دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Monday 10 June 2013

دعوت میت کا شرعی حکم


دعوت میت کا شرعی حکم

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض جگہوں میں فوتیدگی والے دن مہمانوں کے لئے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے خواہ میت کے گھر والے کریں یا برداری والے ایساانتظام کرنا عندالشرعی کیساہے ؟اور تیسرے دن گھر گھر جا کر دعوت دینا کہ آج میت کے گھر ختم ہے آپ اس میں شرکت کریں اور پھر ان کے لئے پُر تکلف کھانے کا اہتمام کرنا اور لوگوں کا کھانا کیساہے ؟ 

                                                  سائل: حافظ مہتاب سرور عباسی،کراچی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

جس گھر میں میت ہو جائے تو محلہ والوں کے لئے سنت طریقہ یہ ہے پہلے دن کا کھانا پکا کر میت والوں کودیں اور اگر نہ کھائیں تو باصرار کھلائیں یہ کھانا اتنا ہو کہ میت کے گھر والوں کو پورا ہو جائے اور باقی لوگ جو محلہ والے میت کے گھر جمع ہیں انہیں اور جو میت کو دفن کرنے کے بعدواپس آئیں انہیں میت کے گھر کھانا کھانا منع ہے ۔

امام اہلسنت اما م احمد رضا خان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ’’ اگرچہ صرف ایک دن یعنی پہلے ہی روز عزیزوں کو ہمسایوں کو مسنون ہے کہ اہل میت کے لیے اتنا کھانا پکوا کر بھیجیں جسے وہ دو وقت کھا سکیں اور باصرار انہیں کھلائیں ، مگر یہ کھانا صرف اہل میت ہی کے قابل ہونا سنت ہے اس میلے کے لیے بھیجنے کا ہرگز نہیں اور ان لیے بھی فقط روز اول کا حکم ہے ، آگے نہیں ‘‘۔[فتاوی رضویہ ، ج: ۹،ص: ۶۶۲، مکتبہ رضا فاؤنڈیشن لاہور ]۔

اہل میت کے علاوہ جو وہاں موجود ہوں جیسے عام رواج ہے کہ میت کے گھر خاص طور پر عورتیں بہت جمع ہوتی ہیں اور منہ بنا بنا کر روتی ہیں اور چیخ چیخ کر ایک دوسرے کے گلے لگتی ہیں اور کہتی ہیں ہائے او فلاں ہائے او میرا فلاں وغیرہ یہ سب حرام ہے لہذا ایسے مجمع کو یا جو میت کو دفن کرنے کے بعد واپس میت کے گھرآئیں کو کھانا کھلانا ضیافت ہے اورمیت کی طرف سے ضیافت ناجائز ہے بلکہ دفن کرنے والوں کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ کھانا کھائے بغیر میت کے وارث سے اجازت لے کر چلے جائیں اور اپنے اپنے گھر جا کر کھاناکھائیں۔

امام اہلسنت اما م احمد رضا خان رضی اللہ تعالی عنہ مزید فرماتے ہیں ’’ یہ عورتیں کہ جمع ہوتی ہیں افعالِ منکرہ کرتی ہیں ،مثلاً چلاّ کر رونا پیٹنا ،بناوٹ سے منہ ڈھانکنا ،الی غیر ذالک ۔یہ سب نیاحت (نوحہ)ہے اور نیاحت حرام ہے ۔ایسے مجمع کے لئے میت کے عزیزوں اور دوستوں کو بھی جائز نہیں کہ کھانا بھیجیں کہ گنا ہ کی امداد ہو گی قال اللہ تعالی ’’ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ‘‘یعنی،گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔[فتاوی رضویہ ، ج: ۹،ص: ۶۶۵، مکتبہ رضا فاؤنڈیشن لاہور ]۔

اہل میت کے علاوہ کو کھانا کھلانا خواہ میت والوں نے تیا ر کیا ہو یا محلہ والوں نے یہ دعوت خود ناجائز وبدعت شنیعہ قبیحہ ہے مسند احمد بن حنبل اور ابن ماجہ سنن میں بہ سند صحیح حضرت جریر بن عبداللہ بجلی سے راوی ’’ کنا نعد الاجتماع الی اھل المیت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ ‘‘یعنی’’ ہم گروہ صحابہ اہل میت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے کھانا تیار کرانے کو مردے کی نیا حت سے شمار کرتے تھے ‘‘۔[سنن ابن ماجہ باب ماجاء فی النھی عن الاجتماع،ص:۱۱۷،مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی،کراچی

امام محقق علی الاطلاق فتح القدیر شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں ،’’یکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من اہل المیت لانہ شرع فی السرور لافی الشرور وھی بدعۃ مستقبحۃ ‘‘یعنی ’’اہل میت کی طرف سے کھانے کی ضیافت تیار کرنی منع ہے کہ شرع نے ضیافت خوشی میں رکھی ہے نہ کہ غمی میں ، اور یہ بدعت شنیعہ ہے ‘‘۔[ٖفتح القدیر فصل فی الدفن ،ض؛۲،ص:۱۰۲،مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر

          باقی رہا مسئلہ سوئم کے دن گھر گھر جا کر دعوت دینے کاتواس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ سوئم کا کھاناہمارے عرف میں ایصال ثواب کی نیت سے تیا ر کیا جاتا ہے اس لئے اسے سوئم کی فاتحہ کہتے ہیں لوگوں کو بطور دعوت اس میں بلایا تو اس کو دعوت کا نام دینے سے دعوت نہیں ہو جائے گی بلکہ ایصال ثواب کے لئے ہی رہے گا لیکن اگر نیت ہی دعوت اور مہمان داری ہو تو یہ بدعت سیۂ ہے ۔

امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں’’ مدار کا رنیت پر ہے انما الاعمال بالنیات ۔تو جو کھانا فاتحہ کے لئے پکایا گیا ہے بلاتے وقت اسے بلفظِ دعوت تعبیر کرنا اس نیت کو باطل نہ کرے گا ،جیسے کسی نے اپنے محتاج بھائی بھتیجوں کو عید کے اور کچھ روپیہ دل میں زکوٰۃ کی نیت زبان سے عیدی کا نام کر کے دیئے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ،عیدی کہنے سے وہ نیت باطل نہ ہو گی۔معہذا اپنے قربیوں عزیزوں کے مواسات بھی صلہ رحم وموجبِ ثواب ہے اگرچہ وہ اغنیاء ہوں قد عرف ذلک فی الشرع بحیث لا یخفی الاعلی جاھل(جیسا کہ شریعت میں یہ ایسا معروف ہے کہ کسی جاہل ہی سے مخفی ہو گا )اور آدمی جس امر پر خود ثواب پائے وہ کوئی فعل ہو اس کا ثواب میت کو پہنچا سکتا ہے ،کچھ خاص تصدق ہی کی تخصیص نہیں ۔یوں بھی اس نیتِ محمود میں کچھ خلل نہیں ،اگرچہ افضل وہی تھا کہ صرف فقراء پر تصدق کرتے کہ جب مقصود ایصال ثواب تو وہی کام مناسب تر جس میں ثواب اکثر ووافر ،پھر بھی اصل مقصود مفقود نہیں جبکہ نیت ثواب پہنچانا ہے ۔ہاں جسے یہ مقصود ہی نہ ہو بلکہ دعوت ومہمان کی نیت سے پکائے ،جیسے شادیوں کا کھانا پکاتے ہیں تو اسے بیشک ثواب سے کچھ علاقہ نہیں ،نہ ایسی دعوت شرع میں پسند نہ اس کا قبول کرنا چاہئے کہ ایسی دعوتوں کا محل شادیاں ہیں نہ کہ غمی ۔ولہذا علماء فرماتے ہیں کہ یہ بدعت سیۂ ہے ۔جس طرح میت کے یہاں روزِ موت سے عورتیں جمع ہوتی ہیں اور ان کے کھانے دانے ،پان ،چھالیا کا اہتمام میت والوں کو کرنا پڑتا ہے ۔وہ کھانا فاتحہ وایصالِ ثواب کا نہیں ہوتا بلکہ وہی دعوت ومہمان دار ی ہے کہ غمی میں جس کی اجازت نہیں۔[ فتاوی رضویہ ،ج:۹،ص:۷۰،رضافاؤنڈیشن لاہور

مزید امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن تحریر فرماتے ہیں’’ میت کے گھر کا کھانا(جو بطور مہمان کے پکایا گیا ہو)تو البتہ بلا شبہ ناجائز ہے جیسا کہ فقیر نے اپنے فتوی میں مفصلاً بیان کیا ،اور سوئم کے چنے بتاشے کہ بفرض مہمانی نہیں منگائے جاتے بلکہ ثواب پہنچانے کے قصدسے ہوتے ہیں ،یہ اس حکم میں داخل نہیں ،نہ میرے فتوی میں ان کی نسبت کچھ ذکر ہے،یہ اگر مالک نے صرف محتاجوں کے دینے کے لئے منگائے اور یہی اس کی نیت تو غنی کو ان کا بھی لینا جائز نہیں،اور اگر اس نے حاضر ین پر تقسیم کے لئے منگائے تو اگر غنی بھی لے لے تو گنہگار نہ ہو گا اور یہاں بحکم عرف ورواج عام حکم یہی ہے کہ وہ خاص مساکین کے لئے ہوتے تو غنی کو بھی لینا ناجائز نہیں اگرچہ احتراز زیادہ پسندیدہ ،اوراسی پر ہمیشہ سے اس فقیر کا عمل ہے ‘‘۔[ فتاوی رضویہ ،ج:۹،ص:۶۷۲،رضافاؤنڈیشن لاہور

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اہل میت کے لئے ہمسایوں اور رشتہ داروں کا پہلے دن دو وقت کاکھانا بھیجنا سنت ہے جو کہ صرف اہل میت کے لئے ہو کھانا بھی بھیجیں اور ان کوبیٹھا کراصرار کے ساتھ کھانا کھلائیں بھی ۔اور اس کے علاوہ عورتیں یا مردجو میت کے گھر موجود ہو ں یا جو میت کو دفن کرنے کے بعد واپس آئیں ان کے لئے کھانا تیارکرنا بدعت سئیہ اور گناہ ہے ۔اورسوئم کے کھانے پکانے میں لوگوں کا عرف یہی ہے کہ یہ ایصالِ ثواب کی نیت سے پکاتے ہیں اس میں اصل تصدق کے مستحق فقراء ہیں لیکن اغنیاء بھی کھا لیں توصدقہ کا ثواب ملے گا لیکن ان اغنیاء کے لئے بچنا بہتر ہے ۔اور اگرسوئم کے کھانے سے مقصود ایصالِ ثواب نہیں بلکہ بطور دعوت پکاناہو اور اس کے لئے لوگوں کو دعوت دینا ہو تو یہ کھانا پکانا اور دعوت دینا اور اس دعوت کو قبول کرنا ناجائز اور گناہ ہے ۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم


اس کو ابوالجمیل غلام مرتضیٰ مظہری نے لکھا ہے اور اس کی تصدیق رئیس دارالافتاء فیضان شریعت ابُوالحسنین مفتی محمدوسیم اخترالمدنی نے فرمائی ہے۔


No comments:

Post a Comment