دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Friday 14 June 2013

کورٹ سے یک طرفہ خلع کا شرعی حکم

شوہر کی رضامندی کے بغیرعورت یا اس کے گھر والوں کا کورٹ سے خلع حاصل کرلینے کا شرعی حکم؟

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر بیوی خاوند کی عدم موجودگی میں عدالت سے خلع حاصل کرے نہ خاوند کو علم ہو اور نہ ہی خاوند کا وکیل پیش ہواور نہ ہی خاوند کا کوئی نمائندہ پیش ہو بلکہ خاوند کو اس کا علم تک نہ ہو اور بیوی خود خاوند کو بتائے کہ اس نے عدالت سے خلع حاصل کر لیا ہے اور آگے نکاح پڑھا لیاہے تو قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی کیا حیثیت ہے ؟
                           
سائل: سید ممتار احمد بخاری،بہاولنگر پنجاب                             

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

صورت مسؤلہ میں شرعاً خلع نہیں ہوئی عورت بدستور شوہراول کے نکاح میں موجود ہے ۔

     اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ خلع کا معنی ہے میاں بیوی کا باہمی رضامندی سے مال کے بدلے میں نکاح کو ختم کرنا اس طرح کہ بیوی اپنے پاس سے شوہر کو مال دے یا اپنے مہر کے عوض شوہر سے علیحدگی کا مطالبہ کرے اور شوہرقُبول کرلے اور اسے خلع دے تو خلع واقع ہو جائے گی اور اگر شوہر قبول نہ کرے تو خلع واقع نہیں ہوگی اگرچہ یہ خلع نامہ ’’سپریم کورٹ‘‘ ہی سے کیوں نہ جاری ہُوا ہو ۔ ہاں اگر کورٹ سے جاری شدہ خلع نامہ پر شوہر رضامندی کا اظہار کردیتا ہے یا اس پر دستخط کر دیتا ہے تو وہ خلع نافذ ہو جائے گی۔

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ’’ الرجال قوٰمون علی النساء‘‘ترجمہ کنز الایمان :’’ مرد افسر ہیں عورتوں پر ‘‘۔[النساء ،آیت:۳۴]اور طلاق اور خلع دینے کا اختیار شریعت مطہرہ نے انہی افسروں کو دیا ہے ۔اللہ تعا لی کا ارشاد پاک ہے ’’بیدہ عقدۃ النکاح ‘‘ ترجمہ کنز الایمان:’’(طلاق دینے کا اختیار اس کو ہے ) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے ۔[البقرۃ ،آیت:۲۳۷]۔

 شیخ التفسیر والحدیث حکیم الامت مفتی احمد یا ر خان نعیمی بدایونی رضوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس آیت مقدسہ کے تحت ارشاد فرماتے ہیں ’’معلوم ہوا کہ نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں رکھی گئی ہے طلاق کا اس کو حق ہے عورت کو نہیں نہ خلع میں نہ بغیر خلع یعنی خلع میں بھی طلاق مرد کی مرضی پر موقوف ہوگی آج کل عوام نے جو خلع کے معنی سمجھے ہیں کہ عورت اگر مال دے دے تو بہر حال طلاق ہوجائے گی( جس طرح ہمارے ہاں بھی کورٹ سے شوہر کی رضا کے بغیر ہی فیصلہ دے دیا جاتا ہے) خواہ مرد طلاق دے یا نہ دے یہ غلط ہے ‘‘ ۔[کنزالایمان مع تفسیر نور العرفان ص ۶۰ تحت آیت مذکورہ مطبوعہ پیر بھائی کمپنی لاہور
نبی مکرم ، نور مجسم ، شہنشاہ عالم کا ارشاد گرامی بھی ملاحظہ ہو حدیث پاک میں ہے ’’ انما الطلاق لمن ا خذ بالساق‘‘ اخرجہ الطبرانی عن ابن عباس رضی اللہ عنہما‘‘[فیض القدیر ج۸ ص ۳۹۱۶ رقم الحدیث ۵۳۴۹]کہ طلاق اسی کے ہاتھ ہے جسے حق جماع حاصل ہے۔ اور حدیث پاک میں ہے،’’لا طلاق لمن لم یملک۔‘‘ رواہ البیہقی ج۷ ص ۳۱۹ والنظم لہ والحاکم فی مستدرکہ ج۲ ص ۲۰۴ وابن ماجۃ ص ۱۴۸ وابودؤد ج ۱ ص ۲۹۸ والترمذی ج ۱ ص ۱۴۱ فی سننھم’’ یعنی طلاق وہ نہیں دے سکتا جو مالک نہ ہو‘‘ ۔
خلع میں جس طرح شوہر کا قبول کرنا ضروری ہے اسی طرح عور ت کا قبول کرنابھی شرط ہے محض شوہر کے خلع دینے سے خلع نہیں ہوتی اور نہ عورت کے علیحدگی کا فیصلہ کر لینے سے خلع ہوتی ہے ۔

        صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’ مال کے بدلے میں نکاح زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں عورت کا قبول کرنا شرط ہے ،بغیر اس کے قبول کیئے خلع نہیں ہو سکتا اور اس کے الفاظ معین ہیں ان کے علاوہ اور لفظوں سے نہ ہوگا ‘‘۔[ بہارشریعت ،ج:۱،حصہ:۸خلع کا بیان
شرعاًخلع کے دو طریقے ہیں ایک یہ ہے کہ عورت اپنے حق مہر کل یا بعض سے دستبردار ہو جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ عورت اپنی طرف سے مال دے کر اپنی گلو خلاصی کرائے یہ دونوں صورتیں عورت کے لئے اس وقت جائز ہیں جب میاں بیوی کے درمیان اختلافات اتنے بڑھ جائیں کہ صلح کی کوئی صورت نہ رہی ہو۔۔اس دوسری صورت کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ’’ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُودَ اللّہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہِ تِلْکَ حُدُودُ اللّہِ فَلاَ تَعْتَدُوہَا وَمَن یَتَعَدَّ حُدُودَ اللّہِ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ ‘‘ ۔ ترجمہ کنز الایمان : ’’ پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں ٹھیک انہی حدوں پر نہ رہیں گے تو ان پر کچھ گنا ہ نہیں اس میں جو بدلہ دے کر عورت چھٹی (خلع)لے یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں ‘‘۔[ البقرہ ،آیت :۲۲۹]۔
فتاوی عالمگیری میں ہے’’ اذا تشاق الزوجان وخافا ان لا یقیما حدود اللہ فلا بأس بان تفتدی نفسھا منہ بمال یخلعھا بہ فاذا فعلا ذلک وقعت تطلیقۃ بائنۃ ‘‘ یعنی ’’ میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہو جائے اور ان کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو عورت پر کو ئی گناہ نہیں کہ وہ کچھ مال دے کر اپنی جان چھوڑائے ،پس جب یہ کرلیں گے تو ایک بائنہ طلاق واقع ہو جائے گی ‘‘۔[ فتاوی عالمگیری ، الباب الثامن فی الخلع وما فی حکمہ،ج:۱،ص:۵۱۹،مکتبہ ،قدیمی کتب خانہ ،کراچی

الدرالمختار میں ہے ’’ لا بأس بہ عند الحاجۃ للشقاق بعد م الوفاق‘‘ یعنی ،’’ ضرورت کے وقت عورت کے لئے خلع لینے میں کوئی حرج نہیں جبکہ اختلافات کی وجہ سے اتفاق ناممکن ہو ‘‘۔

