دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Monday, 4 May 2015

مسئلہ زکوٰۃ اور مسٹر غامدی کاانوکھا اجتہاد۔۔۔ساتویں قسط


مسئلہ زکوٰۃ اور مسٹر غامدی کاانوکھا اجتہاد
مسٹر غامدی کے شیطانی اجتہادات کی نظیر مسئلہ ء زکوٰۃ بھی ہے۔ ان کے نزدیک زکوٰۃکے نصاب کی تعین کا اختیار ریاست کے پاس ہے ،اگرچہ اس ریاست کے حکمران فاسق وفاجر بلکہ مذہب بیزار یا سیکولر ہی کیوں نہ ہوں۔
مسٹر غامدی اپنے خود ساختہ اجتہاد کے نتیجے میں شیطان کی طرف سے الہام ہونے والے اصول کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’تیسری بات یہ کہ ریاست اگر چاہے تو حالات کی رعایت سے کسی چیز کوزکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دے سکتی ہے اور جن چیزوں سے زکوٰۃ وصول کرے ،ان کے لئے عام دستور کے مطابق کوئی نصاب بھی مقرر کر سکتی ہے ‘‘۔[میزان۳۵۳،طبع سوم،۲۰۰۸]۔
زکوٰۃ کوئی ریاستی ٹیکس نہیں ہے بلکہ ایک مذہبی فریضہ ہے اس لئے اس کا ماخذ شریعت اسلامیہ ہے نہ کہ ریاستی اختیار و طاقت ۔ اس لئے زکوٰۃ کے 
تمام احکام اور مسائل کے اخذ کے لئے صحابہ کرام علیھم الرضوان سے لے کر آج تک امت مسلمہ ،تمام فقہاء کرام حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ کے فرمودات اور قرآن پاک کی آیات کی طرف رجوع کرتے آئے ہیں ۔لیکن مسٹر غامدی نے زکوٰۃ کومذہبی فریضہ سے نکال کر ریاستی ٹیکس کی حیثیت دے دی ہے اس لئے زکوٰۃ کے نصاب اور دیگر معاملات میں ریاست کو مداخلت کی کھلی چھٹی دے دی ہے ۔
مسٹر غامدی کے نظریات کا قبلہ کیونکہ مغرب ہے اور مغرب کا ریاست کے بارے میں یہ نظریہ ہے کہ اپنی عوام کے لئے ریاست ہر قسم کا فیصلہ کر سکتی ہے اور اس معاملے میں اس کے اس حق پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج مغربی ریاستوں میں ہم جنس پرستی جیسی قبیح چیزوں کو بھی قانونی اور جائز قرار دیا جارہا ہے ۔جبکہ ہمار ا ملک پاکستا ن ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلامی ریاست کو لامحدود اختیارات حاصل نہیں ہوتے ۔اسلامی ریاست کے اختیارات کا منبع ذات خداوندی ہوتی ہے اور اس کے عطاء کردہ اختیار کے دائرے میں رہ کر ہی قانون سازی کی جاسکتی ہے ۔اسی لئے ہمارے آئین میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالی کے لئے ہونے کا اقرار کیا گیا ہے اور اس ملک کے تمام قوانین قرآن وسنت کے تابع ہوں گے اس کا بھی اقرار ہے ۔مغرب اور ان کے حواریوں کو اس بات سے بھی بڑی تکلیف ہے کہ پاکستان کے نام کے ساتھ لفظ’’ اسلامی‘‘ کیوں لگا ہے اور وہ آئے دن اس طرح کے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا جیسا کہ ابھی پچھلے دنوں ہی مسٹر غامدی صاحب نے جنگ اخبار کے کالم میں اس بات کو دہرایا ہے ۔تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب ہی نہیں ہوتا اور دوسری طرف وہ اسی لا مذہب ریاست کو مذہبی معاملات میں مداخلت کرنے کا کُلی اختیار بھی عطاء کرتے ہیں کہ جب وہ چاہے کسی بھی چیز کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دے سکتی ہے اور زکوٰۃ کے نصاب میں ترمیم بھی کر سکتی ہے ۔
زکوٰۃ ایک شرعی فریضہ ہے اور اس کی تمام شرائط اور نصاب اور مصارف کا منبع اور ماخذ شریعت ہی ہے کسی ریاست کو اس میں ترمیم اور تبدیلی کا اختیار نہیں ہے ۔ قومیت پر مبنی ریاستیں ابھی پچھلی صدی ہی میں وجود میں آئی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے دور میں اس طرح کی ریاستوں کا کوئی تصور نہیں تھا لہذا یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس طرح کی ریاستوں کو قانون زکوٰۃ میں کسی قسم کی تبدیلی اور ترمیم کا اختیار رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرام علیھم الرضوان کے کسی عمل سے ثابت کیا جا سکے بلکہ اس کے برخلاف خلیفہ رسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں جب کچھ قبائل نے زکوٰۃ کے نظام میں تبدیلی کی کوشش کی اور اسلامی ریاست کو زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو تمام صحابہ کرام نے متفق ہو کر ان کی اس ناپاک حرکت کا جواب اپنی تلوار سے دیا ۔لہذا مسٹرغامدی کے نظریاتی قبلہ مغربی ریاستوں کو تو ان کے مذہب میں تبدیلی کا اختیار حاصل ہو سکتا ہے اور وہ اپنی ریاستوں میں عیسائیت یا یہودیت کے خلاف جیسی چاہیں ترامیم کریں لیکن کسی اسلامی ریاست میں مذہب اسلام کے کسی مسلّمہ معاملے میں تبدیلی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا اور اگر کوئی یہ کوشش کر ے گا تو عام مسلمان اس کو نشانِ عبرت بنا دیں گے ۔واللہ تعالی اعلم

مسٹر غامدی کی کفار ومشرکین کے لئے ہمدردی۔۔۔۔۔چھٹی قسط

مسٹر غامدی کی کفار ومشرکین کے لئے ہمدردی
مسٹر غامدی مغرب سے در آمدشدہ اسلام مسلمانوں میں رائج کرنے کے لئے تسلسل کے ساتھ مسلمانوں کے مسلّمات کا انکارکرکے ان کو مشکوک بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے محسنین و مغرب سے درآمدشدہ اسلام کے موجدین کو کافرو مشرک جیسے قبیح القاب سے محفوظ رکھنے کے لئے شب وروز کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔کسی نے مسٹر غامدی سے پوچھا :
’’اہل کتاب کو کافر کہنا درست ہے یانہیں ؟ اللہ تعالی نے سورۃ المائدہ کی آیت۷۲ میں8 عیسائیوں کے عقیدہ کو کفر سے تعبیر کیا ہے‘‘۔
اس کے جواب میں مسٹر غامدی نے لکھا’’ کسی کو کافر قرار دینا ایک قانونی معاملہ ہے۔پیغمبر اپنے الہامی علم کی بنیاد پر کسی گروہ کی تکفیر کرتا ہے ۔یہ حیثیت اب کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی ۔اب ہمارا کام یہی ہے کہ ہم مختلف گروہوں کے عمل اورعقیدہ کی غلطی واضح کریں اور جو لوگ نبی ﷺ کی نبوت کو نہیں مانتے انہیں بس غیر مسلم سمجھیں اور ان کے کفر کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں ‘‘۔[ماہنامہ اشراق ،ص:۵۴،۵۵]۔
اسی طرح ایک اور سوال پوچھا گیا کہ کیا ہندو مشرک ہیں؟اس کے جواب میں مسٹر غامدی نے لکھا:
’’ہمارے نزدیک مشرک وہ شخص ہے جس نے شرک کی حقیقت واضح ہو جانے کے بعد بھی شرک ہی کو بطورِ دین اپنا رکھا ہو۔چونکہ اب کسی ہندو کے بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے شرک کی حقیقت واضح ہو جانے کے بعد بھی شرک ہی کو بطور دین اپنا رکھا ہے ،لہذا اسے مشرک نہیں قرار دیا جاسکتا اور نہ قرآن کے اس حکم کا اطلاق اس پر کیا جاسکتا ہے‘‘۔[مسٹر غامدی کے شاگرد ،معز امجد کی سائٹ غامدی کے ادارے المورد سے الحاقشدہ،www.urdu.understanding-islam.org]۔
مذکورہ اقتباسات کا خلاصہ یہ نکلا کہ نبی کریم ﷺ کے بعدکسی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی فرد کو اس کے عقائدکفریہ کی بنیاد پر کافر یا مشرک قرار دے سکے ۔
موسوعۃ الاجماع میں موضوع نمبر۳۴۱۲’’من ھو الکافر‘‘ یعنی ،کافر کس کو کہتے ہیں کے تحت ہے۔
’’اتفقوا علی ان من لم یؤمن باللہ تعالی وبرسولہ ﷺ وبکل ماأتی بہ علیہ السلام مما نقل عنہ نقل الکافۃ ،او شک فی التوحید ،او فی النبوۃ او فی محمد او فی حرف مما أتی بہ علیہ السلام ،او فی شریعۃ أتی بھا علیہ السلام مما نقل عنہ نقل کافۃ ،فان من جحد شیئاً مما ذکرنا ،او شک فی شیء منہ ،ومات علی ذلک فانہ کافر ،مشرک مخلد فی النار ابدا‘‘
ترجمہ:’’تمام علما ء اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ اورجو کچھ احکام آپ اللہ کی طرف سے لے کر آئے جو آپ ﷺ سے متواتراًروایت کیے گئے ہیں ان پر ایمان نہیں لائے ،یا جو توحید میں شک کرے یاآپ ﷺ کی نبوت میں شک کرے یا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ذات میں شک کرے یا کسی حرف میں شک کرے جو آپ کو عطاء کیا گیا یا شریعت کے وہ احکام جو آپ ﷺ سے تواتراً نقل کیے گئے ۔مذکورہ چیزوں میں سے کسی بھی چیز کا جو انکار کرے یا اس میں شک کرے اور اسی حالت میں مر جائے تو وہ کافرومشرک اور ہمیشہ جہنم کا عذاب بھگتنے والا ہے‘‘۔[موسوعۃ الاجماع،باب نمبر:۳۴۱۲،ص:۹۶۳]۔
مزید اسی میں باب نمبر۳۴۱۳ تسمیۃ اھل الکتاب کفاراً کے تحت ہے۔
:’’اتفقوا علی تسمیۃ الیھودوالنصاری کفارا‘‘
’’ تمام اہل اسلام کا یہود ونصاری کو کفار موسوم کرنے پر اتفاق ہے ‘‘۔[موسوعۃ الاجماع،باب نمبر:۳۴۱۳،ص:۹۶۳]۔
قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کہنے والوں کو کافر قرار دیا ۔
اللہ تعالی کاارشاد پاک ہے:’’لَّقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَآلُواْ إِنَّ اللّہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمٌَ ‘‘
ترجمہ کنز الایمان:’’بے شک کافر ہوئے جو جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح بن مریم ہی ہے ‘‘۔[سورۂ المائدہ۔آیت:۱۷]۔
اسی طرح اللہ تعالی نے عیسائیوں کے عقائدہ تثلیث کو کفر قرار دیا اور اس عقیدہ کے حامل افر اد کو کافر قرار دیا ۔
سورۂ المائدہ میں اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے:’’لَّقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُواْ إِنَّ اللّہَ ثَالِثُ ثَلاَثَۃٍ وَمَا مِنْ إِلَہٍ إِلاَّ إِلَہٌ وَاحِدٌ وَإِن لَّمْ یَنتَہُواْ عَمَّا یَقُولُونَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِنْہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ‘‘
ترجمہ کنز الایمان:’’بے شک کافر ہیں جو کہتے ہیں اللہ تین خداؤں میں کا تیسرا ہے۔ اور خدا تو نہیں مگر ایک خدا، اور اگر اپنی بات سے باز نہ آئے تو جوان میں کافر مریں گے ان کو ضرور درد ناک عذاب پہونچے گا‘‘۔[سورۂ المائدہ۔آیت:۷۳]۔
اس سے واضح ہو گیا کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان نہ لائے اور وہ کفر اور شرک پر قائم رہے تو بالاجماع ایسے شخص کو کافر ومشرک قرار دیا جائے گا ۔قرآن پاک میں اللہ تعالی نے متعین افراد پر کفر کا حکم نہیں لگایا بلکہ جن لوگوں میں شرک اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور عقیدۂ آخرت کا انکار پایا ان کے کافر ہونے کا اعلان کیا گیا۔ جن بنیادوں پر قرآن نے یہود ونصاری اور مشرکین کو کافر قرار دیا وہ تمام باتیں آج کے یہود ونصاری اور مشرکین میں بدرجہ اتم بلکہ بدرجہء کمال پائی جاتی ہیں اس لئے قرآن کے حکم کے مطابق ان پر بھی کافر ومشرک حکم لگے گااگرچہ مسٹر غامدی کو یہ بات بُری لگتی ہو۔
مسٹر غامدی ویسے تو قرآن کو اس کے اصول کی روشنی میں مطالعہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن خود قرآنی اصول کے برخلاف موجودہ یہود ونصاری 
اور ہنودکو کافر اور مشرک قرار دینے سے منع فرماتے ہیں۔
مسٹرغامدی کا کسی کو کافر یا مشرک قرار دینے کے لئے نبی اور الہامی علم کی شرائط لگانا شیطانی اجتہاد کا شاخسانہ ہے۔اتنی واضح قرآنی آیات کے باوجود مسٹر غامدی نجانے کونسے الہامی علوم کے انتظار میں ہیں جن کی بنیاد پر وہ کسی کی تکفیر کا فیصلہ کریں گے ۔مسٹر غامدی نے یہ قیودات قرآن کی کونسی آیات یا احادیث سے اخذ کی ہیں اس کا کوئی نام ونشان ان کی پوری کتاب میں کہیں نہیں ملتا ۔
مزے کی بات یہ ہے کہ مسٹر غامدی اس بات کے معترف ہیں کہ کسی کے عقیدے اور عمل کی غلطی واضح کرنے کا اختیار مسلمانوں کو حاصل ہے ۔مسٹر غامدی سے کوئی یہ پوچھے جناب عالی آپ کسی کے عقیدے اور عمل کو غلط کیااپنی ذاتی رائے سے ثابت کریں گے یا شریعت کی بتائی ہوئی تعلیمات کے ذریعے ؟
اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ اپنی عقل کے ذریعے ہم یہ کام کریں گے تو ان کی عقل کوئی عقلِ کل تو ہے نہیں لہذا وہ شخص جو کسی غلط عقیدے اور عمل پر ہوان کی عقلی موشگافیوں سے اس پر اپنا باطل ہونا کیسے ظاہر ہو سکتا ہے اور اگر وہ کہیں کہ شریعت کی بتائی ہوئی تعلیمات کے ذریعے ہم یہ کام کریں گے تو انہی تعلیمات میں اللہ کی ذات وصفات کے منکر ین یا ان میں شرک کے مرتکب یا رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے منکر افراد کو کافر قرار دیا گیا اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی اورکو نبی ماننا یا اس کے ماننے والوں کو مسلمان جاننا صحابہ کرام کے اجماع سے کفر ہے جیسا کہ مسیلمہ کذاب اور دیگر جھوٹے مدعیان نبوت اور ان کے ماننے والوں کو کافر قرار دے کر ان کے ناپاک وجود سے اس دنیا کو پاک کیا گیا ۔
کہیں پے نگائیں اور کہیں پے نشانہ:
مسٹر غامدی کی یہ ساری ردوکد اور کاوشیں اپنے بیرونی آقاؤں کی ناجائز اولاد قادیانیوں کو بچانے اور ان کی تحریک کو بڑھاوا دینے کے لئے ہیں ۔ان کو تکلیف اس بات کی ہے کہ قائد ملت اسلامیہ حضرت علامہ مولانا الشاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور دیگر علماء کی شب وروز کوششوں کے نتیجے میں پاکستان کے تمام مکاتب فکر نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو کافروغیر مسلم قرار دیا اورآئینی طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کیاگیا ہے ۔مغرب کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح اس شق کوپاکستان کے آئین سے ختم کیا جا سکے اور اس کے لئے وہ اپنے ٹکڑوں پر پلنے والے نام نہاد روشن خیال لوگوں کو استعمال کر تے رہتے ہیں ۔اورمغرب سے فنڈ لینے والی سیکڑوں این ،جی ،اوز آئے دن اس بارے میں شور اور واویلاکرتی رہتی ہیں ۔
مسٹر غامدی کا قبلہ بھی مغرب ہے اس لئے اپنے آقاؤں سے نمک حرامی کیسے کر سکتے ہیں ان کے ٹکڑوں کا حق ادا کر نے کے لئے وہ اس طرح کی پھلجھڑیاں چھوڑ تے رہتے ہیں لیکن ان کی یہ ساری کوششیں بے کار جائیں گی کیونکہ خاتمیت رسالتﷺ پر مسلمانوں کا ایمان غیر متزلزل ہے اور مسلمان ہر اس کو شش کو ناکام بنا دیں گے جو ان کے اس عقیدے میں خلل ڈالنے کی کوشش کرے گا ۔اور مسلمان ان مغربی ایجنٹوں اور ان کی سازشو ں کو بخوبی پہنچاتے ہیں۔واللہ تعالی اعلم 

