دارالافتاء فیضان شریعت انٹرنیشنل پاکستان

Monday 4 May 2015

مسٹر غامدی کا شادی شدہ زانی کی سزا رجم کا انکار کرنا۔۔۔۔۔قسط نمبر9

مسٹر غامدی کا شادی شدہ زانی کی سزا رجم کا انکار کرنا
رجم کی سزا توریت میں بھی بیان کی گئی تھی اور اسلام نے بھی اس سزا کو برقرار رکھا ہے لیکن دورِ رسالت ﷺ کے یہودیوں نے توریت کے اس حکم میں تبدیلی کر کے اپنی مرضی کی سزا نافذ کر لی تھی ۔آج مغرب پر یہود ہی کا غلبہ ہے اس لئے مغرب کی طرف سے اسلام پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں سر فہرست رجم کی سزا بھی ہے ۔ مسٹر غامدی مغرب کے پیروکار ہیں اس لئے اپنے مربی اور محسن یہود کے نقش قدم سے کس طرح دور رہ سکتے تھے ۔تو مسٹر غامدی نے یہود کی پیروی کرتے ہوئے شادی شدہ زانی کے لئے رجم کی شرعی سزا یعنی حد کا انکاردیا۔ اپنے دنیا میں واحد امام ،حمید الدین فراہی کی تحقیق کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں : زانی کنوارا ہو یا شادی شدہ ،اس کی اصل سزا تو سورہ نورمیں قرآن کی صریح حکم کی بنا پر سوکوڑے ہی ہے ،لیکن اگر مجرم زنا بالجبر کا ارتکاب کرے یا بدکاری کو پیشہ بنالے یا کھلم کھلا اوباشی پر اتر آئے یا اپنی آوارہ منشی ،بدمعاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت وناموس کے لیے خطرہ بن جائے یا مردہ عورتوں کی نعش قبروں سے نکال کر ان سے بدکاری کا مرتکب ہو یا اپنی دولت اور اقتدار کے نشے میں غربا کی بہو ،بیٹیوں کو سربازار برہنہ کر ے یا کم سن بچیاں بھی اس کی درندگی سے محفوظ نہ رہیں تو مائدہ کی اس آیت محاربہ کی رو سے اسے رجم کی سزا بھی دی جاسکتی ہے ۔...........زنا کی سزا کے بارے میں اپنا جو نقطء نظر ہم نے اوپر بیان کیا ہے ،اس سے حقیقت بالکل مبرہن ہو جاتی ہے کہ کنوارے زانیوں کی طرح شادی شدہ زانیوں کی سزا بھی قرآن مجید کی رو سے ضربِ تازیانہ ہی ہے۔[برھان ،ص:۹۱]۔
مسٹر غامدی کی مذکورہ عبارت سے ان کا یہ موقف سامنے آتا ہے۔
(۱) قرآن مجید میں ہر قسم کے زانی کی سزا صرف کوڑے مارنا ہے ۔
(۲) جو زنابالجبر کرے یا بدکاری کا پیشہ کرے یا کھلم کھلا اوباشی کرے اور اسی کی مثل دیگر زانی کی سزا بھی اصل میں کوڑے ہی ہیں صرف حاکم چاہے تو ایسے افراد کو محاربے کی آیت کے ضمن میں رجم کی سزا بھی دے سکتا ہے۔
(۳) حضور ﷺ اور صحابہ کے دور میں جن افراد کو رجم کیا گیا مسٹر غامدی کے موقف کے مطابق ان میں مذکورہ بالا خرابیاں پائی جاتیں تھیں ۔
مسٹر غامدی کا موقف سرا سر باطل اور ان کا اپنا من گھڑت ہے صحیح احادیث اور اجماعِ امت سلفاً وخلفاً اس بات پر ہے کہ شادی شدہ زانی کو بطور حد رجم کیا جائے گا چاہے وہ زنا بالجبر ہو یا نہ ہو اسی طرح اس میں مذکورہ خرابیاں پائی جائیں یا نہ پائی جائیں ۔
صحیح بخاری میں امیرالمؤمنین حضرت عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے :’’ان اللہ بعث محمد ابالحق وانزل علیہ الکتاب فکان مماانزل اللہ تعالیٰ آیۃ الرجم ،رجم رسول اللہ ﷺورجمنا بعد ہ والرجم فی کتاب اللہ حق علی من زنیٰ اذا احصن من الرجال والنساء اذاقامت البینۃ اوکان الحبل اوالاعتراف‘‘
