دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Monday 4 May 2015

جانوروں کی حلت وحرمت کے بارے میں مسٹر غامدی کا نظریہ فطرت(چوتھی قسط)

جانوروں کی حلت وحرمت کے بارے میں مسٹر غامدی کا نظریہ فطرت 
مسٹرغامدی صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ شریعت نے کھانے کے جانوروں میں صرف چار چیزوں (۱)سؤر(۲)خون(۳)مردار اور(۴) خدا کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کو حرام قرار دیا ہے ۔مسٹر غامدی صاحب اپنی کتاب 146146میزان145145کے باب (اصول ومبادی) میں لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے سے اسے بتایا کہ سؤر، خون، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پرذبح کیے گئے جانور بھی کھانے کے لیے پاک نہیں ہیں اور انسان کو ان سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ جانوروں کی حلت وحرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں۔ چنانچہ قرآن نے بعض جگہ 146قُل لَّا اَجِدُ فِیْمَا اُوْحِیَ‘‘ اور بعض جگہ ’’اِنَّمَا‘‘ کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں صرف یہی چار چیزیں حرام قرار دی ہیں۔(میزان، جاوید احمد غامدی۶۳۲،طبع سوم)۔
مسٹرغامدی نے اپنے ایک من گھڑت اورغلط اصول کہ’’ حدیث کے ذریعے سے قرآن پر اضافہ یا اس کا نسخ نہیں ہو سکتا‘‘ کو سیدھا کرنے کے لیے یہ سارا فلسفہ گھڑا۔مسٹر غامدی صاحب کے نزدیک گدھا حرام ہے ، لیکن اس لیے نہیں کہ شریعت نے اسے حرام قرار دیا ہے ، بلکہ ان کی فطرت انھیں یہ بتلاتی ہے کہ گدھا سواری کرنے کا جانور ہے نہ کہ کھانے کا، اس لیے یہ فطری محرمات میں سے ہے ۔
مسٹر غامدی اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب’’ اصول ومبادی‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’146اسے (یعنی انسان کو) معلوم ہے کہ گھوڑے ، گدھے دسترخوان کی لذت کے لیے نہیں، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔145145(میزان، جاوید احمد غامدی ص:۶۳۲)۔
مسٹر غامدی کی فطرت کا اونٹ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ وہ بھی تو سواری کا جانور ہے !حقیقت تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عرب میں سواری کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا جانور اونٹ تھا، اس کے بعد گھوڑا، جبکہ گدھے کا استعمال سواری کے لیے بہت کم تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مسٹرغامدی صاحب کی فطرت گدھے کو حرام اور اونٹ کو حلال قرار دیتی ہے ؟ اگرمسٹر غامدی یہ کہیں کہ: اونٹ کو قرآن نے حلال قرار دیا ہے تو پھر مسٹرغامدی کے اپنے من گھڑت اصول کہ چار ہی چیزیں حرام ہیں کا جنازہ نکل جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ مسٹر غامدی نے فطری محرمات کا اصول گھڑ کر دین میں ایک نئے فتنے کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی ہے۔ کسی چیز کو حلال وحرام ٹھہرانے کا اختیاراصلاً اللہ تعالی جل شانہ کے پاس ہے اور تبعاً اس کے رسول ﷺ کے پاس ہوتا ہے ۔مسٹر غامدی مغرب کی تقلید کرتے ہوئے انسانی فطرت کی سربلندی کا نعرہ لگا کر عام انسانوں کو تحلیل و تحریم کا اختیار تفویض کرناچاہتے ہیں۔مسٹر غامدی کو یہ اختیار کس نے دیاہے کہ وہ عام انسانوں کے بارے میںیہ کہیں کہ وہ اپنی فطرت سے جس چیز کو چاہیں حلال بنا لیں اور جس چیز کو چاہیں حرام ٹھہرا لیں؟ آج انسانوں کی ایک کثیر تعداد چائنا ،افریقہ میں بستی ہے اور بہت سی ایسی غذائیں مثلاً حشرات الارض وغیرہ کھانا بھی ان کی روزہ مرہ کی زندگی کا عام حصہ ہے ۔مسٹر غامدی یا تو ان کروڑوں انسانوں کو انسان ہی نہیں مانتے یا ان کے نزدیک یہ کروڑوں لوگ انسانی فطرت سے ہی محروم ہیں ۔
