دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Monday 8 July 2013

رمضان المبارک کے دنوں میں بے روزہ مزدورں کودن میں کھانا دینا

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اِس مسئلہ کے بارے میں کہ بیکری میں کام کرنے والے کاریگرکام کی شدت کی بناء پر روزہ نہیں رکھتے یا نہیں رکھ سکتے جسکی وجہ سے دوپہر میں اپنے معمول کی رُوٹین کے مطابق کھاناکھاتے ہیں معلوم یہ کرنا ہے کہ بیکری کے مالک کے لیے ان کو طبعی ضرورت کی بناء پر کھانا فراہم کرناجائز ہے یانہیں ؟

                                                             سائل : نعمان Geo tvکراچی۔
                                بسم اللہ الرحمن الرحیم
               الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
بیکری کے مالک کا اپنے یہاں کام کرنے والے کاریگروں کوروزہ نہ رکھنے کی بناء پر رمضان کے دنوں میں کھلاناپلانا گناہ پر تعاون ہونے کی وجہ سے ناجائزہے۔کیونکہ کا ریگروں کے لیے فقط اِ س عذ ر کی بناء پر’’ کہ کام بہت سخت ہے جس کی وجہ سے روزہ رکھا نہیں جاسکتا ‘‘روزہ چھوڑناہر گز جائز نہیں ہے.

 بالغ مسلمانوں کے لیے روزہ چھوڑنے کے اعذا ر جو قرآن نے بیان کیے ہیں وہ تین ہیں ۔ ۱؂ مریض ہونا ۲؂ مسافرہونا ۳؂ شیخ فانی ہونا۔ ان میں سے شیخ فانی کو تو روزہ ترک کرنے کی مستقل اجازت ہوتی ہے کہ اگر مال ہے تو روزے کی بجائے فدیہ ادا کردے اگر وہ بھی نہیں تو استغفار کرے جبکہ مریض اور مسافر کو وقتی طور پر رخصت ملتی ہے بعد میں روزے کی قضاء کرناان کے لیے بھی فرض ہے اِن اعذارکے علاوہ کسی حالت میں روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے.

 اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالیشان ہے : فَمَن کَانَ مِنکُم مَّرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَیْْراً فَہُوَ خَیْْرٌ لَّہُ وَأَن تَصُومُواْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ ۔ ترجمہ کنزالایمان ’’تو تم میں کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھاناپھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اُس کے لیے زیادہ بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو‘‘۔[سورۃالبقرۃ آیت :۱۸۴ پ:۲ ].

 ان کے علاوہ وُہ لوگ کہ جنہیں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے مثلاََحاملہ ، مُرضِعہ(بچے کو دودھ پلانے والی) ،حائضہ ،نفساء یہ سب مرض والے عذر کے تحت داخل ہیں کہ حائضہ اور نفساء تواس دوران روزہ رکھنے کی اہل ہی نہیں ہیں لہٰذا بعد میں رکھیں گی جبکہ حاملہ اور مرضعہ(بچے کو دودھ پلانے والی) کو اپنی یا بچے کی جان پر خطرہ ہو نے کی وجہ سے وقتی طور پر رخصت ملتی ہے لیکن بعد میں روزے کی قضاء کرناان کے لیے بھی فرض ہے جبکہ مستقل پاگل ،نابالغ اور مجذوب پر تو روزہ فرض ہی نہیں ہے کیونکہ وہ مکلف ہی نہیں ہیں۔
 

خلاصہ کلام یہ کہ بیکری کے کاریگروں ،حلوائیوں ،فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں ،روڈ پر چلچلاتی گرمی میں کام کرنے والوں وامثالھممیں سے کسی کے لیے بھی اپنے کام کی شدت کی بناء پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے اور اگر ان میں سے کسی نے بھی صرف اِس عذر کی بناء پر روزہ ترک کیا تو اُس نے فعلِ حرام کا ارتکاب کیا ۔

فتاوٰی عالمگیری میں ہے’’ المحترف المحتاج الی نفقتہ علم انہ لو اشتغل بحرفتہ یلحقہ ضرر مبیح للفطریحرم علیہ الفطرقبل ان یمرض کذا فی القنیۃ ‘ ‘محنت ومزدوری کرنے والا جو اپنے لیے نفقہ کا محتاج ہو اس نے جانا کہ اگر وہ پیشے میں مشغول ہوا تو اُسے ایسا ضرر (نقصان دینے والی چیز )لاحق ہو جائے گا جس کی وجہ سے روزہ چھوڑناجائز ہوجائے گا ،تو مرض میں مبتلا ہونے سے پہلے اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے اسی طرح ’ قنیہ‘میں ہے۔ [فتاوی عالمگیری :ج،۱ ص:۲۲۹ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]۔

