دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Friday 19 July 2013

جس کے ذمہ قضاء نمازیں ہوں وہ نوافل پڑھ سکتا ہے؟

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ سنا ہے کہ جب قضاء نمازیں ذمے میں ہوں تو نفل نماز قبول نہیں ہوتی ۔کیا نماز اوابین ،چاشت، اشراق و توبہ وغیرہ کی جگہ قضاء عمری ادا کریںیا نوافل ادا کریں؟
                                  سائل:اللہ بخش مظہری،جامعۃ المصطفیٰ ،کراچی
                                   بسم اللہ الرحمن الرحیم
                    الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب

ایسا مضمون ایک حدیث مبارک میں وارد ہے لیکن اس حدیث کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ 

چنانچہ ملا علی قاری علیہ رحمۃ الباری فرماتے ہیں ، ’’ واما خبر لا تقبل نافلۃ المصلی حتی یؤدی الفریضۃ فضعیف ‘‘ [ مرقاۃ المفاتیح ج۳ ص ۴۲۲ ] ترجمہ، ’’ یہ روایت کہ نمازی کے نفل قبول نہیں ہوتے یہانتک کہ وہ اپنے فرائض ادا کرے‘ ضعیف ہے ‘‘۔

 صحیح حدیث میں وارد ہے جسے امام ترمذی نے اپنی جامع میں ج۱ ص ۵۵ اور امام ابو داؤد نے اپنی سنن ج۱ ص ۲۷۱ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم رؤف رحیم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ بندے کا وہ عمل جس کا قیامت کے دن سب سے پہلے حساب ہوگا وہ اسکی نماز ہے اگر نماز ٹھیک ہوگی تو وہ بندہ کامیاب ہوگیا اور نجات پاگیا اور اگر نماز بگڑگئی تو محروم رہ گیا اور نقصان پاگیا اگر بندے کے فرض میں کمی ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، ’’ دیکھو کیا میرے بندے کے پاس کچھ نفل ہیں ان سے فرض کی کمی پوری کردی جائے گی ‘‘ پھر بقیہ اعمال اسی طرح ہوں گے اورایک روایت میں ہے کہ پھر زکوٰۃ اسی طرح ہے پھر دوسرے اعمال اسی طرح کئے جائیں گے ‘‘۔ ( مشکوٰۃ ص ۱۱۷ )۔

 علامہ حافظ ابن العربی المالکی علیہ الرحمۃ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں ، ’’ یحتمل ان یکون یکمل لہ ما نقص من فرض الصلوٰۃ و اعدادھا بفضل التطوع و یحتمل اما نقصہ من الخضوع والاول عندی اظہر لقولہ ﷺ ثم الزکاۃ کذالک و سائر الاعمال و لیس فی الزکاۃ الا فرض او فضل ، فکما یکمل فرض الزکوٰۃ بفضلھا کذالک الصلاۃ ‘‘ ( عارضۃ الاحوذی ج۱ ص ۴۲۱ ) (ترجمہ ) ’’ اس میں یہ احتمال ہے کہ مکمل کیا جائے گا جو فرض نماز اور اسکی تعداد میں کمی ہوگی نوافل کے ساتھ اور یہ بھی احتمال ہے کہ جو کچھ خشوع میں کمی ہو وہ پوری کی جائے گی اور پہلی بات میرے نزدیک زیادہ ظاہر ہے سرکار ﷺ کے فرمانے کی وجہ سے کہ پھر زکوٰۃ اسی طرح پھر بقیہ اعمال اور زکاۃ یا تو فرض ہے یا نفلی ( صدقہ ) پس جیسے فرض زکوٰۃ نفلی صدقہ سے پوری کی جائے گی ایسے ہی نماز کا بھی معاملہ ہے ‘‘۔

 اسی قسم کا قول ترمذی کے حاشیے ص ۶۶ پر شیخ عزالدین بن عبد السلام ملک العلماء سے بھی نقل کیا گیا ۔ علامہ عراقی شرح الترمذی میں فرماتے ہیں ، ’’ ھذاالذی و رد من اکمال ما ینتقص العبد من الفریضۃ بما لہ من التطوع یحتمل ان یراد بہ ما انتقص من السنن و الھیئات المشروعۃ المرغب فیھا من الخشوع والاذکار و الادعیۃ و انہ یحصل لہ ثواب ذالک فی الفریضۃ و ان لم یفعلہ فی الفریضۃ و انما فعلہ فی التطوع ، و یحتمل ان یراد ما ترک من الفرائض رأسا فلم یصلہ فیعوض عنہ من التطوع ، واﷲ تعالیٰ یقبل من التطوعات الصحیحۃ عوضا عن الصلاۃ المفروضۃ واﷲسبحانہ یفعل ما شاء فلہ الفضل والمن بل لہ ان یسامح وان لم یصل شیئا لا فریضۃ ولا نفلاً ( عون المعبود ج۳ ص ۸۸ ) خلاصہ گذرچکا ۔

ترمذی کے حاشیے ص ۵۵ پر یہ روایت منقول ہے کہ سات سو نفل ایک فرض کے برابر ہوں گے ۔ یہ تو بات نفل کے قبول ہونے کی تھی لیکن جس کے ذمے قضاء نمازیں ہوں اسے نوافل ، تہجد ، اوابین ، چاشت اشراق وغیرہ میں قضاء عمری پڑھنی چاہئیں کہ فرض نماز کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا نوافل کے بارے میں نہیں اور قضاء عمری ان نوافل کی جگہ پڑھتے ہوئے ا گر اسکی نیت یہ ہو کہ اگر یہ قضا نمازیں نہ ہوتیں تو میں نوافل پڑھتا تو ان شاء اللہ عزوجل اُسے نوافل کا بھی ثواب ملے گا کہ انما الاعمال بالنیات ولکل امری مانوی ۔اور حدیث پاک میں ہے نیۃ المومن خیر من عملہ کہ مومن کی نیت اسکے عمل سے بہتر ہے ۔ امام اہلسنت اعلٰحضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں ، ’’ خالی نفلوں کی جگہ بھی قضائے عمری پڑھے ‘‘ ( فتاوی رضویہ ج۳ ص ۶۲۲ )۔

No comments:

Post a Comment