دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Monday 4 May 2015

امام مہدی ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مسٹر غامدی کے تصورات۔۔۔۔قسط:10

امام مہدی ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مسٹر غامدی کے تصورات
مسٹر غامدی نے اپنی کتب میں ظہور امام مہدی اورحضرت عیسٰی علیہ السلام کی دوبارہ آمدکا اپنے من گھڑت اور خودساختہ اصول کی بنیاد پر انکار کیا ہے۔
مسٹر غامدی اپنی کتاب میزان میں لکھتے ہیں’’ ظہور مہدی اور مسیح علیہ السلام کے آسمان سے نزول کو بھی قیامت کی علامات میں شمارکیا جاتا ہے ،ہم نے ان کا ذکر نہیں کیا، اس کی وجہ یہ ہے ظہور مہدی کی روایتیں محدثانہ تنقید کے معیار پر پوری نہیں اترتیں، ان میں کچھ ضعیف ہیں اور کچھ موضوع ہیں، اس میں شبہ نہیں کہ بعض روایتوں میں جو سند کے لحاظ سے قابل قبول ہیں ایک فیاض خلیفہ کے آنے کی خبر دی گئی ہے، لیکن دقت نظر سے غور کیا جائے تو صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اس کا مصداق سیّدنا عمر بن عبدالعزیز تھے جو خیر القرون کے آخری خلیفہ بنے۔۔۔ نزول مسیح کی روایتوں کو اگرچہ محدثین نے بالعموم قبول کیا ہے، لیکن قرآن مجید کی روشنی میں دیکھیئے تو وہ بھی محل نظر ہیں۔‘‘ [میزان، ص:۱۷۷،۱۷۸]۔
مسٹر غامدی کی یہ عبارت تضادات کا مجموع ہے ایک طرف وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ امام مہدی کے بارے میں بعض روایات سند کے اعتبار سے قابل قبول ہیں اور دوسری طرف وہ تمام روایتوں کو ناقابل اعتبار ٹھہراتے ہیں ۔تنقید کا اتنا اعلیٰ معیار قائم کیا ہے کہ بغیر کوئی حدیث ذکر کیے اور بغیر کسی سند اور راوی کی خرابی بیان کیے بیک جنبش قلم تمام احادیث کو خود ساختہ محدثانہ تنقیدکے معیار سے کم تر قرار دے دیا ۔اور نزول عیسیٰ علیہ السلام کی روایات ان کی محدثانہ تنقید کی زد سے بچ جانے اور محدثین کے نزدیک بالعموم مقبول ہونے کے باوجود ان کے خود ساختہ قرآن کی روشنی کے مطابق قابل رد ٹھہر گئیں ۔مسٹر غامدی نے یہ روشنی قرآن کی کس آیت سے حاصل کی اس کا ذکر کرنا بھی انہوں نے مناسب نہ سمجھا کہ آخر قرآن کی کونسی آیت ہے جس میں نزول عیسیٰ علیہ السلام کا صراحتاً انکار کیا گیا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے ان تمام صحیح احادیث کو رد کر دیا ۔مسلمانوں کے قرآن میں تو ایسی کوئی آیت ہے ہی نہیں شاید ان کے قبلہ وکعبہ مغرب کے ٹکسال میں ابھی کوئی ایسی آیت تیار کی جارہی ہو جس کا ابھی ذکر کرنا انہوں نے مناسب نہ سمجھا ہو۔
مسٹر غامدی کے شیطانی تصورات کے برخلاف امت مسلمہ ظہور امام مہد ی اور نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر یقین رکھتی ہے ۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے کہنے ہی پر قرآن کو اللہ کا کلام اور اللہ تعالی کا وجود بن دیکھے تسلیم کر لیا ہے توان کے کہے پر کوئی مسلمان ظہور امام مہدی اور نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں شک نہیں کر سکتا ۔
مسٹر غامدی کو محدثانہ تنقید کی الف ب بھی معلوم نہیں۔جن محدثین نے اپنی ساری عمر احادیث کی خدمت میں گزار دی اور حدیث کے بارے میں جن کی رائے مسلّمہ حیثیت رکھتی ہے انہوں نے ظہور امام مہدی اور نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روایات اپنی کتب میں درج فرمائی ہیں اور ان کو صحیح بھی قرار دیا ہے ۔
سنن ابوداؤد میں ہے’’عَنْ اَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: 171الْمَھْدِیُّ مِنِّی، اَجْلَی الْجَبْھۃِ، اَقْنَی الْاَنْفِ، یَمْلَأُ الْاَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا، کَمَا مُلِءَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا، یَمْلِکُ سَبْعَ سِنِینَ‘‘۔
ترجمہ: ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:مہدی مجھ سے ہیں روشن پیشانی والے ستواں ناک والے، وہ زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دیں گے جیسے وہ ظلم اور جفا سے بھری تھی اور وہ سات سال تک حکومت کریں گے‘‘[سنن ابو داؤد،ج:۲،ص:۱۳۶۷،مطبوعہ مکتبۃ العصریہ بیروت]۔
