ’’اور سجدہ کرو‘‘ اور حضور نبی کریم نے بھی اس کا حکم دیا ۔اور اس کی فرضیت پر اجماع بھی ہے۔اور سجدہ ‘یہ ہے کہ صرف ناک نہیں بلکہ پیشانی زمین پر جم جائے اور دونوں ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ اور دونوں گھٹنوں میں سے ایک گھٹنااور دونوں پاؤں میں سے ایک پاؤں کے کنارے پاک زمین پر رکھے جائیں۔پس اگر ان مذکورہ اعضاء کا زمین پر رکھنا نہ پایا گیا تو سجدہ متحقق نہیں ہو گا‘۔[امداد الفتاح شرح نورالایضاح ،ص:۲۵۴،مطبوعہ صدیقی پبلشرز،کراچی
مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں’’ جو شخص زمین پر سجد ہ نہیں کر سکتامگر شرائط مذکورہ(سجدہ کے درست ہونے کی شرائط کہ سخت چیزہو جس پر پیشانی جم جائے مزید دبانے سے نہ دبے اور ان شرائط)کے ساتھ کوئی(سخت) چیز زمین پر رکھ کر سجدہ کر سکتا ہے ،اس پر فرض ہے کہ اسی طرح سجدہ کرے اشارہ جائز نہیں ‘‘۔[بہارشریعت،ج:۱،ص:۷۲۲،مطبوعہ مکتبہ المدینۃ کراچی
علامہ ابن عابدین المعروف شامی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں’’ بل یظھر لی انہ لو کان قادراً علی وضع شیء علی الارض ممایصح السجود علیہ انہ یلزمہ ذلک لانہ قادر علی الرکوع والسجود حقیقۃ ‘‘یعنی،’’بلکہ میرے لیے یہ ظاہر ہوا ہے کہ بے شک اگر کوئی زمین پر رکھی ہوئی چیز پر سجدہ کرنے پر قادر ہے جس پر صحیح طریقے سے سجدہ ہو سکتا ہو(یعنی وہ چیز سخت ہو جس پرناک اور پیشانی اچھے طریقے سے جم جائے جیسے زمین پر سجدہ کرنے میں ہوتا ہے اوروہ نوانچ سے کم اونچی ہو ) تو اس(رکھی ہوئی چیز پر سجدہ کرنا )لازم ہے کیونکہ وہ حقیقت میں رکوع اور سجدہ کرنے پر قادر ہے‘‘۔[ردالمحتار ،کتاب الصلاۃ ،باب صلاۃ المریض،ج:۲،ص:۵۶۹،مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان
اگر قیام مشکل ہو جائے تو پھر حکم یہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز پڑھے ۔جو شخص زمین پر سجدہ نہیں کر سکتا لیکن کوئی ایسی چیز ہے مثلاً پتھر وغیرہ جس پر سجدہ اپنی شرائط کے ساتھ ادا ہو سکتا ہے تو اس پر لازم ہے وہ مذکورہ طریقہ سے سجدہ ہی کرے حتی کہ فقہاء کرام نے یہاں تک لکھا کہ اگر پیشانی میںزخم یا پھوڑا وغیرہ ہے جس کی وجہ سے پیشانی زمین پر نہیں رکھ سکتا تو اس پر لازم ہے ناک پر سجدہ کرے ورنہ نماز نہیں ہو گی۔
فتاوی عالمگیری میں ہے ’’ وان کان بجبھتہ جرح لایستطیع السجودعلیہ لم یجزۂ الایماء وعلیہ ان یسجد علی انفہ وان لم یسجد علی انفہ واوما لم تجز صلاتہ کذا فی الذخیرۃ‘‘یعنی،’’ اگر پیشانی میں زخم ہو اور وہ اس پر سجدہ نہ کر سکتا ہو تو اس کے لئے اشارہ کرنا جائز نہیں اور اس پر لازم ہے کہ ناک پر سجدہ کرے اور اگر ناک پر سجد ہ نہ کیا اور سجدہ کا اشارہ کیا تو اس کی نماز نہیں ہو گی اسی طرح ذخیرہ میں ہے ‘‘۔[فتاوی عالمگیری،کتاب الصلاۃ ،باب صلاۃ المریض ،ج:۱،ص:۱۵۱،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی
مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں’’پیشانی میں زخم ہے کہ سجدہ کے لئے ماتھا نہیں لگاسکتا تو ناک پر سجدہ کرے اور ایسا نہ کیا بلکہ اشارہ کیا تو نماز نہ ہوئی‘‘۔[بہارشریعت،ج:۱،ص:۷۲۲،مطبوعہ مکتبہ المدینۃ کراچی
اس بحث سے معلوم ہوا کہ نماز میں قیام فرض ہے اور سجدہ بھی فرض ہے ۔لہذا اگرکوئی شخص قیام کیساتھ ساتھ رکوع وسجودپربھی قادرہونے کے باوجود بیٹھ کرنمازپڑھتاہے تواس کی نمازاصلاً ادانہ ہوگی کیونکہ قیام فرض ہے اور فرض کے ترک سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔لہذازمین پر یا اوپر مذکور متبادل چیز پرسجدہ پرقادرہوتے ہوئے کرسی پربیٹھ کرسجد ہ کا اشارہ کیا تو نمازاصلاً ادا نہ ہوگی اس طرح پڑھی گئی سب نمازوں کا اعادہ کرنا فرض ہے ورنہ فرض سر پر رہے گا۔
اور اگر کوئی شخص واقع میں ایسا ہے جو کھڑا تو ہو سکتا ہے لیکن گھٹنوں یاکمر میں کسی بھی بیماری کی وجہ سے رکوع اورزمین پر سجدہ کر ہی نہیں سکتا یا وہ قیام تو کرسکتا ہے اور رکوع بھی کر سکتا ہے لیکن پیشانی یا حلق وغیرہ میں زخم ہے جو سجدہ کرنے سے بہتا ہے جس کی وجہ سے زمین پر سجدہ نہیں کرسکتا تو اس کے لئے حکم یہ ہے کہ اشارے سے نماز پڑھے اور بہتریہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے اور رکوع اورسجدہ کے لئے اشارہ کرے اور سجدہ کا اشارہ رکوع کے اشارے سے زیادہ کرے ۔
تنویرالابصارمع الدرالمختارمیں ہے:’’وان تعذرا۔۔۔بل تعذرالسجودکاف لاالقیام أوماقاعداً وہوأفضل من الایماء قائماًلقربہ من الأرض ویجعل سجودہ أخفض من رکوعہ لزوماً‘‘یعنی،’’اوراگردونوں(رکوع وسجود)کرنامشکل ہوبلکہ صرف سجدے کامتعذر(ناممکن)ہوناکافی ہے ،قیام متعذر(ناممکن)نہ ہوتوبیٹھ کراشارے سے نمازپڑھے اورکھڑے ہونے سے بیٹھ کراشارے سے نمازپڑھناافضل ہے زمین کے قریب ہونے کیوجہ سے،اورسجدے کے لئے رکوع سے زیادہ جھکنالازم ہے‘‘۔ [تنویرالابصارمع الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المریض،ج:۲،ص:۵۶۷، ۵۶۸، مکتبہ امدادیہ ملتان
صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :’’ کھڑا ہو سکتا ہے مگر رکوع وسجودنہیں کر سکتا یا صرف سجدہ نہیں کر سکتامثلاً حلق وغیرہ میں پھوڑا ہے کہ سجدہ کرنے سے بہے گا تو بھی بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھ سکتاہے ،بلکہ یہی بہتر ہے ‘‘۔[ بہار شریعت ،ج: اول ،ص:۲۶۴، مکتبہ ،رضویہ ،کراچی
اس سے معلوم ہوااگر کوئی شخص قیام پر قادر ہے رکوع وسجدہ پر قادر نہیں یاکسی بھی طریقہ سجد ہ پر قادر نہیں تو ایسے شخص کو شرعاً اشارے سے نماز پڑھنے کی اجازت ہے خواہ وہ زمین پر بیٹھ کر یا کرسی پر بیٹھ کراشارے سے نماز پڑھے ۔
