دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Monday 4 May 2015

مسٹر غامدی کا انکار حدیث۔۔۔۔قسط نمبرپانچ


مسٹر غامدی کا انکار حدیث
رسول اللہ ﷺ کے دور سے لے کر آج تک پوری امت سنت کا جو مفہوم سمجھتی آئی ہے مسٹر غامدی نے اس کو چھوڑ کر اپنے باطل نظریات کو نافذ کرنے کے لئے سنت کا خودساختہ اپنی طرف سے ایک مفہوم گھڑا اور پھر اس کے ثبوت کے لئے لایعنی شرائط عائد کردیں ہیں ان کے نزدیک :
سنت کا ثبوت خبر واحد سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا ثبوت کبھی صحابہ کرام کے اجماع سے ہوتاہے کبھی صحابہ کرام کے اجماع اور ان کے عمل تواتر سے ، کبھی اُمت کے اجماع سے ، کبھی اُمت کے اِجماع سے اَخذ کرکے اور کبھی اُمت کے اِجماع سے قرار پاکر اور کبھی قرآن کے ذریعۂ ثبوت کے برابر ذریعۂ ثبوت سے ۔
مسٹرغامدی اپنے اس موقف کو بیان کرتے ہوئے پہلے سنت کی تعریف لکھتے ہیں :
’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اوراس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایاہے ‘‘۔[میزان ،ص:۱۰]۔
مسٹرغامدی کی بیان کردہ سنت کی یہ تعریف دین کی کسی معتبر کتاب میں موجود نہیں ہے اور اُمتِ مسلمہ کے اہل علم سے کوئی بھی اس کاقائل نہیں ہے ۔آگے چل کر ہم سنت کی وہ تعریف درج کریں گے جو اہل علم کے ہاں مسلّم ہے ۔
پھر اس سنت کے ثبوت کے بارے میں مسٹر غامدی لکھتے ہیں:سنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبارسے اس میں اور قرآنِ مجید میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ وہ جس طرح صحابہ کے اِجماع اورقولی تواتر سے ملاہے ، یہ اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں اُمت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے ‘‘۔[میزان ،ص:۱۰]۔
مسٹر غامدی نے اسی بات کو دوسری جگہ اس طرح لکھا:’’قرآن ہی کی طرح سنت کا ماخذ بھی اُمت کا اجماع ہے اور جس طرح وہ صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے اُمت کوملاہے ، اسی طرح یہ ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے ‘‘۔[میزان ،ص:۶۰،طبع سوم،۲۰۰۸]۔
مزید لکھا:’’ جس طرح قرآن خبر واحد سے ثابت نہیں ہوتا، اسی طرح سنت بھی اس سے ثابت نہیں ہوتی‘‘۔[میزان ،ص:۶۰،طبع سوم،۲۰۰۸]۔
ایک اور جگہ اسی مضمون کو اس طرح لکھتے ہیں :
’’ثبوت کے اعتبار سے اس (سنت) میں اور قرآن میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ وہ جس طرح اُمت کے اجماع سے ثابت ہے ، یہ بھی اسی طرح اُمت کے اجماع ہی سے اخذ کی جاتی ہے ‘‘۔[میزان ،ص:۶۲،طبع سوم،۲۰۰۸]۔
مسٹرغامد ی کا دعویٰ ہے کہ سنت دین ابراہیمی کی رسوم ورواج کانام ہے ۔حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے سنت کو اپنی ذات کی طرف منسوب فرمایا اسی طرح صحابہ کرام بھی سنت کے لفظ کو رسول اللہ ﷺ کے طریقے اور عمل کے معنی میں ہی استعمال کرتے آئے ہیں ۔
سنن ابو داؤد میں ہے’’عَنْ عَاءِشَۃَ، اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ اِلَی عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ، فَجَاءَہُ، فَقَالَ: 171یَا عُثْمَانُ، اَرَغِبْتَ عَنْ سُنَّتِی187، قَالَ: لَا وَاللّہِ یَا رَسُولَ اللَّہِ، وَلَکِنْ سُنَّتَکَ اَطْلُبُ، قَالَ: 171فَاِنِّی اَنَامُ وَاُصَلِّی، وَاَصُومُ وَاُفْطِرُ، وَاَنْکِحُ النِّسَاءَ، فَاتَّقِ اللَّہَ یَا عُثْمَانُ، فَاِنَّ لِاَھْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، وَاِنَّ لِضَیْفِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، وَاِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، فَصُمْ واَفْطِرْ، وَصَلِّ وَنَمْ‘‘
