دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Monday 4 May 2015

قراء ات متواترہ اور مسٹر غامدی کا فتنہءِ عجم۔۔۔۔قسط(۲)


قراء ات متواترہ اور مسٹر غامدی کا فتنہءِ عجم
مسٹرغامد ی نے امت کے جن متفقہ ،مسلمہ اور اجماعی امور کا انکار کیا ہے ،ان میں سے ایک قرآن کریم کی قرا ء ات متواترہ کو نا ماننا بھی ہے ۔ان کے نزدیک قرآن کی صرف ایک ہی قرا ء ت صحیح ہے جو ان کے بقول ’’قر اء ت عامہ‘‘ہے جسے علماء نے غلطی سے 
’’قرا ء ت حفص ‘‘کا دے دیا ہے ۔اس ایک قرا ء ت کے سوا باقی سب قرا ء توں کو مسٹر غامدی عجم کا فتنہ قرار دیتے ہیں ۔اس کے علاوہ وہ پورے وثوق اور یقین کے ساتھ یہ فتوی دیتے ہیں کہ قرآن کا متن اس ایک قرا ء ت کے سوا کسی دوسری قرا ء ت کو قبول ہی نہیں کرتا۔
چنانچہ وہ اپنی کتاب میزان میں لکھتے ہیں ’’یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قرا ء ت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی جو قراء تیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں ،یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں ،وہ سب اسی فتنہ ء عجم کی باقیات ہیں جن کے اثرات سے ہمارے علوم کا کوئی شعبہ ،افسوس ہے کہ محفوظ نہ رہ سکا‘‘۔[میزان ،ص:۳۲،طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ء]۔
وہ مزید لکھتے ہیں ’’قرآن صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے اور جسے مغرب کے چند علاقوں کو چھوڑ کرپوری دنیا میں امت مسلمہ کی عظیم اکثریت 
اس وقت تلاوت کر رہی ہے ۔یہ تلاوت جس قراء ت کے مطابق کی جاتی ہے ،اس کے سوا کوئی دوسری قرا ء ت نہ قرآن ہے اور نہ اسے قرآن کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے‘‘۔[میزان ،ص:۲۷،طبع سوم،مئی۲۰۰۸ء]۔
کچھ صفحات کے بعد پھرمسٹر غامدی کاانوکھا ارشاد ہوتا ہے کہ:’’قرآن کا متن اس کے علاوہ کسی دوسری قر اء ت کو قبول ہی نہیں کرتا ‘‘
قرآن کریم کی قرا ء ات کے بارے میں مسٹرغامدی کے مذکورہ اقتباسات سے واضح ہوا کہ ان کے نزدیک :
(۱) قرآن کریم کی صرف ایک ہی قر ا ء ت درست ہے ۔
(۲)بقیہ تمام قراء تیں عجم کا فتنہ ہیں ۔
(۳)امت مسلمہ کی عظیم اکثریت جس قراء ت کے مطابق قرآن کی تلاوت کر رہی ہے صرف وہی قرآن ہے۔
(۴)قرآن کا متن قراء ت حفص کے علاوہ کسی دوسری قراء ت کو قبول ہی نہیں کرتا ۔
مسٹر غامدی کا مذکورہ موقف سرا سر باطل اور سلف صالحین اور امت مسلمہ سے ہٹ کر الگ راستہ اپنانا ہے ۔
قراء ا ت سبعہ عجمی دور کی پیداوار نہیں۔ رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام وتابعین عظام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے زمانے سے لے کر آج تک پوری امت کے قراء اور علماء میں اس کا رواج ہے ۔یہ تمام قراء تیں رسم عثمانی کے مطابق اور اجماع امت سے ثابت ہیں۔علوم القرآن کے موضوع پر لکھی جانے والی تمام اہم کتب میں یہ قرا ء ات بیان کی گئی ہیں ۔ امام بدر الدین زرکشی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب ’’البرہان فی علوم القرآن‘‘میں اور امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ’’الاتقان‘‘میں ان تمام قراء ات کا تذکرہ کیا ہے اور ان کو درست مانا ہے ۔اسی طرح تمام قدیم وجدید اہم تفاسیر میں ان قراء ات کو تسلیم کیا گیا ہے ،اورامت کے تمام مسلمہ مکاتب فکر کے دینی مدارس میں یہ قر اء ا ت پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں۔
عالم اسلام کے متعدد ممالک جس میں مراکش ،الجزائر ،ٹیونس ،لیبیا اور موریطانیہ وغیرہ میں روایت حفص نہیں بلکہ روایت ورش رائج ہے ۔امام ورش امام نافع بن عبد الرحمن کے شاگرد تھے ۔اور مذکورہ ممالک کے کروڑوں مسلمان اسی قرا ء ت ورش کے مطابق ہی قرآن کریم کی تلاوت کرتے او ر اسے قرآن سمجھتے ہیں ۔
(۱)مسٹر غامدی کے نظریے کے مطابق کیا کروڑوں مسلمانوں نے ’’غیر قرآن ‘‘کو معاذ اللہ قرآن سمجھ لیا ہے ؟
(۲)کیا غیر قرآن کو قرآن سمجھ لینے کے بعد وہ مسلمان باقی رہے یا معاذ اللہ کافر ہو گئے ہیں؟۔
(۳)کیا امت مسلمہ کا یہود ونصاری کی طرح اپنی مذہبی کتاب میں اختلاف ہو گیا ہے ؟
(۴)کیاتورات اور انجیل کی طرح قرآن محفوظ نہیں رہا ؟حالانکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالی نے خود اپنے ذمہ کرم پرلے رکھا ہے۔
’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُون‘‘۔
ترجمہ کنز الایمان:’’بے شک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بے شک ہم خود اس کے نگہبان ہیں‘‘۔[الحجر،آیت:۹]۔
جب خو د رب تعالی نے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری لے رکھی ہے تو ایک ایسی چیز جو قرآن نہیں وہ امت مسلمہ میں بطور قرآن کیسے رائج ہو سکتی ہے۔
جس طرح ہمارے یہاں پاکستان میں قراء ت حفص کے مطابق مصحف لکھے اور تلاوت کیے جاتے ہیں ،اسی طرح شمالی افریقہ اور بعض دوسرے ممالک میں قر اء تِ ورش کے مطابق مصاحف لکھے اور تلاوت کیے جاتے ہیں اور وہاں کی گورنمنٹ سرکاری وسائل سے
قراء ت ورش کے مطابق مصاحف شائع کرنے کا اہتمام کرتی ہیں۔
امت مسلمہ کا قولی اور عملی تواتر ہی قراء ا تِ متواترہ کے صحیح ہونے کے لئے واضح ثبوت ہے ۔لیکن اس کے باوجود عقل والوں کے لئے احادیث صحیحہ سے دلائل پیش ہیں۔ 
قراء ات متواترہ کے بارے میں احادیث کریمہ
(۱) صحیح بخاری شریف میں ہے ۔’’حدثنا سعیدبن عفیر قال : حدثنی اللیث قال حدثنی عقیل عن ابن شھاب ،قال حدثنی عروۃ بن الزبیر ان المسور بن مخرمۃ وعبد الرحمن بن عبد القاری حدثاہ انھما سمعا عمر بن الخطاب یقول :سمعت ھشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان فی حیاۃ رسول اللہ ﷺ فاستمعت لقراء تہ فاذا ھو علی حروف کثیرۃ لم یقرئنیھا رسول اللہ ﷺ فکدت اساور ہ فی الصلاۃ ،فتصبرت حتی سلم،فلببتہ برداۂ فقلت :من أقرأک ھذہ السورۃ التی سمعتک تقرأ ؟قال: اقرأنیھا رسول اللہ ﷺ ۔فقلت :کذبت ،فان رسول اللہ ﷺ قد أقرأنیھا علی غیر ماقرأت ،فانطلقت بہ أقودہ الی رسول اللہ ﷺ فقلت انی سمعت ھذا یقرأ بسورۃ الفرقان علی حروف لم تقرئنیھا ۔فقال رسول اللہ ﷺ:ارسلہ :أقرأ یا ھشام فقرأ علیہ القراءۃ التی سمعتہ یقرأ ۔فقال رسول اللہ ﷺ کذلک انزلت ۔ثم قال:اقرأ یا عمر ،فقرأت القراء ۃ التی أقرأنی ،فقال رسول اللہ ﷺ :کذلک انزلت ان ھذا القرآن انزل علی سبعۃ احرف فاقرؤا ماتیسر منہ ‘‘