نیز یہ بھی یاد رہے کہ جس طرح رمضان کے مہینے میں دن کے اوقات میں صحتمنداور مقیم مسلمان کے لیے روزہ رکھنا فرض ہے اسی طرح ماہ رمضان میں دن کے اوقات میں اِن کے لیے ان ایّام کی حُرمت کے پیشِ نظر کھاناپینا بھی حرام ہے چاہے روزہ ہو یا نہ ہو۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ چھوڑدے تواُس کے لیے روزہ خور ہونے کے سبب کھانا پینا جائز نہیں ہوجاتا بلکہ وقت کی حُرمت کے پیشِ نظر حرام ہی رہتا ہے کیونکہ رمضان کا روزہ نفلی روزے کی مثل اختیاری نہیں کہ جو چاہے رکھے اور جو چاہے نہ رکھے بلکہ یہ تو اِجباری (لازمی)ہے کہ شرعی عذر کے بغیر رمضان کے دنوں میں کھانا پینا کسی کے لیے بھی جائز نہیں حتّیٰ کے وہ لوگ جنہیں شریعتِ مطہرہ نے شرعی اعذار یا اہلیّت کے نہ ہونے کے سبب روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے ان کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ اگر دن کے اوقات میں اُن کے اعذار ختم ہو جائیں یااُن میں روزہ رکھنے کی اہلیّت پیدا ہوجائے تو ان پر بھی لازم ہے کہ انعدامِ عذر کے بعد کھانا پینا قطعََا چھوڑ دیں اور روزہ دار نہ ہونے کے باوجودحُرمتِ رمضان کی وجہ سے بقیہ وقت روزہ داروں کی طرح گزاریں ۔
ھدایۃ شرح بدایۃالمبتدی میں ہے’’ واذا بلغ الصبی أو اسلم الکافر فی رمضان أمسکا بقیّۃ یومھما قضاءََ لحق ا لوقت بالتشبہ‘‘یعنی’’اور جب بچہ ماہِ رمضان میں( دن کے وقت) بالغ ہو جائے یا کافر مسلمان ہو جائے توروزے داروں کے ساتھ تشبیہ کے ذریعے حقِ وقت کی ادائیگی کے لیے بقیہ دن کھانے پینے اور جماع سے رُکے رہیں گے ‘‘۔[ھدایۃ علیٰ ھامش فتح القدیر ج:۲ ص:۳۶۸ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ]
اورفرمایا’’واذا قدم المسافر أوطھرت الحائض فی بعض النھار أمسکا بقیّۃیومھما۔۔۔۔انہ وجب قضاءََ لحق الوقت۔۔۔لانہ وقت معظم ‘‘ یعنی’’(ماہِ رمضان میں )مسافر جب دن کے دوران آجائے (مقیم ہوجائے )یا حائضہ عورت پاک ہوجائے تودن کا بقیہ حصہ رُکے رہیں گے ،یہ رُکناحقِ وقت کی ادائیگی کے لیے واجب ہے ،کیونکہ یہ تعظیم والا وقت ہے ‘‘۔[ھدایۃ علیٰ ھامش فتح القدیر ج:۲ ص:۳۷۵ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ]
نورالایضاح میں ہے : یجب الامساک بقیّۃ الیوم علی من فسد صومہ ،وعلی الحائض ونفساء طھرتا بعد طلوع الفجر وعلی صبی بلغ وکافراسلم۔یعنی ’’جس کا روزہ ٹوٹ جائے اُس پر دن کے بقیہ حصے میں اِمساک واجب ہے اور طلوعِ فجرکے بعد پاک ہونے والی حائضہ اور نفاس والی اور بالغ ہونے والے بچے اور مسلمان ہوجانے والے سابقہ کافر پر بھی اِمساک واجب ہے ‘‘۔[ نورالایضاح علی ھامش حاشیۃ الطحطاوی ج:۲ ص :۳۴۵ مطبوعہ مکتبہ غوثیہ کراچی] ۔
جب ان سابقہ شرعی اعذار والوں کے لیے بھی حقِ وقت کی وجہ سے امساک لازم ہے تو پھر اُس شخص کو کھانے پینے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے جو جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے کی وجہ سے شرعی مُجرم ہولہٰذا اُس کے لیے کھاناپینا ہرگز جائز نہیں ہو سکتا اور بیکری کے مالک کے لیے ان کو کھاناکھلانا کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔

  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ۔ترجمہ کنزالایمان’’اور نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پرباہم مدد نہ دو،اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ کاعذاب سخت ہے ‘‘۔ [سورۃ المائدۃ آیت :۲ پ:۶]۔

 اگر اُسنے اِن سے ہمدردی کرنی ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں دن کے اوقات میں اُن سے ڈیوٹی کم لے تاکہ وہ باآسانی روزے رکھ سکیں اور فرض کی ادائیگی میں اُن سے کوتاہی نہ ہو۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم


No comments:

Post a Comment