اور بعض مساجد میں ایسی کرسیاں رکھی ہوتی ہیں جن کی اگلی جانب تختہ لگا ہوتا ہے اس پرسجدہ کرنے سے حقیقۃً سجدہ ادا نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی سجدے کا اشارہ ہی ہے۔
علامہ ابن عابدین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ’’فان کانت الوسادۃ موضوعۃ علی الارض وکان یسجدعلیہاجازت صلاتہ،فقدصح ان ام سلمۃ کانت تسجدعلی مرفقۃ موضوعۃ بین یدیہالعلۃ کانت بہاولم یمنعہارسول اللہ من ذٰلک فان مفاد ھذہ المقابلۃ والاستدلال عدم الکراہۃفی الموضوع علی الارض المرتفع ،ثم رأیت القہستانی صرح بذلک ‘‘ یعنی ،’’ اگرتکیہ
زمین پررکھاہواہواوراس پرسجدہ کیاتواس کی نمازجائزہوگی ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے یہ بات صحیح طورپرثابت ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہا بیمار تھیں ان کے آگے چھوٹا تکیہ رکھا ہوا تھااورآپ ا س پر سجدہ کرتیں اور رسول اللہ نے اس سے منع نہیں فرمایا۔اس تقابل اور استدلال کا مفاد یہ ہے کہ زمین پر رکھی ہوئی اونچی چیزپر( سجدہ کااشارہ کرنے میں) کراہت نہیں ہے ۔پھر میں نے قہستانی میں دیکھا تو اس میں اس جواز کی صراحت کی گئی تھی ‘‘[ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المریض،ج:۲،ص:۵۶۸،مکتبۃ امدادیہ ملتان
منحۃ الخالقمیں علامہ شامی علیہ الرحمہ مذکورہ عبارت نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں کہ’’ثم رأیت القہستانی قال بعد قولہ(ولایرفع الی وجہہ شئ یسجدعلیہ)فیہ اشارۃ الی انہ لوسجدعلی شئ مرفوع موضوع علی الارض لم یکرہ‘‘یعنی،’’پھرمیں نے قہستانی میں دیکھاکہ اس قول کے بعدفرماتے ہیں کہ (اورچہرے کی طرف کوئی چیزنہ اٹھائے کہ اس پرسجدہ کرے)اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگرکوئی اونچی چیززمین پررکھی ہوئی ہواوراس پرسجدہ کیاتویہ مکروہ نہیں ہے‘‘۔[منحۃ الخالق علی البحرالرائق،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المریض،ج:۲،ص:۲۰۰،مکتبۃ رشیدیہ کوئٹہ
اس سے معلوم ہواکہ جس کو شریعت مطہرہ کی طرف سے زمین پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھنے کی اجازت ہے وہ کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کر سکتا ہے اور اگر ایسی کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھی جس کے آگے تختہ لگا ہو تو اس پر سجدہ کرنے سے سجدہ کا اشارہ ہی ہوگا اور اگر زمین پر بیٹھ کر یا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھی اور سجدہ کے لئے کو ئی چیز اٹھا کر پیشانی پر لگائی اورسر بالکل نہیں جھکایا تو سجد ہ ادا نہیں ہوگا اور اگرسجدہ کے لئے کوئی چیز اٹھائی او راس کے لئے سر بھی جھکایا تو ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے لیکن سجدہ ادا ہو جائے گا۔اس کے علاوہ کوئی شخص بھی کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھے گا نماز ادا نہیں ہو گی بلکہ فرض اس کے ذمہ باقی رہے گا ایسے حضرات پر لازم ہے کہ شریعت پر عمل کریں اور بلاضرورت کرسی پر نماز نہ پڑھیں۔