ترجمہ’’ حضرت سعید بن عفیر رضی اللہ تعالی نہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں مجھے حضرت لیث رضی اللہ تعالی نے حدیث بیان کی،وہ فرماتے ہیں مجھے حضرت عقیل بن شہاب رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث بیان کی اور وہ فرماتے ہیں مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث بیان کی کہ مسور بن مخرمہ اور عبد الرحمن بن عبد القاری دونوں نے حدیث بیان کی ان دونوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا وہ فرماتے ہیں :میں نے ہشام بن حکیم کو رسول اللہ ﷺکی حیات طیبہ میں سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ،جب میں نے ان کی قرا ء ت بغور سنی تو بہت سے ایسے حروف سنے جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے ۔ قریب تھا کہ نماز ہی میں ان پر حملہ کردیتا لیکن میں نے بمشکل ضبط کیا حتی کہ انہوں نے نماز سے سلام پھیراتو میں نے ان کی چادر سے ان کو گھسیٹا اور کہا یہ سورت جو میں نے آپ سے سنی کس نے آپ کو پڑھائی ؟انہوں نے کہا مجھے رسول اللہ ﷺ نے پڑھائی ہے ۔ میں نے کہا تونے جھوٹ کہا ۔ بے شک رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس کے علاوہ تعلیم دی ۔پس میں ان کو ہانکتا ہوا رسول اللہ ﷺ کی طرف لیکر چلا ۔میں نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا بے شک میں نے سورۃ فرقان کو ایسے حروف کے ساتھ سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھایا۔تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اس کو چھوڑ دو۔اے ہشام تم پڑھو تو انہوں نے وہ پڑھا جو میں نے سنا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ،اس طرح اتارا گیا ہے ۔پھر فرمایا اے عمر تم پڑھو :تو میں نے وہ قرا ء ت پڑھی جو آپ نے مجھے پڑھائی تھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، اس طرح بھی نازل کیا گیا ہے ۔بے شک یہ قرآن سات احرف پر اتارا گیا ہے ان میں سے جو تمہیں آسان معلوم ہو وہ قراء ت پڑھو ‘‘۔[صحیح بخاری،کتاب :فضائل القرآن ۔رقم الحدیث:۲۴۱۹،صحیح مسلم،حدیث :۱۸۹۹]۔
(۲) جامع ترمذی میں ہے’’عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ، قَالَ: لَقِیَ رَسُولُ اللہِ صَلّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جِبْرِیلَ، فَقَالَ: یَا جِبْرِیلُ اِنِّی بُعِثْتُ اِلَی اُمَّۃٍ اُمِّیِّینَ: مِنْھُمُ العَجُوزُ، وَالشَّیْخُ الکَبِیرُ، وَالغُلاَمُ، وَالجَارِیَۃُ، وَالرَّجُلُ الَّذِی لَمْ یَقْرَأْ کِتَابًا قَطُّ، قَالَ: یَا مُحَمَّدُ اِنَّ القُرْآنَ اُنْزِلَ عَلی سَبْعۃِ اَحْرُفٍ‘‘