اس کے تحت ردالمحتار میں علامہ شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’ ای لو جود الشقاق وھو الاختلاف والتخصم وفی القھستانی عن شرح الطحاوی :السنۃاذا وقع بین الزوجین اختلاف ان یجمع اھلھما لیصلحوا بینھما ،فان لم یصلطلحاجاز الطلاق والخلع‘‘ یعنی،’’ اس لئے عورت کے لئے خلع لینے میں حرج نہیں کہ ان دونوں کے درمیان نااتفاقی اور جھگڑاپیدا ہو گیا ہے اور قھستانی میں شرح طحاوی سے منقول ہے کہ جب زوجین کے درمیان اختلاف پیدا ہو جائیں تو وہ اپنے گھر والوں کو جمع کریں اور وہ ان دونوں کے درمیان صلح کرا دیں اگر صلح ممکن نہ ہو تو عورت کے لئے طلاق یا خلع لینا جائز ہے ‘‘۔ [الدرالمختار ردالمحتار،ج:۵،ص:۸۷،مکتبہ امدادیہ ،ملتان] ۔

یہ خلع کے واقعات آج کے نہیں بلکہ حضور کے زمانہ اقدس میں بھی خلع کا ایک واقعہ ہوا تھا اور حضور نے خود ان دونوں کا نکاح فسخ کر کے خلع کی ڈگری جاری نہیں فرمائی بلکہ طریقہ بتایا اس طرح کرو۔ ’’ عن ابن عباس ان امرأۃ ثابت بن قیس اتت النبی فقالت یارسول اللہ ثابت بن قیس ما اعتب علیہ فی خلق ولا دین ولکنی اکرہ الکفر فی الاسلام فقال رسول أتردین علیہ حدیقتہ قالت نعم قال رسول اقبل الحدیقۃ وطلقھا تطلیقۃ‘‘،’’رواہ البخاری‘‘ یعنی ،’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضور کی خدمت میں حاضر ہو ئیں عرض کیا یارسول اللہ مجھے حضرت ثابت بن قیس کی عادت و دین میں کو ئی اعتراض نہیں مگر میں اسلام میں کفر کو پسند نہیں کرتی (یعنی ان کا دین واسلام تو مجھے پسند ہے ،لیکن میں ان کے پاس رہنا پسند نہیں کرتی) رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کیا تم ان کا (مہر میں لیا ہوا)باغ لوٹا دو گی وہ بولیں ہاں ،رسول نے(حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو) فرمایا ،باغ قبو ل کر لو اور انہیں ایک طلاق دے دو ‘‘ اس حدیث پاک کو بخاری نے روایت کیاہے۔[ مشکوۃ کتاب النکاح ،باب الخلع والطلاق ،ص:۲۹۱، مکتبہ رحمانیہ،لاہور

خلع کے بارے میں اوپر قرآن وحدیث کی روشنی سے یہ بات ثابت ہوئی کہ خلع صرف اور صرف شوہر دے سکتا ہے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے کو کسی شخص کی بیوی کو خلع دینے کا اختیار نہیں اس لئے کہ حضور اکرم سے بڑا قاضی کون ہے کہ یک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کردے جب حضو راکرم نے خود سے خلع کی ڈگری جاری نہیں فرمائی بلکہ ان کو خلع کا طریقہ بتایا تواور دنیا میں کون ہے جو شوہر کی رضامندی کے بغیر بیوی کوخلع کی ڈگری جاری کر دے۔

لہذا صورت مسؤلہ کی وضاحت باخوبی ہو گئی ہے کہ اگر دونوں زوجین (میاں بیوی)یا ان میں کسی ایک کی عدم رضا و بلااجازت کورٹ سے خلع یا طلاق حاصل کی جائے تو وہ شرعی معیار کے مطابق نہیں ہوئی لہذاطلاق بھی نہیں ہوئی۔ اور بیوی بدستور اس پہلے شوہر کے نکاح میں رہے گی اور بیوی کا دوسری جگہ نکاح کرنا حرام ہے اور ہر قربت حرام کاری ہو گی ۔ اللہ تعالی نے دوسرے کی زوجہ سے نکاح کر نے کو بھی حرام فرمایا ہے جس کا ذکر قرآن کریم کے پارہ نمبر پانچ کی ابتدا میں ہے’’ والمحصنٰت من النساء ‘‘کہ حرام کی گئی ہیں تم پرشادی شدہ عورتیں۔

