دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Sunday 28 July 2013

کیاانبیاء کرام علیہم السلام پر فلم سازی کی جاسکتی ہے؟(۲)کیا فلم میں نبی علیہ السلام کا کردار ادا کیا جاسکتا ہے؟

کیافرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام دین مسئلہ کہ(۱)کیاانبیاء کرام علیہم السلام پر فلم سازی کی جاسکتی ہے؟(۲)کیا فلم میں نبی علیہ السلام کا کردار ادا کیا جاسکتا ہے؟(۳)کیا انبیاء علیہم السلام کی حیات مبارکہ پر فلمیں بنانا اور ادا کروں /عام انسانوں کا فلموں میں انبیاء علیہم السلام کا کردار ادا کرنا،انہی کے زمانوں کے لباس اور ماحول کو اجاگر کرنا ،انبیاء علیہم السلام کے کلمات وواقعات کو عام انسان کا نبی علیہ السلام کے کرداردیاجاسکتا ہے؟کیا یہ فقط ایک گناہ ہے یا نعوذ باللہ توہین رسالت ،اہانت انبیاء علیہم السلام اور تحقیر وتضحیک انبیاء علیہم السلام کے زمرے میں آتا ہے؟ازراہ کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں دلائل کے ساتھ رہنمائی فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
المستفتی :راؤ عبد الرحیم ایڈووکیٹ چیئر مین ناموس رسالت لائرز فورم پاکستان ،اسلام آباد
                              بسم اللہ الرحمن الرحیم
             الجواب بعون الوھا ب اللھم ھدایۃ الحق الصواب
آپ کے پیغام پروڈکشن کے بھیجے گئے انٹر نیٹ کے ایڈریس کے ذریعے جانچ پڑتال کی تو بات واضح ہوئی کہ مذکورہ ادارے نے انبیاء علیہم السلام کی زندگی پر فلمائی گئی فلموں کا اردو زبان میں ترجمہ کرنے کے بعد مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے اپنے نیٹ ورک پر نشر کررہے ہیں ۔جو کچھ ان فلموں میں ہے اس میں سے کچھ کا مختصر خلاصہ یہ ہے
(۱)ان فلموں میں حضرت آدم علیہ السلام ،حضرت یوسف علیہ السلام ،حضرت سلیمان علیہ السلام ،حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام ،حضرت مریم علیہا السلام کے فرضی کردار پیش کئے گئے ہیں۔
(۲)ان فلموں میں کئی مقامات پر نبی کا فرضی کردار کرنے والے کو اے نبی(علیہ السلام) ،اے یوسف (علیہ السلام)،اے ابراہیم(علیہ السلام) ،اے پیغمبر(علیہ السلام) کہہ کر پکارا گیا ہے۔
(۳)اسی طرح یہ فرضی کرداربھی کئی مقامات پر اپنے ڈائیلاگ سے خود کو اللہ کا پیغمبر کہتے ہیں۔
(۴)ان فلموں میں انبیاء علیہم السلام کے ناموں سے جن کرداروں کو دکھایا گیا ہے ان کو بار بار اس طرح پکارا جاتا ہے جیسے کسی عام آدمی کو پکاراجاتا ہے ۔کہہم وہ کرتے ہیں جو محمد(ﷺ) ہمیں کہتے ہیں ۔محمد(ﷺ) نے ہمیں بتایا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو۔
(۵)ایک انسان کو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے نام سے کردار دیا گیا ہے جو کئی بار وحی لاتا دکھائی دیتا ہے ۔
(۶)اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے نام سے بنائے گئے کرداروں پر ٹھٹھہ، پاگل،مجنون کہنا وغیرہ بھی فلمایا گیاہے۔
(۷)فلم ٹین کمانڈزمیں توحدہی کردی گئی اللہ تعالی کے معصوم نبی حضرت موسی کلیم اللہ علی نبیناوعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی کھلی توہین کی گئی ہے اوران کاحضرت آسیہ کے ساتھ جوتعلق فلمایاگیاوہ نہ صرف اسلامی تاریخ کے صریح خلاف بلکہ انتہائی شرمناک ہے۔اورپھراسی فلم میں معاذاللہ وحی کے نزول کودکھایاگیا۔
(۸)اسی طرح اس فلم میں بعض صحابیات مثل ہندہ رضی اللہ تعالی عنہاکے کردارکوبے پردہ وبے حجاب دکھایاگیا۔
(۹)تمثیل حیات طیبہ نامی فلم میں حضورنبی کریم ﷺکی والدہ ماجدہ سیدتناآمنہ رضی اللہ تعالی عنہاکے کردارکاچہرہ دکھایاگیا۔
(۱۰)اسی طرح حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنھاجورسول کریم ﷺکی رضاعی والدہ ماجدہ ہیں ان کے کردارمیں بھی چہرہ اوربال دکھائے گئے ہیں۔
(۱۱)ایسی ہی کئی توہین پر مبنی مثالیں ان فلموں میں حد سے زیادہ موجود ہیں۔رقص و موسیقی اوردیگرخرافات اس پرمزیدبرآں ہیں ۔
بہرحال پیغام پروڈکشن اور دیگرکے نیٹ ورک پر موجود انبیاء علیہم السلام کی مقدس زندگیوں پر بنائی گئی فلموں میں انبیاء علیہم السلام کی سخت توہین اور بے ادبی کا پہلو نکلتا ہے اور انبیاء علیہم السلام کی ادنیٰ سے ادنیٰ توہین کرنا بھی کفر ہے۔اوراسلام میں اس بات کی قطعاً گنجائش نہیں کہ انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں پر فلمیں تیار کی جائیں فلہذا حضرات انبیاء علیہم السلام کی مبارک زندگیوں پر فلم بنانااشد حرام اور موجب کفر ہے اورفلم بنانے والے اور ترجمہ کرنے والے اگرمسلمان ہیں تواس فعل کی وجہ سے ان پرکفرلازم آتاہے۔ان پر توبہ و استغفار اور تجدید ایمان و نکاح لازم ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں پر فلمیں بنانا بھی موجب کفرو گناہ ہے کیونکہ کسی غیر صحابی کو صحابی کہنا یا کسی کا اپنے آپ کو صحابی کہنا گویا اجراء نبوت کا قول کرنا ہے۔
ان فلموں میں مسلمان کا اپنے آپ کو نبی کہناکفرہے ۔فتاوی عالمگیری میں ہے: لوقال:أنارسول اللّٰہ،أوقال بالفارسیۃ:من پیغمبرم یرید بہمن پیغام می برم یکفر‘‘یعنی،’’اگر کوئی کہے میں اللہ کا رسول ہوں یا فارسی (یاکسی زبان)میں کہا میں پیغمبر ہوں اورمیرے پاس وحی آتی ہے تویہ کفر ہے ‘‘۔[کتاب السیر، الباب التاسع فی أحکام المرتدین، منھا مایتعلق بالأنبیاء علیھم السلام:،ج:۲،ص:۲۸۵،مطبوعہ،قدیمی کتب خانہ کراچی]۔
کسی دوسرے کو نبی بنانابھی کفر ہے ۔ان پر توبہ و استغفار اور تجدید ایمان و نکاح لازم ہے، اور جو شخص اپنے آپ کو صحابی یا دوسرے کو صحابی کہتا ہے وہ بھی فاسق و فاجر اور مرتکب کفر ہے کیونکہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استہزاء کیا ہے کہ غیر نبی کو نبی کہہ کر اپنے آپ کو صحابی کہا یا دوسرے کو صحابی بنایا۔اس پر بھی توبہ و استغفار کے ساتھ تجدید ایمان و نکاح لازم ہے۔
اس عمل کے ناجائزہونے کی بے شما روجوہات ہیں۔ان میں کچھ درجہ ذیل ہیں:

(۱)انبیاء کرام علیہم السلام کے نفوسِ قدسیہ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ذواتِ مطہرہ جس تکریم اورعظمت وجلال کی حامل ہیں،اس کاتقاضایہ ہے کہ ان مبارک شخصیات کی زندگی کے حالات کوپورے ادب واحترام کے ساتھ پڑھا،سنااورعملی طورپراپنایاجائے۔

اس کے برعکس ان فلموں میں پیشہ ورعام گنہگار انسانوں اوربہروپیوں کو ان مقدس شخصیات کی شکل میں پیش کرکے ان سے مصنوعی نقالی کرائی جاتی ہے۔ حالانکہ انبیاء کرام کی نقالی کفر جبکہ صحابہ کرام کی نقالی فسق ہے۔
 

(۲)ان مقدس شخصیات کا روپ دھارنے والے بہروپیوں کوعامیانہ لہجے میں پکارنا۔(۳)ان کے مخالفین کا کرداراداکرنے والے ایکٹروں کی طرف سے ان پردشنام طرازی کرنا۔(۴)انہیں مجنون۔(۵)شاعر(۶)ساحر(۷)کاہن اور(۸)قصہ گو وغیرہ کے الفاظ سے مخاطب کرنا۔(۹)فلمی ایکٹرز کی شکل وصورت بھی توہین آمیز ہوتی ہے مثلاً:خشخشی داڑھی اور(10)کلین شیو اور(11) بعض ایکٹرزکے سر کے بال اتنے بڑے جیسے عورتوں کے بال ہوتے ہیں وغیرہ تو یہ تمام تر امور ان مقدس شخصیات کی تنقیص وتوہین کے ساتھ ساتھ ان کی پیغمبرانہ،صحابیانہ اور بزرگانہ قدروقیمت کے منافی امور ہیں،غیرت اور حمیتِ ایمانی کے خلاف ہے،کفر کی ترجمانی ہے اوربالآخرنتیجہ کفر ہی نکلتا ہے۔ 

  اور اس فلم کے ناجائز اور حرام ہونے کے لئے ایک بات بھی کافی تھی لیکن مذکورہ فلموں میں تو بے شمار لغویات اور کفریات پائے جاتے ہیں۔
انبیاء کرام علیھم السلام کی پاک طیب طاہر مبارک مقدس زندگی پر فلم سازی کرنا اور فلم میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام یا دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی نقل اتارناانبیاء کرام کا منہ چِڑاناہے اور یہ منصب نبوت ورسالت کی توہین اوراس میں کئی وجوہ سے کفر ہے۔
رسول پاک ﷺ ودیگر انبیاء علیہم السلام واہل بیت اطہار اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی مبارک اور پاکیزہ زندگیوں پر مبنی ایسا شرمناک اور ناقابل قبول مواد شائع کیا جس میں ان مبارک ہستیوں کی تصویریں شائع کی گئیں اور مختلف خبیث الفطرت لوگوں اور کفار کو ان مبارک ہستیوں کے کردار کے طور پر پیش کیاگیاجو سخت گستاخی اور بیباکی اور کفر ہے۔
کتب سیروفقہ میں ہے کہ کسی عالم دین کی نقل بھی بوجہ استھزاء کفر ہے تو انبیاء علیھم السلام اور صحابہ کرام علیھم الرضوان کی نقلیں اتارنا اور ان کی طرح ایکٹنگ کرناگویا ان کا منہ چِڑانا ہے اگرچہ کوئی یہ بھی دعوی کرے کہ میری نیت اچھی ہے تب بھی ناجائز وحرام ہے۔اور اگر نیت میں کہیں بھی ذرا سی بھی تحقیر یا استھزا ء ہوا تو یقینی کفر ہے اور فلم بنانے میں مقصود مال بناناہوتاہے اوراس دوران ہنسی مذاق اور ٹھٹھے و قہقھے ،انجوائے کے نام پر کیسے کسی کی نیت محمود رہ سکتی ہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے’’ وَلَءِن سَأَلْتَہُمْ لَیَقُولُنَّ إِنَّمَا کُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللّہِ وَآیَاتِہِ وَرَسُولِہِ کُنتُمْ تَسْتَہْزِءُونَ‘‘ترجمہ کنز الایمان:اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو ‘‘۔۔[سورۃ التوبہ،آیت:۶۵]۔اس 

آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسر قرآن مفتی نعیم الدین مراد آباد علیہ الرحمہ خزائن العرفان میں لکھتے ہیں’’غزوہ تبوک میں جاتے ہوئے منافقین کے تین نفروں میں سے دو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت تمسخراً کہتے تھے کہ ان کا خیال ہے کہ یہ روم پر غالب آجائیں گے ،کتنا بعید خیال ہے اور ایک نفر بولتا تو نہ تھا مگر ان باتوں کو سن کر ہنستا تھا ۔حضور ﷺ نے ان کو طلب فرماکر ارشاد فرمایا کہ تم ایسا ایسا کہہ رہے تھے انہوں نے کہا ہم راستہ کے لئے ہنسی کھیل کے طور پر دل لگی کی باتیں کر رہے تھے ۔اس پر آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور ان کا یہ عذر وحیلہ قبول نہ کیا گیا اور ان کے لئے یہ فرمایا گیا جو آگے ارشاد ہوتا ہے ‘‘۔[سورۃ التوبہ، آیت:۶۵]۔

ارشاد باری تعالی ہے’’لا تَعْتَذِرُواْ قَدْ کَفَرْتُم بَعْدَ إِیْمَانِکُمْ‘‘ترجمہ کنز الایمان‘‘بہانے نہ بناؤ تم کافر ہو چکے مسلمان ہو کر‘‘اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے:اس آیت سے ثابت ہوا کہ رسولِ کرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کُفر ہے جس طرح بھی ہو اس میں عذر قبول نہیں‘‘۔[سورۃ التوبہ،آیت:۶۶]۔
 

 قرآن مجید فرقان حمید میں ایک اور مقام پر ارشاد رب العزت ہے’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُواْ وَلِلکَافِرِیْنَ عَذَابٌ أَلِیْمٌ ‘‘ترجمہ :اے ایمان والو !راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے درد ناک عذا ب ہے‘‘۔ [البقرۃ،آیت:۱۰۴]۔
 

 مذکورہ آیت کریمہ میں’’َلِلکَافِرِیْنَ‘‘ کی تفسیر میں ہے کہ’’لِلکَافِرِیْنَ‘‘میں اشارہ ہے کہ انبیاء علہھم السلام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے‘‘۔
 

 ذرا غور کیجئے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے بہتر اور شاندار نیت کس کی ہو سکتی ہے جو حضور جان عالم ﷺ کے اشارہ ابروپر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے ہر وقت حاضر رہتے تھے ان سے بڑھ کر کس کی نیت محمود ہو سکتی ہے مگر یہ لفظ سرکار دوعالم ﷺ کے شایان شان نہیں اس لئے حرام قرار دیا گیااور اگر اسی نیتِ یہود پر کہے تو یہ کفر ہے ۔
 

 اس طرح کی فلمیں بنانایہودونصاری کی پیروی کرناہے جنھوں نے اپنے دین کوکھیل کوددبنالیاہے ان کے یہاں انبیاء کرام علیہم السلام اوران کے اصحاب وحواریوں کی تعظیم کاوہ تصورنہیں جوالحمدللہ اسلام نے دیاہے اسی لئے یہ یہودونصاری اپنے انبیاء کرام کی کھلی توہین کرنے کوبھی معیوب نہیں سمجھتے بلکہ فخرسے اسے نام نہادآزادی اظہاررائے کہتے ہیں، اپنے انبیاء کرا م علیہم السلام کی زندگی پرمبنی فلمیں ان لوگوں نے بنائیں جس میں انہوں نے ان انبیاء کی شخصیت کوانتہائی مسخ کرکے پیش کیاجیساکہ یوسف پیمبر،ٹین کمانڈزاوردیگرفلمیں اس کی واضح دلیل ہیں گویاانھوں نے اپنے دین اوردینی رہنماؤں کوبھی تفریح کاذریعہ بنالیا،اورایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی ارشادفرماتاہے :’’الَّذِیْنَ اتَّخَذُواْ دِیْنَہُمْ لَہْواً وَلَعِباً وَغَرَّتْہُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا فَالْیَوْمَ نَنسَاہُمْ کَمَا نَسُواْ لِقَاء یَوْمِہِمْ ہَذَا وَمَا کَانُواْ بِآیَاتِنَا یَجْحَدُونَ‘‘جنھوں نے اپنے دین کوکھیل تماشابنالیااوردنیاکی زندگی نے انھیں فریب دیاتوہم انھیں چھوڑدیں گے جیساکہ انھوں نے اس دن کے ملنے کاخیال چھوڑاتھااورجیساہماری آیتوں کاانکارکرتے تھے‘‘۔[سورۃ الاعراف:۵۱]۔
 

 امام المحدثین قاضی عیاض بن موسی مالکی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ﷺ‘‘ کی تقسیم رابع کے باب اول کی فصل خامس میں امت محمد یہ کا متفقہ مذہب بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :’’پانچویں قسم یہ ہے کہ: قائل کانہ توانبیاء کرام علیہم السلام پرنقص لگانے کاارادہ ہواورنہ ہی ان پرعیب لگانے یاان کوبراکہنے کامقصدہولیکن اس کے کلام میں حضور نبی کریم ﷺکے کسی وصف کاذکرہویاحضور ﷺکے کسی ایسے احوال کابیان ہوجودنیاوی حکم کے مطابق آپ کے لئے جائزہواوراس کایہ ذکرکرناضرب المثل کے طورپرہویااپنے یاکسی دوسرے کوصحیح ثابت کرنے کے لئے بطوردلیل ہویااپنے کسی قول وفعل کوآپ ﷺسے تشبیہ دینے کے لئے ہویااس ظلم ورسوائی کوجواس کوپہنچے انبیاء کرام علیہم السلام کیساتھ روا رکھے گئے ظلم وآزمائش کیساتھ تشبیہ دے اوراس کے اس کلام کامقصدنبی کریم ﷺکی اطاعت نہ ہواورنہ ہی تحقیق کرنامقصودہوبلکہ اس کامقصدیہ ہوکہ اپنے یاکسی دوسرے کے لئے سربلندی حاصل ہو،یاتمثیل دینے میں اپنی فوقیت ظاہرکرنامقصودہواورنبی کریم ﷺکی تعظیم وتوقیرمقصودنہ ہویایہ کلام ہنسی مذاق کے طورہو۔مثلاًکوئی یہ کہے کہ’’ اگرمجھ میں برائی کہی جاتی ہے تویہ بات نبی کریم ﷺمیں بھی کہی گئی ہے‘‘ ۔یایہ کہے ’’ا گرمجھے جھٹلایاگیاہے توکیاہواانبیاء کرام علیہم السلام بھی توجھٹلائے گئے ہیں‘‘۔ یایہ کہے کہ’’ میں لوگوں کی زبانوں سے کیابچوں گا،اس سے توانبیاء ورسل علیہم السلام بھی محفوظ نہ رہے‘‘ ۔
آگے مزیدقاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ کچھ شعراء کی بیباکیاں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فَرّمن الخلد واستجار بنا فصبر اللہ قلب رضوان‘‘
ترجمہ :وہ شخص جنت سے بھاگ کرہماری پناہ میں آگیا پس اللہ رضوان(داروغہ جنت) کے دل کو صبر دے۔
اور جیسے حسان مصیصی کا شعر ہے جو اس نے محمد بن عبادجومعتمدکے نام کیساتھ مشہورہے اور اس کے وزیر ابو بکر بن زیدون کی مدح سرائی میں مبالغہ کرتے ہوئے کہا: ’’کأن ابابکر ابوبکر الرضا.....وحسّان حسّان وانت محمد۔
ترجمہ:گویاکہ تیرا وزیر ابوبکر (بن زیدون)ابوبکر صدیق جوپیکررضاتھے ان کی طرح ہے۔۔۔۔اور(میں شاعر) حسان مصیصی حسان(بن ثابت) کی طرح ہوں جونبی کریم ﷺکی نعت کہاکرتے تھے اورتویعنی محمدبن عباد محمد ﷺکی طرح ہے۔

قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ آگے مزیدتحریر فرماتے ہیں :ہماری اس فصل میں کلام کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جومثالیں ہم نے بیان کی لوگ ان سے بچیں کیونکہ اس طرح کے کلام اگرچہ انبیاء وملائکہ علیہم السلام کی سب وشتم (گالی) پرمشتمل نہیں ہیں لیکن اس طرح کے کلام میں ملائکہ اورانبیاء کرام علیہم السلام کی طرف یک گونہ نقصان ضرورمنسوب کیاگیاہے ۔اس طرح کے کلام میں نہ تومنصب نبوت کی توقیرہے اورنہ ہی مقام رسالت کی تعظیم ہے اس میں نہ تواللہ تعالی کے منتخب کردہ ہستیوں کی حر مت کاخیال رکھاگیاہے اورنہ ہی ان کے بلندمرتبہ شرف کوپیش نظررکھاگیاہے ،دنیاوی مال کے حصول کے لئے ممدوح کوجن کیساتھ چاہا(خواہ وہ نبی ہوں یافرشتے ان کیساتھ )تشبیہ دیدی اوراپنے اوپرآنے والے الزام وعیب کوانبیاء کرام علیہم السلام پرالزام لگانے کیساتھ دورکرنے کی کوشش کی اورایسی تمثیل دیدی جس سے اس کی مجلس خوش ہوجائے یاممدوح کی تعریف میں اس لئے مبالغہ کیاکہ اپناکلام عمدہ ہوجائے اورتمثیل بھی ایسی ہستی کیساتھ دی جن کا اللہ تعالی نے مرتبہ بڑھایاہے اوران کے مقام ومرتبہ کواللہ تعالی نے عزت بخشی اوران کی تعظیم وتوقیراوران کیساتھ اچھاسلوک کرنے کوفرض قراردیااوران کے سامنے اونچابولنے اورآوازبلندکرنے کوحرام قراردیا۔
پس اس طرح کاکلام کرنے والاشخص اگرچہ مستحق قتل نہیں لیکن اس کواس طرح کاکلام کرنے پرسزاضروردی جائے اورقیدمیں رکھاجائے اوردیکھاجائے کہ اس کے کلام کی برائی کتنی ہے اوروہ ایسے کلام کاعادی ہے یاکبھی کبھی بکتاہے اوراس کے کلام کاقرینہ(سیاق وسباق) کیاہے اوراپنے کہے پرنادم ہوتاہے یانہیں ،پس ان تمام باتوں کی روشنی میں اس کے حسب حال اس کوسخت سزادی جائے ‘‘۔[الشفا بتعریف حقوق المصطفی، ج:۲،ص:۱۴۶،مکتبہ روضۃ القرآن پشاور]۔
 

 بعینہ یہ تمام صورتحال مذکورہ مسئلہ میں ہے جس میں ایسے ٹیلی ویژن نیٹ ورک کاواضح مقصدمال کمانا اورسستی شہرت کا حصول ہے ،اوریہ فلمیں دکھاناانبیاء علیھم السلام وصحابہ کرام واہلبیت اطہار علیہم الرضوان کی شان میں نقصان اور ان کی وہ عظمتیں اور عزتیں جن کا ہمیں شریعت مطہرہ نے پاس رکھنے کا ہمیشہ حکم دے کر انہیں جان ایمان قرار دیا ۔ان عظیم ہستیوں کی شان ومحبت کو مسلمانان عالم کے دلوں سے نکال باہر کرنے کی خطرناک سازش ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگراس چیز پر روک نہ لگائی گئی تو معاذ اللہ اگلامرحلہ یہ ہوگاکہ ان عظیم ہستیوں کی تصاویر عید کارڈوں پر چھپنے لگیں گی ،اوران مقدس ہستیوں کی اینی میٹیڈ(کارٹون)فلمیں بھی بننے لگیں گی ۔
ایسے ٹی وی چینل کی انتظامیہ پرفرض ہے کہ اس طرح کی فلمیں جس سے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے دکھانابندکرے اوراعلانیہ طورپراس کی معافی بھی مانگے اوراللہ تعالی کی بارگاہ میں سچی توبہ بھی کرے اور اپنے قبلہ کو درست کر لیں اور اپنے مذموم افعال واقوال وکردارسے باز آجائیں بصورت دیگر تمام عالم اسلام پر لازم کہ ان کے خلاف ہرممکن قانونی چارہ جوئی کی جائے اوراس نیٹ ورک اور اس مذموم سازش میں شریک لوگوں کو قرار واقعی سزادی جائے ۔

ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمان اس بات پر شاہد ہیں اور ان کے دل یہ گواہی دے رہے ہیں کہ فلم دی میسج ،ٹین کمانڈزاور ڈرامہ تمثیل حیات طیبہ ضرور بالضرور ان عظیم ہستیوں کی شان میں نقصان اور منصب نبوت ورسالت کی توہین اور خود انبیاء کرام علیھم السلام کی سخت گستاخی اور کفر ہے۔ اور لوگ ان بیہود ہ لوگوں کو ان مقدس ہستیوں کے روپ میں دیکھ کر دو حال سے خالی نہیں ہوں گے سمجھ دار اور علم والے لوگ یقیناًبیزار ہونگے اور سادہ لوح لوگ ان اداکاروں کو مقدس یا نبی یا صحابی سمجھیں گے جو خودایک بہت بڑے فتنے میں ڈالنا ہے کہ غیر نبی کو نبی سمجھناکفر ہے الامان والحفیظ :اللہ عزوجل عقل سلیم عطاء فرمائے اگر انہیں عقل آئے اور توفیقِ توبہ ہو تو ٹھیک ورنہ مسلمان اپنی اپنی بساط کے مطابق ان کے خلاف ہرممکن قانونی واخلاقی اوراحتجاجی جدوجہد شروع کریں اور ایسوں کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔ھذا ماعندی واللہ اعلم

No comments:

Post a Comment