کتبہ : غلام مرتضیٰ مظہری

مسٹر غامدی کا انکار حدیث۔۔۔۔قسط نمبرپانچ


مسٹر غامدی کا انکار حدیث
رسول اللہ ﷺ کے دور سے لے کر آج تک پوری امت سنت کا جو مفہوم سمجھتی آئی ہے مسٹر غامدی نے اس کو چھوڑ کر اپنے باطل نظریات کو نافذ کرنے کے لئے سنت کا خودساختہ اپنی طرف سے ایک مفہوم گھڑا اور پھر اس کے ثبوت کے لئے لایعنی شرائط عائد کردیں ہیں ان کے نزدیک :
سنت کا ثبوت خبر واحد سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا ثبوت کبھی صحابہ کرام کے اجماع سے ہوتاہے کبھی صحابہ کرام کے اجماع اور ان کے عمل تواتر سے ، کبھی اُمت کے اجماع سے ، کبھی اُمت کے اِجماع سے اَخذ کرکے اور کبھی اُمت کے اِجماع سے قرار پاکر اور کبھی قرآن کے ذریعۂ ثبوت کے برابر ذریعۂ ثبوت سے ۔
مسٹرغامدی اپنے اس موقف کو بیان کرتے ہوئے پہلے سنت کی تعریف لکھتے ہیں :
’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اوراس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایاہے ‘‘۔[میزان ،ص:۱۰]۔
مسٹرغامدی کی بیان کردہ سنت کی یہ تعریف دین کی کسی معتبر کتاب میں موجود نہیں ہے اور اُمتِ مسلمہ کے اہل علم سے کوئی بھی اس کاقائل نہیں ہے ۔آگے چل کر ہم سنت کی وہ تعریف درج کریں گے جو اہل علم کے ہاں مسلّم ہے ۔
پھر اس سنت کے ثبوت کے بارے میں مسٹر غامدی لکھتے ہیں:سنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبارسے اس میں اور قرآنِ مجید میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ وہ جس طرح صحابہ کے اِجماع اورقولی تواتر سے ملاہے ، یہ اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں اُمت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے ‘‘۔[میزان ،ص:۱۰]۔
مسٹر غامدی نے اسی بات کو دوسری جگہ اس طرح لکھا:’’قرآن ہی کی طرح سنت کا ماخذ بھی اُمت کا اجماع ہے اور جس طرح وہ صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے اُمت کوملاہے ، اسی طرح یہ ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے ‘‘۔[میزان ،ص:۶۰،طبع سوم،۲۰۰۸]۔
مزید لکھا:’’ جس طرح قرآن خبر واحد سے ثابت نہیں ہوتا، اسی طرح سنت بھی اس سے ثابت نہیں ہوتی‘‘۔[میزان ،ص:۶۰،طبع سوم،۲۰۰۸]۔
ایک اور جگہ اسی مضمون کو اس طرح لکھتے ہیں :
’’ثبوت کے اعتبار سے اس (سنت) میں اور قرآن میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ وہ جس طرح اُمت کے اجماع سے ثابت ہے ، یہ بھی اسی طرح اُمت کے اجماع ہی سے اخذ کی جاتی ہے ‘‘۔[میزان ،ص:۶۲،طبع سوم،۲۰۰۸]۔
مسٹرغامد ی کا دعویٰ ہے کہ سنت دین ابراہیمی کی رسوم ورواج کانام ہے ۔حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے سنت کو اپنی ذات کی طرف منسوب فرمایا اسی طرح صحابہ کرام بھی سنت کے لفظ کو رسول اللہ ﷺ کے طریقے اور عمل کے معنی میں ہی استعمال کرتے آئے ہیں ۔
سنن ابو داؤد میں ہے’’عَنْ عَاءِشَۃَ، اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ اِلَی عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ، فَجَاءَہُ، فَقَالَ: 171یَا عُثْمَانُ، اَرَغِبْتَ عَنْ سُنَّتِی187، قَالَ: لَا وَاللّہِ یَا رَسُولَ اللَّہِ، وَلَکِنْ سُنَّتَکَ اَطْلُبُ، قَالَ: 171فَاِنِّی اَنَامُ وَاُصَلِّی، وَاَصُومُ وَاُفْطِرُ، وَاَنْکِحُ النِّسَاءَ، فَاتَّقِ اللَّہَ یَا عُثْمَانُ، فَاِنَّ لِاَھْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، وَاِنَّ لِضَیْفِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، وَاِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، فَصُمْ واَفْطِرْ، وَصَلِّ وَنَمْ‘‘
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالی عنہ کو بلوایا ،وہ حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عثمان کیا تم میری سنت سے روگردانی کرتے ہو۔عرض کیا نہیں، اللہ کی قسم ! یارسول اللہ ﷺ میں تو آپ کی سنت کا طالب ہوں۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں(رات میں) آرام بھی کرتاہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں اورروزہ چھوڑ بھی دیتا ہوں اورمیں نے عورتوں سے نکاح بھی کیا ہے ۔اے عثمان اللہ سے ڈرو،بے شک تمہارے گھر والوں کا تم پر حق ہے اورتمہارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے اورتمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے ۔روزہ رکھو اورکبھی روزہ چھوڑ بھی دیا کرو اور نماز پڑھو اور(رات میں )آرام بھی کرلیاکرو‘‘۔[سنن ابوداؤد ،ج:۲،ص:۴۸،مکتبۃ العصریہ بیروت]۔
جامع ترمذی میں ہے’’َ اَنَس بْن مَالِکٍ، قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا بُنَیَّ، اِنْ قَدَرْتَ اَنْ تُصْبِحَ وَتُمْسِیَ لَیْسَ فِی قَلْبِکَ غِشٌّ لاَحَدٍ فَافْعَلْ ثُمَّ قَالَ لِی: یَا بُنَیَّ وَذَلِکَ مِنْ سُنَّتِی، وَمَنْ اَحْیَا سُنَّتِی فَقَدْ اَحَبَّنِی، وَمَنْ اَحَبَّنِی کَانَ مَعِی فِی الجَنّۃِ‘‘
ترجمہ: ’’حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے بیٹے اگر تم اس بات کی طاقت رکھتے ہو کہ تمہارے شب وروز اس طرح گزریں کہ تمہارے دل میں کسی کے لئے میل نہ ہو تو اس طرح ضرور کرو ،کیونکہ :اے بیٹے یہ میری سنتوں میں سے ہے اور جس نے میری سنت کو زندہ کیاتو درحقیقت اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا‘‘۔ [سنن ترمذی ،ج:۴،ص:۳۴۳،مطبوعہ ،مکتبہ دارالغرب،بیروت]۔
مسٹر غامدی کے نظریات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کیونکہ احادیث مبارکہ ہیں لہذا انہوں نے کھلم کھلا احادیث کا انکار کرنے کی بجائے شیطانی چال چلتے ہوئے پہلے سنت اور حدیث کوالگ الگ کیا اور پھر سنت کے ثبوت کے لئے اپنی طرف سے اجماع اور تواتر کی شرط لگا دی تاکہ اپنے اس ایک وار سے ہی ہزار ہا سنتوں اور احادیث کو باطل کر سکیں ۔
سنت خبر واحد سے بھی ثابت ہوجاتی ہے اور اس کے لئے اجماع اور تواتر کی شرط لگانا بے بنیاد اور بے اصل ہے ۔ آج تک اُمت کے معتمد اور ثقہ اہل علم میں سے کسی نے سنت کے ثبوت کے لئے تواتر کی شرط عائد نہیں کی۔ ترتیب احکام میں سب سے پہلے فرائض پھر واجبات پھر سنن پھر مستحبات کا درجہ آتا ہے ۔فرائض وواجبات جو سنت سے مقدم ہیں ان کا ثبوت تمام علماء اسلام کے نزدیک خبر واحد سے ہو سکتا ہے اس کے لئے اجماع یا تواتر ضروری نہیں اور خود مسٹر غامدی نے بھی فرائض وواجبات کے لئے تواتر واجماع کی شرط نہیں لگائی تو سنتوں کے ثبوت کے لئے تواتر اور اجماع کی شرط لگانا سنتوں کو باطل قرار دینے کے علاوہ اس کواور کیا نام دیا جاسکتا ہے ؟۔
علماء اسلام کے نزدیک سینکڑوں سنن (سنتیں ) اور ان کے احکام ایسے ہیں جو خبر واحد(اخبارِ آحاد) سے ثابت ہوتے ہیں اور بعض سنتوں میں صحابہ کااجماع تو دور کی بات اختلاف تک مذکور ہے ۔ مثلاً نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہونا۔ ابتداء میں صحابہ کرام علیھم الرضوان میں جنازے کی تکبیروں کے بارے میں احادیث مختلف ہونے کی وجہ سے اختلاف تھا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں چار تکبیریں ہونے پر اتفاق ہو گیا ۔
مبسوط للسرخسی میں ہے’’ان عمر رضی اللہ تعالی عنہ جمع الصحابۃ حین اختلفوا فی عدد التکبیرات وقال لھم انکم اختلفتم فمن یاتی بعدکم اشد اختلافا فانظروا آخر صلاۃ ،صلاھا رسول اللہ ﷺ علی جنازۃ فخذوا بذلک فوجدوہ صلی علی امراۃ کبر علیھا اربعاً فاتفقوا علی اربع رکعات‘‘
ترجمہ:’’جب نماز جنازہ کی تکبیرات کی تعداد میں اختلاف ہوا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کو جمع کیا اور ان سے فرمایاجب تم اس میں اختلاف کرتے ہو تو جو تمہارے بعد آئیں گے ان کے درمیان تو بہت زیادہ اختلاف ہو گا،تم رسول اللہ ﷺ کی آخری نماز جنازہ پڑھانے کو دیکھو اور اسی کو اختیار کرو ۔صحابہ کرام علیھم الرضوان نے یہ پایا کہ رسول اللہ ﷺ نے (آخری مرتبہ)ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھائی تھی اوراس میں چار تکبیریں کہیں تھیں لہذا تمام صحابہ کرام کا چار تکبیرات پر اتفاق ہوگیا ‘‘۔[کتاب المبسوط،ج:۳،ص:۱۰۰،مطبوعہ،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ]۔
اسی طرح چند اور سنتیں درج ذیل ہیں :
(۱) مَردوں کاایک مشت داڑھی رکھنا ۔
(۲) شہید کی میت کو نہ توغسل دینا اور نہ اسے کفن پہنانا۔
(۳) عورت پر جمعہ کی نماز کا فرض نہ ہونا۔
(۴) ماں کی عدم موجودگی میں میت کی دادی کو وراثت میں سے چھٹا حصہ دینا۔
(۵) ایسی عورت جس کا نکاح میں مہر مقرر نہیں کیا گیا اور رخصتی سے قبل اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ،اس کو مہر مثل اور میراث سے حصہ دینا اور عدت کا اس پر لازم ہونا ۔
(۶) وارث کے حق میں وصیت کا ناجائز ہونا۔
(۷) ایک تہائی سے زائد وصیت کا نافذ نہ ہو نا۔
(۸) حضور ﷺ کی وراثت کا تقسیم نہ ہونا۔
(۹) مفتوح پارسیوں (مجوسیوں )سے جزیہ لینا۔
(۱۰) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد خلیفۃ المسلمین کا قریش میں سے ہونا۔
(۱۱) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں دنیا سے پردہ فرمایااسی جگہ آپ کی تدفین ہونا ۔
(۱۲) مردوں کے لئے ریشم اورسونے کا استعمال ممنوع ہونا۔
(۱۳) مدینہ منورہ کا حرم ہونا۔
(۱۴) قرآنِ مجید کی تلاوت کے وقت مقاماتِ سجود پرسجدہ کرنا۔
اس طرح کے بے شمار احکام اورسنن ہیں جو خبرواحد سے ثابت ہوتے ہیں ۔لیکن مسٹرغامدی کے نزدیک ان میں سے کوئی سنت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ شاید ان کے دین کا قبلہ مغرب ہے اور وہاں کی سنتیں ہی ان کے نزدیک ثابت شدہ ہیں ۔ مسٹرغامدی کا حلیہ دیکھ کرہماری اس بات کی صداقت کی گواہی ہر شخص باخوبی دے سکتا ہے کہ داڑھی مونچھ صاف اور ننگے سر بے پردہ عورتوں کے جھرمٹ میں بیٹھنے والے شخص کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کے بجائے مغرب کی سنتیں ہی قابل تقلید اور قابل عمل ہیں ۔
شاعر مشرق کا ایک شعر کچھ تصرف کے ساتھ ان پر بالکل صادق آتا ہے :۔
وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود
یہ غامدی ہے جسے دیکھ کے شرمائیں یہود
واللہ تعالی اعلم ۔کتبہ : غلام مرتضیٰ مظہری