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالی عنہ کو بلوایا ،وہ حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عثمان کیا تم میری سنت سے روگردانی کرتے ہو۔عرض کیا نہیں، اللہ کی قسم ! یارسول اللہ ﷺ میں تو آپ کی سنت کا طالب ہوں۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں(رات میں) آرام بھی کرتاہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں اورروزہ چھوڑ بھی دیتا ہوں اورمیں نے عورتوں سے نکاح بھی کیا ہے ۔اے عثمان اللہ سے ڈرو،بے شک تمہارے گھر والوں کا تم پر حق ہے اورتمہارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے اورتمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے ۔روزہ رکھو اورکبھی روزہ چھوڑ بھی دیا کرو اور نماز پڑھو اور(رات میں )آرام بھی کرلیاکرو‘‘۔[سنن ابوداؤد ،ج:۲،ص:۴۸،مکتبۃ العصریہ بیروت]۔
جامع ترمذی میں ہے’’َ اَنَس بْن مَالِکٍ، قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا بُنَیَّ، اِنْ قَدَرْتَ اَنْ تُصْبِحَ وَتُمْسِیَ لَیْسَ فِی قَلْبِکَ غِشٌّ لاَحَدٍ فَافْعَلْ ثُمَّ قَالَ لِی: یَا بُنَیَّ وَذَلِکَ مِنْ سُنَّتِی، وَمَنْ اَحْیَا سُنَّتِی فَقَدْ اَحَبَّنِی، وَمَنْ اَحَبَّنِی کَانَ مَعِی فِی الجَنّۃِ‘‘
ترجمہ: ’’حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے بیٹے اگر تم اس بات کی طاقت رکھتے ہو کہ تمہارے شب وروز اس طرح گزریں کہ تمہارے دل میں کسی کے لئے میل نہ ہو تو اس طرح ضرور کرو ،کیونکہ :اے بیٹے یہ میری سنتوں میں سے ہے اور جس نے میری سنت کو زندہ کیاتو درحقیقت اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا‘‘۔ [سنن ترمذی ،ج:۴،ص:۳۴۳،مطبوعہ ،مکتبہ دارالغرب،بیروت]۔
مسٹر غامدی کے نظریات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کیونکہ احادیث مبارکہ ہیں لہذا انہوں نے کھلم کھلا احادیث کا انکار کرنے کی بجائے شیطانی چال چلتے ہوئے پہلے سنت اور حدیث کوالگ الگ کیا اور پھر سنت کے ثبوت کے لئے اپنی طرف سے اجماع اور تواتر کی شرط لگا دی تاکہ اپنے اس ایک وار سے ہی ہزار ہا سنتوں اور احادیث کو باطل کر سکیں ۔
سنت خبر واحد سے بھی ثابت ہوجاتی ہے اور اس کے لئے اجماع اور تواتر کی شرط لگانا بے بنیاد اور بے اصل ہے ۔ آج تک اُمت کے معتمد اور ثقہ اہل علم میں سے کسی نے سنت کے ثبوت کے لئے تواتر کی شرط عائد نہیں کی۔ ترتیب احکام میں سب سے پہلے فرائض پھر واجبات پھر سنن پھر مستحبات کا درجہ آتا ہے ۔فرائض وواجبات جو سنت سے مقدم ہیں ان کا ثبوت تمام علماء اسلام کے نزدیک خبر واحد سے ہو سکتا ہے اس کے لئے اجماع یا تواتر ضروری نہیں اور خود مسٹر غامدی نے بھی فرائض وواجبات کے لئے تواتر واجماع کی شرط نہیں لگائی تو سنتوں کے ثبوت کے لئے تواتر اور اجماع کی شرط لگانا سنتوں کو باطل قرار دینے کے علاوہ اس کواور کیا نام دیا جاسکتا ہے ؟۔