باقی رہا مسئلہ صف کے درمیان کرسی رکھنے کا تو اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ جن افراد کو شرعاً کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے ان کو چاہیے کہ اپنی کرسی صف کے ایک طرف رکھیں او رصف کو برابر رکھنے کی کوشش کرے تاکہ خومخواہ لوگوں کو باتیں کرنے کا موقعہ نہ ملے اور اگر درمیان صف میں بھی مذکورہ شخص نے کرسی رکھ دی توبھی اس سے قطع صف لازم نہیں آتی کیونکہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والا نماز ہی میں ہوتا ہے اور اگرکوئی یہ سمجھے کہ اوپر نیچے ہونے کی وجہ سے صف خراب ہو گئی ہے لہذا صف میں سب نمازیوں کے قد برابر ہونا ضروری ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے کیونکہ ایسا ہونا کسی طرح بھی ممکن نہیں اس لئے کہ کوئی چھوٹے قد کا او رکوئی بڑے قد کا ہوتا ہے۔
امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں،’’صف میں کچھ مقتدی کھڑے ،کچھ بیٹھے ہوں تو اس سے امر اول یعنی تسویہ صف پر کچھ اثر نہیں پڑتاکہ قائم وقاعدبھی خط واحد مستقیم میں ہوسکتے ہیں تسویہ میں ارتقاع کی برابر ملحوظ نہیں نہ وہ ملحوظ ہونے کے قابل کہ ایک پیمائش کے قد کہاں سے آئیں گے ۔‘‘[فتاوی رضویہ جدید،ج:۷،ص:۲۲۳،رضافاؤنڈیشن لاہور
ہاں مذکورہ تفصیل کے مطابق جس کو شرعاً کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں یعنی جو زمین پر بیٹھ کر زمین پر سجدہ کر سکتا ہے اگر وہ کرسی پر بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھے گاتو اس کی نماز تو ہو گی ہی نہیں (جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے) لہذا ایسا شخص جب صف کے درمیان میں کرسی رکھے گا تو اس سے ضرور قطع صف لازم آئے گی اور یہ گناہ بھی ہے جو نمازی اس پر راضی ہوں وہ بھی گنہگار ہیں لہذاامام مسجد ، کمیٹی مسجداور دیگر نمازیوں پر فرض ہے کہ اپنی قدرت اور طاقت کے مطابق ایسے شخص کو درمیان صف میں کرسی نہ رکھنے دیں۔
امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ الرحمۃ الرحمن لکھتے ہیں’’ ہاں جبکہ بیٹھنے والے محض کسل وکاہلی(سستی) کے سبب بے معذوری شرعی بیٹھیں گے تو فرائض وواجبات مثل عیدین و وتر میں امر دوم وسوم کا خلاف لازم آئے گاکہ جب بلاعذر بیٹھے تو ان کی نماز نہ ہوئی اور قطع صف لازم آیا کہ نمازیوں میں غیر نماز ی دخیل ہیں ،ان بیٹھنے والوں کوخود فسادِ نماز ہی کا گناہ کیا کم تھا مگر انہیں یہاں جگہ دینا اور اگر قدرت ہو تو صف سے نکال نہ دینا یہ باقی نمازیوں کا گناہ ہو گا کہ وہ خود اپنی صف کی قطع پر راضی ہوئے اور جو صف قطع کرے اللہ اُسے قطع (اپنی رحمت سے دور)کردے،ان پر لازم تھا کہ انہیں کھڑے ہونے پر مجبور کریں اور اگر نہ مانیں تو صفوں سے نکال کر دورکریں ہاں نمازی اس پر قادر نہ ہوں تو معذور ہیں اور اس قطع صف کے وبال عظیم میںیہی بیٹھنے والے ماخوذ ہیں یہ حکم فرائض و واجبات کا تھا‘‘۔[فتاوی رضویہ جدید،ج:۷،ص:۲۲۳، رضافاؤنڈیشن لاہور
