دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Thursday 13 June 2013




آرٹیفشل جیولیری پہننے کا شرعی حکم



لوہے (آرٹیفشل)کی جیولری پہن کر عورت نمازپڑھے تو نماز ادا ہو جاتی ہے ؟
                                                                                                سائل: شوکت علی انصاری ،سیالکوٹ

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

فی زمانہ عرف وتعامل کی وجہ ’’آرٹیفشل جیولری‘‘کاپہنناعورتوں کے لئے جائز ہے اورمردوں کے لئے سوائے چاندی کی ایک نگ والی انگوٹھی جوایک مثقال سے کم ہوکے علاوہ ہرقسم کی دھات کازیورناجائزوحرام ہے۔امام اہل سنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن نے جس حدیث (ذیل میں اس کاذکرآئیگا)میں عموم علت کااعتبار کرتے ہوئے مردوں اورعورتوں کیلئے ممانعت بیان کی اس میں’’عرف وتعامل ‘‘کی بناء پرتخصیص کریں گے جس سے عورتوں کاجوازاورمردوں کاعدم جوازباقی رہے گاکیونکہ عرف وتعامل ایسے قواعدشرعیہ ہیں جن کے ساتھ نص میں تخصیص کرناجائزہے (حدیث پاک یہ ہے)

’’قال النبی ﷺلرجل علیہ خاتم من شبہ مالی اجدمنک ریح الاصنام فطرحہ ثم جاء وعلیہ خاتم من حدیدفقال مالی اری علیک حلیۃ اہل النارفطرحہ فقال یارسول اللہ ﷺمن ای شیء اتخذہ ؟قال :من ورق ولاتتمہ مثقالاً‘‘یعنی نبی کریم ﷺنے اس مردکوجس نے پیتل کی انگوٹھی پہن رکھی تھی ‘فرمایا:’’کیابات ہے کہ میں تم سے بتوں کی بوپاتاہوں؟اس نے وہ انگوٹھی اتاردی ،پھرآیاتولوہے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی ۔حضوراکرم ﷺنے فرمایا:’’کیابات ہے کہ میں تم پرجہنمیوں کازیوردیکھ رہاہوں تواس نے وہ بھی اتاردی اورعرض کیا،یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم!میں کس چیزکی انگوٹھی بناؤں؟توحضوراکرم ﷺنے ارشادفرمایا:’’چاندی کی انگوٹھی بناؤاورایک مثقال (ساڑھے چارماشے)پورانہ کرنا‘‘۔[مشکوٰۃ، ص:۳۹۱،مطبوعہ رحمانیہ کتب خانہ لاہور پاکستان

اس حدیث سے امام اہل سنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن نے مردوعورت دونوں کی حرمت ثابت کی ہے۔جیساکہ آپ فرماتے ہیں:’’چاندی سونے کے سوا،لوہے،پیتل،رانگ کازیورعورتوں کوبھی مباح نہیں،چہ جائیکہ مردوں کے لئے ‘‘۔[فتاویٰ رضویہ،ج۲۲،ص:۱۵۳ رضافاؤنڈیشن ،لاہور

     ایسے ہی علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’یعنی لوہے ،پیتل ،تانبے اورقلعی کی انگوٹھی مردوں اورعورتوں کوپہننامکروہ ہے ‘‘۔[شامی،ج:۹،ص:۵۱۸فصل فی اللبس]
      لیکن چونکہ آرٹیفشل جیولری پرعرف وتعامل ہوچکاہے کہ ہرعام وخاص ،امیروغریب،عوام وعلمائے کرام کی عورتیں استعمال کرتی ہیں، لہٰذاعرف وتعامل کااعتبارکرکے نص کی تخصیص مردوں کے ساتھ کریں گے اورعورتوں کیلئے حکم جوازہوگا۔

      علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’ان العرف معتبران کان عاماً فان العرف العام یصلح مخصصاً کمامرعن التحریرویترک بہ القیاس ‘‘یعنی بے شک عرف معتبرہوتاہے اگرعام ہوکیونکہ عام تخصیص (فی النص)کی صلاحیت رکھتاہے ،جیسا کہ تحریر کے حوالے سے گزرا اور اس کی وجہ سے قیاس کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔[رسائل ابن عابدین،جز۲،ص:۱۱۶
 

