دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Monday 4 May 2015

حدیث سے قرآن کے نسخ اور اس کی تحدید وتخصیص اور مسٹر غامدی کے خود ساختہ اصول۔(تیسری قسط)


حدیث سے قرآن کے نسخ اور اس کی تحدید وتخصیص اور مسٹر غامدی کے خود ساختہ اصول۔
مسٹرغامدی کے انکارِ حدیث کا سلسلہ بہت طویل ہے ، انہوں نے فہم حدیث کے لئے اپنے خود ساختہ اُصول بنا رکھے ہیں جن کا نتیجہ انکارِ حدیث کی صورت میں نکلتا ہے ۔ وہ حدیث اور سنت کا لفظ تو استعمال کرتے ہیں لیکن ان کے مسلمہ مفہوم کو اپنی طرف سے تبدیل کر کے اس کو خود ساختہ ایک ایسا نیا مفہوم عطاء کرتے ہیں جس کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین سے لے کرآج تک کسی عالم کے کانوں نے نہ سنا اور نہ کسی کتاب میں پڑھا ۔وہ مسلّمہ اصطلاحات کا مفہوم بدل کر حدیث کو دین سے خارج سمجھتے ہیں اور حدیث کے ثبوت کے لئے خودساختہ ،من گھڑت ،اپنی طرف سے اجماع اور تواترکی شرائط عائد کرتے ہیں۔
مسٹر غامدی اپنے خودساختہ ثبوتِ حدیث کے اصول کی وجہ سے حدیث سے کسی قرآنی حکم کی تخصیص و تحدید واقع ہونے کا بھی انکار کرتے ہیں ۔
چنانچہ وہ اپنی کتاب’’میزان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:’’قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی، یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے ، اُس کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا۔ دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ اس کی آیاتِ بینات ہی کی روشنی میں ہو گا۔[میزان ،ص:۲۵،طبع سوم مئی ۲۰۰۸لاہور]۔
مسٹرغامدی کا یہ دعویٰ بھی بالکل غلط ہے کہ حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص نہیں ہوتی۔ حدیث کے ذریعے قرآنِ مجید کے بہت سے احکام کی تحدید اور تخصیص ہوئی ہے۔
حدیث سے قرآنی حکم کی تحدید کی مثالیں:
(۱) اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے :
’’ وَاللاَّتِیْ تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیّاً کَبِیْراً‘‘
ترجمہ کنزالایمان:جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤ اورانہیں مارو، پھر اگر وہ تمہارے حکم میں آجائیں تو ان پر زیادتی کی کوئی راہ نہ چاہو۔ بے شک اللہ بلند بڑا ہے‘‘۔[النساء،آیت:۳۴]۔
اس آیت کے الفاظ: وَاضْرِبُوہُنّ’’(اور ان بیویوں کو مارو) مطلق تھے اور یہ مارنا ہر طرح مارنا ہو سکتا تھااگرچہ اس سے زخم ہی کیوں نہ آجائے ۔ لیکن ایک حدیث کے ذریعے قرآن کے اس مطلق حکم میں یہ تحدید (تقیید) ہو گئی ہے کہ صرف ایسی ہلکی مار جائز ہے جو شدید تکلیف دہ نہ ہو اور نہ ہی اس سے کسی عضو کو زخم یا نقصان پہنچے ۔
صحیح مسلم شریف کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’فاضربوھن ضربا غیر مبرح‘‘۔
ترجمہ:’’پس تم ان کوایسا مار سکتے ہو جو تکلیف دہ نہ ہو۔یعنی جس سے کسی عضو کو نقصان نہ پہنچے‘‘۔ [صحیح مسلم ،حدیث:۲۹۵۰]۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مسٹر غامدی نے خود اپنے من گھڑت اُصول کہ حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید نہیں ہو سکتی کی مخالفت کرتے ہوئے قرآن کی مذکورہ آیت کے حکم وَاضْرِبُوْھُن(اور ان بیویوں کو مارو) کی تحدیدحدیث کے ذریعے کی ہے کہ اس سے مراد صرف ایسی سزا ہے جو پائیدار اثر نہ چھوڑے ۔