ابوداؤد میں ہے’’عَنْ اُمِّ سَلَمَۃ رضی اللہ عنھا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ یَقُولُ: اَلْمَھدِیُّ مِنْ عِتْرَتِیْ مِنْ وُّلْدِ فَاطِمَۃ ‘‘
ترجمہ:حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ:مہدی میرے خاندان اور فاطمہ کی اولاد میں سے ہو گا ۔ [ ابوداؤد ،کتاب الفتن،ج:۴،ص:۱۰۷،مطبوعہ مکتبۃ العصریہ،بیروت]۔
عرب میں خلیفہ وقت کی موت کے بعد نئے خلیفہ کی بیعت پر اختلاف ہو گا بالآخر امام مہدی( محمد بن عبداللہ )کی بیعت پر لوگ متفق ہو جائیں گے امام موصوف کی بیعت مسجد حرام میں حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ہو گی۔ امام مہدی کی بیعت کو بغاوت سمجھ کر کچلنے کے لیے آنے والا لشکر بیداء کے مقام پر دھنس جائے گا ۔
مسلمان یہ احادیث غور سے پڑھیں جس میں رسول اللہ ﷺ نے امام مہدی کو اپنے خاندان اور خاتون جنت کی اولاد میں سے قرار دیا اور ان کا نام اپنے نام کے مطابق بتایا سات سال تک ان کی حکومت کا عرصہ بھی بیان فرمایا ۔مسٹر غامدی کا ان تمام نشانیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالی عنہ کو ان احادیث کا مصداق بتانا اسی طرح ہے جیسے مرزا قادیانی نے ان احادیث کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیا تھا ۔
اور یہی حال نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے ،ناصرف احادیث مبارکہ بلکہ قرآن پاک میں بھی اس بارے میں واضح اشارات موجود ہیں ۔
مسٹرغامدی قرآن سے روشنی لینے کے بجائے کینیڈاسے روشنی لیتے ہیں اس لئے ان کو تو قرآنی وہ آیات نظر نہیں سکتیں ہیں جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کو بیان کیا گیا ہے لیکن مسلمانوں کے لئے ہم وہ آیات اور احادیث نقل کر دیتے ہیں جن میں نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بیان کیا گیا ہے ۔
آیت:وَقَوْلِہِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُولَ اللّہِ وَمَا قَتَلُوہُ وَمَا صَلَبُوہُ وَلَکِن شُبِّہَ لَہُمْ وَإِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُواْ فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوہُ یَقِیْناً۔ بَل رَّفَعَہُ اللّہُ إِلَیْْہِ وَکَانَ اللّہُ عَزِیْزاً حَکِیْماً۔ وَإِن مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکُونُ عَلَیْْہِمْ شَہِیْداً۔ 
ترجمہ کنز الایمان:اور اُن کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسٰی بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا۔ اور ہے یہ کہ انہوں نے نہ اُسے قتل کیا اور نہ اُسے سولی دی بلکہ ان کے لئے اُس کی شبیہ کا ایک بنادیا گیا۔ اور وہ جو اس کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہہ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ انہیں اس کی کچھ بھی خبر نہیں ۔ مگر یہی گمان کی پیروی۔ اور بے شک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا ۔بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا ، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس (حضرت عیسیٰ علیہ السلام)کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے، اورقیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا‘‘۔[النساء،آیت:۱۵۷،۱۵۸،۱۵۹]۔
اگران آیات بینات کا باغورجائزہ لیں تواس میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات کی نفی کی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی طرف اٹھالیا توحضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات کب ہوگی ؟اوراگر نہیں ہو گی تو پھرقرآن مجید کی اس آیت کاکیا مطلب ہوگا:
’’کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ‘‘ 
ترجمہ کنز الایمان :ہر جان کو موت چکھنی ہے ‘‘۔[اٰل عمران ،آیت:۱۸۵]۔