      دوسری جگہ کچھ وضاحت کے ساتھ فرماتے ہیں:’’قال فی الذخیرۃ فی الفصل الثامن من الاجارات فی مسئلۃ مالودفع الی حائک غزلاًینسجہ بالثلث ومشائخ بلخ کنصیربن یحیٰ ومحمدبن سلمۃ وغیرہماکانوایجیزون ہٰذہ الاجارۃفی الثیاب لتعامل اہل بلدہم فی الثیاب والتعامل حجۃ یترک بہ القیاس ویخص بہ الاثروتجویزہٰذہ الاجارۃ فی الثیاب للتعامل بمعنیٰ تخصیص النص الذی وردفی قفیزالطحان لان النص وردفی قفیزالطحان لافی الحائک نظیرہ فیکون وارداًفیہ دلالۃ فمتیٰ ترکناالعمل بدلالۃ ہذہ النص فی الحائک وعملنابالنص فی قفیزالطحان کان تخصیصاًلاترکاًاصلاًوتخصیص النص بالتعامل جائزًا الاتری اناجوزناالاستصناع للتعامل والاستصناع بیع مالیس عندہ الانسان لاترک للنص اصلاً لاناعملنابالنص فی غیرالاستصناع ‘‘یعنی ذخیرہ میں کتاب الاجارہ کی آٹھویں فصل میں جہاں پہ یہ مسئلہ بیان ہواہے کہ کسی کو کاتنے کیلئے سوت دیااوراس کی اجرت اسی کپڑے کی تہائی مقررکی،بلخ کے مشائخ مثل نصیربن یحییٰ اورمحمدبن سلمہ وغیرہمانے کپڑے کے اس اجارے کوجائزقراردیاہے کیونکہ ان کے علاقے میں اس کاتعامل ہے اورتعامل ایک ایسی حجت ہے جس کی وجہ سے قیاس کوبھی چھوڑدیاجاتاہے اورروایت میں تخصیص کردی جاتی ہے اورکپڑوں کی بنائی میں تعامل کی وجہ سے اس اجارہ کوجائزقرار دینے کامطلب اس حدیث میں تخصیص کرناہے جوقفیزطحان کے بارے میں واردہوئی کیونکہ وہ نص قفیزطحان کے بارے میں واردہوئی تھی نہ کہ حائک کے بارے میں (حائک )اس کی نظیرہے اس لئے وہ دلالۃً اس کے بارے میں بھی ہوگی پھرجب ہم نے کپڑابننے والے کے بارے میں اس حدیث پرعمل نہیں کیا اورآٹاپیسنے والے کے پیمانے (قفیزطحان)کے بارے میں اس حدیث پرعمل کیاتویہ حدیث کی تخصیص ہوئی حدیث کوچھوڑنانہ ہوااورتعامل کی وجہ سے حدیث کی تخصیص کرناجائز ہے کیاتونے نہ دیکھاکہ ہم نے استصناع کوجائزقراردیاحالانکہ اس میں ایسی چیزکوبیچاجاتاہے جوبائع کے پاس نہیں ہوتی اورایسی بیع کرنے کی حدیث میں ممانعت آئی ہے اوراستصناع کوتعامل کی وجہ سے جائزقراردینااس حدیث میں تخصیص کرناہے جواس چیزکی بیع کی ممانعت کے بارے میں واردہوئی تھی جوانسان کے پاس موجودنہ ہوتواس سے حدیث کوچھوڑنانہیں ہے کیونکہ ہم اس حدیث پراستصناع کے علاوہ دوسری چیزوں میں عمل کرتے ہیں‘‘۔[شرح عقودرسم المفتی ،ص:۴۰
       امام اہل سنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’علماء کرام جس کوعرف فرماتے ہیں وہ قیاس پرقاضی ہے اورنص اس سے متروک نہ ہوگامخصوص ہوسکتاہے وہ یہی عرف حادث شائع ہے کہ بلادکثیرہ میں بکثرت رائج ہو‘‘۔[فتاویٰ رضویہ ،ج:۱۹،ص:۶۰۶،رضافاؤنڈیشن لاہور

      اس کے علاوہ علمائے کرام نے ان کے جوازکی صراحت بھی کردی ہے ’’عالمگیری ‘‘میں ہے:’’لابأس للنساء بتعلیق الخرزفی شعورہن من صفراء اونحاس اوشبہ اوحدیدونحوہماللزینۃ ولسوارمنہا‘‘یعنی،’’ عورت کازینت کی وجہ سے ،پیتل ،تانبے یالوہے وغیرہ کی چٹیابناکربالوں میں لٹکانایاان کے کنگن بناکرپہننااس میں کوئی حرج نہیں ہے ‘‘۔[عالمگیری،ج:۵،ص:۴۳۹مکتبہ قدیمی کتب خانہ کراچی

             ۔حاصل کلام یہ ہے کہ فی زمانہ عورتوں کے لئے آرٹیفیشل زیورات پہننا جائز اور اسے پہن کر نانماز جائز ہے اس میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔واللہ اعلم ورسولہ اعلم

ابوالجمیل غلام مرتضی مظہری نے اس کو لکھا اور رئیس دارالافتاء فیضان شریعت ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اخترا لمدنی نے اس کی تصدیق فرمائی۔

No comments:

Post a Comment