قرآن نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ تحلیل و تحریم کا اختیار کسی انسان کے پاس نہیں ہے ۔ مشرکین مکہ نے جب اپنی طرف سے بعض کھانے کی چیزوں کو حرام ٹھہرا لیا تو قرآن نے ان کے اس فعل کی مذمت فرمائی ۔ 
سورۃ الانعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’وَحَرَّمُوْا مَا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ افْتِرَاءً عَلَی اللّٰہِ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا کَانُوْا مُہْتَدِیْن‘‘
ترجمہ کنز الایمان:’’حرام ٹھہراتے ہیں وہ جو اللہ نے انہیں روزی دی ،اللہ پر جھوٹ باندھنے کو، بے شک وہ بہکے اور راہ نہ پائی ‘‘۔[الانعام ،آیت:۱۴۰]۔
اگر شریعت نے بقول مسٹر غامدی کھانے کے جانوروں میں صرف چار کو ہی حرام قرار دیا تھا اور باقی جانوروں کی حلت و حرمت کا فیصلہ انسانی فطرت پر چھوڑ دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے اس فعل کی مذمت کیوں فرمائی کہ انھوں نے اپنی مرضی سے بعض جانوروں کو حرام ٹھہرا لیا۔ 
رسول اللہ ﷺ کا غامدی فتنے سے آگاہ کرنا
رسول اللہ ﷺنے مسٹر غامدی اور ان جیسے دیگر فتنوں کے بارے میں امت کو پہلے ہی آگاہ فرمادیا تھا تاکہ بھولے بھالے مسلمان ان کی چکنی چپڑی ،دجل وفریب پر مبنی باتوں میں نہ آئیں اور اپنے ایمان کی حفاظت کر سکیں۔
صحیح مسلم میں ہے’’عن ابی ہریرۃقال :قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: 171یَکُونُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ کَذَّابُونَ، یَاْتُونَکُمْ مِنَ الْاَحَادِیثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا اَنْتُمْ، وَلَا آبَاؤُکُمْ، فَاِیَّاکُمْ وَاِیَّاھُمْ، لَا یُضِلُّونَکُمْ، وَلَا یَفْتِنُونَکُمْ‘‘۔
ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: آخری زمانہ میں بہت سے مکرو فریب کرنے والے جھوٹے دجال ہوں گے جو تم سے (دین کے بارے میں )ایسی باتیں کریں گے جو نہ تم نے سنی ہو ں گی اور نہ تمہارے آباؤ اجداد نے۔ ان کوخود سے اورخود کو ان سے دور رکھو کہ کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں اورتمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘۔[صحیح مسلم ،ج:۱،ص:۱۲،مطبوعہ دارالحیاء بیروت]۔
ابوداؤد میں ہے’’عن عرباض بن ساریۃ ......قال :قَامَ، فَقَالَ: اَیَحْسَبُ اَحَدُکُمْ مُتَّکِءًا عَلَی اَرِیکَتِہِ، قَدْ یَظُنُّ اَنَّ اللَّہَ لَمْ یُحَرِّمْ شَیْءًا اِلَّا مَا فِی ھذَا الْقُرْآنِ، اَلَا وَاِنِّی وَاللَّہِ قَدْ وَعَظْتُ، وَاَمَرْتُ، وَنھَیْتُ، عَنْ اَشْیَاءَ اِنَّھَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ، اَوْ اَکْثَرُ‘‘۔