لامحالہ اس کا مطلب یہی ہوا کہ ابھی حضرت عیسٰی علیہ السلام زندہ وحیات ہیں ان کی دوبارہ آمد ہوگی اوران کی وفات بھی ہو گی جیساکہ احادیث میں بیان ہوا ہے جس کو ہم آگے بیان کریں گے ۔
اگرحضرت عیسٰی علیہ السلام واپس نہیں آئیں گے تو یہ آیت کب پوری ہوگی جس کے مطابق تمام اہل کتاب اُن پر ایمان لائیں گے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام قیامت کے قریب واپس آئیں گے اورتمام عیسائی مسلمان ہو جائیں گے اورآپ علیہ السلام صلیب کو توڑ دیں گے 
اورپوری دنیا میں صرف دینِ اسلام ہوگااور بقیہ تمام مذاہب ختم ہو جائیں گے۔
سورہ الِ عمران کی آیت:۴۶میں ارشاد باری تعالی ہے ’’وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِیْ الْمَہْدِ وَکَہْلاً وَمِنَ الصَّالِحِیْنَ‘‘۔
ترجمہ کنز الایمان:’’ لوگوں سے بات کرے گا پالنے میں اورپکی عمر میں اور خاصوں میں ہوگا ‘‘۔[اٰل عمران،آیت:۴۶ ]۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پالنے اور پختگی کی عمر میں کلام کرنے کو ذکر فرمایا ہے ۔حضرت عیسٰی علیہ السلام کا پالنے میں کلام کرنے کاواقعہ سورہ مریم آیت:۲۹ ...تا.۳۳...میں بیان ہوا ہے۔پکی عمرکی مدت قرآن کریم کے مطابق چالیس سال ہے ۔
اللہ تعالی کافرمان ہے’’حَتَّی إِذَا بَلَغَ أَشُدَّہُ وَبَلَغَ أَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ‘‘
ترجمہ کنز الایمان:’’یہاں تک کہ جب اپنے زور کو پہنچااور چالیس برس کا ہوا ‘‘۔[سورۃ الاحقاف ،آیت:۱۵]۔
قرآن کریم کے بعد احادیث کا مطالعہ کریں توقرآن کریم میں موجود نزول حضرت عیسیٰ علیہ کے اشارات کی تصدیق ہو جاتی ہے کیونکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو....۳۳ ....برس کی عمر میں اللہ نے اپنی طرف اٹھالیا تھااور بائیبل میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے اور احادیث کے مطابق حضرت عیسٰی علیہ السلام سات سال زمین میں رہیں گے اور چالیس برس کی عمر میں وہ لوگوں سے کلام کریں گے پھران کی وفات ہو جائے گی تب قرآن مجید کی اس آیت کی خبر کاظہور ہوگا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام پختگی کی عمر میں بھی لوگوں سے کلام کریں گے۔اس آیت کریمہ میں بھی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دوبارہ آمد کی طرف واضح اشارہ موجود ہے ۔
درج ذیل آیت کریمہ میں توحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کو قیامت کی نشانی قرار دیاگیا ہے :
’’ وَ اِنَّہ' لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ فَلاَ تَمْتَرُنَّ بِھَاوَاتَّبِعُوْنِ،ھٰذَا صِرَاطُ مُّسْتَقِیْمُ‘‘
ترجمہ کنز الایمان :’’ بیشک عیسٰی قیامت کی خبر ہے تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میرے پیرو ہونا یہ سیدھی راہ ہے ‘‘[الزخرف،آیت:۶۱]۔
اس آیت میں میں انہ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسٰی علیہ السلام ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قیامت کی نشانی قرار دیاگیا ہے سید المفسرین حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’(وَاِنَّہ) یَعْنِی نزُول عِیسَی ابْن مَرْیَم(لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ) لبَیَان قیام السَّاعَۃ وَیُقَال عَلامَۃ لقِیَام السَّاعۃ‘‘
ترجمہ:بے شک اس یعنی حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا نزول قیامت کی خبر ہے (لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ)میں قیامت کے قائم ہونے کا بیان ہے اس کو قیامت کی علامت بھی کہا جاتا ہے ‘‘۔[تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس ،ص: ۴۱۵،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ لبنان]۔
اسی طرحتفسیر ابن کثیر ،ج:۷،ص:۲۱۵،مطبوعہ دارالکب العلمیہ بیروت ۔
تفسیر البغوی ،ج:۴،ص:۱۶۵،مطبوعہ احیاء التراث بیروت ۔
تفسیر القرطبی ،ج:۱۷،ص:۱۱۷،دارالکتب المصریہ ۔
تفسیر بیضاوی ،ج:۵،ص:۹۴،مطبوعہ مکتبہ داراحیاء بیروت ۔