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اوپر بیان کی تفصیل کے مطابق ایسا شخص جو زمین پر بیٹھ کر بھی زمین یا نو انچ کی متبادل سخت چیزپر سجدہ نہیں کر سکتااس کے لئے کرسی پر بیٹھ کرنماز پڑھنا جائز ہے ایسے لوگ اگر صف کے درمیان میں کرسی رکھ دیں تو قطع صف لازم نہیں آئے گی اور اس کے علاوہ کسی کے لئے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں جو لوگ بلاعذر شرعی کرسی پر بیٹھ کرنماز پڑھتے ہیں ان پر فرض ولازم ہے کہ اپنی عادت بدلیں اوراپنے آپ کو شریعت مطہرہ کے تابع کریں ایسا شخص اگر صف کے درمیان میں کرسی رکھ کر جماعت میں شامل ہو تو قطع صف لازم ہے گی لہذا مسجد انتظامیہ اور امام مسجد پر لازم ہے کہ چند ایک کرسیاں مسجد میں رکھیں تاکہ واقعی معذور افراد اس پربیٹھ کر نماز پڑھ سکیں باقی سب اٹھوادیں۔
اور باقی رہا مسئلہ سوال میں مذکورہ اس شخص جس نے شرعی مسئلہ بتانے والے کو کہا’’ میں شریعت کو نہیں مانتا‘‘اس کا ایسا کہنا کفر ہے اس پر لازم ہے کہ فوراً توبہ تجدید ایمان اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدید نکاح بھی کرے۔کیونکہ اللہ تعالی اور اس کے رسول کے احکامات شریعت ہیں اس کو نہ ماننا شریعت کی توہین اور شریعت کی توہین کفر ہے۔
شرح الفقہ الاکبرمیں ہے:’’من أھان الشریعۃ أوالمسائل التی لابد منہاکفر‘‘یعنی،’’جس نے شریعت کی یاان مسائل کی توہین کی جوکہ ضروری ہیں تویہ کفرہے‘‘۔[شرح الفقہ الاکبر،ص:۱۷۴،مکتبہ حقانیۃملتان
فتاوی عالمگیری ،ج:۲،ص:۲۹۲،مطبوعہ:قدیمی کتب خانہ،پھرتاتارخانیۃ میں ہے ’’رجل عرض علیہ خصمہ فتوی علیہ جواب الأئمۃ فردہ وقال:چہ بازنامہ فتوی آوردہ؟فقدکفرلأنہ ردحکم الشرع،وکذالولم یقل ہذاولکن ألقی الفتوی علی الأرض وقال:این چہ شرع است؟فہذاکفر‘‘یعنی،’’کسی شخص پراس کے مدمقابل نے فتوی پیش کیا کہ اس پرأئمہ کاجواب بھی تھااوراس شخص نے واپس کردیا،اور(تکبرانہ اندازمیں )کہاکہ:میرے لئے توفتوی لایاہے؟تواس نے کفرکیااس لئے کہ یہ شریعت کے حکم کوردکرناہے ،اوراسی طرح اگریہ جملہ نہیں کہا،لیکن فتوی کوزمین پرپھینک دیااورکہاکہ:یہ کیاشریعت ہے؟تویہ بھی کفرہے‘‘۔[الفتاوی التاتارخانیۃ‘‘،کتاب أحکام المرتدین،فصل فی العلم والعلماء۔۔۔ الخ،ج:۵،ص:۳۴۶،قدیمی کتب خانہ کراچی]۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم 
ابوالجمیل غلام مرتضی مظہری نے اس کو لکھا ہے اور رئیس دارالافتاء فیضان شریعت ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اختر المدنی نے اس کی تصدیق فرمائی۔

No comments:

Post a Comment