جانوروں کی حلت وحرمت کے بارے میں مسٹر غامدی کا نظریہ فطرت(چوتھی قسط)

جانوروں کی حلت وحرمت کے بارے میں مسٹر غامدی کا نظریہ فطرت 
مسٹرغامدی صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ شریعت نے کھانے کے جانوروں میں صرف چار چیزوں (۱)سؤر(۲)خون(۳)مردار اور(۴) خدا کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کو حرام قرار دیا ہے ۔مسٹر غامدی صاحب اپنی کتاب 146146میزان145145کے باب (اصول ومبادی) میں لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے سے اسے بتایا کہ سؤر، خون، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پرذبح کیے گئے جانور بھی کھانے کے لیے پاک نہیں ہیں اور انسان کو ان سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ جانوروں کی حلت وحرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں۔ چنانچہ قرآن نے بعض جگہ 146قُل لَّا اَجِدُ فِیْمَا اُوْحِیَ‘‘ اور بعض جگہ ’’اِنَّمَا‘‘ کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں صرف یہی چار چیزیں حرام قرار دی ہیں۔(میزان، جاوید احمد غامدی۶۳۲،طبع سوم)۔
مسٹرغامدی نے اپنے ایک من گھڑت اورغلط اصول کہ’’ حدیث کے ذریعے سے قرآن پر اضافہ یا اس کا نسخ نہیں ہو سکتا‘‘ کو سیدھا کرنے کے لیے یہ سارا فلسفہ گھڑا۔مسٹر غامدی صاحب کے نزدیک گدھا حرام ہے ، لیکن اس لیے نہیں کہ شریعت نے اسے حرام قرار دیا ہے ، بلکہ ان کی فطرت انھیں یہ بتلاتی ہے کہ گدھا سواری کرنے کا جانور ہے نہ کہ کھانے کا، اس لیے یہ فطری محرمات میں سے ہے ۔
مسٹر غامدی اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب’’ اصول ومبادی‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’146اسے (یعنی انسان کو) معلوم ہے کہ گھوڑے ، گدھے دسترخوان کی لذت کے لیے نہیں، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔145145(میزان، جاوید احمد غامدی ص:۶۳۲)۔
مسٹر غامدی کی فطرت کا اونٹ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ وہ بھی تو سواری کا جانور ہے !حقیقت تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عرب میں سواری کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا جانور اونٹ تھا، اس کے بعد گھوڑا، جبکہ گدھے کا استعمال سواری کے لیے بہت کم تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مسٹرغامدی صاحب کی فطرت گدھے کو حرام اور اونٹ کو حلال قرار دیتی ہے ؟ اگرمسٹر غامدی یہ کہیں کہ: اونٹ کو قرآن نے حلال قرار دیا ہے تو پھر مسٹرغامدی کے اپنے من گھڑت اصول کہ چار ہی چیزیں حرام ہیں کا جنازہ نکل جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ مسٹر غامدی نے فطری محرمات کا اصول گھڑ کر دین میں ایک نئے فتنے کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی ہے۔ کسی چیز کو حلال وحرام ٹھہرانے کا اختیاراصلاً اللہ تعالی جل شانہ کے پاس ہے اور تبعاً اس کے رسول ﷺ کے پاس ہوتا ہے ۔مسٹر غامدی مغرب کی تقلید کرتے ہوئے انسانی فطرت کی سربلندی کا نعرہ لگا کر عام انسانوں کو تحلیل و تحریم کا اختیار تفویض کرناچاہتے ہیں۔مسٹر غامدی کو یہ اختیار کس نے دیاہے کہ وہ عام انسانوں کے بارے میںیہ کہیں کہ وہ اپنی فطرت سے جس چیز کو چاہیں حلال بنا لیں اور جس چیز کو چاہیں حرام ٹھہرا لیں؟ آج انسانوں کی ایک کثیر تعداد چائنا ،افریقہ میں بستی ہے اور بہت سی ایسی غذائیں مثلاً حشرات الارض وغیرہ کھانا بھی ان کی روزہ مرہ کی زندگی کا عام حصہ ہے ۔مسٹر غامدی یا تو ان کروڑوں انسانوں کو انسان ہی نہیں مانتے یا ان کے نزدیک یہ کروڑوں لوگ انسانی فطرت سے ہی محروم ہیں ۔
قرآن نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ تحلیل و تحریم کا اختیار کسی انسان کے پاس نہیں ہے ۔ مشرکین مکہ نے جب اپنی طرف سے بعض کھانے کی چیزوں کو حرام ٹھہرا لیا تو قرآن نے ان کے اس فعل کی مذمت فرمائی ۔ 
سورۃ الانعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’وَحَرَّمُوْا مَا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ افْتِرَاءً عَلَی اللّٰہِ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا کَانُوْا مُہْتَدِیْن‘‘
ترجمہ کنز الایمان:’’حرام ٹھہراتے ہیں وہ جو اللہ نے انہیں روزی دی ،اللہ پر جھوٹ باندھنے کو، بے شک وہ بہکے اور راہ نہ پائی ‘‘۔[الانعام ،آیت:۱۴۰]۔
اگر شریعت نے بقول مسٹر غامدی کھانے کے جانوروں میں صرف چار کو ہی حرام قرار دیا تھا اور باقی جانوروں کی حلت و حرمت کا فیصلہ انسانی فطرت پر چھوڑ دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے اس فعل کی مذمت کیوں فرمائی کہ انھوں نے اپنی مرضی سے بعض جانوروں کو حرام ٹھہرا لیا۔ 
رسول اللہ ﷺ کا غامدی فتنے سے آگاہ کرنا
رسول اللہ ﷺنے مسٹر غامدی اور ان جیسے دیگر فتنوں کے بارے میں امت کو پہلے ہی آگاہ فرمادیا تھا تاکہ بھولے بھالے مسلمان ان کی چکنی چپڑی ،دجل وفریب پر مبنی باتوں میں نہ آئیں اور اپنے ایمان کی حفاظت کر سکیں۔
صحیح مسلم میں ہے’’عن ابی ہریرۃقال :قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: 171یَکُونُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ کَذَّابُونَ، یَاْتُونَکُمْ مِنَ الْاَحَادِیثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا اَنْتُمْ، وَلَا آبَاؤُکُمْ، فَاِیَّاکُمْ وَاِیَّاھُمْ، لَا یُضِلُّونَکُمْ، وَلَا یَفْتِنُونَکُمْ‘‘۔
ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: آخری زمانہ میں بہت سے مکرو فریب کرنے والے جھوٹے دجال ہوں گے جو تم سے (دین کے بارے میں )ایسی باتیں کریں گے جو نہ تم نے سنی ہو ں گی اور نہ تمہارے آباؤ اجداد نے۔ ان کوخود سے اورخود کو ان سے دور رکھو کہ کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں اورتمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘۔[صحیح مسلم ،ج:۱،ص:۱۲،مطبوعہ دارالحیاء بیروت]۔
ابوداؤد میں ہے’’عن عرباض بن ساریۃ ......قال :قَامَ، فَقَالَ: اَیَحْسَبُ اَحَدُکُمْ مُتَّکِءًا عَلَی اَرِیکَتِہِ، قَدْ یَظُنُّ اَنَّ اللَّہَ لَمْ یُحَرِّمْ شَیْءًا اِلَّا مَا فِی ھذَا الْقُرْآنِ، اَلَا وَاِنِّی وَاللَّہِ قَدْ وَعَظْتُ، وَاَمَرْتُ، وَنھَیْتُ، عَنْ اَشْیَاءَ اِنَّھَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ، اَوْ اَکْثَرُ‘‘۔
ترجمہ:’’ حضرت عرباض ابن ساریہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا: کیا تم میں سے کوئی پلنگ پر تکیہ لگا ئے یہ گمان کرسکتا ہے کہ اﷲ نے سوائے ان چیزوں کے کوئی چیز حرام نہ کی جو قرآن میں ہیں ؟آگاہ رہو کہ اللہ کی قسم : میں نے وعظ فرمائے ،بہت سے احکام دیئے اور بہت چیزوں سے منع کیا جو قرآن کے برابر یا اس سے بھی زیادہ ہیں ‘‘۔[ابو داؤد ،ج:۳،ص:۱۷۰،مکتبۃ العصریۃ،بیروت]۔
سنن ابو داؤد میں ہے’’عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی کَرِبَ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہُ قَالَ: 171اَلَا اِنِّی اُوتِیتُ الْکِتَابَ، وَمِثْلَہُ مَعَہُ الَا یُوشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَی اَرِیکَتِہِ یَقُولُ عَلَیْکُمْ بِھَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِیہِ مِنْ حَلَالٍ فَاَحِلُّوہُ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِیہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوہُ، اَلَا لَا یَحِلُّ لَکُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْاَھْلِیِّ، وَلَا کُلُّ ذِی نَابٍ مِنَ السَّبُعِ، وَلَا لُقَطَۃُ مُعَاھِدٍ، اِلَّا اَنْ یَسْتَغْنِیَ عَنہَا صَاحِبُھَا‘‘
ترجمہ:’’حضرت مقدام ابن معد یکرب سے روایت ہے فرماتے ہیں :رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :خبردارر ہو کہ مجھے قرآن بھی دیا گیا اور اس کے ساتھ اس کا مثل بھی ۔ خبردار قریب ہے کہ ایک پیٹ بھرا شخص اپنی مسہری پربیٹھا ہوا کہے گا، کہ صرف قرآن کو تھام لو اس میں جو حلال پاؤ اسے حلال جانو اور جو حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔ دیکھو تمہارے لیے نہ تو پالتو گدھا حلال ہے اور نہ کوئی کیلے(نوکیلے دانت ) والا درندہ جانوراورنہ ہی ذمی کافر کی گم شدہ چیز مگر جب اس کا مالک اس سے لاپرواہ ہوجائے ‘‘۔[سنن ابو داؤد،ج:۴،ص:۲۰۰،حدیث:۶۴۰۴،مکتبۃ العصریۃ بیروت]۔
سنن الدارمی میں ہے’’عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یکَرِبَ الکِنْدِیِّ اَنَّ رَسُولَ اللہ صَلی اللہ عَلیہِ وسَلم حَرَّمَ اَشْیَاءَ یَوْمَ خَیْبَرَ, الْحِمَارَ وَغَیْرَہُ، ثُمَّ قَالَ: لَیُوشِکُ بِالرَّجُلِ مُتَّکِءًا عَلَی اَرِیکَتِہِ یُحَدَّثُ بِحَدِیثِی فَیَقُولُ: بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللہ, مَا وَجَدْنَا فِیہِ مِنْ حَلَالٍ اسْتَحْلَلْنَاہُ, وَمَا وَجَدْنَا فِیہِ مِنْ حَرَامٍ حَرَّمْنَاہُ, اَلَا وَاِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللہِ فَھُو مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللہُ‘‘
ترجمہ: ’’حضرت معدیکرب کندی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن کچھ چیزوں گدھے وغیرہ کو حرام قرار دیا پھر فرمایا: ایک پیٹ بھرا شخص اپنی مسہری پر بیٹھا ہوگا اس کو میری احادیث میں سے کوئی حدیث بیان کی جائے گی تو وہ کہے گا ہمارے پاس کتاب اللہ (قرآن ) ہے جو اس میں حلال پائیں گے اس کو حلال جانیں گے اور جو اس میں حرام پائیں گے اس کو حرام جانیں گے ۔خبردار! جو چیز رسول اللہ نے حرام قرار دی ہے وہ اللہ تعالی کی حرام کردہ چیز کی طرح ہی حرام ہے‘‘۔[سنن الدارمی ،ص:۲۰۴،مطبوعہ مکتبہ دار البشائر،بیروت]۔واللہ تعالی اعلم 

