دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Monday 4 May 2015

مسئلہ زکوٰۃ اور مسٹر غامدی کاانوکھا اجتہاد۔۔۔ساتویں قسط


مسئلہ زکوٰۃ اور مسٹر غامدی کاانوکھا اجتہاد
مسٹر غامدی کے شیطانی اجتہادات کی نظیر مسئلہ ء زکوٰۃ بھی ہے۔ ان کے نزدیک زکوٰۃکے نصاب کی تعین کا اختیار ریاست کے پاس ہے ،اگرچہ اس ریاست کے حکمران فاسق وفاجر بلکہ مذہب بیزار یا سیکولر ہی کیوں نہ ہوں۔
مسٹر غامدی اپنے خود ساختہ اجتہاد کے نتیجے میں شیطان کی طرف سے الہام ہونے والے اصول کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’تیسری بات یہ کہ ریاست اگر چاہے تو حالات کی رعایت سے کسی چیز کوزکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دے سکتی ہے اور جن چیزوں سے زکوٰۃ وصول کرے ،ان کے لئے عام دستور کے مطابق کوئی نصاب بھی مقرر کر سکتی ہے ‘‘۔[میزان۳۵۳،طبع سوم،۲۰۰۸]۔
زکوٰۃ کوئی ریاستی ٹیکس نہیں ہے بلکہ ایک مذہبی فریضہ ہے اس لئے اس کا ماخذ شریعت اسلامیہ ہے نہ کہ ریاستی اختیار و طاقت ۔ اس لئے زکوٰۃ کے 
تمام احکام اور مسائل کے اخذ کے لئے صحابہ کرام علیھم الرضوان سے لے کر آج تک امت مسلمہ ،تمام فقہاء کرام حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ کے فرمودات اور قرآن پاک کی آیات کی طرف رجوع کرتے آئے ہیں ۔لیکن مسٹر غامدی نے زکوٰۃ کومذہبی فریضہ سے نکال کر ریاستی ٹیکس کی حیثیت دے دی ہے اس لئے زکوٰۃ کے نصاب اور دیگر معاملات میں ریاست کو مداخلت کی کھلی چھٹی دے دی ہے ۔
مسٹر غامدی کے نظریات کا قبلہ کیونکہ مغرب ہے اور مغرب کا ریاست کے بارے میں یہ نظریہ ہے کہ اپنی عوام کے لئے ریاست ہر قسم کا فیصلہ کر سکتی ہے اور اس معاملے میں اس کے اس حق پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج مغربی ریاستوں میں ہم جنس پرستی جیسی قبیح چیزوں کو بھی قانونی اور جائز قرار دیا جارہا ہے ۔جبکہ ہمار ا ملک پاکستا ن ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلامی ریاست کو لامحدود اختیارات حاصل نہیں ہوتے ۔اسلامی ریاست کے اختیارات کا منبع ذات خداوندی ہوتی ہے اور اس کے عطاء کردہ اختیار کے دائرے میں رہ کر ہی قانون سازی کی جاسکتی ہے ۔اسی لئے ہمارے آئین میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالی کے لئے ہونے کا اقرار کیا گیا ہے اور اس ملک کے تمام قوانین قرآن وسنت کے تابع ہوں گے اس کا بھی اقرار ہے ۔مغرب اور ان کے حواریوں کو اس بات سے بھی بڑی تکلیف ہے کہ پاکستان کے نام کے ساتھ لفظ’’ اسلامی‘‘ کیوں لگا ہے اور وہ آئے دن اس طرح کے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا جیسا کہ ابھی پچھلے دنوں ہی مسٹر غامدی صاحب نے جنگ اخبار کے کالم میں اس بات کو دہرایا ہے ۔تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب ہی نہیں ہوتا اور دوسری طرف وہ اسی لا مذہب ریاست کو مذہبی معاملات میں مداخلت کرنے کا کُلی اختیار بھی عطاء کرتے ہیں کہ جب وہ چاہے کسی بھی چیز کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دے سکتی ہے اور زکوٰۃ کے نصاب میں ترمیم بھی کر سکتی ہے ۔
زکوٰۃ ایک شرعی فریضہ ہے اور اس کی تمام شرائط اور نصاب اور مصارف کا منبع اور ماخذ شریعت ہی ہے کسی ریاست کو اس میں ترمیم اور تبدیلی کا اختیار نہیں ہے ۔ قومیت پر مبنی ریاستیں ابھی پچھلی صدی ہی میں وجود میں آئی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے دور میں اس طرح کی ریاستوں کا کوئی تصور نہیں تھا لہذا یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس طرح کی ریاستوں کو قانون زکوٰۃ میں کسی قسم کی تبدیلی اور ترمیم کا اختیار رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرام علیھم الرضوان کے کسی عمل سے ثابت کیا جا سکے بلکہ اس کے برخلاف خلیفہ رسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں جب کچھ قبائل نے زکوٰۃ کے نظام میں تبدیلی کی کوشش کی اور اسلامی ریاست کو زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو تمام صحابہ کرام نے متفق ہو کر ان کی اس ناپاک حرکت کا جواب اپنی تلوار سے دیا ۔لہذا مسٹرغامدی کے نظریاتی قبلہ مغربی ریاستوں کو تو ان کے مذہب میں تبدیلی کا اختیار حاصل ہو سکتا ہے اور وہ اپنی ریاستوں میں عیسائیت یا یہودیت کے خلاف جیسی چاہیں ترامیم کریں لیکن کسی اسلامی ریاست میں مذہب اسلام کے کسی مسلّمہ معاملے میں تبدیلی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا اور اگر کوئی یہ کوشش کر ے گا تو عام مسلمان اس کو نشانِ عبرت بنا دیں گے ۔واللہ تعالی اعلم

No comments:

Post a Comment