ترجمہ :’’حضر ت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺجبرائیل علیہ السلام سے ملے تو آپﷺ نے فرمایا :اے جبرائیل مجھے ایسی امت کی طرف بھیجا گیا ہے جو اَن پڑھ ہے ۔پھر ان میں سے کوئی بوڑھیاہے، کوئی بوڑھا ہے ،کوئی لڑکا ہے کوئی لڑکی اور کوئی ایسا آدمی ہے 
(8)
جس نے کبھی کوئی تحریر نہیں پڑھی ۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھے جواب دیا کہ اے محمد ﷺ :قرآن سات حرفوں پر اترا ہے ‘‘۔[جامع ترمذی ،حدیث۲۹۴۴]۔
(۳) صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْھُمَا: اَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:اَقْرَأَنِی جِبْرِیلُ عَلَی حَرْفٍ، فَلَمْ اَزَلْ اَسْتَزِیدُہُ حَتَّی انْتَھَی اِلَی سَبْعَۃِ اَحْرُفٍ‘‘
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبرائیل نے پہلے مجھے قرآن کریم ایک حرف کے مطابق پڑھایا ، میں ان سے مطالبہ کرتا رہا (کہ قرآن مجید کو دوسرے حروف کے مطابق بھی پڑھنے کی اجازت دی جائے ،چنانچہ وہ مجھے یہ اجازت دیتے گئے )یہاں تک کہ سات حرفوں تک پہنچ گئے‘‘۔[صحیح بخاری ۔حدیث:۳۲۱۹،صحیح مسلم۔حدیث: ۱۹۰۲ ]۔
(۴) صحیح بخاری میں ہے’’عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا قَرَأَ آیَۃً، وَسَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ خِلاَفَھَا، فَجِءْتُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُہُ، فَعَرَفْتُ فِی وَجْھِہِ الکَرَاھِیَۃَ، وَقَالَ: کِلاَکُمَا مُحْسِنٌ، وَلاَ تَخْتَلِفُوا، فَاِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ اخْتَلَفُوا فھَلَکُوا‘‘
ترجمہ:’’حضر ت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک شخص کو قرآن کی آیت پڑھتے ہوئے سنا جب کہ اس سے پہلے میں نے نبی کریم ﷺ کووہ آیت اس سے مختلف طریقے پر پڑھتے سنا تھا ۔میں اس شخص کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے گیا اورآپ ﷺ کو صورتِ حال سے آگاہ گیا ۔میں نے محسوس کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو میری بات ناگوار گزری ہے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:تم دونوں ہی ٹھیک پڑھتے ہو ۔آپس میں اختلاف نہ کرو، کیونکہ تم سے پہلے جو قومیں تھیں انہوں نے آپس میں اختلاف کیا جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہو گئیں ‘‘۔[صحیح بخاری ،حدیث:۳۴۷۶]۔
یہ چار جلیل القدر صحابہ کرام(۱) امیر المؤمنین خلیفہ رسول ﷺ حضرت عمر فاروق اعظم ،(۲)حبر امت مفسر اعظم حضرت عبد اللہ ابن عباس ،(۳)قاری امت حضرت ابی بن کعب اور (۴)فقہیہ اعظم صاحب النعلین والوسادہ حضور ﷺ کے سفر وحضر کے خدمت گار عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین کی روایات ہیں ۔مسٹر غامدی کیا ان صحابہ کرام ہی کو فتنہ عجم قرار دے رہے ہیں ؟