حدیث سے قرآن کے نسخ اور اس کی تحدید وتخصیص اور مسٹر غامدی کے خود ساختہ اصول۔(تیسری قسط)


حدیث سے قرآن کے نسخ اور اس کی تحدید وتخصیص اور مسٹر غامدی کے خود ساختہ اصول۔
مسٹرغامدی کے انکارِ حدیث کا سلسلہ بہت طویل ہے ، انہوں نے فہم حدیث کے لئے اپنے خود ساختہ اُصول بنا رکھے ہیں جن کا نتیجہ انکارِ حدیث کی صورت میں نکلتا ہے ۔ وہ حدیث اور سنت کا لفظ تو استعمال کرتے ہیں لیکن ان کے مسلمہ مفہوم کو اپنی طرف سے تبدیل کر کے اس کو خود ساختہ ایک ایسا نیا مفہوم عطاء کرتے ہیں جس کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین سے لے کرآج تک کسی عالم کے کانوں نے نہ سنا اور نہ کسی کتاب میں پڑھا ۔وہ مسلّمہ اصطلاحات کا مفہوم بدل کر حدیث کو دین سے خارج سمجھتے ہیں اور حدیث کے ثبوت کے لئے خودساختہ ،من گھڑت ،اپنی طرف سے اجماع اور تواترکی شرائط عائد کرتے ہیں۔
مسٹر غامدی اپنے خودساختہ ثبوتِ حدیث کے اصول کی وجہ سے حدیث سے کسی قرآنی حکم کی تخصیص و تحدید واقع ہونے کا بھی انکار کرتے ہیں ۔
چنانچہ وہ اپنی کتاب’’میزان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:’’قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی، یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے ، اُس کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا۔ دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ اس کی آیاتِ بینات ہی کی روشنی میں ہو گا۔[میزان ،ص:۲۵،طبع سوم مئی ۲۰۰۸لاہور]۔
مسٹرغامدی کا یہ دعویٰ بھی بالکل غلط ہے کہ حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص نہیں ہوتی۔ حدیث کے ذریعے قرآنِ مجید کے بہت سے احکام کی تحدید اور تخصیص ہوئی ہے۔
حدیث سے قرآنی حکم کی تحدید کی مثالیں:
(۱) اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے :
’’ وَاللاَّتِیْ تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیّاً کَبِیْراً‘‘
ترجمہ کنزالایمان:جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤ اورانہیں مارو، پھر اگر وہ تمہارے حکم میں آجائیں تو ان پر زیادتی کی کوئی راہ نہ چاہو۔ بے شک اللہ بلند بڑا ہے‘‘۔[النساء،آیت:۳۴]۔
اس آیت کے الفاظ: وَاضْرِبُوہُنّ’’(اور ان بیویوں کو مارو) مطلق تھے اور یہ مارنا ہر طرح مارنا ہو سکتا تھااگرچہ اس سے زخم ہی کیوں نہ آجائے ۔ لیکن ایک حدیث کے ذریعے قرآن کے اس مطلق حکم میں یہ تحدید (تقیید) ہو گئی ہے کہ صرف ایسی ہلکی مار جائز ہے جو شدید تکلیف دہ نہ ہو اور نہ ہی اس سے کسی عضو کو زخم یا نقصان پہنچے ۔
صحیح مسلم شریف کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’فاضربوھن ضربا غیر مبرح‘‘۔
ترجمہ:’’پس تم ان کوایسا مار سکتے ہو جو تکلیف دہ نہ ہو۔یعنی جس سے کسی عضو کو نقصان نہ پہنچے‘‘۔ [صحیح مسلم ،حدیث:۲۹۵۰]۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مسٹر غامدی نے خود اپنے من گھڑت اُصول کہ حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید نہیں ہو سکتی کی مخالفت کرتے ہوئے قرآن کی مذکورہ آیت کے حکم وَاضْرِبُوْھُن(اور ان بیویوں کو مارو) کی تحدیدحدیث کے ذریعے کی ہے کہ اس سے مراد صرف ایسی سزا ہے جو پائیدار اثر نہ چھوڑے ۔
چنانچہ وہ اپنی کتاب’’میزان‘‘ کے باب ’’قانونِ معاشرت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’نبی ﷺ نے اس کی حد’’غیر مبرح‘‘کے الفاظ سے متعین فرمائی ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی سزا نہ دی جائے جو کہ پائیدار اثر چھوڑے‘‘[میزان ،ص:۴۲۳] ۔
(۲) سورۂ بقرہ میں اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے ’’وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ہُوَ أَذًی فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاء فِیْ الْمَحِیْضِ وَلاَ تَقْرَبُوہُنَّ حَتَّیَ یَطْہُرْنَ‘‘
ترجمہ کنز الایمان ’’تم سے پوچھتے ہیں حیض کا حکم ۔تم فرماؤ وہ ناپاکی ہے، تو عورتوں سے الگ رہو حیض کے دنوں اور ان سے نزدیکی نہ کرو جب تک پاک نہ ہو لیں‘‘۔[البقرۃ،آیت:۲۲۲]۔
اس آیت کے الفاظ ’’ فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاء فِیْ الْمَحِیْضِ‘‘(پس تم بیویوں سے اُن کے حیض کی حالت میں الگ رہو)میں بیویوں سے علیحدہ رہنے کا مطلق حکم دیا گیا جس کی کوئی حد بندی بیان نہیں کی گئی ،اس کا یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ ایسی حالت میں بیویوں سے الگ تھلگ رہو، اُن کو الگ مقام پر رکھو، ان کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دو اور ان سے میل جول نہ رکھو۔ لیکن اس بارے میں صحیح احادیث نے قرآن کے اس مطلق حکم کو مقید کر دیا کہ ایسی حالت میں بیویوں سے صرف خاص تعلق منع ہے ، اس کے سوا سب کچھ جائز ہے ۔ 
مسٹر غامدی کا حافظہ انتہائی کمزور ہے اس لئے اپنے خود ساختہ اصول کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے یہاں بھی حدیث کے ذریعے قرآن کے اس مطلق حکم کی تحدیدکو تسلیم کیا ہے ۔
مسٹر غامدی اپنی کتاب میزا ن میں حدیث نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’انہی(سیدہ عائشہؓ) سے روایت ہے کہ ہم میں سے کوئی حیض کی حالت میں ہوتی اور رسول اللہ ﷺ اس کے قریب آنا چاہتے تو ہدایت کرتے کہ حیض کی جگہ پر تہہ بند باندھ لے ، پھر قریب آجاتے ۔بخاری،رقم۳۰۲‘‘۔[میزان ،ص،۴۳۳]۔
مسٹرغامدی کی ان حرکتوں سے لگتا ہے وہ کسی خاص منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔جب ان کے منصوبے کی راہ میں کوئی حدیث آتی ہے تو وہ اپنے خود ساختہ ،من گھڑت اصول کی تلوار ہاتھ میں لے کر حدیث کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب کوئی ایسی حدیث جوان کے منصوبے کی راہ میں حائل نہ ہو یاوہ اپنے منصوبے کی تائید کسی حدیث کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اگرچہ اس حدیث کے ذریعے قرآن کے مطلق حکم کی تقیید کی جارہی ہو توبلا چوں وچرا اپنے خود ساختہ اصول کو ایک طرف رکھ کر حدیث کے ذریعے قرآن کے مطلق حکم کی تحدید کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔
حدیث کے ذریعے کسی قرآنی حکم میں تخصیص کی مثالیں:
(۱) اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے:
’’ یُوصِیْکُمُ اللّہُ فِیْ أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْْنِ ‘‘
ترجمہ کنز الایمان:’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر ہے ‘‘۔[النساء،آیت:۱۱]۔
اس آیت سے واضح ہے کہ اولاد ہر حال میں اپنے والدین کے ترکے کی وارث ہو گی اور بیٹے کو بیٹی سے دگنا حصہ ملے گا۔ لیکن ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ:
(لا یرث القاتل شیئاً)
ترجمہ:( اپنے مورث کو قتل کرنے والا)قاتل اس کا وارث نہیں ہوسکتا‘‘۔ [سنن ابو داؤد ،کتاب الدیات ،حدیث:۴۵۶۴]۔
اس لئے اگر کوئی بد بخت لڑکا اپنے باپ کو قتل کر دے گا تو مذکورہ حدیث کے حکم کے مطابق اپنے مقتول باپ کی میراث سے محروم ہو جائے گا۔
قرآن کا حکم عام تھا کہ ہر بیٹا اپنے باپ کے ترکے کا وارث ہو گا مگر حدیث نے قاتل بیٹے کی تخصیص کر دی کہ وہ اپنے باپ کے ترکے کا وارث نہیں ہو سکتا۔ اہل علم کا اسی پر اتفاق اور اجماع ہے کہ قاتل کو مقتول کی وراثت سے محروم کیا جائے گا۔ 
(۲) اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے :
’’وَأَحَلَّ اللّہُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا‘‘
ترجمہ کنز الایمان:’’اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سُود ‘‘۔[البقرۃ،آیت:۲۷۵]۔
یہ آیت کریمہ ہر طرح کی تجارت کو حلال ٹھہر اتی ہے ، کیونکہ بیع کا لفظ عام ہے ۔ لیکن صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حدیث پاک میں ہے :
’’ان اللہ ورسولہ حرَّما بیع الخمر والمیتۃوالخنزیر والأصنام‘‘۔
’’بے شک اللہ اور اُس کے رسول ﷺ نے شراب، مردہ جانور، خنزیر اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے‘‘ ۔[صحیح بخاری،کتاب البیوع ،حدیث:۲۲۳۶]۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں شراب، مردہ جانور، خنزیر اور بتوں کی تجارت حرام ہے ۔ اب اگر قرآن کے حکم کے عموم کو دیکھا جائے تو ہر قسم کی تجارت حلال ہے اور اس میں مردار، خنزیر اور بتوں کی تجارت بھی شامل ہے ۔لیکن حدیث پاک نے قرآن کے اس عمومی حکم سے مذکورہ چار چیزوں کی تخصیص کر دی کہ ان چار چیزوں کی تجارت حلال نہیں ہے ۔
اب اگرمسٹر غامدی کے خود ساختہ ،من گھڑت اُصول کو مانا جائے کہ حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تخصیص نہیں ہو سکتی تو پھر مذکورہ صحیح حدیث کا انکار کرنا پڑے گا اور اسلام میں شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی تجارت بھی حلال ہو جائے گی۔شاید مسٹر غامدی کا مشن یہی ہے کہ ان کے سرپرستوں کی طرح مسلمانوں میں بھی ان چار چیزوں کا رواج عام ہو جائے اور اپنے اس مذموم مقصد کے لئے وہ قرآن کی اس آیت کے عموم کو استعمال کریں گے اور ان کے مقصد میں حائل رکاوٹ مذکورہ حدیث پاک کو اپنے اس خودساختہ من گھڑت مذکورہ اصول کے ذریعے رد کرنے کی ناپاک کوشش کریں گے ۔یہ چار چیزیں مسٹر غامدی کی شریعت میں تو جائز ہوسکتی ہیں لیکن اسلامی شریعت میں ان چار چیزوں کی حرمت قطعی ہے اور اس کا ثبوت حدیث پاک کے ذریعے ہی مسلمانوں کو حاصل ہوا ہے ۔