علماء اسلام کے نزدیک سینکڑوں سنن (سنتیں ) اور ان کے احکام ایسے ہیں جو خبر واحد(اخبارِ آحاد) سے ثابت ہوتے ہیں اور بعض سنتوں میں صحابہ کااجماع تو دور کی بات اختلاف تک مذکور ہے ۔ مثلاً نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہونا۔ ابتداء میں صحابہ کرام علیھم الرضوان میں جنازے کی تکبیروں کے بارے میں احادیث مختلف ہونے کی وجہ سے اختلاف تھا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں چار تکبیریں ہونے پر اتفاق ہو گیا ۔
مبسوط للسرخسی میں ہے’’ان عمر رضی اللہ تعالی عنہ جمع الصحابۃ حین اختلفوا فی عدد التکبیرات وقال لھم انکم اختلفتم فمن یاتی بعدکم اشد اختلافا فانظروا آخر صلاۃ ،صلاھا رسول اللہ ﷺ علی جنازۃ فخذوا بذلک فوجدوہ صلی علی امراۃ کبر علیھا اربعاً فاتفقوا علی اربع رکعات‘‘
ترجمہ:’’جب نماز جنازہ کی تکبیرات کی تعداد میں اختلاف ہوا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کو جمع کیا اور ان سے فرمایاجب تم اس میں اختلاف کرتے ہو تو جو تمہارے بعد آئیں گے ان کے درمیان تو بہت زیادہ اختلاف ہو گا،تم رسول اللہ ﷺ کی آخری نماز جنازہ پڑھانے کو دیکھو اور اسی کو اختیار کرو ۔صحابہ کرام علیھم الرضوان نے یہ پایا کہ رسول اللہ ﷺ نے (آخری مرتبہ)ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھائی تھی اوراس میں چار تکبیریں کہیں تھیں لہذا تمام صحابہ کرام کا چار تکبیرات پر اتفاق ہوگیا ‘‘۔[کتاب المبسوط،ج:۳،ص:۱۰۰،مطبوعہ،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ]۔
اسی طرح چند اور سنتیں درج ذیل ہیں :
(۱) مَردوں کاایک مشت داڑھی رکھنا ۔
(۲) شہید کی میت کو نہ توغسل دینا اور نہ اسے کفن پہنانا۔
(۳) عورت پر جمعہ کی نماز کا فرض نہ ہونا۔
(۴) ماں کی عدم موجودگی میں میت کی دادی کو وراثت میں سے چھٹا حصہ دینا۔
(۵) ایسی عورت جس کا نکاح میں مہر مقرر نہیں کیا گیا اور رخصتی سے قبل اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ،اس کو مہر مثل اور میراث سے حصہ دینا اور عدت کا اس پر لازم ہونا ۔
(۶) وارث کے حق میں وصیت کا ناجائز ہونا۔
(۷) ایک تہائی سے زائد وصیت کا نافذ نہ ہو نا۔
(۸) حضور ﷺ کی وراثت کا تقسیم نہ ہونا۔
(۹) مفتوح پارسیوں (مجوسیوں )سے جزیہ لینا۔
(۱۰) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد خلیفۃ المسلمین کا قریش میں سے ہونا۔
(۱۱) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں دنیا سے پردہ فرمایااسی جگہ آپ کی تدفین ہونا ۔
(۱۲) مردوں کے لئے ریشم اورسونے کا استعمال ممنوع ہونا۔
(۱۳) مدینہ منورہ کا حرم ہونا۔
(۱۴) قرآنِ مجید کی تلاوت کے وقت مقاماتِ سجود پرسجدہ کرنا۔
اس طرح کے بے شمار احکام اورسنن ہیں جو خبرواحد سے ثابت ہوتے ہیں ۔لیکن مسٹرغامدی کے نزدیک ان میں سے کوئی سنت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ شاید ان کے دین کا قبلہ مغرب ہے اور وہاں کی سنتیں ہی ان کے نزدیک ثابت شدہ ہیں ۔ مسٹرغامدی کا حلیہ دیکھ کرہماری اس بات کی صداقت کی گواہی ہر شخص باخوبی دے سکتا ہے کہ داڑھی مونچھ صاف اور ننگے سر بے پردہ عورتوں کے جھرمٹ میں بیٹھنے والے شخص کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کے بجائے مغرب کی سنتیں ہی قابل تقلید اور قابل عمل ہیں ۔
شاعر مشرق کا ایک شعر کچھ تصرف کے ساتھ ان پر بالکل صادق آتا ہے :۔
وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود
یہ غامدی ہے جسے دیکھ کے شرمائیں یہود
واللہ تعالی اعلم ۔کتبہ : غلام مرتضیٰ مظہری

No comments:

Post a Comment