اسلام کے ابتدائی دور ہی سے قرآن کریم کو مقامی لہجات کے مطابق پڑھنے کی اجازت تھی جو ایک ہی عربی زبان کے الفاظ کے مختلف تلفظات تھے اور اس طرح کا معاملہ تقریباً دنیا کی ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔
قرآن کریم کا متن رسم عثمانی میں لکھا جاتا ہے ۔اس رسم الخط کی خوبی اور کمال یہ ہے کہ اس میں تمام قراء اتِ متواترہ کے پڑھنے کا امکان موجود ہے اور یہ ساری قراء تیں اس ایک متن میں سماسکتی ہیں۔
بلکہ خود روایت حفص میں بھی ایک ہی لفظ کو دو طرح پڑھنا جائز ہے ۔
’’أَمْ ہُمُ الْمُصَیْْطِرُونَ‘‘[سورء طورآیت:۳۷]۔میں الْمُصَیْْطِرُونَ کو الْمُسَیْْطِرُونَ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
ان تمام روایات سے یہ باخوبی واضح ہو گیا ہے کہ مسٹر غامدی کے نظریات سرا سر من گھڑت اور ان کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ قراء ات متواترہ کو عجم کا فتنہ قرار دینے والا خود عجم کے لئے ایک عظیم فتنہ بن چکاہے ۔ قراء ات متواتر ہ کا یہ اختلاف صرف تلفظ اور لہجے کا اختلاف ہے،ان سے قرآن کریم میں کوئی ایسا تغیر نہیں ہو جاتا جس سے اس کے معنی ومفہوم تبدیل ہو جائیں یا حلال حرام ہو جائے ۔
قراء ت کے اختلاف کے باوجود قرآن کے نفسِ مضمون ومعانی میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
علامہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں قراء ات متواترہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ پہلی قرأۃ میں فی نفسھا کمی اور زیادتی ہوتی ہے مثلاً’’ نشرھا ‘‘ اور’’ونشرھا ‘‘،’’سارعوا ‘‘اور ’’وسارعوا‘‘ اوردوسری میں واحد اور جمع کے اعتبار سے فرق ہے مثلاً’’ کتبہ‘‘ او ر’’کتابہ‘‘ اور تیسری میں تذکیراور تانیث کے اعتبار سے اختلاف ہے مثلاً ’’یکن ‘‘اور’’ تکن‘‘ میں اور چوتھی میں تصریفی اختلاف ہے جیسے مخفف اور مشدد میں مثلاً’’ یکذبون‘‘ اور’’ یکذبون‘‘فتح اور کسرا کے اعتبار سے ’’یقنط‘‘ اور’’ یقنط‘‘ اور پانچویں قرأت اعرابی اختلاف ہے ’’ذوالعرش المجید ‘‘میں دال کے رفع اور اس کے مجرور ہونے کے اعتبار سے ۔اور چھٹی اداۃ کا اختلاف ہے مثلاً ’’لکنّ الشیاطین‘‘ نو ن کے مشدد اور مخفف ہونے میں اور ساتویں قرأت لغت کے اعتبار سے تفخیم اور امالہ میں اختلاف ہے ‘‘۔ 
مزید فرماتے ہیں انہی سات قرأتوں میں حصر نہیں بلکہ جو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے ثابت ہو پڑھنا جائز ہے اس میں امت کی آسانی ہے ۔چنانچہ لکھتے ہیں۔
’’ والحاصل انہ اجاز بان یقرؤوا ماثبت عنہ ﷺ بالتواتر بدلیل قولہ انزل علی سبعۃ احرف والاظھر ان المراد بالسبعۃ التکثیر لا التحدید ‘‘
ترجمہ:’’حاصل کلام یہ ہے کہ جو قرأت بھی رسول اللہ ﷺ سے بالدلیل تواتر کے ساتھ ثابت ہے وہ جائز ہے آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے اس فرمان کی وجہ سے:کہ قرآن سات أحرف پر نازل کیا گیا ہے ۔اظہر بات یہ ہے کہ سبعہ سے مراد کثرت ہے حصر نہیں ‘‘ 