قراء ات متواترہ اور مسٹر غامدی کا فتنہءِ عجم۔۔۔۔قسط(۲)


قراء ات متواترہ اور مسٹر غامدی کا فتنہءِ عجم
مسٹرغامد ی نے امت کے جن متفقہ ،مسلمہ اور اجماعی امور کا انکار کیا ہے ،ان میں سے ایک قرآن کریم کی قرا ء ات متواترہ کو نا ماننا بھی ہے ۔ان کے نزدیک قرآن کی صرف ایک ہی قرا ء ت صحیح ہے جو ان کے بقول ’’قر اء ت عامہ‘‘ہے جسے علماء نے غلطی سے 
’’قرا ء ت حفص ‘‘کا دے دیا ہے ۔اس ایک قرا ء ت کے سوا باقی سب قرا ء توں کو مسٹر غامدی عجم کا فتنہ قرار دیتے ہیں ۔اس کے علاوہ وہ پورے وثوق اور یقین کے ساتھ یہ فتوی دیتے ہیں کہ قرآن کا متن اس ایک قرا ء ت کے سوا کسی دوسری قرا ء ت کو قبول ہی نہیں کرتا۔
چنانچہ وہ اپنی کتاب میزان میں لکھتے ہیں ’’یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قرا ء ت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی جو قراء تیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں ،یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں ،وہ سب اسی فتنہ ء عجم کی باقیات ہیں جن کے اثرات سے ہمارے علوم کا کوئی شعبہ ،افسوس ہے کہ محفوظ نہ رہ سکا‘‘۔[میزان ،ص:۳۲،طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ء]۔
وہ مزید لکھتے ہیں ’’قرآن صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے اور جسے مغرب کے چند علاقوں کو چھوڑ کرپوری دنیا میں امت مسلمہ کی عظیم اکثریت 
اس وقت تلاوت کر رہی ہے ۔یہ تلاوت جس قراء ت کے مطابق کی جاتی ہے ،اس کے سوا کوئی دوسری قرا ء ت نہ قرآن ہے اور نہ اسے قرآن کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے‘‘۔[میزان ،ص:۲۷،طبع سوم،مئی۲۰۰۸ء]۔
کچھ صفحات کے بعد پھرمسٹر غامدی کاانوکھا ارشاد ہوتا ہے کہ:’’قرآن کا متن اس کے علاوہ کسی دوسری قر اء ت کو قبول ہی نہیں کرتا ‘‘
قرآن کریم کی قرا ء ات کے بارے میں مسٹرغامدی کے مذکورہ اقتباسات سے واضح ہوا کہ ان کے نزدیک :
(۱) قرآن کریم کی صرف ایک ہی قر ا ء ت درست ہے ۔
(۲)بقیہ تمام قراء تیں عجم کا فتنہ ہیں ۔
(۳)امت مسلمہ کی عظیم اکثریت جس قراء ت کے مطابق قرآن کی تلاوت کر رہی ہے صرف وہی قرآن ہے۔
(۴)قرآن کا متن قراء ت حفص کے علاوہ کسی دوسری قراء ت کو قبول ہی نہیں کرتا ۔
مسٹر غامدی کا مذکورہ موقف سرا سر باطل اور سلف صالحین اور امت مسلمہ سے ہٹ کر الگ راستہ اپنانا ہے ۔
قراء ا ت سبعہ عجمی دور کی پیداوار نہیں۔ رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام وتابعین عظام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے زمانے سے لے کر آج تک پوری امت کے قراء اور علماء میں اس کا رواج ہے ۔یہ تمام قراء تیں رسم عثمانی کے مطابق اور اجماع امت سے ثابت ہیں۔علوم القرآن کے موضوع پر لکھی جانے والی تمام اہم کتب میں یہ قرا ء ات بیان کی گئی ہیں ۔ امام بدر الدین زرکشی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب ’’البرہان فی علوم القرآن‘‘میں اور امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ’’الاتقان‘‘میں ان تمام قراء ات کا تذکرہ کیا ہے اور ان کو درست مانا ہے ۔اسی طرح تمام قدیم وجدید اہم تفاسیر میں ان قراء ات کو تسلیم کیا گیا ہے ،اورامت کے تمام مسلمہ مکاتب فکر کے دینی مدارس میں یہ قر اء ا ت پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں۔
عالم اسلام کے متعدد ممالک جس میں مراکش ،الجزائر ،ٹیونس ،لیبیا اور موریطانیہ وغیرہ میں روایت حفص نہیں بلکہ روایت ورش رائج ہے ۔امام ورش امام نافع بن عبد الرحمن کے شاگرد تھے ۔اور مذکورہ ممالک کے کروڑوں مسلمان اسی قرا ء ت ورش کے مطابق ہی قرآن کریم کی تلاوت کرتے او ر اسے قرآن سمجھتے ہیں ۔
(۱)مسٹر غامدی کے نظریے کے مطابق کیا کروڑوں مسلمانوں نے ’’غیر قرآن ‘‘کو معاذ اللہ قرآن سمجھ لیا ہے ؟
(۲)کیا غیر قرآن کو قرآن سمجھ لینے کے بعد وہ مسلمان باقی رہے یا معاذ اللہ کافر ہو گئے ہیں؟۔
(۳)کیا امت مسلمہ کا یہود ونصاری کی طرح اپنی مذہبی کتاب میں اختلاف ہو گیا ہے ؟
(۴)کیاتورات اور انجیل کی طرح قرآن محفوظ نہیں رہا ؟حالانکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالی نے خود اپنے ذمہ کرم پرلے رکھا ہے۔
’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُون‘‘۔
ترجمہ کنز الایمان:’’بے شک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بے شک ہم خود اس کے نگہبان ہیں‘‘۔[الحجر،آیت:۹]۔
جب خو د رب تعالی نے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری لے رکھی ہے تو ایک ایسی چیز جو قرآن نہیں وہ امت مسلمہ میں بطور قرآن کیسے رائج ہو سکتی ہے۔
جس طرح ہمارے یہاں پاکستان میں قراء ت حفص کے مطابق مصحف لکھے اور تلاوت کیے جاتے ہیں ،اسی طرح شمالی افریقہ اور بعض دوسرے ممالک میں قر اء تِ ورش کے مطابق مصاحف لکھے اور تلاوت کیے جاتے ہیں اور وہاں کی گورنمنٹ سرکاری وسائل سے
قراء ت ورش کے مطابق مصاحف شائع کرنے کا اہتمام کرتی ہیں۔
امت مسلمہ کا قولی اور عملی تواتر ہی قراء ا تِ متواترہ کے صحیح ہونے کے لئے واضح ثبوت ہے ۔لیکن اس کے باوجود عقل والوں کے لئے احادیث صحیحہ سے دلائل پیش ہیں۔ 
قراء ات متواترہ کے بارے میں احادیث کریمہ
(۱) صحیح بخاری شریف میں ہے ۔’’حدثنا سعیدبن عفیر قال : حدثنی اللیث قال حدثنی عقیل عن ابن شھاب ،قال حدثنی عروۃ بن الزبیر ان المسور بن مخرمۃ وعبد الرحمن بن عبد القاری حدثاہ انھما سمعا عمر بن الخطاب یقول :سمعت ھشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان فی حیاۃ رسول اللہ ﷺ فاستمعت لقراء تہ فاذا ھو علی حروف کثیرۃ لم یقرئنیھا رسول اللہ ﷺ فکدت اساور ہ فی الصلاۃ ،فتصبرت حتی سلم،فلببتہ برداۂ فقلت :من أقرأک ھذہ السورۃ التی سمعتک تقرأ ؟قال: اقرأنیھا رسول اللہ ﷺ ۔فقلت :کذبت ،فان رسول اللہ ﷺ قد أقرأنیھا علی غیر ماقرأت ،فانطلقت بہ أقودہ الی رسول اللہ ﷺ فقلت انی سمعت ھذا یقرأ بسورۃ الفرقان علی حروف لم تقرئنیھا ۔فقال رسول اللہ ﷺ:ارسلہ :أقرأ یا ھشام فقرأ علیہ القراءۃ التی سمعتہ یقرأ ۔فقال رسول اللہ ﷺ کذلک انزلت ۔ثم قال:اقرأ یا عمر ،فقرأت القراء ۃ التی أقرأنی ،فقال رسول اللہ ﷺ :کذلک انزلت ان ھذا القرآن انزل علی سبعۃ احرف فاقرؤا ماتیسر منہ ‘‘
ترجمہ’’ حضرت سعید بن عفیر رضی اللہ تعالی نہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں مجھے حضرت لیث رضی اللہ تعالی نے حدیث بیان کی،وہ فرماتے ہیں مجھے حضرت عقیل بن شہاب رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث بیان کی اور وہ فرماتے ہیں مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث بیان کی کہ مسور بن مخرمہ اور عبد الرحمن بن عبد القاری دونوں نے حدیث بیان کی ان دونوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا وہ فرماتے ہیں :میں نے ہشام بن حکیم کو رسول اللہ ﷺکی حیات طیبہ میں سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ،جب میں نے ان کی قرا ء ت بغور سنی تو بہت سے ایسے حروف سنے جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے ۔ قریب تھا کہ نماز ہی میں ان پر حملہ کردیتا لیکن میں نے بمشکل ضبط کیا حتی کہ انہوں نے نماز سے سلام پھیراتو میں نے ان کی چادر سے ان کو گھسیٹا اور کہا یہ سورت جو میں نے آپ سے سنی کس نے آپ کو پڑھائی ؟انہوں نے کہا مجھے رسول اللہ ﷺ نے پڑھائی ہے ۔ میں نے کہا تونے جھوٹ کہا ۔ بے شک رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس کے علاوہ تعلیم دی ۔پس میں ان کو ہانکتا ہوا رسول اللہ ﷺ کی طرف لیکر چلا ۔میں نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا بے شک میں نے سورۃ فرقان کو ایسے حروف کے ساتھ سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھایا۔تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اس کو چھوڑ دو۔اے ہشام تم پڑھو تو انہوں نے وہ پڑھا جو میں نے سنا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ،اس طرح اتارا گیا ہے ۔پھر فرمایا اے عمر تم پڑھو :تو میں نے وہ قرا ء ت پڑھی جو آپ نے مجھے پڑھائی تھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، اس طرح بھی نازل کیا گیا ہے ۔بے شک یہ قرآن سات احرف پر اتارا گیا ہے ان میں سے جو تمہیں آسان معلوم ہو وہ قراء ت پڑھو ‘‘۔[صحیح بخاری،کتاب :فضائل القرآن ۔رقم الحدیث:۲۴۱۹،صحیح مسلم،حدیث :۱۸۹۹]۔
(۲) جامع ترمذی میں ہے’’عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ، قَالَ: لَقِیَ رَسُولُ اللہِ صَلّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جِبْرِیلَ، فَقَالَ: یَا جِبْرِیلُ اِنِّی بُعِثْتُ اِلَی اُمَّۃٍ اُمِّیِّینَ: مِنْھُمُ العَجُوزُ، وَالشَّیْخُ الکَبِیرُ، وَالغُلاَمُ، وَالجَارِیَۃُ، وَالرَّجُلُ الَّذِی لَمْ یَقْرَأْ کِتَابًا قَطُّ، قَالَ: یَا مُحَمَّدُ اِنَّ القُرْآنَ اُنْزِلَ عَلی سَبْعۃِ اَحْرُفٍ‘‘
ترجمہ :’’حضر ت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺجبرائیل علیہ السلام سے ملے تو آپﷺ نے فرمایا :اے جبرائیل مجھے ایسی امت کی طرف بھیجا گیا ہے جو اَن پڑھ ہے ۔پھر ان میں سے کوئی بوڑھیاہے، کوئی بوڑھا ہے ،کوئی لڑکا ہے کوئی لڑکی اور کوئی ایسا آدمی ہے 
(8)
جس نے کبھی کوئی تحریر نہیں پڑھی ۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھے جواب دیا کہ اے محمد ﷺ :قرآن سات حرفوں پر اترا ہے ‘‘۔[جامع ترمذی ،حدیث۲۹۴۴]۔
(۳) صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْھُمَا: اَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:اَقْرَأَنِی جِبْرِیلُ عَلَی حَرْفٍ، فَلَمْ اَزَلْ اَسْتَزِیدُہُ حَتَّی انْتَھَی اِلَی سَبْعَۃِ اَحْرُفٍ‘‘
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبرائیل نے پہلے مجھے قرآن کریم ایک حرف کے مطابق پڑھایا ، میں ان سے مطالبہ کرتا رہا (کہ قرآن مجید کو دوسرے حروف کے مطابق بھی پڑھنے کی اجازت دی جائے ،چنانچہ وہ مجھے یہ اجازت دیتے گئے )یہاں تک کہ سات حرفوں تک پہنچ گئے‘‘۔[صحیح بخاری ۔حدیث:۳۲۱۹،صحیح مسلم۔حدیث: ۱۹۰۲ ]۔