ترجمہ:’’ حضرت عرباض ابن ساریہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا: کیا تم میں سے کوئی پلنگ پر تکیہ لگا ئے یہ گمان کرسکتا ہے کہ اﷲ نے سوائے ان چیزوں کے کوئی چیز حرام نہ کی جو قرآن میں ہیں ؟آگاہ رہو کہ اللہ کی قسم : میں نے وعظ فرمائے ،بہت سے احکام دیئے اور بہت چیزوں سے منع کیا جو قرآن کے برابر یا اس سے بھی زیادہ ہیں ‘‘۔[ابو داؤد ،ج:۳،ص:۱۷۰،مکتبۃ العصریۃ،بیروت]۔
سنن ابو داؤد میں ہے’’عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی کَرِبَ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہُ قَالَ: 171اَلَا اِنِّی اُوتِیتُ الْکِتَابَ، وَمِثْلَہُ مَعَہُ الَا یُوشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَی اَرِیکَتِہِ یَقُولُ عَلَیْکُمْ بِھَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِیہِ مِنْ حَلَالٍ فَاَحِلُّوہُ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِیہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوہُ، اَلَا لَا یَحِلُّ لَکُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْاَھْلِیِّ، وَلَا کُلُّ ذِی نَابٍ مِنَ السَّبُعِ، وَلَا لُقَطَۃُ مُعَاھِدٍ، اِلَّا اَنْ یَسْتَغْنِیَ عَنہَا صَاحِبُھَا‘‘
ترجمہ:’’حضرت مقدام ابن معد یکرب سے روایت ہے فرماتے ہیں :رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :خبردارر ہو کہ مجھے قرآن بھی دیا گیا اور اس کے ساتھ اس کا مثل بھی ۔ خبردار قریب ہے کہ ایک پیٹ بھرا شخص اپنی مسہری پربیٹھا ہوا کہے گا، کہ صرف قرآن کو تھام لو اس میں جو حلال پاؤ اسے حلال جانو اور جو حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔ دیکھو تمہارے لیے نہ تو پالتو گدھا حلال ہے اور نہ کوئی کیلے(نوکیلے دانت ) والا درندہ جانوراورنہ ہی ذمی کافر کی گم شدہ چیز مگر جب اس کا مالک اس سے لاپرواہ ہوجائے ‘‘۔[سنن ابو داؤد،ج:۴،ص:۲۰۰،حدیث:۶۴۰۴،مکتبۃ العصریۃ بیروت]۔
سنن الدارمی میں ہے’’عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یکَرِبَ الکِنْدِیِّ اَنَّ رَسُولَ اللہ صَلی اللہ عَلیہِ وسَلم حَرَّمَ اَشْیَاءَ یَوْمَ خَیْبَرَ, الْحِمَارَ وَغَیْرَہُ، ثُمَّ قَالَ: لَیُوشِکُ بِالرَّجُلِ مُتَّکِءًا عَلَی اَرِیکَتِہِ یُحَدَّثُ بِحَدِیثِی فَیَقُولُ: بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللہ, مَا وَجَدْنَا فِیہِ مِنْ حَلَالٍ اسْتَحْلَلْنَاہُ, وَمَا وَجَدْنَا فِیہِ مِنْ حَرَامٍ حَرَّمْنَاہُ, اَلَا وَاِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللہِ فَھُو مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللہُ‘‘
ترجمہ: ’’حضرت معدیکرب کندی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن کچھ چیزوں گدھے وغیرہ کو حرام قرار دیا پھر فرمایا: ایک پیٹ بھرا شخص اپنی مسہری پر بیٹھا ہوگا اس کو میری احادیث میں سے کوئی حدیث بیان کی جائے گی تو وہ کہے گا ہمارے پاس کتاب اللہ (قرآن ) ہے جو اس میں حلال پائیں گے اس کو حلال جانیں گے اور جو اس میں حرام پائیں گے اس کو حرام جانیں گے ۔خبردار! جو چیز رسول اللہ نے حرام قرار دی ہے وہ اللہ تعالی کی حرام کردہ چیز کی طرح ہی حرام ہے‘‘۔[سنن الدارمی ،ص:۲۰۴،مطبوعہ مکتبہ دار البشائر،بیروت]۔واللہ تعالی اعلم 

No comments:

Post a Comment