دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Monday 4 May 2015

مسٹرغامدی کی مرتدین سے ہمدردی۔۔۔۔۔آٹھویں قسط

مسٹرغامدی کی مرتدین سے ہمدردی
قبول اسلام کے لئے کسی غیر مسلم پر جبر واکراہ کرنا جائز نہیں ہے لیکن اپنی رضا و خوشنودی سے اسلام لانے کے بعد اگر کوئی شخص اسلام کوچھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کر لے تو اسے ارتداد اور اس کے مرتکب کو مُرْتَدّ کہا جاتا ہے۔ایسے شخص کے بارے میں حکم ہے کہ اگر کسی شبہے کی وجہ سے اسلام سے پھرا ہے تو اس کے شبہات کو دور کیا جائے گا اور پھراس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا اگر وہ توبہ نہ کرے تو حاکم اسلام بطور سزااس شخص کے قتل کا حکم دے گا اوراگر وہ عورت ہو تو اس کے قتل کا حکم نہیں دیا جائے گا بلکہ اسے قید میں رکھا جائے گا یہاں تک کہ وہ توبہ کر لے ۔لیکن یہ بات یاد رہے کہ یہ حکم حاکم اسلام کے ساتھ خاص ہے عام افراد کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ خود سے کسی پر یہ حد جاری کریں ۔
مرتد کے حوالے سے مسٹرغامدی اور ان کے حواریوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ سزا صرف نبی کریم ﷺ کے زمانے کے مرتدین کے ساتھ خاص تھی ،اس کے بعد کسی شخص کو ارتداد کی یہ سزا نہیں دی جاسکتی ۔[برھان ،ص:۱۴۲،۱۴۳]۔
مسٹر غامدی شرعی احکام میں اپنی طرف سے کتروبیونت کے عادی ہیں۔ جب جی چاہتا ہے بغیرکسی شرعی دلیل کے کسی حکم کو عام اور کسی حکم کو خاص قرار دے دیتے ہیں ۔جن احادیث میں مرتد کی سزا قتل بیان کی گئی ہے، ان کا سیاق وسباق اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین جنہوں نے یہ فرمان مصطفیﷺ براہ راست اپنے کانوں سے سنا اور اس کا مفہوم سمجھا ان کا عمل سب اس بات پر دلالت کر تے ہیں کہ یہ حکم ہر زمانے کے مرتدوں کے لئے ہے ۔
امت مسلمہ کے فقہاء کرام میں سے کسی عالم دین نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اس حدیث کا تعلق بنو اسماعیل کے ساتھ خاص ہے ۔اسی لئے ہزار باتوں میں اختلافات کے باوجود تمام علماء اسلام کے نزدیک بالاتفاق یہ حکم عام ہے اور ہر دور کے مسلمان حکمرانوں نے مرتدین کی سزا قتل ہی رکھی ہے ۔اور بالفعل کئی مرتدین کوریاست کے حکم پر قتل بھی کیا گیا ہے۔ کتب تواریخ میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔
مسٹر غامدی اپنے مغربی آقاؤں کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں اورانہی کو خوش کرنے کے لئے شیطانی اجتہاد کرتے رہتے ہیں۔ ان کے اجتہاد کو ان کے حواری تو تسلیم کرسکتے ہیں لیکن امت مسلمہ مسٹر غامدی کے اجتہاد سے لاتعلق ہے اور وہ اللہ تعالی اوراس رسول اللہ ﷺ کے فرمودات اورصحابہ کرام علیھم الرضوان اور علماء اسلام کے بیان کردہ شرعی احکامات پر کار بند ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے ’’وَمَن یَرْتَدِدْ مِنکُمْ عَن دِیْنِہِ فَیَمُتْ وَہُوَ کَافِرٌ فَأُوْلَءِکَ حَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ فِیْ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَأُوْلَءِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ‘‘۔
