دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Monday 4 May 2015

مسٹرجاوید غامدی کے نظریات (مقدمہ)پہلی قسط

اسلام کے مختلف ادوار میں جنم لینے والے بہت سے فتنوں مثلا خوارج، روافض، معتزلہ، باطنیہ، بہائیہ، بابیہ، وہابیہ، قادیانیت، اور منکرین حدیث وغیرہم کی طرح پاکستان میں چند برس پیشتر ایک نئے فتنے نے سر اٹھایا ہے جو تجدد پسندی کی کوکھ سے برآمد ہوا ہے اور اس نے اسلام کے متوازی ایک مذہب کی شکل اختیار کرلی ہے جس کا نام ’’فتنہ ء غامدیت‘‘ہے۔یہ دور حاضر کاایک تجدد پسند گروہ (Miderbusts) ہے ۔ جس نے مغرب سے مرعوب و متاثر ہوکر دین اسلام کا جدید ایڈیشن تیار کرنے کے لئے قرآن و حدیث کے الفاظ کے معانی اور دینی اصطلاحات کے مفاہیم بدلنے کی ناپاک کوشش کی ہے ۔برصغیر پاک و ہند میں تجدد پسندی کی آڑ میں دینی مسلّمات میں تحریف کرنے کے فتنے کی ابتدا دور جدید میں سرسید احمد خان علیگڑھی نے کی۔ انگریز سامراج سے اپنی مرعوبانہ ذہنیت کی بنیاد پر مغربی نظریات کو مسلّمہ حقائق کا درجہ دے کر وحی کو ان کے مطابق ڈھالنے کے لئے من مانی تاویلات کے شیطانی کام کی ابتداء کا سہرا انہی کے سر ہے ۔ مغربی افکار کی رو سے ہر وہ بات جوطبعی قوانین کے خلاف ہو انہوں نے اسے خلاف عقل قرار دے کر رد کردیااورقدرت (نیچریت) کی برتری کا نعرہ لگایا۔ لغت عرب کی مدد سے قرآن کی من گھڑت تاویلات پیش کیں۔ احادیث کو مشکوک قرار دیا اور امت کے اجتماعی معاملات اورطرز عمل کو آئمہ و مجتہدین کے ذاتی خیالات و اجتہادات کہہ کر نظر انداز کردیا۔ نتیجے کے طور پر نیچرو لغت کی بنیاد پر وضع کردہ اصول کے تحت اسلام کی جوتعبیرو تشکیل نو مسلمانوں کے سامنے آئی وہ ان کے صدیوں کے اجتماعی تعامل سے یکسر بیگانہ تھی۔پھر ان کی پیروی میں دو فکری سلسلوں نے اس فتنے کو پروان چڑھایا۔ ان میں سے ایک سلسلہ عبداﷲ چکڑالوی اور شیخ اسلم جیراج پوری سے ہوتا ہوا غلام احمد پرویزمنکر حدیث تک پہنچتا ہے جو اپنے امام سرسید احمد علیگڑھی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لغت پرستی اور انکارسنت کے حوالے سے کافی معروف ہوئے ۔دوسرے سلسلے کے جراثیم حمید الدین فراہی اورشیخ امین احسن اصلاحی سے گزرتے ہوئے مسٹر جاوید احمد غامدی میں منتقل ہوئے ۔فہم سلف سے منحرف ،متجدد فکر ، روشن خیال اور مرعوب زدہ طبقے میں 146146المورد145145ادارہ علم و تحقیق سب میں پیش پیش ہے ۔جس کے سربراہ مسٹرجاوید احمد غامدی ہیں۔ انہوں نے اس احتیاط کے پیش نظر کہ کہیں علماء انہیں بھی سرسید اور پرویز کے ساتھ منسوب نہ کر دیں، لغتِ قرآن کے بجائے عربی معلی یعنی عربی محاورے کا نعرہ لگایااور انکار سنت کا کھلم کھلا دعوی کرنے کی بجائے حدیث و سنت میں فرق کے عنوان سے اس مقصد کو پورا کیا۔یہ دونوں فکری سلسلے ’’فتنہء سرسید‘‘کی شاخیں اور برگ و بار ہیں اور’’نیچریت‘‘کے نمائندہ ہیں۔ اگرچہ غلام احمدپرویز اورمسٹر غامدی کا طریقہ واردات الگ الگ ہے،تاہم نتیجے کے اعتبار سے دونوں یکساں ہیں ۔دونوں تجدد، انکار حدیث، الحاد اور گمراہی کے علم بردار ہیں۔ دونوں اجماع امت کے مخالف اور معجزات کے منکر ہیں۔ یہ دونوں حضرات فاسد تاویلوں کے ذریعے اسلامی شریعت میں تحریف و تبدیل اور ترمیم وتنسیخ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ مسٹر غامدی نے دور حاضر میں تجدد اور انکار حدیث کی نئی بنیاد ڈالی ہے اور اپنے چند خود ساختہ اصول کو تحقیق کا نام دے کر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی جسارت کی ہے ۔