احکام القرآن للجصاص ،ج:۵،ص:۲۶۵،مطبوعہ داراحیاء بیروت۔
تفسیر النسفی ،ج:۳،ص:۱۷۹،مطبوعہ مکتبہ دارالکلم بیروت میں اور اس کے علاوہ دیگر تفاسیر میں (لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ) سے مراد نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں۔
حدیث سے بھی ابن عباس کے قول کی تائید ہوتی ہے ۔
’’عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ اَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ، قَالَ: اطَّلَعَ النَّبِیُّ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاکَرُ، فَقَالَ: 171مَا تَذَاکَرُونَ؟187 قَالُوا: نَذْکُرُ السَّاعَۃَ، قَالَ: " اِنّہَا لَنْ تَقُومَ حَتَّی تَرَوْنَ قَبْلَھَا عَشْرَ آیَاتٍ ۔ فَذَکَرَ ۔ الدُّخَانَ، وَالدَّجَّالَ، وَالدَّابَّۃَ، وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِھَا، وَنُزُولَ عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَیَاَجُوجَ وَمَاْجُوجَ، وَثَلَاثَۃَ خُسُوفٍ: خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِجَزِیرَۃِ الْعَرَبِ، وَآخِرُ ذَلِکَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْیَمَنِ، تَطْرُدُ النَّاسَ اِلی مَحْشَرِھِمْ‘‘
ترجمہ:حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے کہ ہم باتیں کر رہے تھے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے فرمایا: تم کیا باتیں کر رہے ہو۔ ہم نے کہا ہم قیامت کا ذکر رہے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دھویں اور دجال اور دابہ اور سورج کا مغرب سے طلوع اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول اور یاجوج ماجوج کا ذکر فرمایا اور تین جگہوں کے دھنس جانے کا بھی ذکر فرمایا ایک مشرق دوسرا مغرب اور تیسرا جزیرہ عرب میں اور پھر یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو محشر کے میدان میں جمع کر دے گی ‘‘۔[صحیح مسلم ،حدیث : ۳۹،ابن ماجہ ،حدیث:۴۰۵۵،ترمذی ،حدیث:۲۱۸۳]۔
سنن ابوداؤد میں ہے ’’عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ، اَنَّ النَّبِیَّ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَیْسَ بَیْنِی وَبَیْنہُ نَبِیٌّ ۔ یَعْنِی عِیسی ۔ وَانہُ نَازِلٌ، فَاِذَا راَیْتُمُوہُ فَاعْرِفُوہُ: رَجُلٌ مَرْبُوعٌ اِلی الْحُمْرَۃِ وَالْبَیَاضِ، بَیْنَ مُمَصَّرَتَیْنِ، کاَنَّ رَاْسَہُ یَقْطُرُ، وَاِنْ لَمْ یُصِبْہُ بَلَلٌ، فَیُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَی الْاِسْلَامِ، فَیَدُقُّ الصَّلِیبَ، وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ، وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ، وَیھْلکُ اللّہُ فِی زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلھَا اِلَّا الاِسْلَامَ، وَیُھْلِکُ الْمَسِیحَ الدَّجَّالَ، فَیَمْکُثُ فِی الاَرْضِ ارْبَعِینَ سَنَۃً، ثُمَّ یُتَوَفی فَیُصَلِّی عَلَیہِ الْمُسْلِمُونَ‘‘
ترجمہ:ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اور عیسٰی کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور بیشک عیسٰی اتریں گے جب تم ان کودیکھو توپہچان لووہ ایک ایسے شخص ہیں جو متوسط قدوقامت کے ہوں گے اور سرخی اورسفیدی کے درمیان ان کی رنگت ہوگی ، وہ ہلکے زردرنگ کے کپڑے پہنے ہوں گے، ان کے بالوں سے پانی ٹپکتا معلوم ہوگا اگرچہ وہ تر نہ ہوں گے ۔وہ لوگوں کے قبولیت اسلام تک جہاد کریں گے اورصلیب کوتوڑڈالیں گے اورخنزیر کوقتل کریں گے اورجزیہ کوختم کردیں گے اوراللہ تعالٰی ان کے زمانے میں اسلام کے سواء سب مذہبوں کو مٹا دے گا اوروہ دجال مسیح کو قتل کریں گے ۔ پھرچالیس برس کی عمر تک دنیا میں رہیں گے پھر ان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان کے جنازے کی نمازپڑھیں گے ‘‘۔[سنن ابوداؤد۔ج:۴،ص:۱۱۷،رقم الحدیث:۴۳۲۴،مطبوعہ مکتبۃ العصریہ بیروت]۔واللہ تعالی اعلم

No comments:

Post a Comment