ترجمہ کنز الایمان:’’ اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے پھر کافر ہوکر مرے تو ان لوگوں کا کیا اکارت گیا دنیا میں اور آخرت میں ۔ اور وہ دوزخ والے ہیں انہیں اس میں ہمیشہ رہنا‘‘۔[البقرۃ،آیت:۲۱۷]۔
صحاح ستہ اور حدیث کی دوسری کتب میں حضور نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتد کی سزا کے بارے میں متعدد ارشادات اورصحابہ کرام علیھم الرضوان کا عمل بھی منقول ہے ۔ 
صحیح بخاری میں ہے’’عن عکرمۃ قال: اتی علی رضی اللہ عنہ بزنادیق فاحرقہم فبلغ ذالک ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فقال: لو کنت انا لم احرقہم لنہی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم145 قال: لا تعذبوا بعذاب اللہ ولقتلتہم لقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘۔
ترجمہ:’’حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس چند زندیق لائے گئے تو انہوں نے ان کو آگ میں جلانے کا حکم دیا۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو جب یہ معلوم ہوا تو فرمایا: میں ہوتا تو ان کو نہ جلاتا145 اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا اور فرمایا:ایسا عذاب نہ دو جو اللہ تعالیٰ (جہنم میں) دے گا۔میں ان کوحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد:جو شخص اپنا دین(اسلام) تبدیل کرے ، اس کو قتل کردو،کے تحت قتل کردیتا‘‘۔[صحیح بخاری،حدیث:۳۰۱۷،۶۹۲۲۔ ابوداؤد،حدیث:۴۳۵۱۔ ترمذی،حدیث:۱۴۵۸۔سنن النسائی،حدیث:۴۰۵۹]۔
سنن نسائی میں ہے’’عن عکرمۃ قال قال ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘
ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا دین(اسلام) تبدیل کرے اس کو قتل کردو‘‘۔[سنن نسائی، ص:۹۴۱145 ج:۲145 سنن ابن ماجہ ص:۲۸۱]۔
صحیح مسلم میں ہے ’’عن عبداللّٰہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم133 لایحل دم رجل مسلم یشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ و انی رسول اللّٰہ الا باحدی ثلاث: الثیب الزانی، والنفس بالنفس، والتارک لدینہ المفارق للجماعۃ‘‘ 
ترجمہ:’’حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دے 145 اس کا خون بہانا جائز نہیں، سوائے تین میں سے کسی ایک وجہ کے :(۱) شادی شدہ ہوکر زنا کرنے والا(۲) جان کے بدلے جان (۳)اپنے دین کو چھوڑ کر جماعت سے علیحدہ ہو جانے والا ‘‘۔[ مسلم ص:۹۵ ج:۲۔ابوداؤد ص: ۲۴۲،ج:۲۔ سنن نسائی،ص: ۵۶۱، ج:۲۔ ابن ماجہ، ص:۲۸۱۔ سنن کبریٰ بیہقی ص:۴۹۱،ج:۸۔ ترمذی:،ص:۹۵۲، ج:۱]۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ فقہ اسلامی کی مشہورکتاب بدایۃ المجتہد جس کا ترجمہ حال ہی میں مسٹرغامدی کے ایماء پر شائع کیا گیا ہے جس سے یہ لگتا ہے کہ مسٹر غامدی کے نزدیک یہ کتاب مستند اور قابل اعتماد ہے ۔ اسی میں ہے ’’والمرتد اذا ظفربہ قبل ان یحارب فاتفقوا علی انہ یقتل الرجل لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام :من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘۔
ترجمہ:’’ اگر مرتد جنگ سے پہلے گرفتار ہو جائے تو علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اس مردکو قتل کر دیا جائے گا کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے جوشخص اپنا دین بدل لے اسے قتل کر دو ‘‘۔[بدایۃ المجتہد ،جزء :۴،ص:۲۴۲]۔واللہ تعالی اعلم

No comments:

Post a Comment