مزید اگلے صفحہ پر لکھتے ہیں ۔’’ قال ابن عبد البر والباقلانی وآخرون ھذا وکأنہ علیہ الصلاۃ والسلام کشف لہ ان القرأۃ المتواتر تستقر فی امتہ علی سبع وھی الموجودۃ الآن المتفق علی تواتر ھا والجمہور علی ان مافوقھا شاذ لا یحل القرأۃ بہ‘‘
ترجمہ:’’ ابن عبد البر اور باقلانی اور دیگر نے کہا کہ یہ معاملہ ایسا ہے گویا کہ حضو ر ﷺ پر کشف ہوا کہ قرأت متواترہ میری امت میں سات ہوں گی جو کہ اب بھی موجود ہیں جن کامتواتر ہونا متفق علیہ ہے اور جمہور کا یہ قول ہے کہ اس کے علاوہ جو قراء ات ہیں وہ شاذ ہیں اور ان کی تلاوت جائز نہیں ہے ‘‘۔
مزیدتواتر کا معنی لکھتے ہیں کہ تواتر سے کیا مراد ہے’’ حدیث نزول القرآن علی سبعۃ احرف ادعی ابو عبیدۃتواترہ لانہ ورد من روایۃ احدعشرین صحابیاً ومرادہ التواتر الفظی ،اماتواترہ المعنوی فلاخلاف فیہ‘‘
ترجمہ:’’ نزول القرآن علی سبعۃ احرف کے بارے میں ابو عبید نے تواتر کا دعوی کیا ہے کیونکہ یہ اکیس صحابہ کرام سے مروی ہے اور اس سے ان کی مراد تواتر لفظی ہے ۔ جبکہ اس حدیث کے تواتر معنوی میں کسی کا اختلاف نہیں ہے‘‘۔[مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ،کتاب فضائل القرآن باب اختلاف القرأت وجمع القرآن ،ج:۵،ص:۹۰،۹۱،مطبوعہ مکتبہ رشدیہ ،کوئٹہ]
مسٹرغامدی قراء ات متواترہ کو عجم کا فتنہ قرار دے کر شدید ترین گمراہی کے مرتکب ہو چکے ہیں ان پر لازم ہے کہ اپنے تمام گمراہ کن نظریات سے اعلانیہ توبہ کریں ۔ قراء ات متواترہ کے منکر کی بعض فقہاء نے تکفیر فرمائی ہے لیکن کیونکہ قراء ات متواترہ کامعاملہ ضروریات دین میں سے نہیں ہے اس لئے مسٹر غامدی کی تکفیر کلامی میں توقف کیا جائے گا۔
الفتاوی الحدیثیہ میں شیخ الاسلام احمد بن محمد بن علی بن حجر ھیتمی علیہ الرحمہ سے قراء ات متواترہ اور اس کے منکر کے بارے میں سوال کیاگیا تو انہوں نے جو جواب دیا وہ مع سوال درج ذیل ہے ۔
’’ھل القرأۃ ذات السبع متواتر مطلقاً او عندالقراء فقط ،وھل انکار تواتر ھا کفر ام لا؟
فاجاب بقولہ::ھی متواتر عند القراء وغیرھم ،واختار بعض أئمۃ متأخری المالکیۃ انھا متواترۃ عند القراء لا عموماً 
،وانکار تواترھا صرح بعضھم بانہ کفر ،واعترضہ بعض أئمتھم ۔فقال: لا یخفی علی من اتقی اللہ وفَھِم مانقلناہ عن الائمۃ الثقات من اختلافھم فی تواتر ھا وطالع کلام القاضی عیاض من أئمۃ الدین انہ قول غیرصحیح ،ھذہ مسالۃ البَسْملۃ اتفقوا علی عدم التکفیر بالخلاف فی اثباتھا ونفیھا والخلاف فی تواتر وجوہ القرأۃ مِثْلہ أو أیسرمنہ ،فکیف یصرح فیہ بالتکفیر،وبتسلیم تواترھا عموماً وخصوصاً لیس ذلک معلوماً من الدین بالضرورۃ،والاستحلال والتکفیر انما یکون بانکار المجمع علیہ المعلوم من الدین بالضرورۃ والاستدلال علی الکفر بان انکار تواترھا یؤدی الی عدم تواتر القرآن جملۃ مردود‘‘
ترجمہ’’ سوال:۔ کیا قراء ات سبعہ مطلقاً متواتر ہیں یافقط قراء کے نزدیک متواتر ہیں اور آیا ا س کے تواتر کاانکار کفر ہے یا نہیں؟۔