ترجمہ:’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے حضوراکرم ﷺکوحق کے ساتھ بھیجاہے اورآپ پرکتاب اتاری۔جوآیات اللہ تعالیٰ نے اتاریں ان میں سے آیتِ رجم بھی تھی ۔رسول اللہ ﷺنے رجم فرمایا اورآپ کے بعدہم نے بھی رجم کیا،اوررجم کا حکم کتاب اللہ سے ثابت ہے ،ان مرد وعورتوں پر جواحصان(شادی شدہ)ہونے کے بعدزنا کے مرتکب ہوں۔ جبکہ زنا کے ثبوت کے گواہ گواہی دے دیں یا(زناسے)عورت کوحمل ٹھہرجائے یاکوئی زناکااقرارکرلے‘‘۔ [صحیح بخاری ،حدیث :۶۷۳۰،صحیح مسلم ،حدیث:۱۶۹۱]۔
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضرہوا،آپ مسجدمیں تشریف فرماتھے تواس نے پکارا،یارسول اللہ ﷺ!’’میں نے زناکیاہے ‘‘۔نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے چہرۂ اقدس پھیرلیا،تووہ آپ کے چہرۂ انورکے اس رخ کی طرف آگیاجس طرف آپ نے اپناچہرہ انورکیاتھا۔اس نے پھرعرض کی :’’میں نے زناکیاہے‘‘۔نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے پھرچہرۂ اقدس پھیرلیا؛اسی طرح جب چارمرتبہ اقرارکرچکا،توحضور ﷺنے اسے بلایا،فرمایا:’’کیاتجھے دیوانگی ہے ؟‘‘بولا‘نہیں،فرمایا:’’کیاتومحصن (شادی شدہ )ہے ؟‘‘عرض کیا،’’ہاںیارسول اللہ ﷺ!‘‘ قال اذہبوابہ فارجموہ‘‘
ترجمہ:’’تورسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ارشادفرمایا:’’اسے لے جاکررجم کردو‘‘۔
قال ابن شہاب فاخبرنی من سمع جابربن عبداللہ یقول فرجمناہ بالمد ینۃ ‘‘
ترجمہ:’’ حضرت ابن شہاب رحمۃاللہ علیہ نے ارشادفرمایا:’’کہ مجھے اس نے خبردی جس نے حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کوفرماتے ہوئے سناہے کہ پھرہم نے اسے مدینہ میں رجم کردیا‘‘ ۔[صحیح بخاری،حدیث :۵۲۷۱ و ۷۱۶۷]۔
مسٹر غامدی بتائیں اس حدیث میں جس شخص کو رجم کرنا بیان کیا گیا ہے اس میں زنا بالجبر، کھلم کھلا اوباشی،شرفاء کی عزت کے لئے خطرہ ،غریبوں کی بیٹیوں کو سرعام برہنہ کرنا ،کم سن بچیوں سے زنا، مردہ عورتوں سے زناان میں سے کونسی خرابی پائی جاتی تھی۔ اس شخص نے تو رضاکارانہ طور پر خود گناہ کا اعتراف کیا اور ایک مثالی توبہ دنیا میں ہی کر گئے ۔
موسوعۃ الاجماع میں ہے’’ ان المسلمین اجمعوا علی ان الزانی المحصن ،اذا زنی عامدا ۔عالما،مختارا ،حدّہ الرجم حتی یموت ،وقالت الخوارج وبعض المعتزلۃ بعد م الرجم ‘‘
ترجمہ: مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ شادی شدہ زانی جب جان بوجھ کر اپنے اختیار سے زنا کا مرتکب ہو تو اس کی سزا رجم ہے ،یہاں تک کہ وہ مر جائے ،جبکہ خارجیوں اور بعض معتزلہ کا موقف رجم نہ کرنے کا ہے۔‘‘[موسوعۃ الاجماع،باب :۱۱۳۸،حد الزانی الحر المحصن،ص:۳۴۱]۔
مسٹر غامدی کی معتمد کتاب بدایۃ المجتہد میں ہے ’’فاما الثیب الاحرار المحصنون فان المسلمین اجمعوا علی حدھم الرجم الامزقۃ من اھل الأھواء فانھم رأوا ان حد کل زان الجلد ‘‘
ترجمہ: ’’ شادی شدہ آزادمحصن زانی کے بارے میں مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس کی حد رجم ہے ،سوائے اپنے نفس کی خواہش پر چلنے والے چندافراد کے ،کہ ان کا گمان ہے کہ ہر زانی کی سزا کوڑے مارنا ہے‘‘۔[بدایۃ المجتہد ،جزء:۴،ص:۲۱۸]۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا متفقہ موقف یہ ہے کہ شادی شدہ زانی خواہ وہ زنا بالجبر کرے یا زنا بالرضا کرے اس کی سزا رجم ہی ہے ۔ مسٹر غامدی مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر خوارج ،معتزلہ اور خواہش پرستوں کے راستے پر گامزن ہیں اور ان کا انجام بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا ۔واللہ تعالی اعلم

No comments:

Post a Comment