(۴) صحیح بخاری میں ہے’’عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا قَرَأَ آیَۃً، وَسَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ خِلاَفَھَا، فَجِءْتُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُہُ، فَعَرَفْتُ فِی وَجْھِہِ الکَرَاھِیَۃَ، وَقَالَ: کِلاَکُمَا مُحْسِنٌ، وَلاَ تَخْتَلِفُوا، فَاِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ اخْتَلَفُوا فھَلَکُوا‘‘
ترجمہ:’’حضر ت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک شخص کو قرآن کی آیت پڑھتے ہوئے سنا جب کہ اس سے پہلے میں نے نبی کریم ﷺ کووہ آیت اس سے مختلف طریقے پر پڑھتے سنا تھا ۔میں اس شخص کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے گیا اورآپ ﷺ کو صورتِ حال سے آگاہ گیا ۔میں نے محسوس کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو میری بات ناگوار گزری ہے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:تم دونوں ہی ٹھیک پڑھتے ہو ۔آپس میں اختلاف نہ کرو، کیونکہ تم سے پہلے جو قومیں تھیں انہوں نے آپس میں اختلاف کیا جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہو گئیں ‘‘۔[صحیح بخاری ،حدیث:۳۴۷۶]۔
یہ چار جلیل القدر صحابہ کرام(۱) امیر المؤمنین خلیفہ رسول ﷺ حضرت عمر فاروق اعظم ،(۲)حبر امت مفسر اعظم حضرت عبد اللہ ابن عباس ،(۳)قاری امت حضرت ابی بن کعب اور (۴)فقہیہ اعظم صاحب النعلین والوسادہ حضور ﷺ کے سفر وحضر کے خدمت گار عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین کی روایات ہیں ۔مسٹر غامدی کیا ان صحابہ کرام ہی کو فتنہ عجم قرار دے رہے ہیں ؟
اسلام کے ابتدائی دور ہی سے قرآن کریم کو مقامی لہجات کے مطابق پڑھنے کی اجازت تھی جو ایک ہی عربی زبان کے الفاظ کے مختلف تلفظات تھے اور اس طرح کا معاملہ تقریباً دنیا کی ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔
قرآن کریم کا متن رسم عثمانی میں لکھا جاتا ہے ۔اس رسم الخط کی خوبی اور کمال یہ ہے کہ اس میں تمام قراء اتِ متواترہ کے پڑھنے کا امکان موجود ہے اور یہ ساری قراء تیں اس ایک متن میں سماسکتی ہیں۔
بلکہ خود روایت حفص میں بھی ایک ہی لفظ کو دو طرح پڑھنا جائز ہے ۔
’’أَمْ ہُمُ الْمُصَیْْطِرُونَ‘‘[سورء طورآیت:۳۷]۔میں الْمُصَیْْطِرُونَ کو الْمُسَیْْطِرُونَ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
ان تمام روایات سے یہ باخوبی واضح ہو گیا ہے کہ مسٹر غامدی کے نظریات سرا سر من گھڑت اور ان کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ قراء ات متواترہ کو عجم کا فتنہ قرار دینے والا خود عجم کے لئے ایک عظیم فتنہ بن چکاہے ۔ قراء ات متواتر ہ کا یہ اختلاف صرف تلفظ اور لہجے کا اختلاف ہے،ان سے قرآن کریم میں کوئی ایسا تغیر نہیں ہو جاتا جس سے اس کے معنی ومفہوم تبدیل ہو جائیں یا حلال حرام ہو جائے ۔
قراء ت کے اختلاف کے باوجود قرآن کے نفسِ مضمون ومعانی میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
علامہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں قراء ات متواترہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ پہلی قرأۃ میں فی نفسھا کمی اور زیادتی ہوتی ہے مثلاً’’ نشرھا ‘‘ اور’’ونشرھا ‘‘،’’سارعوا ‘‘اور ’’وسارعوا‘‘ اوردوسری میں واحد اور جمع کے اعتبار سے فرق ہے مثلاً’’ کتبہ‘‘ او ر’’کتابہ‘‘ اور تیسری میں تذکیراور تانیث کے اعتبار سے اختلاف ہے مثلاً ’’یکن ‘‘اور’’ تکن‘‘ میں اور چوتھی میں تصریفی اختلاف ہے جیسے مخفف اور مشدد میں مثلاً’’ یکذبون‘‘ اور’’ یکذبون‘‘فتح اور کسرا کے اعتبار سے ’’یقنط‘‘ اور’’ یقنط‘‘ اور پانچویں قرأت اعرابی اختلاف ہے ’’ذوالعرش المجید ‘‘میں دال کے رفع اور اس کے مجرور ہونے کے اعتبار سے ۔اور چھٹی اداۃ کا اختلاف ہے مثلاً ’’لکنّ الشیاطین‘‘ نو ن کے مشدد اور مخفف ہونے میں اور ساتویں قرأت لغت کے اعتبار سے تفخیم اور امالہ میں اختلاف ہے ‘‘۔ 
مزید فرماتے ہیں انہی سات قرأتوں میں حصر نہیں بلکہ جو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے ثابت ہو پڑھنا جائز ہے اس میں امت کی آسانی ہے ۔چنانچہ لکھتے ہیں۔
’’ والحاصل انہ اجاز بان یقرؤوا ماثبت عنہ ﷺ بالتواتر بدلیل قولہ انزل علی سبعۃ احرف والاظھر ان المراد بالسبعۃ التکثیر لا التحدید ‘‘
ترجمہ:’’حاصل کلام یہ ہے کہ جو قرأت بھی رسول اللہ ﷺ سے بالدلیل تواتر کے ساتھ ثابت ہے وہ جائز ہے آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے اس فرمان کی وجہ سے:کہ قرآن سات أحرف پر نازل کیا گیا ہے ۔اظہر بات یہ ہے کہ سبعہ سے مراد کثرت ہے حصر نہیں ‘‘ 
مزید اگلے صفحہ پر لکھتے ہیں ۔’’ قال ابن عبد البر والباقلانی وآخرون ھذا وکأنہ علیہ الصلاۃ والسلام کشف لہ ان القرأۃ المتواتر تستقر فی امتہ علی سبع وھی الموجودۃ الآن المتفق علی تواتر ھا والجمہور علی ان مافوقھا شاذ لا یحل القرأۃ بہ‘‘
ترجمہ:’’ ابن عبد البر اور باقلانی اور دیگر نے کہا کہ یہ معاملہ ایسا ہے گویا کہ حضو ر ﷺ پر کشف ہوا کہ قرأت متواترہ میری امت میں سات ہوں گی جو کہ اب بھی موجود ہیں جن کامتواتر ہونا متفق علیہ ہے اور جمہور کا یہ قول ہے کہ اس کے علاوہ جو قراء ات ہیں وہ شاذ ہیں اور ان کی تلاوت جائز نہیں ہے ‘‘۔
مزیدتواتر کا معنی لکھتے ہیں کہ تواتر سے کیا مراد ہے’’ حدیث نزول القرآن علی سبعۃ احرف ادعی ابو عبیدۃتواترہ لانہ ورد من روایۃ احدعشرین صحابیاً ومرادہ التواتر الفظی ،اماتواترہ المعنوی فلاخلاف فیہ‘‘
ترجمہ:’’ نزول القرآن علی سبعۃ احرف کے بارے میں ابو عبید نے تواتر کا دعوی کیا ہے کیونکہ یہ اکیس صحابہ کرام سے مروی ہے اور اس سے ان کی مراد تواتر لفظی ہے ۔ جبکہ اس حدیث کے تواتر معنوی میں کسی کا اختلاف نہیں ہے‘‘۔[مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ،کتاب فضائل القرآن باب اختلاف القرأت وجمع القرآن ،ج:۵،ص:۹۰،۹۱،مطبوعہ مکتبہ رشدیہ ،کوئٹہ]
مسٹرغامدی قراء ات متواترہ کو عجم کا فتنہ قرار دے کر شدید ترین گمراہی کے مرتکب ہو چکے ہیں ان پر لازم ہے کہ اپنے تمام گمراہ کن نظریات سے اعلانیہ توبہ کریں ۔ قراء ات متواترہ کے منکر کی بعض فقہاء نے تکفیر فرمائی ہے لیکن کیونکہ قراء ات متواترہ کامعاملہ ضروریات دین میں سے نہیں ہے اس لئے مسٹر غامدی کی تکفیر کلامی میں توقف کیا جائے گا۔
الفتاوی الحدیثیہ میں شیخ الاسلام احمد بن محمد بن علی بن حجر ھیتمی علیہ الرحمہ سے قراء ات متواترہ اور اس کے منکر کے بارے میں سوال کیاگیا تو انہوں نے جو جواب دیا وہ مع سوال درج ذیل ہے ۔
’’ھل القرأۃ ذات السبع متواتر مطلقاً او عندالقراء فقط ،وھل انکار تواتر ھا کفر ام لا؟
فاجاب بقولہ::ھی متواتر عند القراء وغیرھم ،واختار بعض أئمۃ متأخری المالکیۃ انھا متواترۃ عند القراء لا عموماً 
،وانکار تواترھا صرح بعضھم بانہ کفر ،واعترضہ بعض أئمتھم ۔فقال: لا یخفی علی من اتقی اللہ وفَھِم مانقلناہ عن الائمۃ الثقات من اختلافھم فی تواتر ھا وطالع کلام القاضی عیاض من أئمۃ الدین انہ قول غیرصحیح ،ھذہ مسالۃ البَسْملۃ اتفقوا علی عدم التکفیر بالخلاف فی اثباتھا ونفیھا والخلاف فی تواتر وجوہ القرأۃ مِثْلہ أو أیسرمنہ ،فکیف یصرح فیہ بالتکفیر،وبتسلیم تواترھا عموماً وخصوصاً لیس ذلک معلوماً من الدین بالضرورۃ،والاستحلال والتکفیر انما یکون بانکار المجمع علیہ المعلوم من الدین بالضرورۃ والاستدلال علی الکفر بان انکار تواترھا یؤدی الی عدم تواتر القرآن جملۃ مردود‘‘
ترجمہ’’ سوال:۔ کیا قراء ات سبعہ مطلقاً متواتر ہیں یافقط قراء کے نزدیک متواتر ہیں اور آیا ا س کے تواتر کاانکار کفر ہے یا نہیں؟۔
جواب:۔ قراء ات سبعہ ، قراء اور دیگر علماء کے نزدیک بھی متواتر ہیں ۔اور بعض متاخرائمہْ مالکیہ کا مختار قول یہ ہے کہ ان کا تواترعمومی نہیں بلکہ صرف قراء کے نزدیک ہے۔اور اس تواتر کے منکر کے بارے میں بعض علماء نے کفر کی صراحت کی ہے ،لیکن بعض ائمہ نے اس کو کفرقرار دینے پر اعتراض کیا ہے اور فرمایا : کہ یہ بات ایسے شخص پرپوشیدہ نہیں ہے جو اللہ تعالی سے ڈرتا ہے اورثقہ ائمہ کے قراء ا ت کے تواتر میں اختلاف کو سمجھتا ہے جو ہم نے نقل کیا ۔اور جو علامہ قاضی عیاض کے کلام پر مطلع ہوا، جوائمہ دین سے ہیں ،ان کا(قراء ا ت سبعہ کے انکار کو کفر قرار دینے کا) قول درست نہیں۔ سورتوں کے درمیان درج’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کے مسئلے کو دیکھیئے ،جس کے قرآن کا جز ہو نے کے اثبات اور نفی کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ لیکن تمام علماء(یعنی،جو اس کے جز قرآن ہو نے کے قائل ہیں اور جو نہیں ہیں ،باہم ایک دوسرے کی) عدمِ تکفیر پر متفق ہیں ۔ قراء ات کی وجوہ میں اختلاف یا تو اِس کی مثل ہے یا اِس سے بھی آسان ہے۔ توپھر اس میں کفر کی صراحت کیونکر کی جائے گی ؟۔اور اگر قراء ات کا تواتر عموماً اور خصوصاً تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ ضروریات دین میں سے نہیں ہے ،(جن کے انکار پر مطلقاً تکفیر کی جاتی)۔کیونکہ تکفیر تو اس میں ہوتی ہے جس کا ضروریات دین سے ہونا معلوم ہو اور وہ مُجمَع علیہ(جس پر سب کا اتفاق ) ہو اور کوئی اس کا انکار نہ کرے ۔اورقراء ا تِ سبعہ کے منکر کو کافر قرار دینے کے لئے اِس طرح استدلال کرنا کہ کسی وجہِ قراء ات کا انکار کرناقرآن کے عدمِ تواتر کی طرف لے جاتا ہے (قرآن کا انکار ہے)تو یہ باطل استدلال ہے ‘‘ ۔[الفتاوی الحدیثیۃ ،ص:۳۲۰،۳۱۹،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ]۔
قراء اتِ متواترہ کا ضروریات دین سے نہ ہونا اس بات سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ فقہاء کرام نے ایسی قراء ات جولوگوں میں معروف نہ ہو اس کی تلاوت عوام کے سامنے کرنے سے منع فرمایا ہے تاکہ وہ عدم علم کی وجہ سے اس کا انکار کرکے گمراہی میں مبتلا نہ ہوں۔
صدر الشریعہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں’’ ساتوں قراء ت جائز ہیں مگر اَولیٰ یہ ہے کہ عوام جس سے نا آشنا ہوں وہ نہ پڑھے،کہ اس میں اُن کے دین کا تحفظ ہے ‘‘۔[بہارشریعت،ج:۱،حصہ :۳،باب :قرآن مجید پڑھنے کا بیان،ص:۱۹۱،مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی]۔
اگر قراء اتِ متواترہ کا انکار کرنے والا جاہل ہو تو اس کو سمجھایا جائے اور اگربے دینی یا ہٹ دھرمی کی بنا پر انکار کرتا ہوجیسا کہ مسٹرغامدی ہیں توایسا شخص گمراہ بے دین اور اہلسنت سے خارج ہے ۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ


مسٹرجاوید غامدی کے نظریات (مقدمہ)پہلی قسط

اسلام کے مختلف ادوار میں جنم لینے والے بہت سے فتنوں مثلا خوارج، روافض، معتزلہ، باطنیہ، بہائیہ، بابیہ، وہابیہ، قادیانیت، اور منکرین حدیث وغیرہم کی طرح پاکستان میں چند برس پیشتر ایک نئے فتنے نے سر اٹھایا ہے جو تجدد پسندی کی کوکھ سے برآمد ہوا ہے اور اس نے اسلام کے متوازی ایک مذہب کی شکل اختیار کرلی ہے جس کا نام ’’فتنہ ء غامدیت‘‘ہے۔یہ دور حاضر کاایک تجدد پسند گروہ (Miderbusts) ہے ۔ جس نے مغرب سے مرعوب و متاثر ہوکر دین اسلام کا جدید ایڈیشن تیار کرنے کے لئے قرآن و حدیث کے الفاظ کے معانی اور دینی اصطلاحات کے مفاہیم بدلنے کی ناپاک کوشش کی ہے ۔برصغیر پاک و ہند میں تجدد پسندی کی آڑ میں دینی مسلّمات میں تحریف کرنے کے فتنے کی ابتدا دور جدید میں سرسید احمد خان علیگڑھی نے کی۔ انگریز سامراج سے اپنی مرعوبانہ ذہنیت کی بنیاد پر مغربی نظریات کو مسلّمہ حقائق کا درجہ دے کر وحی کو ان کے مطابق ڈھالنے کے لئے من مانی تاویلات کے شیطانی کام کی ابتداء کا سہرا انہی کے سر ہے ۔ مغربی افکار کی رو سے ہر وہ بات جوطبعی قوانین کے خلاف ہو انہوں نے اسے خلاف عقل قرار دے کر رد کردیااورقدرت (نیچریت) کی برتری کا نعرہ لگایا۔ لغت عرب کی مدد سے قرآن کی من گھڑت تاویلات پیش کیں۔ احادیث کو مشکوک قرار دیا اور امت کے اجتماعی معاملات اورطرز عمل کو آئمہ و مجتہدین کے ذاتی خیالات و اجتہادات کہہ کر نظر انداز کردیا۔ نتیجے کے طور پر نیچرو لغت کی بنیاد پر وضع کردہ اصول کے تحت اسلام کی جوتعبیرو تشکیل نو مسلمانوں کے سامنے آئی وہ ان کے صدیوں کے اجتماعی تعامل سے یکسر بیگانہ تھی۔پھر ان کی پیروی میں دو فکری سلسلوں نے اس فتنے کو پروان چڑھایا۔ ان میں سے ایک سلسلہ عبداﷲ چکڑالوی اور شیخ اسلم جیراج پوری سے ہوتا ہوا غلام احمد پرویزمنکر حدیث تک پہنچتا ہے جو اپنے امام سرسید احمد علیگڑھی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لغت پرستی اور انکارسنت کے حوالے سے کافی معروف ہوئے ۔دوسرے سلسلے کے جراثیم حمید الدین فراہی اورشیخ امین احسن اصلاحی سے گزرتے ہوئے مسٹر جاوید احمد غامدی میں منتقل ہوئے ۔فہم سلف سے منحرف ،متجدد فکر ، روشن خیال اور مرعوب زدہ طبقے میں 146146المورد145145ادارہ علم و تحقیق سب میں پیش پیش ہے ۔جس کے سربراہ مسٹرجاوید احمد غامدی ہیں۔ انہوں نے اس احتیاط کے پیش نظر کہ کہیں علماء انہیں بھی سرسید اور پرویز کے ساتھ منسوب نہ کر دیں، لغتِ قرآن کے بجائے عربی معلی یعنی عربی محاورے کا نعرہ لگایااور انکار سنت کا کھلم کھلا دعوی کرنے کی بجائے حدیث و سنت میں فرق کے عنوان سے اس مقصد کو پورا کیا۔یہ دونوں فکری سلسلے ’’فتنہء سرسید‘‘کی شاخیں اور برگ و بار ہیں اور’’نیچریت‘‘کے نمائندہ ہیں۔ اگرچہ غلام احمدپرویز اورمسٹر غامدی کا طریقہ واردات الگ الگ ہے،تاہم نتیجے کے اعتبار سے دونوں یکساں ہیں ۔دونوں تجدد، انکار حدیث، الحاد اور گمراہی کے علم بردار ہیں۔ دونوں اجماع امت کے مخالف اور معجزات کے منکر ہیں۔ یہ دونوں حضرات فاسد تاویلوں کے ذریعے اسلامی شریعت میں تحریف و تبدیل اور ترمیم وتنسیخ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ مسٹر غامدی نے دور حاضر میں تجدد اور انکار حدیث کی نئی بنیاد ڈالی ہے اور اپنے چند خود ساختہ اصول کو تحقیق کا نام دے کر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی جسارت کی ہے ۔مسٹر غامدی احادیث صحیحہ کے انکار کے ساتھ ساتھ قرآن کی معنوی تحریف کے بھی عادی ہیں ،ہر وہ اہل علم جو ان کی کتب کا مطالعہ کرے گا بآ سانی اسی نتیجے پر پہنچے گا ۔مسٹرغامدی اپنے حلقہ احباب میں بزعم خود ’’امامت‘‘ کے منصب کے قریب تر ہونے کے شیطانی فریب میں مبتلا ہیں اورمسٹرغامدی کے (5)نزدیک پوری امت میں سے صرف دو ہی علماء ان کے زعم میں ان کے ممدوح ہیں جن کو وہ’’آسمان‘‘ کا درجہ دیتے ہیں، جبکہ باقی علمائے امت کو وہ’’خاک‘‘ قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب مقامات میں لکھتے ہیں کہ:’’میں نے بھی بہت عالم دیکھے ، بہتوں کو پڑھا اور بہتوں کو سنا، لیکن امین احسن اصلاحی اور ان کے استاد حمید الدین فراہی کا معاملہ وہی ہے کہ :غالب نکتہ داں سے کیا نسبت خاک کو آسماں سے کیا نسبت (مقامات، ص 52۔58، طبع دسمبر 2001)یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مسٹر غامدی جس اسلام کو پیش کررہے ہیں وہ پرویز وسرسید کا اعتزالی اسلام ہے ،جس کا وہ دین اسلام جو رسول اللہ ﷺ لے کر آئے اور جو حضرات صحابہ وتابعین وعلماء دین رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور استعماری طاقتوں کے عزائم کے سامنے دین اسلام ہی سب سے بڑی رکاوٹ وہدف ہے ،لہذا وہ ایسے افراد کی بھر پور حمایت اور اعانت کرتے ہیں جومسلمانوں میں جدت کے نام پر غیر اسلامی افکار کا جواز نکالتے ہیں اور ان کے اجماعی معاملات کو متنازعہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے مسٹرغامدی اور ان کے معاصرین نام نہاد دیگر دانشور وں کو اہل مغرب کی خاص معاونت و حمایت حاصل ہے ۔ مغربی ممالک کے ٹکڑوں پر پلتے نام نہاد اسلامی و پاکستانی میڈیاکے دروازے ان حضرات پرکھلے ہیں ،تا کہ یہ دین سے ہی خلافِ دین حرکات کی جھوٹی تاویلات پیش کرکے عام مسلمانوں کو گمراہ کریں ۔اور یہ بات اب مخفی نہیں ہے کہ عالمی استعماری طاقتوں نے ایک خصوصی کمیشن تشکیل دے کرکروڑوں ڈالرپرمشتمل ایک بہت بڑا فنڈ اس مد میں مختص کررکھا ہے ۔یہ کمیشن دین اسلام کی غلط اور من گھڑت تصویر پیش کر نے والوں کی حوصلہ افزئی کرتاہے ۔ مسٹرغامدی اور ان کے نظریات کے بطلان کے وہی دلائل ہیں جو ان کے پیش رو، سر سید ،غلام احمد پرویز وغیرہما کے رد میں علماء اسلام نے پیش فرمائے ہیں اوراس طرح کے متجدین کے رد کے لئے اتنی بات ہی کافی ہے کہ ان کا پیش کردہ نظریہ اور فکر سلف صالحین ،صحابہ کرام وتابعین عظام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے نظریے اور فکرسے متصادم ومخالف ہے اور ہر مسلمان بخوبی یہ بات سمجھتا ہے کہ حقیقتاً اسلام وہی ہے جو صحابہ کرام علیھم الرضوان کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے اور اس کے مخالف جو بات بھی ہے وہ سب کچھ ہو سکتی ہے مگر اسے اسلام کا نام نہیں دیا جاسکتا۔مسٹرغامدی کا جو بھی نظریہ ہے وہ یقیناًان کا خود ساختہ ہے اور سلف صالحین میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔سوال میں مذکور ان کے نظریات کامختصراً علیحدہ علیحدہ رد تحریر کیا جاتا ہے تاکہ بھولے بھالے مسلمان ان ذیاب فی ثیاب ایمان کے شکاری درندوں کو پہچان کر ان سے اپنے دین وایمان کی حفاظت کر سکیں ۔