ہاں عدالت چند مخصوص شرائط کے ساتھ بعض صورتوں میں تنسیخ نکاح کر سکتی ہے۔ان میں کچھ یہ ہیں (۱)شوہر بیوی کو نفقہ نہ دیتا ہو اور ،ظالمانہ انداز مین مار پیٹ کرتا ہو ،اس کے حقوقِ زوجیت ادا نہ کرتا ہو اور اسے معلق حالت میں روکے رکھنا چاہتا ہو ،یعنی اسے بیوی کے طور پر رکھے اور نہ طلاق دے کر آزاد کرے ۔(۲)عورت جوان ہے اور شوہر ایسے موذی مرض میں مبتلا ہے کہ حقوقِ زوجیت ادا کرنے پر قادر نہیں ہے یا وہ اس کی اہلیت ہی نہیں رکھتا اور عورت کے اس صورتِ حال کی بنا پر گناہ میں مبتلا ہو نے کا اندیشہ ہے ۔(۳)عورت جوان ہے اور شوہر کو دس ،پندرہ ،بیس سال یا عمر قید کی سزا ہو گئی ہے اور عورت کے لئے اپنے نفس پر قابو پانا دشوار ہے ،اس کے گناہ میں مبتلا ہو نے کا اندیشہ ہے مندرجہ بالا وجوہ کی بناء پر جب قاضی مجاز یا عدالت نکاح کو فسخ کرے تو یہ ’’ طلاق بائن‘‘ کے درجے میں ہے۔ [ملتقطاً از تفہیم المسائل ،ج:۳،ص؛۲۶۹]۔

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمار ی پاکستان اور کچھ دیگر ممالک مروجہ کورٹ تنسیخ نکاح نہیں کرتی بلکہ خلع دیتی ہے اور تنسیخ اور خلع میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔تنسیخ نسخ سے ہے اورنسخ کا معنی ہے ختم کردینا توڑ دینا اور تنسیخ نکاح کا معنی ہو گا میاں بیوی کے درمیان قاضی شرعی یا حاکم اسلام کی طرف سے ماذؤن قاضی(جس کو حکومت وقت کی طرف شرائط کے ساتھ نکاح فسخ کرنے کی اجازت ہو) کا شرائط پائے جانے کی صورت میں نکاح ختم کر دینایا توڑ دینا اور موجودہ پاکستانی قانون کے مطابق کسی عدالت کو چاہے سپریم کورٹ ہو کو نکاح فسخ کرنے کی حکومت وقت کی طرف سے اجازت نہیں ہے۔ اورجس کی اجازت ہے وہ خلع ہے اور شرعاً شوہر کی رضامندی کے بغیر کسی بھی فرد کو دوسری کی بیوی کو خلع دینے کا اختیار نہیں ہے ۔کورٹ جو فیصلہ دیتی ہے اس کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ خلع ہے نیز معنوی طور پر بھی یہ خلع ہی ہے کیونکہ خلع میں ہی عموماً مہر کی معافی ہوتی ہے ۔جبکہ تنسیخ نکا ح میں مہر معاف نہیں ہوتا اگر رخصتی ہو چکی ہے تو مرد پر مہر لازم ہوتا ہے ۔

    خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب تک شوہر بازنی یا تحریری طور پر اپنی بیوی کو خلع نہ دے یا کورٹ کی ڈگری پر سائن نہ کر دے خلع نہیں ہوتی عورت بدستوراپنے شوہر کے نکاح میں ہے اس کا دوسری جگہ پڑھایا گیا نکاح شرعا باطل ہے ایسوں پر فرض ہے کہ فوراً فوراً ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں سچی توبہ کریں۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم

ابوالجمیل غلام مرتضٰی مظہر ی نے اس کو رلکھا ہے اور رئیس دارالافتاء ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اخترا لمدنی نے اس کی تصدیق فرمائی ہے۔

No comments:

Post a Comment