جواب:۔ قراء ات سبعہ ، قراء اور دیگر علماء کے نزدیک بھی متواتر ہیں ۔اور بعض متاخرائمہْ مالکیہ کا مختار قول یہ ہے کہ ان کا تواترعمومی نہیں بلکہ صرف قراء کے نزدیک ہے۔اور اس تواتر کے منکر کے بارے میں بعض علماء نے کفر کی صراحت کی ہے ،لیکن بعض ائمہ نے اس کو کفرقرار دینے پر اعتراض کیا ہے اور فرمایا : کہ یہ بات ایسے شخص پرپوشیدہ نہیں ہے جو اللہ تعالی سے ڈرتا ہے اورثقہ ائمہ کے قراء ا ت کے تواتر میں اختلاف کو سمجھتا ہے جو ہم نے نقل کیا ۔اور جو علامہ قاضی عیاض کے کلام پر مطلع ہوا، جوائمہ دین سے ہیں ،ان کا(قراء ا ت سبعہ کے انکار کو کفر قرار دینے کا) قول درست نہیں۔ سورتوں کے درمیان درج’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کے مسئلے کو دیکھیئے ،جس کے قرآن کا جز ہو نے کے اثبات اور نفی کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ لیکن تمام علماء(یعنی،جو اس کے جز قرآن ہو نے کے قائل ہیں اور جو نہیں ہیں ،باہم ایک دوسرے کی) عدمِ تکفیر پر متفق ہیں ۔ قراء ات کی وجوہ میں اختلاف یا تو اِس کی مثل ہے یا اِس سے بھی آسان ہے۔ توپھر اس میں کفر کی صراحت کیونکر کی جائے گی ؟۔اور اگر قراء ات کا تواتر عموماً اور خصوصاً تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ ضروریات دین میں سے نہیں ہے ،(جن کے انکار پر مطلقاً تکفیر کی جاتی)۔کیونکہ تکفیر تو اس میں ہوتی ہے جس کا ضروریات دین سے ہونا معلوم ہو اور وہ مُجمَع علیہ(جس پر سب کا اتفاق ) ہو اور کوئی اس کا انکار نہ کرے ۔اورقراء ا تِ سبعہ کے منکر کو کافر قرار دینے کے لئے اِس طرح استدلال کرنا کہ کسی وجہِ قراء ات کا انکار کرناقرآن کے عدمِ تواتر کی طرف لے جاتا ہے (قرآن کا انکار ہے)تو یہ باطل استدلال ہے ‘‘ ۔[الفتاوی الحدیثیۃ ،ص:۳۲۰،۳۱۹،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ]۔
قراء اتِ متواترہ کا ضروریات دین سے نہ ہونا اس بات سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ فقہاء کرام نے ایسی قراء ات جولوگوں میں معروف نہ ہو اس کی تلاوت عوام کے سامنے کرنے سے منع فرمایا ہے تاکہ وہ عدم علم کی وجہ سے اس کا انکار کرکے گمراہی میں مبتلا نہ ہوں۔
صدر الشریعہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں’’ ساتوں قراء ت جائز ہیں مگر اَولیٰ یہ ہے کہ عوام جس سے نا آشنا ہوں وہ نہ پڑھے،کہ اس میں اُن کے دین کا تحفظ ہے ‘‘۔[بہارشریعت،ج:۱،حصہ :۳،باب :قرآن مجید پڑھنے کا بیان،ص:۱۹۱،مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی]۔
اگر قراء اتِ متواترہ کا انکار کرنے والا جاہل ہو تو اس کو سمجھایا جائے اور اگربے دینی یا ہٹ دھرمی کی بنا پر انکار کرتا ہوجیسا کہ مسٹرغامدی ہیں توایسا شخص گمراہ بے دین اور اہلسنت سے خارج ہے ۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ


No comments:

Post a Comment