مسٹر غامدی احادیث صحیحہ کے انکار کے ساتھ ساتھ قرآن کی معنوی تحریف کے بھی عادی ہیں ،ہر وہ اہل علم جو ان کی کتب کا مطالعہ کرے گا بآ سانی اسی نتیجے پر پہنچے گا ۔مسٹرغامدی اپنے حلقہ احباب میں بزعم خود ’’امامت‘‘ کے منصب کے قریب تر ہونے کے شیطانی فریب میں مبتلا ہیں اورمسٹرغامدی کے (5)نزدیک پوری امت میں سے صرف دو ہی علماء ان کے زعم میں ان کے ممدوح ہیں جن کو وہ’’آسمان‘‘ کا درجہ دیتے ہیں، جبکہ باقی علمائے امت کو وہ’’خاک‘‘ قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب مقامات میں لکھتے ہیں کہ:’’میں نے بھی بہت عالم دیکھے ، بہتوں کو پڑھا اور بہتوں کو سنا، لیکن امین احسن اصلاحی اور ان کے استاد حمید الدین فراہی کا معاملہ وہی ہے کہ :غالب نکتہ داں سے کیا نسبت خاک کو آسماں سے کیا نسبت (مقامات، ص 52۔58، طبع دسمبر 2001)یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مسٹر غامدی جس اسلام کو پیش کررہے ہیں وہ پرویز وسرسید کا اعتزالی اسلام ہے ،جس کا وہ دین اسلام جو رسول اللہ ﷺ لے کر آئے اور جو حضرات صحابہ وتابعین وعلماء دین رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور استعماری طاقتوں کے عزائم کے سامنے دین اسلام ہی سب سے بڑی رکاوٹ وہدف ہے ،لہذا وہ ایسے افراد کی بھر پور حمایت اور اعانت کرتے ہیں جومسلمانوں میں جدت کے نام پر غیر اسلامی افکار کا جواز نکالتے ہیں اور ان کے اجماعی معاملات کو متنازعہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے مسٹرغامدی اور ان کے معاصرین نام نہاد دیگر دانشور وں کو اہل مغرب کی خاص معاونت و حمایت حاصل ہے ۔ مغربی ممالک کے ٹکڑوں پر پلتے نام نہاد اسلامی و پاکستانی میڈیاکے دروازے ان حضرات پرکھلے ہیں ،تا کہ یہ دین سے ہی خلافِ دین حرکات کی جھوٹی تاویلات پیش کرکے عام مسلمانوں کو گمراہ کریں ۔اور یہ بات اب مخفی نہیں ہے کہ عالمی استعماری طاقتوں نے ایک خصوصی کمیشن تشکیل دے کرکروڑوں ڈالرپرمشتمل ایک بہت بڑا فنڈ اس مد میں مختص کررکھا ہے ۔یہ کمیشن دین اسلام کی غلط اور من گھڑت تصویر پیش کر نے والوں کی حوصلہ افزئی کرتاہے ۔ مسٹرغامدی اور ان کے نظریات کے بطلان کے وہی دلائل ہیں جو ان کے پیش رو، سر سید ،غلام احمد پرویز وغیرہما کے رد میں علماء اسلام نے پیش فرمائے ہیں اوراس طرح کے متجدین کے رد کے لئے اتنی بات ہی کافی ہے کہ ان کا پیش کردہ نظریہ اور فکر سلف صالحین ،صحابہ کرام وتابعین عظام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے نظریے اور فکرسے متصادم ومخالف ہے اور ہر مسلمان بخوبی یہ بات سمجھتا ہے کہ حقیقتاً اسلام وہی ہے جو صحابہ کرام علیھم الرضوان کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے اور اس کے مخالف جو بات بھی ہے وہ سب کچھ ہو سکتی ہے مگر اسے اسلام کا نام نہیں دیا جاسکتا۔مسٹرغامدی کا جو بھی نظریہ ہے وہ یقیناًان کا خود ساختہ ہے اور سلف صالحین میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔سوال میں مذکور ان کے نظریات کامختصراً علیحدہ علیحدہ رد تحریر کیا جاتا ہے تاکہ بھولے بھالے مسلمان ان ذیاب فی ثیاب ایمان کے شکاری درندوں کو پہچان کر ان سے اپنے دین وایمان کی حفاظت کر سکیں ۔

غلام مرتضیٰ مظہری

No comments:

Post a Comment