غلام مرتضیٰ مظہری

Saturday, 28 February 2015

Tuesday, 10 June 2014

احکام شرعیہ کی توہین کا شرعی حکم

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک
 TVچینل پر ''رخصار''کے نام سے ایک ڈرامہ آتا ہے 12مئی 2014کو اس کی جو قسط نشر ہوئی اس میں ایک انتہائی قابل اعتراض سین نشر ہوا ۔جس میں تین خواتین آپس میں بات چیت کررہی تھیں موضوع ِ بحث تینوں خواتین میں سے ایک کی طلاق کا تھا جو اپنے موجودہ شوہر سے طلاق لے کر دوسری شخص سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن شوہر طلاق دینے پر راضی نہیں تھا ۔اس خاتون نے کیا ''نبیل ''(یہ وہ شخص ہے جس سے وہ خاتون شادی کرنا چاہتی ہے)اب زیادہ دیر انتظار نہیں کرے گا ۔اس پر دوسری عورت اس سے کہتی ہے انتظار تو اسے کرنا پڑے گا کیونکہ طلاق کے بعد عورت کے بھی کچھ مہینے ہوتے ہیں ۔اس پر وہ عورت کہتی ہے کہ ''او بی بی بھاڑ میں گئی عدت ودت میں کسی بھی بندے کے لئے گھر بیٹھنے کو تیار نہیں''۔مفتیان ِ کرام سے گزارش ہے کہ اس ڈرامہ کے لکھنے والے ، بنانے والے ، اسے نشر کرنے والے اور دیکھنے والے کے لئے شرعی حکم کیا ہے ۔
                                    سائل : احسن بخاری،ڈیفنس ویو،کراچی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
  

  سائل دارالافتاء میں اس ڈرامے کی وڈیو لایا اور دارالافتاء میں موجود مفتیان کرام کوسوال میں مذکور احکام شرعیہ کی توہین پر مبنی حصہ سنایا اور سائل کے مطابق اس ڈرامہ کی مذکورہ قسط کئی مرتبہ نشر ہو چکی ہے لیکن احکام شرعیہ کی توہین پر مبنی مواد جوں کا توں موجود رہا۔
    احکام شرعیہ میں طلاق کے بعد عدت منصوص من اللہ حکم ہے ۔اگر عورت حیض والی ہو تو اس کی عدت طلاق کے بعد تین حیض ہے 

 چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے۔ ''وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوَئٍ''ترجمہ کنزالایمان :طلاق والیاںاپنی جانوں کوروکے رہیں تین حیض تک ''۔ [البقرۃ ،آیت: ٢٢٨]۔
    اور اگر عورت حمل سے ہو تو اس کی عدت وضع حمل یعنی بچہ پیدا ہونے تک ہے قرآن مجےد مےں ارشادربانی ہے:''وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَن یَضَعْنَ حَمْلَہُنّ''( الطلاق،آےت:٤)۔ترجمہئ کنزاالایمان :''حمل والےوں کی مےعاد (عدت)ےہ ہے کہ وہ اپنا بچہ جن لےں''۔
    اور اگر مطلقہ عورت بوڑھی ہوجس کوحیض نہ آتا ہو تو اس کی عدت تین ما ہ ہے۔ارشاد باری تعالی ہے ''وَاللَّائِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِن نِّسَائِکُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَۃُ أَشْہُرٍ وَاللَّائِیْ لَمْ یَحِضْنَ ''ترجمہئ کنزاالایمان :'' تمہاری عورتوں میں جنہیں حیض کی امید نہ رہی( بوڑھی ہوجانے کی وجہ سے کہ وہ سن ِ ایاس کو پہنچ گئی ہو ں)اگر تمہیں کچھ شک ہو(ان کا حکم کیا ہے )تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی جنہیں ابھی حیض نہ آیا ''۔[سورہ طلاق،آےت:٤]۔      قرآن کریم میں اللہ تعالی نے حضور علیہ السلام کے واسطے سے امت کو مخاطب فرمایاارشاد باری تعالی ہے: یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآء َ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّۃَ وَ اتَّقُوا اللہَ رَبَّکُمْ لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ بُیُوْتِہِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ''ترجمہ کنز الایمان ''اے نبی جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت پر انہیں طلاق دو، اور عدت کا شمار رکھو اور اپنے رب اللہ سے ڈرو، عدت میں انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ آپ نکلیں''۔[پارہ ،٢٨، آیت:١] ۔
    احکام القرآن میں ہے۔'' فیہ نہی عن اخراجہا ونہی لہا عن الخروج''یعنی'' اس آیت میں شوہروں کو اس سے منع کیا گیا کہ وہ دوران عدت اپنی بیویوں کو گھر سے نکالیںاور عورتوں کو بھی از خود گھر سے نکلنے کو منع کیا''۔ [احکام القرآن صفحہ جلد ٣صفحہ ٦٨٠بطبوعہ قدیمی کتب خانہ]۔

    الغرض مدخولہ عورت کو طلاق کے بعد عدت گزارنا فرض ہے جس کی تفصیل اوپر مذکور ہوئی اس شرعی حکم پر عمل فرض ہے اگر کوئی شیطانی دھوکہ میں آکر اس حکم کی خلاف ورزی کرے تو وہ سخت گنہگار اور مستحق عذاب نار ہے ۔لیکن کسی شرعی حکم کو یہ جان کر کہ یہ شریعت کا حکم ہے اس کا انکار کرنا یا اس کی توہین کرنا شریعت کا انکار وکفر ہے عدت کے بارے میں مذکورہ جملہ عدت کی صریح توہین ہے اور مذکورہ جملہ لکھنے والے، اس کو فلمانے والے ، اس پر اداکاری کرنے والے اوراس کو نشر کرنے والے سب توہین شریعت اور کفر کے مرتکب ہوئے ان پر لازم ہے کہ اس کفر سے توبہ اور تجدید ایمان اگر شادی شدہ تھے تو تجد ید نکاح بھی کریں۔ مذکورہ ڈرامہ دیکھنا حرام حرام حرام اشد حرام ہے۔
    اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے''وَلَئِن سَأَلْتَہُمْ لَیَقُولُنَّ إِنَّمَا کُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللّہِ وَآیَاتِہِ وَرَسُولِہِ کُنتُمْ تَسْتَہْزِئُونَ۔لاَ تَعْتَذِرُواْ قَدْ کَفَرْتُم بَعْدَ إِیْمَانِکُمْ إِن نَّعْفُ عَن طَآئِفَۃٍ مِّنکُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَۃً بِأَنَّہُمْ کَانُواْ مُجْرِمِیْنَ''ترجمہ کنزالایمان:'' اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے(یقیناً یہی بات مذکورہ چینل والے بھی کہیں گے ،ڈرامہ ہی تو تھا حقیقت تھوڑی تھی) تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو۔بہانے نہ بناؤ تم کافر ہو چکے مسلمان ہو کر اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کریں تو اوروں کو عذاب دیں گے اس لئے کہ وہ مجرم تھے ''۔[التوبہ،آیت:٥٦،٦٦]۔
    مجمع الانہر میں ہے''من اھان الشریعۃ او المسائل التی لابد منھا کفر''یعنی،''جس نے شریعت کی توہین کی یا مسائل ضروریہ شرعیہ(فرض یا واجب یا سنت) کی توہین کی تو یہ کفر ہے ''۔[مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابہر،الفاظ الکفر انواع]۔
    فتاوی التاتار خانیہ میں ہے''اذ انکر آیۃ من القرآن او سخربآیۃ من القرآن و فی الخزانۃ: او عاب فقد کفر''یعنی،''جب کوئی قرآن کی آیت کا انکار کرے یا قرآن کی آیت کا مذاق اڑائے اور خزانہ میں ہے یا آیت قرآنی میں عیب لگائے اس نے کفر کیا ''۔[فتاوی التاتار خانیہ ،کتاب احکام المرتدین،ج:٧،ص:٣١٥،مکتبہ فاروقیہ،کوئٹہ ]۔
    امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ایک سوال کہ'' ہم تم اہل اسلام پابند شریعت کے ہیں شرح محمد پرفیصلہ ہونا چاہیے خالد جو متروکہ زید پر قابض وجابر ہے صاف کہہ دیا کہ ہم کو شریعت نامنظور ہے بلکہ رواج منظور ،اب فرمائیے کہ عند الشریعت خالد کا کیا حکم ہے نکاح رہا یا فسخ ہو گیا''کے جواب میں فرماتے ہیں'' خالد پر حکمِ کفر ہے اور یہ کہ اس کا نکاح فسخ ہو گیا اس پر توبہ فرض ہے نئے سرے سے اسلام لائے ،اس کے بعد اگر عورت راضی ہو اس سے دوبارہ نکاح کرے۔

    عالمگیریہ میں ہے اذا قال الرجل لغیر حکم الشرع ھذہ الحادثۃ کذا فقال ذٰلک الغیر من برسم کارمی کنم نہ بشرع یکفر عند بعض المشائخ۔جب کسی نے دوسرے سے کہا اس معاملہ میں شریعت کا حکم یہ ہے وہ دوسرا جواباً کہتا ہے میں تو رسم کے مطابق کروں گا نہ کہ شرع کے مطابق ،تو بعض مشائخ کے نزدیک یہ کافر ہو جائے گا ۔
    اقول وصورۃ النازلۃ اشد من ھذا بکثیر فان ھذا اخبار عن عملہ والرجل ربما یعمل بالمعصیۃ وھولا یرضا ھا فیکون عاصیا لا کافرا لعدم الاستحسان والا ستحلال بخلاف ماثمہ فانہ صریح فی عدم قبول الشرع وترجیح الرسم علیہ فکان کالمسألۃ قبلھا رجل قال لخصمہ اذھب معی الی الشرع قال بیادہ ببار تا بردم بے جبر نروم یکفر لانہ عاند الشرع۔ میں کہتا ہوں صورتِ نازلہ ،مذکورہ صورت سے بہت زیادہ شدید ہے کیونکہ اس میں عمل کی اطلاع ہے اور آدمی بہت دفعہ معصیت (گناہ)کا عمل کرتا ہے مگر اسے گناہ تصور کرتا ہے اور دلی طور پر اس پر خوش نہیں ہوتا تو اب عاصی ٹھہرانہ کہ کافر ،کیونکہ اس نے اسے حلال تصور نہیں کیا بخلاف سوالیہ صورت کے یہاں قبولِ شرع کا انکار ہے اور رسم کو اس پر ترجیح دے رہا ہے یہ اس سے قبل والے مسئلے جیسا ہے کہ کسی نے اپنے مخالف سے کہا میرے ساتھ شریعت کی طرف چل ،تو وہ کہنے لگا پیغام ِ شریعت لادے تاکہ میں چلوں ،بغیر جبر کے میں نہیں جاؤں گا ،تو وہ کافر ہو جائے گا کیونکہ اس نے شریعت سے عناد رکھا ہے''۔[فتاوی رضویہ ،ج:١٤،ص:٦٩١،رضافاؤنڈیشن لاہور]۔
    خلاصہ کلام یہ ہے کہ طلاق کے بعد عدت گزارنے کاحکم اللہ تعالی کی طرف سے ہے طلاق کے بعد عدت کے احکام پر عمل نہ کرنا گناہ ہے عدت کے دوران دوسری جگہ نکاح نافذ نہیں ہوگا لیکن عدت کے حکم شرعی کو گالی دینا کہ ''بھاڑ میں گئی عدت ودت'' بالاتفاق وبالاجماع شرعی مسئلہ کی توہین اور کفر ہے یہ جملہ لکھنے والا، بولنے والا،فلمانے والا ،نشر کرنے والا سب کفر کے مرتکب ہوئے ان پر توبہ ، تجدید ایمان اور اگر شادی شدہ ہےں تو تجدید نکاح لازمی ہے ۔
    باقی رہا مسئلہ ڈرامے دیکھنے کا تو یہ ڈرامے معاشرے میں عریانی ،فحاشی، بے حیائی اور بے غیرتی کی تعلیم دے رہے ہیںان کا دیکھنا حرام حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اور جب یہی
TVچینل عریانی، فحاشی ،بے حیائی اور بے غیرتی کے ساتھ ساتھ احکام شرعیہ کو بھی تختہ مشق بنالیںاور لوگوں کو احکام شرعیہ کی توہین کرنے کی تعلیم دینا شروع کر دیں تو اس حرمت میں مزید شدت آجاتی ہے۔لہذا حکومت کو چاہیے کہ اس طرح کے TVچینل پر مستقل پابندی لگائے اور احکام شرعیہ کی توہین کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی ڈرامہ باز یا TVچینل اس طرح کی جرأت نہ کر سکے۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم