دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Sunday 9 June 2013

بیمہ پالیسی کا شرعی حکم

بیمہ پالیسی کا شرعی حکم

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی طرح کی بیمہ پالیسی کرانا جائز ہے یانہیں؟مفصلاً ارشاد فرمائیں۔

                                                               سائل: عامر شہزاد ،کراچی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الواھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

     بیمہ خواہ زندگی کا ہو یا کسی اور شے کا ناجائز ہے ۔ زندگی کی بیمہ پالیسی تو اس لیے ناجائز ہے کہ یہ جوا، سود اور اس کے علاوہ دیگر مفاسد شرعیہ پر مبنی ہے اور سود کی حرمت پر نصوص قطعیہ وارد ہیں قمار (جوئے) کی صورت تو یہ ہے کہ اگر پالیسی لینے والا شخص پالیسی کی تکمیل سے پہلے مرگیا تو اسے پھر بھی پوری رقم ملے گی۔حالانکہ اس نے بیمہ کمپنی کو جو رقم جمع کرائی تھی وہ کم تھی مثلاً زید 1000000/ کی بیمہ پالیسی لیتا ہے اور اس کی مدت اس نے ۲۰ سال رکھی ۔ مگر وہ ابھی چند قسطیں مثلاً50000/ روپے کے لگ بھگ رقم جمع کرا پایا تھا اس کا انتقال ہوگیا اب اسکے ورثاء بیمہ کمپنی سے پورے 1000000/ روپے وصول کریں گے حالانکہ اس نے تو صرف 50000/روپے ہی جمع کرائے تھے یہ اضافہ خطر(اس کی موت)پرمشروط تھااس لئے قمار(جوا)ہے اور یہ صورت بیمہ کمپنی کے حق میں اس طرح جوا ہے کہ انہوں نے کم وصول کئے اور واپسی زیادہ کر رہے ہیں مثلاً بیمہ کمپنی میں صرف 50000/روپے جمع کرا پایااور وہ مرگیااب کمپنی کو صرف 50000/روپے ملے اور واپس تو 1000000/ رو پے کر رہے ہیں اوراگر پالیسی پوری ہو جائے تو اس پر اضافی رقم ملتی ہے جو کہ سود ہے اور سود حرام قطعی ہے ۔

اگر کوئی کہے کہ یہ جوا یا سود نہیں بلکہ بیمہ کی مد میں لی جانے والی رقم سے بیمہ کمپنی والے کاروبار کرتے ہیں یا اس کی دوسری صورت ہبہ ہو سکتی ہے،اور عاریہ،یا باہمی تعاون اور مسلمانوں کی آپس میں ہمدردی یااس کے علاوہ جائز صورتیں بھی تو ہو سکتی ہیں خواہ مخواہ مسلمانوں کو گناہ گار اور حرام کار قرار دینے سے تو بہتر ہے کہ ان کے افعال کو اچھائی پر محمول کیا جائے اور شریعت مطہرہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کا حکم دیتی ہے اس میں کیا مسئلہ ہے ؟ جس طرح بیمہ کمپنی والے کہتے ہیں کہ ہم اس رقم سے کاروبار کرتے ہیں اور اس سے حاصل ہو نے والی رقم بطور نفع لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اس طرح کااعتراض کئی وجوہ سے درست نہیں اس لئے کہ بیمہ کی مد میں دی جانے والی رقم میں چارصورتیں متصور ہوسکتی ہیں کہ(۱) وہ رقم بطور ہبہ (تحفہ )(۲)بغرض شرکت (۳) بطور قرض (۴) عاریۃ (وقتی استعمال کے لئے)دی گئی ہو گی۔

(۱)ہبہ (گفٹ،تحفہ)تو ہو ہی نہیں سکتاکیونکہ اس میں دوبا رہ لینے کا ارادہ نہیں ہو تا جبکہ بیمہ میں تو اپنی رقم کے علاوہ نفع کے حصول کی نیت بھی ہوتی ہے جس طرح کمپنی والے پہلی ہی قسط پر لوگوں کو دوگنا ہ منافع کے سبز باغ دیکھا دیکھا کر پھنساتے اور بیمہ پالیسی کرانے پر تیار کرتے ہیں اور سادہ لو ح مسلمان ان کے اس جھانسے میں آجاتے ہیں۔

(۲) شرکت کی صورت بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ کاروباری شراکت میں شریعت مطہرہ کے حکم کے مطابق شراکت دار نفع ونقصان نیز اصل سرمائے میں شریک ہوتے ہیں۔ جیسا کہ تنویر الابصار میں ہے ’’ الشرکۃ عبارۃ عن عقد بین المتشارکین فی الاصل والربح ‘‘یعنی ،’’ شرکت ایک ایسے عقد کا نام ہے جو اصل اور نفع میں شریک ہو نے والوں کے درمیان ہو ‘‘۔[درمختار ،ج:۱،ص:۳۷۰،مکتبہ ،مجتبائی ،پاکستان]اور کمپنی والوں کے دعوی کے مطابق بالفرض مان لیں کہ شرکت ہے تو بھی بیمہ کرانا ناجائز ہو گا اس لئے کہ شرکت کے لئے یہ شرط ہے کہ کوئی ایسی شرط نہ پائی جائے جو شرکت کو قطع کرنے والی ہو مثلاً’’ دونوں میں سے کسی ایک کے لئے مقررہ مقدار میں نفع طے کر لینا ‘‘اگر ایسا کیا تو شرکت فاسد ہو جائے گی اس لئے کہ ہو سکتا ہے کاروبار میں اتنی ہی مقدار میں نفع ہو جتنا ایک کے لئے مقرر کیا ہے یا پھراس سے بھی کم ہو تو پھر یہ نفع تو وہی لے لے گا جس کے لئے طے ہو چکا تھا دوسرا کیا لے گا یا نفع بالکل حاصل بھی نہ ہوتوپھر کمپنی کو اپنے گھر سے دینے پڑیں گے اور یوں نفع میں شرکت نہ ہوگی بلکہ یک طرفہ نفع ہو جائے گا ،اور یہ شرکت کے معنی کے خلاف ہے ۔

تنویر الابصار مع درمختارمیں ہے’’ وشرطھا عدم مایقطعھا کشرط دراھم مسماۃ من الربح لاحدھما لا نہ قد لا یربح غیر المسمی وحکمھا الشرکۃ فی الربح ‘‘یعنی،’’ عقد شرکت کی شرط یہ ہے کہ اس چیز کا نہ ہو نا جو اسے ختم کردے ’’ جیسا کہ دونوں میں کسی ایک کے لئے منافع میں متعین درھموں کی شرط طے کرلینا ‘‘ کیونکہ کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ طے شدہ منافع کے علاوہ کو ئی منافع ہی نہ ہو (دوسراکیا لے گا )حالانکہ عقد شرکت کا حکم نفع میں شرکت ہے‘‘۔[درمختار ،ج:۱،ص:۳۷۱،مکتبہ ،مجتبائی ،پاکستان]۔

خلاصہ کلام یہ کہ یہاں بیمہ میں شراکت شرعیہ بھی نہیں پائی جا سکتی جس کی وجہ سے بیمہ کر انے کو جائز قرار دیں۔

باقی رہا قرض اور عاریۃ تو عاریۃ بھی قرض ہی ہوگا کیونکہ پیسے کو استعمال کرکے نفع حاصل ہو گا اور یوں پیسے قائم نہ رہیں گے جب کہ عاریت میں شے بعینہ قائم رہتی ہے اور صرف نفع حاصل کیا جاتا ہے جیسے کسی کی استری کپڑے استری کرنے کے لئے عاریۃ لی جائے تو پھر واپس بھی وہی کی جا تی ہے ۔

درمختار وتنویرالابصار میں ہے’’ عاریۃ الثمنین قرض ضرورۃ استھلاک عینھا ‘‘یعنی،’’ سونا چاندی نقدی کی عاریت قرض ہی ہے کیونکہ اس میں عین (اصل چیز) کو ہلاک کرنا لازمی ہے‘‘۔[ درمختار ،ج:۲،ص:۱۵۶،مکتبہ ،مجتبائی ]۔لہذ عاریہ بھی قرض ہے اس صورت میں بھی بیمہ کرانا جائز نہیں ہو سکتا کیونکہ اس پر ملنے والا مقررہ نفع بغیر کسی عوض کے ہوااور سود کی معروف تعریف بھی یہی ہے کہ ’’الزیادۃالمشروطۃ فی العقد بغیر عوض‘‘ یعنی،’’ عقد میں مشروط کی گئی زیادتی جو بغیر عوض کے ہو سود ہے اور سود قطعا حرام ہے ۔

امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کنز العمال کے حوالے سے حدیث پاک نقل فرماتے ہیں ’’ کل قرض جر منفعۃ فھو ربوٰ‘‘ یعنی،’’ ہر وہ قرض جس میں نفع حاصل ہو وہ سود ہے ‘‘۔[فتاوی رضویہ ،ج:۱۷،ص:۳۷۳،رضافاؤنڈیشن ،لاہور ]۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’ واحل اﷲ البیع وحرم الربوا ‘‘ ترجمۂ کنزالایمان : اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود کو۔اللہ تعالی نے سود کے بارے میں ارشاد فرمایا ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَۃً وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون، وَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ‘‘ ترجمہ کنزالایمان : اے ایمان والو سود دونا دون نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لئے تیار کر رکھی ہے [اٰ ل عمران ۔۱۳ ،۱۳۱] اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَذَرُواْ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ ،فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِکُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ‘‘ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اورچھوڑدو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہوپھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کر لو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کا اور اگر توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ نہ تمہیں نقصان ہو‘‘۔اس آیت کی تفسیرمیں صدرالافاضل سیدمحمدنعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ ’’یہ آیت ان اصحاب کے حق میں نازل ہوئی جو سود کی حرمت نازل ہونے سے قبل سودی لین دین کرتے اور ان کی گراں قدر سودی رقمیں دوسروں کے ذمے باقی تھیں اس میں حکم دیا گیا کہ سود کی حرمت نازل ہونے کے بعد سابق کے مطالبہ بھی واجب الترک ہیں اور پہلا مقرر کیا ہوا سود بھی اب لینا جائز نہیں [سورۃ البقرہ ،آیت ۲۷۸۔۲۷۹]۔

اوراحادیث کثیرہ میں آیاہے کہ سود کا ایک پیسہ لینا اللہ تعالی کے نزدیک سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ مرد اپنی ماں سے زنا کرے حدیث پاک میں ہے کہ’’ قال رسول اللہﷺ ان الربا ابواب الباب منہ عدل سبعین حوبا ادناہ فجرۃ کاضطجاح الرجل مع امہ‘‘ یعنی حضور ﷺ نے فرمایا بیشک سود کے کئی دروازے ہیں ان میں سے ایک دروازہ سترگناہ کے برابر ہے جن میں سے سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ مرد اپنی ماں کے ساتھ ہمبستر ہو‘‘۔[فتاوی رضویہ ج ۱۷ ،ص۲۹۵رضا فاؤنڈیشن]۔

امام اہلسنت مجدددین و ملت امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص سود کا پیسہ لینا چاہے اگر رسول اللہﷺ کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریباں میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر بار زنا ‘‘۔[فتاوی رضویہ ج ۱۷ ،ص۳۰۷رضا فاؤنڈیشن]۔

اس کے علا وہ بیمہ کمپنی کے موجود ہ نظام میں دوسرے بھی کئی شرعی مفاسد مو جو د ہیں مثلا (۱)بیمہ کمپنی اپنے جمع شدہ سرمایہ کو گردش میں رکھنے کے لیے دوسرے صنعتی اور تجارتی اداروں کو سود پر قرض فراہم کرتی ہے اور سود حرام قطعی ہے جیسا کہ اوپر اس کی تفصیل بیان کردی گئی ہے (۲)بیمہ کرانے والے کواگر قرض لیناہو تو بیمہ کمپنی اس کو بھی سود پر قرض دیتی ہے حالانکہ وہ رقم اس کی اپنی ہے(اگرچہ بعض صوتوں میں قرض حسنہ بھی دیتے ہیں ) (۳)بیمہ کمپنی مدت پوری ہونے کے بعد بیمہ کرانے والے کو اس کی اصل رقم مع سود کے لو ٹاتی ہے اور سود لینا دینا دونوں حرام ہیں جس کی وضاحت گزری (۴)مدت پوری ہونے سے پہلے اگر کو ئی شخص طبعی موت مرجائے یا کسی حادثے میں ہلاک ہو جائے تو اس کوپہلی صورت میں پوری مدت کی رقم ،اور دوسری صورت میں دگنی رقم دی جاتی ہے (جیسا کہ پیچھے گزرا)اب اس کو اس کی جمع شدہ اقساط سے زائد رقم جو دی جاتی ہے اس کو اگر شرط لازم قرار دیا جائے (جیساکہ عملاًاسی طرح ہے)تو یہ عقد صحیح نہیں ہے، اور اگر اس کو تبرع اور احسان قرار دیا جائے تو یہ واقع کے خلاف ہے اگر بالفرض تبرع واحسان ہے بھی تو اس غریب کی امداد کیوں نہیں کرتے جو بیمہ پالیسی نہیں کراتا حا لا نکہ وہ انتہائی مجبور ہو تا ہے (۵)زندگی کا بیمہ کرانے والا اپنے کسی وارث کے نام بیمہ کی رقم نامزد کر دیتا ہے اور وہ رقم مرنے کے بعد اس وارث کو ملتی ہے اور یہ نامزدگی وصیت ہے اور اسلام میں وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ’’لاوصیت لوارث ‘‘ یعنی ،وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں ہے ۔[ملخصا ازشرح صحیح مسلم ،ج: ۵،ص:۸۶۵۔۸۶۶،مطبوعہ ،فرید بک سٹال ،لاہور]۔

خلاصہ یہ ہے کہ بیمہ کے لئے ادا کی جانے والی رقم کے ذریعے نفع کا حصول کسی بھی طرح جائز نہیں ہے ۔ زندگی بیمہ کے علاوہ دیگر قسم کی پالیسیوں میں ظلم کی صورت متحقق ہے ۔ وہ اس طرح سے کہ مثلا کوئی شخص کسی مال کا بیمہ کرواتا ہے مگر وہ مال پالیسی کی تکمیل سے پہلے ہی ضائع ہوجائے تو بیمہ کمپنی اس کے نقصان کا ازالہ کرنے کی ذمہ دار ہوگی ۔ حالانکہ یہ نقصان بیمہ کمپنی نے نہیں کیا مگر پھر بھی وہ اس کا ضمان ادا کرنے پر مجبور ہے اور یہ بات صریحاً قرآنی اصولوں کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ فَمَنِ اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَیْْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ ‘‘ترجمہ کنزالایمان : جو تم پر زیادتی کرے تو تم اس پر زیادتی کرلو اسی قدر زیادتی جتنی اس نے تم پر کی۔ ‘[سورۃالبقرۃ آیت ۱۹۴] ۔

اور دوسری بات یہ کہ عام لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے بیمہ کمپنی والوں نے یہ شیطانی کا م کیا کہ مشہور اور مقتدر علماء کر ام کے بیمہ پالیسی کے جواز کے فتوے دیکھاتے ہیں اور کہتے ہیں اتنے بڑے علماء دین نے جائز کہا ہے تو یہ جائز ہی ہے آج کل کے علماء کے کہنے سے حرام تھوڑی ہو جائے گا ؟ جس میں ایک فتوی کے یہ الفاظ ہیں۔(۱)زندگی بیمہ یا لائف انشورنس اصولی طور پر ایک مفید اسکیم ہے جس سے کوئی شہری اپنا اور اپنے بچوں کا معاشی تحفظ حاصل کرتا ہے ۔اسی پہلو کو پیش نظر رکھ کر علماء کرام نے اسے جائز رکھا ہے چنانچہ امام شاہ احمد رضاخان بریلوی نے بھی اسے جائز قرار دیا ہے ۔دیکھو ان کی کتاب احکام شریعت صفحہ ۲۰۲ جلد اول لہذا ہم بھی اسے جائز سمجھتے ہیں ۔(۲)براہ راست چونکہ اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں لہذا جائز ہے)

یہ انشورنس کمپنی والوں کا بہت بڑا دھوکہ ہے ۔ وہ احکامات امام اہلسنت کے اس فتویٰ پر دیئے گئے ہیں جس میں امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ الرحمہ سے گورنمنٹ کی طرف سے بیمہ کا اعلان ہوا تھا اور گورنمنٹ ہی اس کو چلا رہی تھی اس کے بارے میں سوال کیا گیا اور گورنمنٹ خالصتاً کفار کی تھی تو امام اہلسنت نے اس کے جواب فرمایا’’ جب بیمہ گورنمنٹ کر تی ہے اور اس میں نقصان کی کوئی صورت نہیں تو جائز ہے کوئی حرج نہیں مگر شرط یہ ہے کہ اس کے سبب اس کے ذمہ کسی خلاف شرع احتیاط کی پابندی نہ عائد ہو تی ہو جیسے روزوں یاحج کی ممانعت‘‘۔ [احکام شریعت ،حصہ دوم ،ص:۱۸۹،مکتبہ بک کارنر پرنٹرز پبلشرز مین بازار جہلم]۔

اس فتوی میں امام اہلسنت نے ارشاد فرمایا’’ جب بیمہ گورنمنٹ کر تی ہے ‘‘ تواس وقت کی گورنمنٹ کفار کی تھی جس پر اس فتوی میں ہی امام اہلسنت نے ان کے کافر ہو نے کی طرف اشارہ فرمادیا وہ اس طرح کہ آپ نے فرمایا ’’ اس میں (مسلمانوں کے لئے) نقصان کی کوئی صورت نہیں تو جائز ہے کوئی حرج نہیں مگر شرط یہ ہے کہ اس کے سبب اس کے ذمہ کسی خلاف شرع احتیاط کی پابندی نہ عائد ہو تی ہو جیسے روزوں یاحج کی ممانعت‘‘ یہ فتوی فتاوی رضویہ جلد ۲۳،ص:۶۰۱ پر موجود ہے اس میں روزوں یاحج کی ممانعت کا ذکر ہے ان چیزوں سے منع مسلمان تو کرتے نہیں ظاہر ہے جو کافر ہو گا وہی اللہ تعالی کی عبادت روزوں اور حج سے منع کر ے گا۔اور اس کے علاوہ امام اہلسنت کے واضح الفاظ میں فتاوی موجو دہیں جس میں مسلمانوں کو اس کے بارے میں احکام بتائے ہیں چنانچہ مذکورہ فتوے سے چند صفحے پہلے بیمہ پالیسی کے سوال کے جواب میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں ’’ جس کمپنی سے یہ معاملہ کیا جائے اگر اس میں کوئی مسلمان بھی شریک ہے تو مطلقاً حرام قطعی ہے قمار (جوا)ہے اور اس پر جو زیادت ہے ربا( سود )ہے اور دونوں حرام وسخت کبیرہ ہیں ۔اور اگر اس میں کوئی مسلمان اصلاً نہیں تو یہاں جائز ہے جبکہ اس کے سبب حفظ صحت وغیرہ میں کسی معصیت پر مجبور نہ کیا جاتا ہو جواز اس لئے کہ اس میں اپنے نقصان کی شکل نہیں ،اگر بیس برس زندہ رہا پورا روپیہ بلکہ مع زیادت ملے گا ،اور پہلے مر گیا تو ورثہ کو اور زیادہ ملے.....مزید ایک سطر کے بعد فرماتے ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ جو زائد ملے ربا(سود) سمجھ کر نہ لے بلکہ یہ سمجھے کہ غیر مسلم کا مال اس کی خوشی سے بلا غدر(دھوکہ)ملا،یہ حلال ہے ۔ اس کے بعد امام اہلسنت نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی اس شرط کا ذکر فرمایا جو کفار قریش کے ساتھ لگائی تھی رومی ایرانیوں پرغالب آئیں گے اورشرط پوری ہو نے پر آپ نے وہ شرط وصول کر لی اور حضور ﷺ نے اس کی اجازت دی تھی ‘‘ملخصاً۔[فتاوی رضویہ ،ج:۲۳،ص :۵۹۵،رضافاؤنڈیشن ،لاہور]۔

اس بحث کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جس فتوی میں امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ الرحمہ نے بیمہ پالیسی کو جائز قرار دیا ہے یہ وہ پالیسی ہے جوکفار کی طرف سے جاری تھی اور اس میں کو ئی مسلمان حصہ دار نہیں تھا ۔آج بھی اگر دارالحرب میں کفار کی کمپنی جس میں کوئی مسلمان حصہ دار نہ ہو میں زندگی کا بیمہ کرانا جائز ہو گا۔اور اس پر ملنے والا نفع بھی حلال ہوگا اور یہاں پاکستان میں اولاً تو کمپنیاں مسلمانوں کی ہیں ۔ثانیاً کفار کی ہوں بھی تو اس وقت تک حکومت ان کو جاری نہیں کرنے دیتی جب تک اس ملک کے اندر اس کے شیئر فروخت نہ ہو جائیں اور یہاں اگر کوئی کمپنی شیئر فروخت کرتی ہے تو خریدنے کے لئے کفار تھوڑی آئیں گے بلکہ یہاں کے مسلمان ہی خریدیں گے اور اس کمپنی میں حصہ دار ہو جائیں گے اس طرح پاکستان میں کسی بھی بیمہ کمپنی میں کسی قسم کا بیمہ کرانا ناجائز اور حرام ہے ۔اورمسلمانوں کو ہرقسم کی بیمہ پالیسیوں سے حتی المقدور بچنا لازم ہے اس لئے کہ مروجہ بیمہ پالیسی محرمات کا مجموعہ ہیں ۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس برائی سے بچائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم

کتبہ: ابوالجمیل غلام مرتضی مظہری۔اس کی تصدیق رئیس دارالافتاء فیضان شریعت ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اخترالمدنی نے فرمائی ہے۔

No comments:

Post a Comment