چنانچہ وہ اپنی کتاب’’میزان‘‘ کے باب ’’قانونِ معاشرت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’نبی ﷺ نے اس کی حد’’غیر مبرح‘‘کے الفاظ سے متعین فرمائی ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی سزا نہ دی جائے جو کہ پائیدار اثر چھوڑے‘‘[میزان ،ص:۴۲۳] ۔
(۲) سورۂ بقرہ میں اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے ’’وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ہُوَ أَذًی فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاء فِیْ الْمَحِیْضِ وَلاَ تَقْرَبُوہُنَّ حَتَّیَ یَطْہُرْنَ‘‘
ترجمہ کنز الایمان ’’تم سے پوچھتے ہیں حیض کا حکم ۔تم فرماؤ وہ ناپاکی ہے، تو عورتوں سے الگ رہو حیض کے دنوں اور ان سے نزدیکی نہ کرو جب تک پاک نہ ہو لیں‘‘۔[البقرۃ،آیت:۲۲۲]۔
اس آیت کے الفاظ ’’ فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاء فِیْ الْمَحِیْضِ‘‘(پس تم بیویوں سے اُن کے حیض کی حالت میں الگ رہو)میں بیویوں سے علیحدہ رہنے کا مطلق حکم دیا گیا جس کی کوئی حد بندی بیان نہیں کی گئی ،اس کا یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ ایسی حالت میں بیویوں سے الگ تھلگ رہو، اُن کو الگ مقام پر رکھو، ان کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دو اور ان سے میل جول نہ رکھو۔ لیکن اس بارے میں صحیح احادیث نے قرآن کے اس مطلق حکم کو مقید کر دیا کہ ایسی حالت میں بیویوں سے صرف خاص تعلق منع ہے ، اس کے سوا سب کچھ جائز ہے ۔ 
مسٹر غامدی کا حافظہ انتہائی کمزور ہے اس لئے اپنے خود ساختہ اصول کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے یہاں بھی حدیث کے ذریعے قرآن کے اس مطلق حکم کی تحدیدکو تسلیم کیا ہے ۔
مسٹر غامدی اپنی کتاب میزا ن میں حدیث نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’انہی(سیدہ عائشہؓ) سے روایت ہے کہ ہم میں سے کوئی حیض کی حالت میں ہوتی اور رسول اللہ ﷺ اس کے قریب آنا چاہتے تو ہدایت کرتے کہ حیض کی جگہ پر تہہ بند باندھ لے ، پھر قریب آجاتے ۔بخاری،رقم۳۰۲‘‘۔[میزان ،ص،۴۳۳]۔
مسٹرغامدی کی ان حرکتوں سے لگتا ہے وہ کسی خاص منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔جب ان کے منصوبے کی راہ میں کوئی حدیث آتی ہے تو وہ اپنے خود ساختہ ،من گھڑت اصول کی تلوار ہاتھ میں لے کر حدیث کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب کوئی ایسی حدیث جوان کے منصوبے کی راہ میں حائل نہ ہو یاوہ اپنے منصوبے کی تائید کسی حدیث کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اگرچہ اس حدیث کے ذریعے قرآن کے مطلق حکم کی تقیید کی جارہی ہو توبلا چوں وچرا اپنے خود ساختہ اصول کو ایک طرف رکھ کر حدیث کے ذریعے قرآن کے مطلق حکم کی تحدید کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔
حدیث کے ذریعے کسی قرآنی حکم میں تخصیص کی مثالیں:
(۱) اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے:
’’ یُوصِیْکُمُ اللّہُ فِیْ أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْْنِ ‘‘
ترجمہ کنز الایمان:’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر ہے ‘‘۔[النساء،آیت:۱۱]۔
اس آیت سے واضح ہے کہ اولاد ہر حال میں اپنے والدین کے ترکے کی وارث ہو گی اور بیٹے کو بیٹی سے دگنا حصہ ملے گا۔ لیکن ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ:
(لا یرث القاتل شیئاً)
ترجمہ:( اپنے مورث کو قتل کرنے والا)قاتل اس کا وارث نہیں ہوسکتا‘‘۔ [سنن ابو داؤد ،کتاب الدیات ،حدیث:۴۵۶۴]۔
اس لئے اگر کوئی بد بخت لڑکا اپنے باپ کو قتل کر دے گا تو مذکورہ حدیث کے حکم کے مطابق اپنے مقتول باپ کی میراث سے محروم ہو جائے گا۔
قرآن کا حکم عام تھا کہ ہر بیٹا اپنے باپ کے ترکے کا وارث ہو گا مگر حدیث نے قاتل بیٹے کی تخصیص کر دی کہ وہ اپنے باپ کے ترکے کا وارث نہیں ہو سکتا۔ اہل علم کا اسی پر اتفاق اور اجماع ہے کہ قاتل کو مقتول کی وراثت سے محروم کیا جائے گا۔ 
(۲) اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے :
’’وَأَحَلَّ اللّہُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا‘‘
ترجمہ کنز الایمان:’’اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سُود ‘‘۔[البقرۃ،آیت:۲۷۵]۔
یہ آیت کریمہ ہر طرح کی تجارت کو حلال ٹھہر اتی ہے ، کیونکہ بیع کا لفظ عام ہے ۔ لیکن صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حدیث پاک میں ہے :
’’ان اللہ ورسولہ حرَّما بیع الخمر والمیتۃوالخنزیر والأصنام‘‘۔
’’بے شک اللہ اور اُس کے رسول ﷺ نے شراب، مردہ جانور، خنزیر اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے‘‘ ۔[صحیح بخاری،کتاب البیوع ،حدیث:۲۲۳۶]۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں شراب، مردہ جانور، خنزیر اور بتوں کی تجارت حرام ہے ۔ اب اگر قرآن کے حکم کے عموم کو دیکھا جائے تو ہر قسم کی تجارت حلال ہے اور اس میں مردار، خنزیر اور بتوں کی تجارت بھی شامل ہے ۔لیکن حدیث پاک نے قرآن کے اس عمومی حکم سے مذکورہ چار چیزوں کی تخصیص کر دی کہ ان چار چیزوں کی تجارت حلال نہیں ہے ۔
اب اگرمسٹر غامدی کے خود ساختہ ،من گھڑت اُصول کو مانا جائے کہ حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تخصیص نہیں ہو سکتی تو پھر مذکورہ صحیح حدیث کا انکار کرنا پڑے گا اور اسلام میں شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی تجارت بھی حلال ہو جائے گی۔شاید مسٹر غامدی کا مشن یہی ہے کہ ان کے سرپرستوں کی طرح مسلمانوں میں بھی ان چار چیزوں کا رواج عام ہو جائے اور اپنے اس مذموم مقصد کے لئے وہ قرآن کی اس آیت کے عموم کو استعمال کریں گے اور ان کے مقصد میں حائل رکاوٹ مذکورہ حدیث پاک کو اپنے اس خودساختہ من گھڑت مذکورہ اصول کے ذریعے رد کرنے کی ناپاک کوشش کریں گے ۔یہ چار چیزیں مسٹر غامدی کی شریعت میں تو جائز ہوسکتی ہیں لیکن اسلامی شریعت میں ان چار چیزوں کی حرمت قطعی ہے اور اس کا ثبوت حدیث پاک کے ذریعے ہی مسلمانوں کو حاصل ہوا ہے ۔

No comments:

Post a Comment